سوال: میراجی کی شاعری میں چیزیں نہیں بلکہ چیزوں کا تصور ملتا ہے بحث کیجیے۔
سوال: میرا جی کی نظم نگاری پر ایک جامع اور مدلل بحث کیجیے۔
سوال: میرا جی نے جدید نظم گوؤں کو مصرع لکھنے کا فن سکھایا، وضاحت کریں۔
سوال: میراجی کی نظموں کی فنی و اسلوبیاتی خصوصیات کا جائزہ لیجیے۔
سوال: میرا جی جدید اردو نظم کے ایک اہم شاعر میں بحث کریں۔
سوال: میراجی کی نظموں کا فکری و فنی جائزہ پیش کریں۔
سوال: میرا جی کی نظمیں ان کے ثقافتی تصور کی عکاسی کرتی ہیں۔ تائید یا تردید کر یں۔
جواب: میرا جی کی نظم نگاری:
جدید اردو نظم کو بام عروج تک پہنچانے کا سہرا بلاشبہ میراجی کے سر ہے۔ ان کی نظموں کو سمجھنے کے لیے ان کی ذات کی خارجی زشت روئی اور داخلی خوب روئی کو سمجھنا ضروری ہے۔ لیکن میراجی پر داستان طرازی کی اتنی گہری چھاپ لگ چکی ہے کہ حقائق کی تلاش بہت مشکل ہے:
”میرا جی نے خود کو افسانہ بنا لیا اور یار لوگوں نے ان قصہ کہانیوں کو زیب داستاں کے لیے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ یہ داستان اتنی بڑھی اور اس کا چرچا اتنا عام ہوا کہ جس نے میراجی پر کچھ لکھا، خواہ وہ ان کا دوست تھا یا شاگر د مداح تھا یا کرم فرما، انہی باتوں پر زور دیا۔ پھر اس مسئلے اور ان باتوں پر زور دے کر جب ان کی آزاد نظموں کو دیکھا جن کے مصرعے میرا جی کی لٹوں کی طرح منتشر تھے تو وہاں بھی بھپکا، وہی تین گولے اور وہی بغیر جیب کی پتلون نظر آنے لگی۔ ( ڈاکٹر جمیل جالی ”میرا جی ایک مطالعہ“ صفحہ (259)
اس صورت حال نے میرا جی کو کوئی نقصان پہنچایا یا نہیں، لیکن بقول ڈاکٹر جمیل جالبی اس سے اردو نظم کے اس ذہین شاعر کی روح کا تخلیقی سفر، ان کی ذات کا عرفان اور اس سلسلہ کی ہزاروں چھوٹی بڑی الجھنیں ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔
موضوعات کا انتخاب:
میرا جی نے اپنی نظموں کے لیے اپنے موضوعات کا انتخاب کیا ہے جو بیک وقت ذہین قاری اور عام قاری کی گرفت میں آسکتے ہیں۔ ان کا موضوعاتی استغراق جمالیاتی، تاثراتی اور نفسیاتی دروں بینی سے متعلق ہے۔ اس لیے جس قدر انسانی ذات گہری، پیچیدہ اور متنوع الصفات ہے، میرا جی کے موضوعات بھی اتنے ہی گہرے اور متنوع ہیں۔ اس کیفیت کا اظہار انہوں نے اپنی نظم ”شام کو راستے پر“ میں بڑی خوبصورتی سے کیا ہے:
رات کے عکس تخیل سے ملاقات ہو جس کا مقصود
کبھی دروازے سے آتا ہے کبھی کھڑکی سے
اور ہر بار نئے بھیس میں در آتا ہے
اس کو اک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں،
وہ تصور میں مرے عکس ہے ہر شخص کا، ہر انسان کا
کبھی بھر لیتا ہے اک بھولی سی محبوبہ نادان کا بہروپ، کبھی
ایک چالاک، جہاں دیدہ و بے باک ستمگر بن کر
دھوکا دینے کے لیے آتا ہے، بہکاتا ہے
اور جب وقت گزر جائے تو چھپ جاتا ہے
مری آنکھوں میں مگر چھایا ہے بادل بن کر
ایک دیوار کا روزن، اسی روزن سے نکل کر کرنیں
مری آنکھوں سے لپٹی ہیں، مچل اٹھتی ہیں
آرزوئیں دل غم دیدہ کے آسودہ نہاں خانے سے،
اور میں سوچتا ہوں نور کے اس پردے میں
کون بے باک ہے اور بھولی سی محبوبہ کون؟
°°°
راستہ مجھ کو نظر آئے نہ آئے، پھر کیا
ان گنت پیڑوں کے میناروں کو
میں تو چھوتا ہی چلا جاؤں گا،
اور پھر ختم نہ ہوگی یہ تلاش،
جستجو روزن دیوار کی مرہون نہیں ہو سکتی،
میں ہوں آزاد…مجھے فکر نہیں کوئی،
ایک گھنگھور سکوں، ایک کڑی تنہائی
میرا اندوختہ ہے (شام کو راستے پر)
یہ نظم میرا جی کی شاعری کا مرکزی نکتہ ہے۔ اس میں ان کی فکر کے کئی رموز پوشیدہ ہیں۔ ایک خاص فضا اور ٹھٹھری ہوئی رات میں بدلتے منظروں کی بارش، کبھی یادوں کی خلوت محجوب سے مخمور صنم خانے میں روزن کا سراب حال کی کرخت سطح سے ٹکراتا ہے، پھر تنہائی اور موت کا سا سکوت اندوختہ بن جاتا ہے اور میراجی کے سارے خواب اور خیال اسی خواب اور حقیقت کے درمیان گھومتے نظر آتے ہیں۔
میرا جی کو تصور سے پیار ہے۔ ان کی شاعری میں چیزیں نہیں بلکہ چیزوں کا تصور ملتا ہے۔ انہیں عورت سے زیادہ عورت کا تصور عزیز ہے۔ منظر بھی منظر بن کر نہیں بلکہ تصور بن کر شاعری میں آتا ہے:
ہاں تصور کو میں اب اپنے بنا کر دولہا
اسی پردے کے نہاں خانے میں لے جاؤں گا
(لب جوئبارے)
بند ہوتا ہوا کھلتا ہوا دروازہ ہے
ہاں یہی منظر لبریز بلاغت اب تو
آئینہ خانوں میں آنکھوں کے جھلکتا ہے مدام
(افتاد)
یہی عمل آگے بڑھ کر حقیقت کو خواب بنانے کے عمل میں بدل جاتا ہے اور یہ انہماک اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ حقیقت بے معنی ہو جاتی ہے اور خواب اس کی جگہ لے لیتا ہے:
میں کون ہوں، کیا ہوں، کیا جانے، من بس میں کیا اور بھول گئی
جب آنکھ کھلی اور ہوش آیا تب سوچ لگی الجھن سی ہوئی
پھر گونج سی کانوں میں آئی وہ سندر سپنوں کی پری
(اجنبی انجان عورت رات کی)
ایڈ گرائین پر مضمون لکھتے ہوئے جہاں میرا جی نے سپنوں پر زور دیا تھا وہیں اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ:
وہ جو باتیں زندگی میں حاصل نہ کر سکتا ان کے تصورات قائم کر لیتا۔ زندگی میں اس کو اپنی محبوب عورتیں حاصل نہ ہو سکیں، اس لیے کہانیوں میں وہ موت پر حیات بعد الممات کے نظریے سے فتح حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا یہ انہماک اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اسے حقیقت سے کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔ اس کی کسی تحریر سے پتا نہیں چلتا کہ اس زمانے میں امریکہ میں غلامی کے انسداد کا مسئلہ بھی تھا یا میکسیکو کی جنگ بھی ہوئی تھی۔“
یہی تخلیقی عمل میرا جی کی شاعری میں جلوہ گر ہوا۔ ان کی شاعری کی خواب آگیں فضا اور تصورات کی دنیا اسی عمل کا اظہار ہیں۔ میرا جی کی شاعری میں کہیں بھی حقیقت کا اظہار اس انداز سے نہیں ہوا کہ ہم ان کے عہد کا کوئی واقعہ اس میں دیکھ سکیں۔ احساس تنہائی کی شدت بھی اسی عمل کا نتیجہ ہے۔ تصورات کی سطح پر میرا جی بالکل اکیلے ہیں۔ وہ خواب کے رسیا ہیں، سپنوں کے گیانی ہیں اور ان کی شاعری کا تانا بانا خوابوں سے بنا ہے:
دن ختم ہوا، دن بیت چکا
رفتہ رفتہ ہر نجم فلک اس اونچے نیلے منڈل سے
چوری چوری یوں جھانکتا ہے
جیسے جنگل میں کٹیا کے اک سیدھے سادے دوراہے سے
کوئی تنہا چپ چاپ کھڑا چھپ کر گھر سے باہر دیکھے (آدرش)
اجنبی انجان عورت رات کی، جہالت، دن کے روپ میں رات کہانی، بعد کی اڑان، محبت، لب جوئبارے، آدرش، دھوکا اور دوسری نظمیں سب اسی تخلیقی عمل کا مظہر ہیں۔ میرا جی کو سمجھنے کے لیے یہ بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔
یاسیت اور حزن و ملال:
میرا جی کے یہاں یاسیت، حزن و ملال اور میٹھے میٹھے درد کی کسک کبھی کبھی ایک تڑپ میں بھی بدلتی محسوس ہوتی ہے اور مسرت کی تلاش، مسرت کا خوف بن کر ان کے سامنے انجانے خدشات کی دنیا آباد کر دیتی ہے:
میں ڈرتا ہوں مسرت سے،
کہیں یہ میری ہستی کو
پریشاں، کائناتی نغمہ مہم میں الجھا دے،
کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت،
میری ہستی ہے اک ذرہ
کہیں یہ میری ہستی کو چکھا دے کہر عالم تاب کا نشہ
ستاروں کا علمبردار کر دے گی، مسرت میری ہستی کو
اگر پھر سے اس پہلی بلندی سے ملا دے گی
تو میں ڈرتا ہوں… ڈرتا ہوں
کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت،
میں ڈرتا ہوں مسرت سے
کہیں یہ میری ہستی کو
بھلا کر تلخیاں ساری
بنا دے دیوتاؤں سا
تو پھر میں خواب ہی بن کر گزاروں گا
زمانہ اپنی ہستی کا (میں ڈرتا ہوں مسرت سے) زندگی اپنی پوری شدت آمیز تلخیوں، یاسیت، حزن و ملال اور درد کے ساتھ میرا جی کی میراث ہے اور وہ اسے رد نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک اگر انسانی زندگی سے درد کی میراث چھن جائے تو آدمی محض دیوتا بن جاتا ہے یا محض خواب۔ میراجی کے نزدیک تلخیوں سے بھرا ہوا انسان مسرت کے ان لمحوں سے زیادہ قیمتی ہے جہاں آدمی دیوتا بن جاتا ہے یا خواب۔ دونوں کیفیتیں میرا جی کے یہاں ایک ہیں۔ دنیا کے دکھوں سے بھرے ہوئے لوگ ان کے نزدیک معراج انسانیت ہیں، اسی لیے انہیں وہ لوگ بھی عزیز ہیں جو دکھوں کی دلدل میں ہمیشہ پھنسے رہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ وہ دکھوں کے حامی ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ ان کے نزدیک انسان کا مقدر دکھوں سے عبارت ہے اور خوشیاں اس کے مقابلہ میں ناپائیدار ہیں۔ یہ ناپائیدار خوشیاں دکھوں کو بڑھاتی رہتی ہیں، کم نہیں کر پاتیں:
آؤ آؤ سکھ لائے ہو؟ بولو مول بتاؤ تم
اپنے اپنے سکھ کے بدلے مجھ سے دکھ لے جاؤ تم
پل دو پل کا سکھ لائے ہو، پل دو پل کا دکھ بھی ہے
جیسا دکھ لینے آئے ہو، ایسا جیب میں سکھ بھی ہے
(بیوپاری)
دنیا میں جتنے بڑے بڑے دکھ ہیں، اتنے بڑے سکھ نہیں پھر ایسا سودا کیا معانی رکھتا ہے؟ اس لیے بہتر ہے کہ دکھ زندگی کا حصہ بن جائیں۔
میرا جی کی شاعری میں جنسی پہلو:
میرا جی کی شاعری میں جنسی پہلو ڈاکٹر وزیر آغا کے خیال میں وشنو بھگتی تحریک کے ان اثرات کا نتیجہ ہے جو دراصل مرد اور عورت کی ناجائز جنسی محبت کے والہانہ پن اور شدت کو اجاگر کرتا ہے۔ ادھر میں جنسی ملاپ کی پوری عکاسی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا مدھر کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں:
”میراجی کی نظموں کے مطالعے کے سلسلے میں وشنو بھگتی تحریک کے دو پہلو زیادہ اہم ہیں، کہ یہی دو پہلو میرا جی کو مرغوب تھے۔ ان میں سے ایک تو کرشن اور رادھا کی محبت سے متعلق ہے۔ کرشن ایک چرواہا تھا اور رادھا ایک بیاہتا شہزادی اور ان کی محبت میں ملن اور سنجوگ سے کہیں زیادہ فراق اور دوری اور مفارقت کی محبت تھی، پھر جہاں ملن کے سمے آتے تھے وہاں کہانی کا وہ پہلو زیادہ نمایاں ہوتا تھا جسے مدھر کا نام دیا گیا ہے…دوسرا پہلو کالی اور شیو سے متعلق ہے۔“
( بحوالہ نظم ”جدید کی کروٹیں“ صفحہ 64)
حرامی، دوسری عورت، دور کنارا، ایک نظم، عدم کا خلا، دور و نزدیک کے علاوہ کئی دوسری نظموں میں جنسی آزادہ روی اور جنسی تعلقات کا موضوع ملتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے نزدیک میرا جی کے یہاں عورت طوائف یا دوسری عورت ہے۔ مگر اس سے انکار نہیں کہ جنسی آزادہ روی کے باوصف ان کے یہاں عورت کے دوسرے دو روپ یعنی ماں اور دلہن بھی موجود ہیں۔ جنسی موضوعات کی فراوانی کے باوجود عورت میراجی کی واحد کمزوری بھی نہیں۔ وہ اپنی نظم ”خود نفسی“ میں محرومی سے بچنے کا ایک اور راستہ خود لذتی کی صورت میں تلاش کر لیتے ہیں:
جوانی میں ساتھی ہے جو اضطراب
نہیں کوئی اس کا علاج
مگر ایک عورت
کھلے جب نہ مجھ پر وسیلوں کا باب
ملے جب نہ چاہت کا تاج
تو پھر کیا کروں میں؟
مگر کیوں سہارا رہے خیر کا؟
کہ تسکیں کو جب ڈھونڈے
میرا دل خودی میں
خیالوں میں تسکین کو ڈھونڈا کیا
تصور کے ہر جا ملے
جنوں کی فضا سے
تخیل میں خلوت کی دلچسپیاں
نہ اس دل کے کام آسکیں
نہ ان سے ہوا کچھ
وہ بے نام، بے رنگ سی گرمیاں
خیالوں میں آئیں، گئیں
نہ آیا سکوں ہی
میں اب کھیل کھیلوں گا ایسا کوئی
کہ دل میں سکوں آبسے
(گناہوں میں کیا ہے)
میں دیکھوں گا اب اپنی قوت سے ہی
وہ منظر جو ہیں رات کے
وہ نشوں کے جمگھٹ!
میری جی کی شاعری میں تنہائی جیسی کیفیات:
میرا جی کی شاعری تنہائی، نا آسودگی اور نارسائی کی جن کیفیات کی ترجمان ہے وہ میرا جی کے ذاتی المیہ سے پھوٹی ہیں۔ بیداری کے جن خوابوں کے شرمندہ تعبیر نہ ہو سکنے سے یہ المیہ وجود میں آیا ہے وہ بے حد عام، عملی اور پیش پا افتادہ قسم کے خواب تھے۔ میرا جی کے گیتوں اور نظموں میں دلہن، بہن، ماں اور بچوں کے لہجوں اور مکالموں کا آہنگ شنیدنی ہے تو ایک اچھوتی، انجان، کنواری دلہن کی تصویر دیدنی ہے۔ یہ دلہن پری زاد نہیں، متوسط طبقہ کی عام سی عورت ہے۔ جو ہماری دیکھی بھالی ہے اور جس میں ہمیں شاعری اور رومان کی کوئی ادا نظر نہیں آتی مگر میرا جی کے ہاں وہ بے حد دل کش کردار ہے۔ خوشیوں کے جھولے میں جھولنے کی تمناؤں کو سینے میں چھپائے یہ دلہن میرا جی کی شاعری میں ہر جگہ موجود ہے۔ کہیں پس منظر میں تو کہیں پیش منظر کے طور پر۔ اس کے کانوں میں بندے ہیں، ماتھے پر بندی، ہاتھ میں گجرا، گلے میں ہار اور باریک دوپٹہ سر پہ لیے اور آنچل کو قابو میں کیے، روم روم سندر سنگھاروں سے سنوارے سجی بنی سیج پر بیٹھی دولہا کا انتظار کر رہی ہے۔ اس کے پاس ہی بیٹھی ہوئی دولہا کی بہن خوشی سے سرشار ہے:
کیوں بہن ہم نے سنا ہے دلہن کی آنکھیں
آنکھ بھر کر نہیں دیکھی جاتیں
اور کہتی ہے بہن
میرے بھیا کو بڑا چاؤ ہے، کیوں پوچھتا ہے
اب تو دو چار ہی دن میں وہ ترے گھر ہو گی ( تفاوت راہ )
مگر المیہ یہ ہے کہ دولہا اس دلہن تک نہیں پہنچ سکتا۔ گھر بسانے کے لیے جن مادی وسائل کی ضرورت ہے وہ اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ اسی لیے میراجی تخیل کی دنیا میں جب کسی عورت کے حسن کو برتتے ہیں تو پہلے اس کو دلہن بنا لیتے ہیں:
جس کے اس پار جھلکتا نظر آتا ہے مجھے
منظر انجان اچھوتی دلہن کی صورت
ہاں تصور کو میں اب اپنے بنا کر دولہا
اسی پردے کے نہاں خانے میں لے جاؤں گا
(لب جوئبارے)
میرا جی نے اس الزام کی تردید کرتے وقت کہ زندگی کا محض جنسی پہلو ہی ان کی توجہ کا مرکز ہے، کہا تھا کہ وہ جنسی فعل اور اس کے متعلقات کو قدرت کی سب سے بڑی نعمت اور زندگی کی سب سے بڑی راحت اور برکت سمجھتے ہیں۔ قدرت کی اس سب سے بڑی نعمت اور زندگی کی اس سب سے بڑی راحت اور برکت سے دائمی محرومی کا احساس، میراجی کی شاعری میں دروازوں کے کھلنے اور بند ہونے، چھت پر لٹکتے ہوئے پیراہن اور دور سے نظر آتی ہوئی مسہری کی آغوش کی لرزشوں کے مناظر کو بلاغت سے لبریز و بھرپور بنا دیتا ہے اور ان میں نئے تلازمات کی ایک دنیا آباد ہو جاتی ہے۔ تہذیب و تمدن نے جنس کے اردگرد جو آلودگی قائم کر رکھی ہے اور جس کی وجہ سے قدرت کی یہ سب سے بڑی نعت جنسی بازار بن کر رہ گئی ہے، اس پر میرا جی کے ہاں بعض اوقات بے اعتنائی اور کراہت سے لبریز تصویریں بھی نظر آ جاتی ہیں۔ مگر مجموعی طور پر وہ جنسی جذبات کو عبادت کی حد تک پاکیزہ سپردگی کے ساتھ بیان کرتے ہیں:
ایک ہی بات جو پہلو میں چھپائے ہوئے سو باتوں کو
رات کو دن کی طرح نور سے بھر دیتی ہے
دل پہ اک سحر سا کر دیتی ہے
(اجنتا کے غار)
میرا جی کی شاعری میں انسان کا روپ:
میرا جی کی شاعری میں ہماری ملاقات جس انسان سے ہوتی ہے وہ جھجکتا ہوا انسان ہے جو اس جہان رنگ و بو سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے مگر نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے وہ افسردہ سی فضا میں سانس لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے نغموں کی مدھر لے غم انگیز عشرت کی لے ہے۔ تنہائی میں بہتے ہوئے آنسو اس کے لیے سکھ کے شعلے بن جاتے ہیں اور دکھ سے نور بڑھنے لگتا ہے:
میں ڈرتا ہوں مسرت سے
کہیں یہ میری ہستی کو
بھلا کر تلخیاں ساری
بنا دے دیوتاؤں سا
تو پھر میں خواب ہی بن کر گزاروں گا
زمانہ اپنی ہستی کا
(میں ڈرتا ہوں مسرت سے )
اسے نرم و نازک، میٹھے درد میں کیف حیات ملتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ ایک انسان ہے جس کا احساس، جس کا شعور زندہ ہے اور
اس کے لیے احساس کی ناؤ رک جانے کے معنی موت ہیں:
صرف مرے احساس کی ناؤ چلتی جائے، نرم اور تیز
کیسی ڈھلوان سے پھسلا ہے شعور
سوچ اک تیتری بن کر یوں اڑی جاتی ہے
اے جو انسان! ترے دل کو لبھاتا ہے یہ منظر لیکن
مرمریں قصر کا لذت سے یہ لبریز ستون
اپنی دوری، تیری مجبوری سے
کہیں احساس کو ہی ساکت و جامد نہ کرے
متذبذب انسان:
اس لیے وہ لحہ بہ لحہ زندہ ہے، شعور کا لمحہ اس کے لیے ابدیت کا لمحہ ہے لیکن 1941ء اور اس کے بعد کی نظموں میں اس انسان سے مل کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسے اپنی شخصیت پر اب یقین نہیں رہا۔ وہ عجب متذبذب ہے۔ وہ فیصہ کرنا چاہتا ہے اور انتخاب کے کرب میں مبتلا ہے۔ اس کے احساس وشعور میں ایک ایسی تبدیلی رونما ہورہی ہے جس نے اس کی شخصیت کے سارے سروں کو الجھا دیا ہے۔ وہ خود کو دریافت کرنے کے لیے کسی اور سفر کی تلاش میں ہے۔ اس دور میں انجام اس لیے اور بڑھ جاتا ہے۔ وہ سفر جو میرا جی نے حال سے ماضی کی طرف کیا تھا، تاریخ کا وہ باب جو انہوں نے انسان کو فطری انسان بنانے اور کائنات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تلاش کیا تھا، ان کے لیے فنا کا سفر بن گیا۔ جب میرا جی طویل عرصہ تک سفر کر کے منزل کی تلاش میں نکلے تو انہوں نے دیکھا:
اور ساگر کہاں ہے جو تھا موجزن
کوئی ساگر نہیں، باغ…صحرا نہیں، کوئی پربت نہیں
آہ کچھ بھی نہیں
(فنا)
اب وہ ایک طرف اپنی حقیقی روایت سے کٹ چکے تھے اور دوسری طرف یہ عمل خود ان کے لیے ایک زبردست دلدل بن گیا۔ یہاں نہ کوئی راستہ تھا اور نہ اس سے کائنات، معاشرہ، فرد اور زندگی کی تشکیل نو ہوسکتی تھی۔ یہاں پہنچ کر میرا جی بالکل اکیلے رہ گئے اور یہ تخلیقی عمل اب خود ان کے لیے بھول بھلیاں بن گیا جہاں سے وہ مرتے دم تک نہ نکل سکے:
راستہ نہیں مجھ کو ستارے تو نظر آتے ہیں
زینے کی بھول بھلیاں اسی آواز میں کھو جاتی ہیں ہاتھ میں تھامی ہوئی شمعیں بھی بجھ جاتی ہیں (تفاوت)
مجموعی جائزہ:
بحیثیت مجموعی اگر ہم میرا جی کے فن پر نظر ڈالیں تو یہ نکات دکھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے نظم کی ایک معنویت کو ہمہ جہت بنایا۔ میرا جی نے نظم کو خارجی حقیقت نگاری سے نکال کر انسان کے باطن میں اتار دیا۔ نظم کے فن، فکر، تکنیک، اسلوب اور ہئیت کی ایک بڑی تبدیلی میں سب سے اہم کردار میرا جی کا ہے۔ ان کی نظموں میں زبانی اور مکانی فاصلے مٹتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ماضی، حال اور مستقبل ایک دوسرے میں اس طرح ضم ہوتے الگ ہوتے اور پھر دور ہوتے نظر آتے ہیں کہ ان کی قوت متخیلہ اور فنی ہنر کاری و چابکدستی کی داد دنیا پڑتی ہے۔ اپنی ایسی ہی انفرادی خصوصیات کی بنا پر میرا جی جدید نظم کی تاریخ میں ایک اہم مقام کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ ان کی نظمیں اپنے عہد ہی کا نہیں بلکہ جدید نظم کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔
میرا جی کے حوالے سے مزید مواد حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
1 thought on “میرا جی کی نظم نگاری (تنقیدی جائزہ)”