تحریر: فلک زاہد
”طارق صاحب مبارک ہو آپ کو، اس بار بھی آپ کا شاہکار مجسمہ مقابلے میں اول آیا ہے۔“ ایک آدمی نے دراز قد آدمی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”نبیل صاحب آپ کو پتا تو ہے ہم کتنی محنت کرتے ہیں مجسمے پر، اسی لیے تو کوئی ہماری برابری نہیں کر پاتا۔“ طارق شفیق نے اکڑ کے کہا۔
”واقعی خدا قسم آپ کے پتھر سے بنے مجسمے دیکھ کہ یوں گمان ہوتا ہے کہ ابھی بول پڑیں گے۔“ ایک اور شخص نے کہا تو طارق شفیق کا سینہ فخر سے اور پھول گیا۔
”میرے خیال میں، میں ایک اسے شخص کو جانتا ہوں جو سنگ تراشی کے فن میں سب سے آگے ہے۔“ایک آدمی نے کہا تو سب نے اس کی جانب مڑ کے دیکھا۔ وہ ان سب کے لیے اجنبی تھا۔
”میرا نام اسحاق ہے، میں یہاں نیا ہوں۔ سنگ تراشی کا دیوانہ ہونے کی وجہ سے یہاں مجسموں کی نمائش دیکھنے آگیا۔“ اسحاق نے کہا۔
”اچھا تو پھر بتائیں وہ کون ہے جو طارق شفیق صاحب سے اچھا سنگ تراش ہے؟“ ایک خوشامدی نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”جی ہاں بتاتا ہوں۔“ اسحاق نے کہا۔
”کون ہے وہ؟“ سب نے بیک وقت بے تابی سے پوچھا۔ وہ سب ہی اس کا نام جاننے کے لیے بے چین تھے۔
”اختر حسین۔“ اسحاق نے مسکرا کر کہا۔
”اب یہ کون ہے، نام تو کبھی نہیں سنا۔“ ایک صاحب نے ناک چڑا کے کہا۔
”ہاں وہ ذرا گوشہ نشین مزاج کے آدمی ہیں، اس لیے بہت کم لوگ ہی انہیں جانتے ہیں۔“ اسحاق نے بتلایا۔
”ہمیں پتا بتا دیں ان کا، ذرا ہم بھی تو دیکھیں کہ آخر وہ ہے کیا چیز۔“ طارق شفیق نے نہایت متکبرانہ انداز سے کہا۔ ——————-
سردیوں کے دن تھے۔ طارق شفیق اپنی کار میں،اس گاؤں میں داخل ہوا جہاں اختر حسین رہتا تھا۔ اس نے اپنے مطلوبہ مگر چھوٹے سے مکان کے سامنے گاڑی روکی اور گاڑی سے باہر آ کر دروازے پہ دستک دی۔ چند لمحوں بعد ایک بوڑھے آدمی نے دروازہ کھولا۔
”مجھے اختر حسین سے ملنا ہے۔“ طارق نے کہا۔
”جی اندر تشریف لائیں، میں ہی اختر حسین ہوں۔“ بوڑھے نے کہا اور طارق کو لے کر اندر داخل ہوا۔
وہ ایک کمرے پہ مشتمل ایک چھوٹا سا مکان تھا جس کے درمیان میں ایک آم کا درخت لگا ہوا تھا اور اس کی ٹہنیوں سے بڑے بڑے آم جھول رہے تھے۔
”میں نے آپ کے فن کی بہت تعریف سنی ہے، کیا آپ مجھے اپنا کوئی مجسمہ دکھا سکتے ہیں؟“ طارق نے کہا۔
”بہت معذرت جناب، میں نے سنگ تراشی بہت عرصے پہلے چھوڑ دی۔ کیا کریں اب بوڑی ہڈیوں میں اتنی جان نہیں رہی۔“ اختر حسین نے کہا۔
”بہت خوب، یعنی میں نے وقت برباد کیا یہاں آ کر۔ اچھا ہی ہے کہ کام چھوڑ دیا ورنہ میرے مجسمے دیکھ کہ تمہیں خود کو سنگ تراش کہتے شرم آتی۔“طارق نے کہا اور واپسی کے لیے اس تیزی سے مڑا کہ آم کے درخت سے ٹکرا گیا۔
”کیا مصیبت ہے!“ طارق نے جھنجھلا کے کہا۔
”یہ مصیبت نہیں شاہکار ہے۔“ اختر حسین نے کہا۔
”کیا مطلب؟“طارق چونکا۔
”آپ کو ابھی بھی علم نہیں ہوا کہ یہ درخت اصلی نہیں ہے، یہ پتھر سے تراشی ایک کاوش ہے جو میرے ہاتھوں نے سر انجام دی۔ اب بھلا سردیوں میں آم کا کیا کام۔“ اختر حسین نے کہا تو طارق شفیق کی آنکھیں مارے حیرت کے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور اس کے ساتھ ہی اس کا سر شرم سے جھکتا چلا گیا۔
فلک زاہد کی مزید خوف ناک کہانیاں پڑھنے کے لیے دیے گئے لنکس پر کلک کیجیے۔ https://asaanurdu.com/kali-barsati-story-by-falak-zahid-urdu-kahani/
https://asaanurdu.com/boorha-gorkan-horror-story-by-falak-zahid/
2 thoughts on “مجسمہ ساز”