تحریر:سلمان یوسف سمیجہ
”کیا موکی گھر پر ہے؟“موکی کا ہم عمر ہمسایہ دوست ڈی ڈی گھر کے اندر داخل ہوا تھا۔ موکی کی امی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور بولیں:
”ہاں ڈی ڈی بیٹا! وہ اپنے کمرے میں ہے۔“
یہ سنتے ہی ڈی ڈی،موکی کے کمرے میں چلا آیا۔
”ارے ڈی ڈی تم….!“ڈی ڈی کو دیکھتے ہی کتاب پڑھتا موکی خوش ہو کر بولا۔
”ہاں یار!تم یہاں بیٹھے پڑھ رہے ہو۔“ڈی ڈی کہنے لگا:
”چلو،باہر چل کر کھیلتے ہیں۔“
”ہاں، میں بھی تم سے یہی کہنے والا تھا۔“موکی نے پُرجوش انداز میں گود میں رکھی کتاب دور پھینک دی۔ کتاب مارے تکلیف کے کراہ اُٹھی تھی۔لیکن موکی نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ وہ ڈی ڈی کو لے کر باہر چلا گیا۔
بے چاری کتاب وہیں پڑی رو رہی تھی۔ اسے موکی پر بہت افسوس ہو رہا تھا۔
کچھ دیر بعد موکی کی امی موکی کے کمرے میں داخل ہوئیں،تو کتاب کو نیچے دیکھ کر افسوس کرنے لگیں۔
”ایک تو یہ موکی اپنی چیزیں کبھی ان کی اصل جگہ پر رکھنا گوارا نہیں کرتا۔“انہوں نے سر پر ہاتھ مار کر افسوس کیا اور کتاب اٹھا کر مطالعے والی میز پر رکھ دی، جہاں موکی کی اور کتابیں بھی رکھی ہوئی تھیں۔
”مجھے موکی پر بہت افسوس ہوتا ہے،وہ ہم سے علم حاصل کرتا ہے،جبکہ بدلے میں ہماری ناقدری کرتا ہے۔“یہ اسی کتاب کی آواز تھی،جسے ابھی کچھ دیر پہلے موکی پھینک کر گیا تھا اور امی نے اسے اٹھا کر میز پر رکھ دیا تھا،وہ اردو کی کتاب تھی۔
”ہاں،ہم کتابیں تو اس کی رہنما ہیں، اس کی خیر خواہ ہیں،اس کی استاد ہیں، پھر بھی وہ ہماری قدر نہیں کرتا۔“ریاضی کی کتاب کا بھی دل بھر آیا تھا۔
”مجھے بھی بڑی تکلیف ہوتی ہے جب وہ مجھے اٹھا کر اِدھر اُدھر پھینک دیتا ہے،جیسے میں کوئی معمولی سی شے ہوں۔“انگریزی کی کتاب دُکھی لہجے میں بولی۔
”ارے ہم کہاں معمولی ہیں؟ ہم تو بہت قیمتی ہیں،زندگیاں سنوارتی ہیں۔ بس موکی کو ہی اس بات کا اندازہ نہیں ہے۔“اردو کی کتاب جلدی سے بولی۔
موکی گیارہ سال کا ایک زرافہ تھا،جو اپنے والدین کے ساتھ ایک چھوٹے مگر پیارے گھر میں رہتا تھا۔ وہ بہت اچھا تھا،لیکن اپنی کتابوں کی قدر نہ کرتا تھا۔وہ انہیں بے دردی اور بے رحمی سے یہاں وہاں پھینک دیتا۔اس کی کتابیں اس سے بہت خفا خفا رہتی تھیں،مگر موکی کو اس سے کوئ فرق نہ پڑتا تھا۔
ایک دن کتابوں نے تنگ آ کر موکی کا گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے چھوٹا سا ایک خط لکھا اور میز پر رکھ کر کہیں چل پڑیں۔ موکی اس وقت اپنے دوست ڈی ڈی زرافے کے گھر کھیل رہا تھا۔
وہ وہاں سے کھیل کر واپس اپنے گھر آیا۔ کل اس کا اردو کا ٹیسٹ تھا،اس نےاردو کی کتاب لینے کےلیے بستہ کھولا تو وہاں کتابیں موجود نہیں تھیں۔اس نے مطالعے والی میز پر بھی دیکھا، وہاں بھی کتابیں موجود نہیں تھیں۔ اس نے پورا کمرہ چھان مارا،مگر کتابوں کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ وہ وہاں موجود ہوتیں تو اسے ملتیں۔وہ تو اس سے رُوٹھ کر چلی گئی تھیں۔
موکی اب گھبرا گیا، اسے کل کا ٹیسٹ یاد کرنا تھا۔
”اگر کل ٹیسٹ خراب ہوا تو استاد صاحب ماریں گے۔“موکی نے ڈر کر سوچا۔
”امی! میری کتابیں کہیں مل نہیں رہیں اور کل میرا اردو کا ٹیسٹ ہے۔“وہ امی کی جانب بھاگا۔
”بیٹا!تمہارے کمرے میں ہی ہوں گی، اور کہاں جاسکتی ہیں!“امی بولیں۔
”پورا کمرہ چھان مارا ہے امی،کہیں بھی نہیں ملیں۔“وہ بہت پریشان ہوگیا تھا۔
”غور سے ڈھونڈتے ہیں بیٹا! آؤ، میں ڈھونڈ دیتی ہوں۔“وہ اسے لے کر کمرے میں آئیں۔ انہوں نے بڑے غور سے ڈھونڈا مگر ناکام رہیں۔
”کہاں جاسکتی ہیں؟“امی بھی پریشانی میں مبتلا ہوگئیں۔
”ارے یہ ایک کاغذ رکھا ہے۔“انہوں نے میز پر رکھا ایک کاغذ دیکھا اور اٹھا کر پڑھنے لگیں:
”پیارے موکی!تم ہماری حفاظت اور قدر نہیں کرتے،ہم تمہیں چھوڑ کر جارہی ہیں۔ خدا حافظ۔ فقط،تمہاری کتابیں۔“
”اوہ، تو میری کتابیں مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔“ موکی کو دُکھ محسوس ہونے لگا۔
”ہاں،تمہیں تمہارے برے رویے کی وجہ سے۔“امی افسوس سے اسے دیکھنے لگیں۔
”میں باہر جاکر انہیں ڈھونڈتا ہوں، اللہ کرے وہ مل جائیں۔پھر میں کبھی ان کے ساتھ برا نہیں کروں گا۔“وہ باہر بھاگا۔کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد اسے ایک جگہ کتابیں بیٹھی نظر آگئیں۔
وہ ان کی جانب گیا اور انہیں منانے لگا۔
”میں آئندہ کبھی تمہارے ساتھ برا نہیں کروں گا، تمہاری قدر اور حفاظت کروں گا۔ براہ کرم، ناراضی چھوڑ دو۔“موکی نے کہا۔
موکی کا بدلا رویہ دیکھ کر کتابیں مان گئیں اور موکی کے ساتھ گھر آگئیں۔
اب موکی ان کی بہت حفاظت اور قدر کرتا ہے اور انہیں یہاں وہاں نہیں پھینکتا۔