تاحد نگاہ دکھائی دیتے گیہوں کے لہلہاتے کھیت بہت خوب صورت دکھائی دیتے تھے۔ کھیتوں کے بیچ و بیچ پگڈنڈی پر سرشاری سے بھاگتے ہوئے وہ بے فکری سے ہنس رہی تھی۔ اپنے دونوں بازو اس نے امن کی فاختہ کے سپید پروں کی مانند ممکن حد تک پھیلا رکھے تھے۔ تیزی سے دوڑتے ہوئے اس کے ننھے ننھے گداز ہاتھ گندم کے ہرے بھرے سٹوں سے ٹکراتے تو گدگدی کا لمس اس کے رگ و پے میں سرائیت کرتا اور وہ کھلکھلا کر ہنستی رہتی۔
سرما کی نرم گرم دھوپ ایسے اس کے سنہری مائل بھورے بال ہوا سے اڑ رہے تھے۔ کبھی سرخ انار سے دہکتے معصوم گال سے لپٹتے تو کبھی کانوں کے پاس ذرا دیر ٹھہر کر کوئی سرگوشی کر جاتے۔
”خوشی! رک تو سہی… ارے میری بات تو سن… جھلی نہ ہو تو…“کوئی اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے پکار رہا تھا، مگر وہ پکارنے والے سے بے نیاز کھکھلاتے ہوئے اپنی دھن میں آگے بڑھتی گئی۔
بھلا وہ خوشی ہی کیا جو کسی کی خاطر ٹھہر جاتی!
نہ جانے کب اور کیسے اسے ٹھوکر لگی تھی… ہونٹوں سے سسکاری نکلی اور وہ ایک چیخ کے ساتھ زمین بوس ہو گئی۔ ادھر وہ منہ کے بل زمین پر گری ادھر کھیت میں اترے سارے پرندے مارے بوکھلاہٹ کے شور مچاتے ہوئے آسمان کی جانب اڑان بھرتے گئے۔
اناج کے دانوں سے لدے ہرے بھرے خوشوں کو سنہرا پڑتے دیکھنے کی اس کی معصوم خواہش پوری ہی نہ ہو سکی تھی۔
اس کے کندھے پر دباؤ بڑھا تو وہ ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی۔
”کک… کیا ہوا؟“ اپنی جانب عجیب نظروں سے دیکھنے والی سے اس نے پوچھا۔
”حد ہے بھئی! کیا چیز ہو تم؟ ایک تو مجھے تمھاری سمجھ نہیں آتی۔ بیٹھے بٹھائے مراقبے میں کھو جاتی ہو۔ کب سے تمھیں پکار رہی ہوں، اب بھی اگر تمھیں نہ جھنجھوڑتی تو تم نے متوجہ نہیں ہونا تھا…“
”خیریت؟“ ناہید کی لمبی بات کا جواب اس کا یک لفظی سوال تھا۔
اس نے میز پر دونوں ہاتھوں کے درمیان دھری کاپی بند کی اور مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
”اے لو…ضروری ہے تمھیں تب ہی جھنجھوڑا جائے جب کہیں آفت ٹوٹے؟“
”ضروری نہیں!“ اس کے مختصر جواب پر ناہید نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔
”پتا نہیں کیسی روح ہو تم…! اٹھو بی بی گھر چلیں۔ اسکول کی چھٹی ہوئے آدھا گھنٹہ ہونے کو ہے۔ سب نے کام سمیٹ لیے ہیں۔“
”اوہ، صحیح! چلو میرے کام بھی بس ختم ہو چکے ہیں۔“بچی ہوئی چند کاپیاں تھیلا نما چرمی پرس میں ترتیب سے گھساتے ہوئے اس نے آہستگی سے کہا۔
”وہ تو دکھائی دے رہا ہے۔“ناہید نے بڑبراتے ہوئے اپنا سرخ پرس کندھے پر ڈالا تھا۔
خوش بخت اور ناہید گزشتہ پانچ برس سے ایک نجی اسکول میں نوکری کر رہی تھیں۔ اچھی خاصی دوستی کے باوجود ان دونوں کو اکثر یوں لگتا جیسے وہ ایک دوسرے کو ڈھنگ سے جانتی تک نہ ہوں۔
٭
اس کی مرضی کے برخلاف کتاب زیست کے بتیس اوراق پلٹ چکے تھے۔ ہر ورق پر اک نئی کہانی رقم تھی۔ خوش نما تتلیوں جیسے رنگین خوابوں کے رنگ پھیکے پڑنے لگے تھے۔ ہاں مگر دل میں دبے ارمان کسی انہونی لے پر جوشیلے جگنوؤں کی طرح اب بھی کبھی کبھار ٹمٹما اٹھتے۔
والدین نے بڑے چاؤ سے اس کا نام خوش بخت رکھا تھا۔ شادی کے سات برس بعد منتوں مرادوں سے پیدا ہونے والی خوش بخت اپنے بخت سے ہرگز خوش نہ تھی۔ اپنی زندگی میں پیچھے مڑ کر دیکھتی تو سنہری یادوں کی کمی اسے شدت سے محسوس ہوتی۔ گاؤں والا گھر اسے بہت یاد آتا۔ بچپن کی خوش گوار یادیں تو ہر بچے کا اثاثہ ہوا کرتی تھیں مگر وہ اتنی غریب تھی کہ یہ اثاثہ بھی اسے میسر نہ تھا۔
بچپن کا خیال آتے ساتھ ہی کڑوی کسیلی اور ڈراؤنی یادوں کے کئی سنپولیے اس کے بدن پر رینگنے لگتے۔ زہریلی ناگن سی کالی یادیں جھومتی ہوئی پٹاری سے نکلتیں اور اسے ڈسنے کی سعی میں جت جاتیں۔ آخر وہ کتنا زہر برداشت کرتی اور کب تک؟ تھک ہار کر اس نے یادوں کی پٹاری کو نفرت کے بھڑکتے الاؤ میں جھونک دیا تھا۔
بارہا وہ گہری نیند سے چیختے چلاتے ہوئے، ڈر کر جاگی تھی اور ہر بار ماں نے اپنی معصوم سی بچی کو سینے سے بھینچ لیا تھا۔ ماں کی آنکھوں سے ٹپکتے آنسو خاموشی سے اس کے سر کے بالوں میں جذب ہوتے رہتے۔ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی ماں کے آنسوؤں کی نمی اسے اپنے بالوں میں محسوس ہوتی تھی۔
زندگی کی ایک دہائی مکمل ہونے میں تین برس رہتے تھے جب ایک رات اس کے والدین چپکے سے اسے لیے شہر چلے آئے تھے۔ نئی جگہ، نئے لوگ، نئی کہانی… اسے بس یہ خوشی تھی کہ یہاں انھیں کوئی جانتا اور پہچانتا نہ تھا۔ تیکھے اور دل دکھانے والے سوال پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔ اس کے نازک بدن پر پڑے نیل دیکھ کر اسے ترحم آمیز نظروں سے دیکھنے والا بھی کوئی نہ تھا۔
اس کے باپ کے ایک دوست کے گھر کئی سال تک وہ کرائے دار رہے۔ خوشی کی پڑھائی جاری رہی تھی۔ ان کی گاؤں والی زمین کب، کیسے اور کتنے میں بکی… وہ نہیں جانتی تھی ہاں مگر اسے اتنا پتا تھا کہ وہ بارہ برس کی تھی جب خوشی خوشی اماں ابا کے ساتھ اپنے گھر میں منتقل ہوئی۔ گو کہ شہر والا مستقل ٹھکانہ اتنا کشادہ نہ تھا مگر پکا اور اونچا ضرور تھا جس میں خونی رشتوں کا پیار اور خلوص بنا روک ٹوک لہراتا پھرتا۔ ابا نے کرایہ کی دکان چھوڑ کر ذاتی دکان بھی خرید لی تھی۔ اتنے سالوں میں وہ نئی زندگی کی عادی ہو چکی تھی۔
چھ برس قبل باپ ہمیشہ کے لیے اکیلا چھوڑ کر راہ عدم سدھارا تو وہ ماں کا سہارا بن گئی۔ ابا کی ذاتی دکان کرائے پر چڑھا دی گئی۔ ہر ماہ معقول کرایہ آتا اور گھر کا خرچہ چلتا رہتا۔ اس نے پرائیوٹ ایم اے کا امتحان دے کر ایک اچھے نجی اسکول میں نوکری شروع کر لی تھی۔
باپ کی زندگی میں اس کے لیے کئی رشتے آئے مگر کبھی بات نہ بن پائی تھی۔ اور اب تو اس کی بڑھ چکی عمر کے ساتھ اماں کی شرط کا دم چھلا بھی لگ چکا تھا۔ اس کی سبھی محلے دار سہیلیاں اپنے گھروں کی ہو چکی تھیں۔ سبھی سہاگنیں اپنے شوہر اور بچوں میں مگن زندگی سے لطف کشید کرتی کتنی خوش اور مکمل لگتی تھیں۔ اور ایک یہ تھی برائے نام خوش بخت…جو اپنے نصیب کے کانٹے چنتے چنتے تھک چکی تھی۔
جب کوئی سہیلی اپنے بچوں کے سنگ اس سے ملنے آتی تو اس کا جی چاہتا خود کو کہیں چھپا لے۔ یا یہ ایسا جادو ٹونہ کرے کہ اگلے کی زبان بندی ہو جائے…ہمیشہ کے لیے! لوگوں کی دو دھاری تلوار ایسی زبان سے نکلے نشتر اس کا احساس محرومی بڑھاتے اور روح تک زخمی کر دیتے تھے۔
——٭——
اسکول کے اسٹاف روم میں اس وقت کافی سکون تھا۔
”سنو تمھارا دھیان کہاں رہتا ہے؟ کئی دنوں سے دیکھ رہی ہوں چپ چپ سی ہو۔“
کاپیوں پر جھکا سر اٹھائے بنا اس نے،”کہیں بھی تو نہیں“ کہا تھا۔
”سر عظیم والا معاملہ کہاں تک پہنچا؟“ ناہید نے چسکا لیتے ہوئے اگلا سوال پوچھا۔
”جیسے تمھیں تو پتا ہی نہیں!“ اس نے سپاٹ انداز میں جواب دیا تو ناہید نے ذومعنی قہقہہ لگایا۔
”بڑی گھنی ہے تو ویسے خوش بخت… اندر ہی اندر سب طے کر لیا اور اب انجان بن رہی ہے۔ اور بتا شادی کا کب تک ارادہ ہے؟“
”جب اللہ نے چاہا!“ اس کے مختصر جواب پر ناہید نے آنکھیں سکیڑیں۔
”شکل و صورت تو تیری اچھی ہے مگر قسمت زیادہ اچھی ہے۔ شاید نام کا اثر ہے۔ عظیم خوش شکل، پڑھا لکھا، خوش مزاج اور زندگی سے بھرپور لڑکا ہے۔ تم سے کم و بیش پانچ برس تو چھوٹا ہو گا۔“ناہید نے کچھ ایسے چبھتے انداز میں کہا کہ اس نے بے ساختہ پہلو بدلا تھا۔
”اتنا کچھ جانتی ہو تو پھر یہ بھی معلوم ہو گا کہ والدین تو اس کے ہیں نہیں۔ ایک بڑا شادی شدہ بھائی ہے۔ ان کا صرف ڈھائی مرلے کا گھر ہے اور بھابھی خوب چالاک ہوشیار…بھائی نہ اسے ساتھ رکھنے کو تیار ہے اور نہ ابھی گھر میں حصہ دینے کو راضی…ایسے حالات میں کون اسے اپنی بیٹی دے گا؟“ اس کے تفصیلی سوال نما جواب نے ناہید کی بولتی بند کر ڈالی تھی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولی تو لہجہ اور انداز دونوں ہی بدلے ہوئے تھے۔
”ارے تم تو برا ہی مان گئی۔ ویسے تم دونوں کی جوڑی اچھی رہے گی۔ تم شادی شدہ ہو جاؤ گی، اسے گھر والی کے ساتھ گھر بھی مل جائے گا اور تمھاری اماں کی گھر داماد والی شرط بھی پوری ہو جائے گی۔ ویسے بھی تم کون سا اس سے بڑی لگتی ہو۔“
”یہ نہیں بدل سکتی!“ دل ہی دل سوچ کر وہ گہری سانس بھرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ گلے میں آنسوؤں کا پھندہ سا لگ گیا تھا۔ ان باتوں کا جواب دینا ہرگز ضروری نہ تھا۔ اسکول سے چھٹی ہوئے پندرہ منٹ ہو چکے تھے۔ وہ کام سمیٹ کر اسٹاف روم سے باہر نکلی اور ٹھنڈا جوس لینے کے ارادے سے کینٹین کا موڑ مڑتے ہی ٹھٹھک کر رک گئی۔ یہ منظر بہت عجیب سا تھا۔ عظیم نے چھ سالہ ایمن کے دونوں بازو اپنے ہاتھوں میں جکڑ رکھے تھے، اور ہنستے ہوئے پتا نہیں اسے کیا کیا کہہ رہا تھا۔
”یہاں کیا چل رہا ہے؟“ اس کی سرد آواز پر عظیم نے گھبرا کر جتنی عجلت میں بچی کے بازو چھوڑے اس سے زیادہ تیزی سے ایمن بھاگتے ہوئے اس کی ٹانگوں سے لپٹی تھی۔
”ارے کچھ نہیں! یہ اکیلی کینٹین جا رہی تھی تو میں نے کہا مجھے بتاؤ کیا لینا ہے میں لا دیتا ہوں۔“عظیم نے سرسری انداز میں جواب دیا مگر بچی کا ناقابل فہم رویہ اور چہرے کا اڑا رنگ کچھ اور داستان بیاں کر رہا تھا۔
وہ عظیم کو جانچتی نگاہوں سے دیکھے گئی۔ یہ شخص اس سے شادی کرنے کا خواہاں تھا۔
”چلو بیٹا، میں آپ کے پاپا کے پاس آپ کو لے چلتی ہوں۔“
بچی کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر وہ وہاں سے چل دی تھی۔ جاتے جاتے ایک دم مڑ کر عظیم کے تاثرات پڑھنا وہ نہیں بھولی تھی۔
اسکول میں پرنسپل صاحب کے علاوہ دو ہی استاد تھے جب کہ باقی سبھی استانیاں تھیں۔ سرعظیم میوزک سکھاتے جب کہ سر عبداللہ آٹھویں، نویں اور دسویں کے طلبا و طالبات کو انگلش پڑھاتے تھے۔ ایمن سر عبداللہ کی اکلوتی بیٹی، اسی اسکول میں پڑھتی تھی۔ اس کی ماں کو فوت ہوئے ابھی ایک برس بھی نہیں ہوا تھا۔
اگلے کئی روز خیریت سے گزر گئے تھے۔ مگر ہفتہ دس روز بعد ایک خبر سن کر سارا اسٹاف گنگ رہ گیا تھا بالخصوص ناہید…
”تم سے یہ توقع نہ تھی۔ عظیم کو تو ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ تم ایسا کر سکتی ہو۔ تم اس کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہو؟ بولو اب…“ناہید کی تیکھی، دل سلگاتی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
”اسے کہو یقین کر لے!“ اس کی ٹھنڈی آواز سن کر وہ مزید بھڑک اٹھی۔
”واہ خوش بخت بی بی واہ! بڑی چیز ہو تم…جب تم نے دیکھا کہ سر عبداللہ مال دار آسامی ہیں۔ زیادہ پڑھے لکھے، اپنے ذاتی گھر بار والے تو تم نے انھیں تکا لیا۔ ایک معصوم سی چھوٹی بچی ہے۔ وہ تمھارا کیا بگاڑ لے گی، چلے گی تو تمھاری ہی نا…“
ناہید کے جلے سڑے الفاظ اس کی سوچ اور فطرت ہمیشہ عیاں کر جاتے تھے۔ نہ جانے اسے کس بات سے اتنی آگ لگی تھی۔
”جو مرضی سمجھو! بھلا تمھاری سوچ اور سمجھ سے کون واقف نہیں… اور ہاں عظیم کی تمھیں اتنی پروا ہے تو خود کر لو اس سے شادی۔ پھر کیا ہوا جو وہ تم سے آٹھ دس ماہ چھوٹا ہے۔ ویسے بھی عظیم تمھیں خوش شکل، خوش مزاج، پڑھا لکھا اور زندگی سے بھرپور لگتا ہے۔“کمرے سے باہر نکلتے ہوئے اس نے سپاٹ لہجے میں اسے لاجواب کیا تھا۔ پھر جاتے جاتے وہ ایک دم پلٹی اور مزید گویا ہوئی:
”رہی بات اس کے کردار کی تو میرا نہیں خیال کہ اس سے تمھیں کوئی فرق پڑے گا۔“
ششدر کھڑی ناہید پر ڈھیروں شرمندگی انڈیل کر وہ ایک لمحہ وہاں نہیں رکی تھی۔
خوشی یہ تو جانتی تھی کہ عظیم اب محتاط رہے گا، اگر اسکول میں ٹکا رہا تو…مگر اس کے اچانک فیصلے کا پس منظر کوئی نہیں جانتا تھا اور یہ راز وہ کبھی کسی کو بتانا بھی نہیں چاہتی تھی۔ خوشی کو اپنے فیصلے پر کوئی افسوس، دکھ یا پچھتاوا نہیں تھا۔ اس کا دل پوری طرح مطمئن تھا کہ ”اس نے معصوم ایمن کو ایک اور خوش بخت بننے سے بروقت بچا لیا تھا۔“
——٭——