صبح کا نور پھیل چکا تھا۔چاروں طرف اجالے کا راج تھا۔ سورج کی کرنیں جنگل کو رونق بخش رہی تھیں۔ اس وقت جنگل میں افراتفری مچی ہوئی تھی۔پرندوں کے بادشاہ کا بیٹا ”عصفر“ کل سے غائب تھا اور سارے پرندے اس کی تلاش میں لگے ہوئے تھے۔انہوں نے پورا جنگل چھان مارا تھا لیکن عصفر کا نام و نشان تک نہیں مل پایا تھا۔ایسے میں کچھ پرندے نہر کے اس پار بھی دیکھ آئے تھے،جہاں عصفر کے چچا رہتے تھے اور ہ کبھی کبھار ان سے ملنے جایا کرتا تھا،مگر عصفر وہاں بھی نہیں تھا۔ایسے میں ان کے پاس کبوتر آیا اور کہا:
”جانبازو! ہمیں شہر کے قریب واقع محل کا بھی جائزہ لینا چاہیے،ممکن ہے کہ عصفر وہاں گیا ہو۔“
”ارے ہاں!اس کا تو ہمیں خیال ہی نہیں آیا۔“ایک چڑیا نے سرہلایا۔
”محل کے باغ میں دنیا بھر سے نادرونایاب پرندے موجود ہیں، عصفر وہاں جاسکتا ہے۔“توتے نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
”تو پھر دیر کیسی،چلو دیکھتے ہیں وہاں۔“
بلبل نے کہا اور سبھی پرندے ”پھررر ررر“کرکے اڑ گئے۔
تھوڑی دیر بعد وہ محل پہنچ گئے۔یہ ایک پرانی وضع کا محل تھا۔اس محل کا باغ بہت ہی خوب صورت تھا۔ وہاں دنیا جہان کے پھول مہک رہے تھے۔پھولوں کے علاوہ وہاں پھل دار درختوں کی بھی بہتات تھی۔ اس باغ کا ایک کونہ پرندوں کے لیے خاص تھا،جہاں مختلف قسم کے نایاب پرندے موجود تھے۔ وہ سب پنجروں میں بند تھے۔یہ پرندے اس قدر قیمتی تھے کہ ان کی بدولت اس محل کی شہرت جنگل تک پھیل گئی۔جنگل کے پرندے اکثر اس محل میں آتے اور ان پرندوں کو دور سے دیکھتے رہتے۔
”شاہینو! دائیں بائیں پھیل جاؤ اور ہر جگہ دیکھو۔“
توتے نے سبھی پرندوں کو جوش دلاتے ہوئے کہا اور وہ سب دائیں بائیں پھیل گئے۔ایسے میں انہیں عصفر کی کراہ سنائی دی۔وہ اچھل پڑے۔
”اس طرف دوستو!“مینا نے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ جواب دیا۔اس کی نشان دہی پہ سبھی پرندے ادھر متوجہ ہوئے اور پھر انہیں عصفر نظر آ گیا۔عصفر خون میں لت پت پڑا کراہ رہا تھا۔اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔اس کے پر بھی ٹوٹے ہوئے تھے۔
”شہزادے! یہ کیا ہوا؟“
توتا دکھ بھرے لہجے میں بولا۔
”مدد کرو!“بلبل نے ارد گرد والے پرندوں کو چیخ کر متوجہ کیا اور وہ سب حرکت میں آ گئے۔انہوں نے تنکوں کو جوڑ کر ایک اسٹریچر تیار کیا اور اس پہ عصفر کو آرام سے لٹا دیا۔تھوڑی دیر بعد وہ اسے اٹھائے جنگل کی طرف اڑے جارہے تھے جہاں بادشاہ اور ملکہ بے چینی کے عالم میں کھڑے انتظار کر رہے تھے۔
٭
”میں نے مرہم پٹی کر دی ہے، ان شاء اللہ شہزادہ جلد ہی ٹھیک ہو جائے گا۔“
شاہی طبیب نے بادشاہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا اور چل دیا۔ بادشاہ عصفر کے قریب آکر بیٹھ گیا اور کہا:
”پیارے بیٹے،آخر یہ ظلم کس نے کیا؟“
”ان چوروں نے۔“عصفر نے کمزور آواز میں کہا تو بادشاہ سمیت دیگر پرندے بھی اچھل پڑے۔
”چور؟“بادشاہ نے حیرت سے دہرایا۔
”جی ہاں،اس روز جب میں محل میں پرندے دیکھنے گیا تو وہاں کچھ چور گھسے ہوئے تھے اور وہ ایک بڑا صندوق چرا کر لے جارہے تھے۔“عصفر نے بتایا۔
”پھر کیا ہوا؟“ایک پرندے نے بے تابی سے پوچھا۔
”ہونا کیا تھا،میں نے سوچا کہ مجھے چوروں کو روکنا چاہیے۔ میں بہت چھوٹا تھا اور چور بہت بڑے، مجھے اور تو کچھ نہ سوجھی، میں نے ڈوگی کی آواز نکالنا شروع کر دی۔جیسے ہی انہوں نے ”بھاؤں بھاؤں“کی آواز سنی اور انہیں کہیں ڈوگی بھی نظر نہ آیا تو وہ ”بھوت بھوت“ چلاتے ہوئے ڈر کر بھاگے لیکن ان میں سے ایک شاطر چور نے مجھے دیکھ لیا۔“
عصفر یہاں تک کہہ کر رک گیا اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
”اور اس نے تمہارے بال نوچ ڈالے اور تمہارے بازو توڑ دیے۔“
بادشاہ نے دکھی لہجے میں اپنے بیٹے کی بات پوری کی اور ہونٹ بھینچ لیے۔یہ روداد سن کر سبھی پرندے آب دیدہ ہو گئے۔ ایسے میں بادشاہ بولا:”مجھے تم جیسے بہادر بیٹے پہ ناز ہے۔“
بادشاہ کی آواز جذبات کے بوجھ تلے دب گئی تھی۔
٭
عصفر کئی دنوں تک بستر مرض پہ پڑا رہا۔اس کے دوست اس کی کمی کو محسوس کرتے رہے۔وہ چاہتے تھے کہ عصفر مکمل طور پر صحت یاب ہو جائے اور پھر ان کے ساتھ کھیلے۔ وہ سب پہلے کی طرح مل کر آسمان میں اڑیں اور مزے اڑائیں۔شاہی طبیب بہت اچھے سے اس کی دیکھ بھال کررہا تھا اور عصفر کی صحت رفتہ رفتہ بہتر ہو رہی تھی۔آخر کئی دنوں بعد وہ مکمل ٹھیک ہو گیا اور پہلے کی طرح اُڑنے لگا۔اس پہ بادشاہ،ملکہ اور سارے پرندے بہت خوش ہوئے۔بادشاہ نے اپنے وزیر باتدبیر کو حکم دیا:
”اس خوشی میں شکرانے کے طور پر بہت بڑی دعوت تیار کی جائے اور سب کو بلایا جائے۔“
وزیر نے لبیک کہا اور انتظامات کرنے لگا۔اب ہوا یہ کہ وزیر نے خواص کو تو دعوت نامے بھیج دیے لیکن عوام کو نہ بھیجے۔یہ بات ملکہ کے علم میں آگئی۔وہ تو بہت غصے ہوئیں اور وزیر کو ساتھ لیے بادشاہ کے دربار میں جا پہنچیں۔بادشاہ نے جب ملکہ کے خطرناک تیور دیکھے تو گھبرا گیا اور پوچھا:
”ملکہ عالیہ خیر تو ہے؟“
”خیر کہاں ہے بادشاہ سلامت!“
ملکہ نے غصے سے وزیر کو دیکھا جو سرجھکائے کھڑا تھا۔
”کیا ہوا وزیر؟“بادشاہ نے اسے غور سے دیکھا۔
”بادشاہ سلامت!غلطی ہوگئی ہے،میں نے کل والی دعوت پہ آپ کی رعایا کو نہیں بلایا۔ صرف خاص خاص لوگوں کو دعوت دی گئی ہے۔“وزیر نے سرجھکائے ہوئے کہا۔
”اللہ اللہ یہ کیسی حرکت ہے وزیر بے تدبیر؟ کیا تم نے آپaکی یہ حدیث نہیں سنی کہ:بری دعوت وہ ہے جس میں امیروں کو بلایا جائے اور غریبوں کو نظر انداز کر دیا جائے؟“
بادشاہ کی آواز بلند ہوتی جارہی تھی جب کہ وزیر کا سر پست سے پست ہوتا جارہا تھا۔آخر کار وزیر نے اپنی غلطی سدھاری اور سب کو دعوت نامے بھیج دیے۔اگلے روز شان دار قسم کی دعوت ہوئی اور پورا ملک اس دعوت میں شامل ہوا۔سب نہایت خوش تھے لیکن عصفر کا چہرہ بجھا بجھا تھا۔وہ ایک طرف گم صم بیٹھا تھا کہ اس کے دوست اس کے پاس آئے۔کبوتر نے پوچھا:
”خیر تو ہے شہزادے؟“
عصفر چپ رہا۔ایسے میں توتا بولا:
”برخوردار! تمہیں نئی زندگی ملی ہے،اللہ کا شکر بجا لاؤ۔“
”میں ہردم اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں،لیکن…“
شہزادہ کہتے کہتے رک گیا۔چند لمحے سبھی اس کا چہرہ دیکھتے رہے،آخر اس کے لب ہلے:”میں اس لیے اُداس ہوں کیوں کہ میری مہم ابھی ادھوری ہے۔“
شہزادے نے کہا تو سبھی دوست حیرت زدہ رہ گئے۔
”کون سی مہم شہزادے؟“بلبل نے حیرانی سے پوچھا۔
”چوروں کو پکڑنے کی مہم۔“عصفر نے مسکرا کر بتایا۔
”اوہ! اوہ!“کئی آوازیں سنائی دیں۔
”تم کیا سوچ رہے ہو شہزادے؟“
توتے نے الجھن بھرے لہجے میں پوچھا۔
”میرا خیال ہے کہ ہمیں محل کا جائزہ لینا چاہیے۔چور اپنا کوئی نہ کوئی سراغ ضرور چھوڑ گئے ہوں گے۔شہزادے عصفر نے نکتہ پیش کیا اور سبھی سرہلانے لگے۔اب ان سب نے اپنی اس مہم کی تیاری شروع کر دی،اور پھر محل میں جاپہنچے۔وہاں پہ ایک نیانگران ڈوگی موجود تھا،جو آرام سے لیٹا ہوا تھا۔پرانے نگران ڈوگی کو محل کے مالک نے نکال دیا تھا کیوں کہ اس نے غفلت برتی تھی اور محل کی حفاظت نہیں کی تھی۔شہزادے نے اسے کہا:”کیسے ہو دوست؟“
”میں ٹھیک ہوں۔“کتے نے سستی کے عالم میں جواب دیا۔
”کیا چوروں کا کچھ پتا چلا؟“ بلبل نے سوال کیا۔
”نہیں!کچھ پتا نہیں چلا، یہ سب پہلے والے نگران کی غلطی سے ہوا اور اسی وجہ سے اسے ہمارے مالک نے نوکری سے نکال دیا۔“کتے نے نفرت سے کہا تھا،گویا اسے پہلے والے نگران سے کافی چڑ تھی۔
”اوہ اچھا!واقعی وہ تو اسی سلوک کا ہی مستحق تھا،سست و کاہلوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔“ بلبل نے معنی خیز لہجے میں کہا اور باقی سب سر ہلانے لگے۔ ادھر شہزادہ کسی گہری سوچ میں گم ہو گیا تھا۔اس کے بعد اس نے کتے کو اپنا منصوبہ بتایا کہ وہ اور اس کے دوست ہر قیمت پر ان چوروں کو تلاش کریں گے اور پھر انہیں پولیس کے حوالے کریں گے۔کتے نے ان کی سوچ کو سراہا۔اب وہ سبھی محل کا باریک بینی سے جائزہ لینے لگے۔ لیکن انہیں وہاں سے کچھ بھی نہ ملا۔وہ وہاں سے واپس روانہ ہوئے اور محل کی طرف آنے والی شاہراہ کاجائزہ لینے لگے۔ایسے میں ایک جگہ شہزادے کو ایک چھوٹا سا ٹکڑا نظر آیا۔اس نے جھک کر وہ چیز اٹھائی اور پھر وہ اچھل پڑا۔
”کیا ہوا؟کچھ ملا؟“توتے نے پوچھا۔
”ہاں!یہ کنگھی انہی چوروں میں سے ایک کے پاس تھی، میں نے دیکھی تھی۔“شہزادے نے پرجوش لہجے میں کہا۔
”واہ،پھر تو کام آسان ہے، اسے سونگھ کرڈوگی چوروں کو تلاش کرنے میں مدد کرسکتاہے۔“توتے نے جوش بھرے لہجے میں کہا۔
”بالکل،مگر یہ والا ڈوگی نہیں چلے گا۔“
شہزادے نے مسکرا کر کہا۔اب وہ پرانے نگران ڈوگی کے پاس جا پہنچے اور اسے سارا قصہ سنایا۔وہ بے چارہ بہت غم گین تھا کیوں کہ اس کی نوکری جو چلی گئی تھی۔اس نے جب چوروں کی چیز دیکھی تو وہ خوش ہو گیا۔ا ب اسے اپنی غلطی سدھارنے کا ایک موقع مل گیا تھا۔لہٰذا وہ اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں استعمال کرنے لگا اوراپنے کام میں لگ گیا۔ وہ چوروں کی بو سونگھتا آگے بڑھتا گیا،سبھی پرندے بھی اس کے ہمراہ تھے۔ آخر وہ ایک غار تک جاپہنچے۔
”انہوں نے یہاں قیام کیا۔“
ڈوگی نے سونگھتے ہوئے کہا۔ ”اور یہ کیا ہے؟“
عصفر شہزادے نے ایک طرف اشارہ کیا تو سبھی ادھر جمع ہو گئے۔انہوں نے دیکھا کہ وہاں کسی گڑھے کے آثار تھے۔ ڈوگی گڑھا دیکھتے ہی جوش میں آ گیا اور اپنے پاؤں کی مدد سے مٹی ہٹانے لگا،تھوڑی دیر بعد انہیں چوری شدہ مال مل گیا۔
”مل گیا!“ڈوگی چلایا۔
”یوں کہو کہ تمہاری نوکری مل گئی۔“
توتا ہنسا۔اب انہوں نے وہ صندوق ڈوگی کی پشت پر لادا اور اسے کہا:
”اسے محل میں لے جاؤ تاکہ اس کارکردگی پہ محل کا مالک تمہیں دوبارہ نوکری پہ رکھ لے۔“
ڈوگی خوشی خوشی روانہ ہوگیا۔
”اب ہم پولیس کو اطلاع دینے جارہے ہیں۔“عصفر نے دوستوں کو بتایا۔
”ضرور وہ شام کو اپنے ٹھکانے پہ ضرور آئیں گے۔“
بلبل نے سر ہلایا۔
”اور پولیس والے انہیں ٹھکانے لگادیں گے۔“
مینا نے ایسے انداز میں کہا کہ سبھی کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ننھے پرندوں کی مہم کامیاب ہو چکی تھی۔٭
(”مغامرات عصفور“ از عبدالجواد محمد الحمزاوی)