خواہش ___ عاطف حسین شاہ

اُس کی نظر بدستور اپنی کلائی پر جمی تھیں جس پر بندھی ایک خوب صورت گھڑی اسے بے پناہ خوشی کا احساس دے رہی تھی۔یہ گھڑی اُسے ابو نے تحفے کے طور پر دی تھی۔ ایسا تحفہ اُسے بڑی آرزو کے بعد ملا تھا۔اِس تحفے کو پا کر وہ خود کو ہوامیں اُڑتا ہوا محسوس کررہا تھا۔اِسی سرشاری کے عالم میں گم وہ یہ بھی بھول بیٹھا کہ اُسے گھر سے کس کام کے لیے بھیجا گیاتھا۔
سیماب کافی عرصے سے گھڑی کی خواہش اپنے دل میں دبائے ہوئے تھا۔ وہ جہاں کہیں گھڑی سے سجی ہوئی کلائی دیکھتا،اُس کا جی للچانے لگتا۔ وہ حسرت بھری نگاہوں سے اُس گھڑی کو دیکھے جاتا یہاں تک کہ گھڑی کامالک نظروں سے اوجھل ہوجاتا۔ رفتہ رفتہ سیماب کی یہ خواہش بڑھتی گئی۔ اُس کا اب کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا، یہاں تک کہ اُس نے کھیلنا بھی ترک کردیا۔ جب اُس کا صبر انتہا کو پہنچا تو اُس نے اپنے دل کا حال بیان کرنے کی ٹھان لی۔ اِس دنیا میں واحد ماں ایسی ہستی تھی جس سے وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنے دل کی بات کہہ سکتا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ امی عصر کی نماز پڑھ رہی ہیں تو وہ جائے نمازکے پا س ہی دو زانو بیٹھ گیا۔ امی کے سلام پھیرنے کی دیر تھی کہ وہ بول پڑا:
”امی جی! مجھے گھڑی چاہیے،آپ ابو جی سے بات کریں نا!“ سیماب کا لہجہ فریادی تھا۔ امی ہلکا سا مسکرائیں۔دعا مانگنے کے بعد انھوں نے اپنے بیٹے کے گال کو لاڈ سے چھوا اور بولیں:
”بیٹا! میں جانتی ہوں کہ تم نے کبھی فضول فرمائش نہیں کی۔تمھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے،میں تمھارے ابو جی سے بات کروں گی۔“
”امی جی! ابو مان جائیں گے نا؟“ سیماب بے یقینی سے بولا۔
”ہاں…ہاں بیٹا! کیوں نہیں مانیں گے۔گھڑی تو مفید چیز ہے،مجھے پورا یقین ہے کہ وہ انکار نہیں کریں گے۔“
امی کی اِس بات نے سیماب کو کافی حد تک مطمئن کردیا تھا۔وہ وہاں سے ایک اُمید لیے اُٹھا اورپھر اپنے قدم کھیل کے میدان کی جانب بڑھا دیے۔
سیماب کے ابو ایک کلرک کی حیثیت سے سرکاری ملازم تھے۔ شام کو جب وہ گھر لوٹے تو اُن کی بیوی نے چپکے سے سیماب کی خواہش کا اظہار کردیا۔ انھیں بھلا کیااعتراض ہوسکتا تھا، انھوں نے فورًا ہامی بھری مگرساتھ ایک شرط بھی رکھ دی۔ شرط یہ رکھی کہ سیماب اس گھڑی کی قدر کرے گا یعنی وقت کی پابندی کرے گااور اسے سنبھال کررکھے گا۔
اگلا دن اتوار کا تھا۔ناشتا کرتے ہی سیماب کے ابو گھر سے باہر چلے گئے۔جب وہ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک خوب صورت گھڑی تھی۔جیسے ہی سیماب کی نظر گھڑی پر پڑی،اس کے جی میں آیا کہ وہ خوشی سے ناچ اُٹھے مگر ادب کا تقاضا تھا،سو وہ دل ہی دل میں جھومنے لگا۔
”بیٹا! یہ میری طرف سے آپ کے لیے ایک تحفہ ہے۔اس کی قدر کرنااور اسے سنبھال کر رکھنا۔“
ابو نے گھڑی سیماب کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔
سیماب اپنی خواہش کی تکمیل پر پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اُس نے جھٹ سے گھڑی کو کلائی پر باندھ لیااورسارا دن اسی کے سحر میں کھویا رہا۔ شام سے ذرا پہلے اُسے امی نے دکان پر چینی لانے کے لیے بھیجا۔ وہ جب گھر سے نکلا تو اُسے فضا بدلی بدلی محسوس ہوئی۔اُسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے اردگرد کے تمام لوگ اُس کی نئی گھڑی کی طرف متوجہ ہیں اور اُس پر رشک کر رہے ہیں۔ وہ خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان محسوس کررہا تھا۔اسی کیفیت میں وہ مارکیٹ کے وسط میں پہنچ گیا۔اب وہ ذہن پر زور دیتے ہوئے سوچنے لگا کہ وہ یہاں کس لیے آیا تھامگر اُس کی نظریں اب بھی گھڑی پر ٹکی ہوئی تھیں۔
”واہ! یہ تو بہت ہی خوب صورت گھڑی ہے۔“
سیماب پر سکتہ طاری ہوگیا۔اُسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے یہ آواز اسی گھڑی میں سے ابھری ہو۔اُس کے ساکن وجود میں تب حرکت پیدا ہوئی جب کسی نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔یہ سیماب کے لیے ایک انجان چہرہ تھا۔وہ عمر میں سیماب سے کچھ بڑا تھا۔
”کہاں گُم ہوچھوٹے بھائی؟“ وہ پیار جتاتے ہوئے بولا۔
”جی بھائی جان! میں گھر سے یہاں کچھ لینے کے لیے آیا تھا مگر اب بُھول گیا ہوں۔“
”اوہو! چلو پریشان نہ ہو۔یہ بتاؤ،اتنی پیاری گھڑی تم نے لی کہاں سے؟ایسی گھڑی تو میں نے آج تک نہیں دیکھی۔“ اس کے لہجے میں بے حد مٹھاس تھی۔
”یہ گھڑی آج ہی مجھے ابو نے تحفے میں دی ہے۔“ سیماب چہکتے ہوئے بولا۔
”ارے واہ!اتنا خوب صورت تحفہ….کیا یہ گھڑی میں کچھ دیر کے لیے اپنی کلائی پر باندھ سکتا ہوں؟“
”ہاں…ہاں! کیوں نہیں،یہ لیں آپ….“
سیماب نے اپنی گھڑی اُس انجان لڑکے کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔
”تم بہت ہی اچھے اور نیک دل لڑکے ہو۔آج کل تو کوئی سیدھے منہ بات تک نہیں کرتا۔کاش سب تم جیسے ہوجائیں۔“
وہ خوشامد کرنے لگا تھا۔سیماب نے اتنی تعریف سُنی تو اس کی باچھیں کھل اُٹھیں۔اُس نے جھٹ سے گھڑی اپنی کلائی پر باندھ لی اور پھر منت بھرے لہجے میں سیماب سے بولا:
”تم میرے چھوٹے بھائی جیسے ہواور بہت ہی سمجھدار بچے ہو۔اگر بُرا نہ مانو تو کیا میں اِس گھڑی کو ایک دن کے لیے اپنے پاس رکھ سکتا ہوں؟میں وعدہ کرتا ہوں کہ کل اِسی وقت،اِسی جگہ تمھیں یہ گھڑی واپس کردوں گا۔“
وہ نہایت مسکین سی شکل بناتے ہوئے سیماب کے سامنے کھڑا تھا۔سیماب نرم دل کا مالک تھا،اسے اندازہ تھا کہ گھڑی کی خواہش کیا ہوتی ہے،اس لیے فورًامان گیا۔اُس لڑکے نے سیماب کا شکریہ ادا کیا اور خوشی خوشی وہاں سے چلتا بنا۔
سیماب اس بات سے بے خبر تھا کہ نیکی کے چکر میں وہ ایک خوشامدی لڑکے کے ہاتھوں لُٹ چکا ہے کیوں کہ سیماب نے تو اُس کا نام تک نہیں پوچھا تھا۔اسی دوران سیماب کے ذہن میں جھماکا سا ہوااور اُسے یاد آ گیا کہ وہ چینی لینے آیاتھا۔چینی لینے کے بعد وہ گھر پہنچا اور ابو سے سامنا کرنے سے کترانے لگاتا کہ اُس کی چوری پکڑی نہ جا سکے۔
اگلے دن سیماب طے کردہ وقت کے مطابق اُسی جگہ پہنچ گیا اور اُس انجان لڑکے کی راہ تکنے لگا مگر اُسے آنا تھااور نہ آیا۔انتظار کرتے کرتے جب شام ڈھلنے لگی تو سیماب کا دِل ڈوبنے لگا۔وہ سمجھ گیا کہ اُس کے ساتھ دھوکا ہوچکا ہے۔اب وہ پچھتانے لگا کہ وہ کیوں ایک خوشامدی لڑکے کے جھانسے میں آگیا۔مگر اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت….
ایک دن تو اُس نے کسی طرح چُھپتے چھپاتے گزار لیا تھا مگر دوسرے دن ابو نے اُس کی غلطی پکڑلی۔سیماب کو اِس غلطی پر خوب ڈانٹ پڑی،ساتھ ہی ابو نے یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ وہ کبھی اُسے گھڑی لے کر نہیں دیں گے۔سیماب کا دل اب بالکل بُجھ کر رہ گیا تھا۔وہ گھڑی پاکرکھو بھی چُکا تھا، یوں جیسے اُس نے ایک خواب دیکھا ہو۔وہ اب پہلے سے بھی زیادہ پریشان رہنے لگا۔پہلے ایک امید تو تھی،اب وہ بھی نہ رہی تھی۔وقت گزرتا گیا اور سیماب کی خواہش حسرت بن کر رہ گئی۔ اتنے میں رمضان المبارک کا مہینہ آ گیا۔سیماب نے روزوں کا خوب اہتمام کیا۔ جیسے جیسے روزے ختم ہوتے جارے تھے،عیدالفطرقریب آتی جا رہی تھی۔ پھر عید کا دن بھی آ گیا۔سیماب نے نیاجوڑا پہنا،اچھی طرح تیار ہوا،خوشبو لگائی مگر جب اُس نے اپنی کلائی کی جانب دیکھا تو اُس کا زخم تازہ ہو گیا۔میٹھی عید اُسے پھیکی محسوس ہونے لگی۔
”کاش! اس کلائی میں گھڑی ہوتی۔“ وہ آہ بھرتے ہوئے دھیرے سے بولا۔
”چلو سیماب!عید کی نماز پڑھنے مسجد چلیں۔“
ابو کی گونجتی ہوئی آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی۔
سیماب اپنے ابو کے ساتھ مسجدچل دیا۔ مسجد میں آج خوب اجتماع تھا۔سارا عالم خوشبوؤں سے معطر تھا۔ہر چہرے پر ایک عجیب سی خوشی تھی،مگر سیماب اب بھی اپنی گھڑی میں کھویا ہوا تھا۔ امام صاحب نے عید کی نماز پڑھائی۔ خطبہ ختم ہونے کی دیر تھی کہ مسجد میں موجود سارا مجمع ایک دوسرے سے بغل ہونے لگا۔ ادب کا لحاظ رکھتے ہوئے تمام لوگوں کے لبوں پر یہی بول تھے:
”عید مبارک….عید مبارک!“
سیماب سب کو ملتے ہوئے دیکھ رہا تھاکہ اچانک اُسے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے زبردستی اُسے گلے لگالیا ہو۔گلے لگانے والے کی گرفت مضبوط ہونے کی وجہ سے سیماب خود کو چھڑا نہ سکا۔
”عید مبارک میرے دوست!“
اُس نے سیماب کو خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔ایک پل میں سیماب اس آواز کو پہچان گیا۔یہ وہی تھا جووعدہ کر کے دھوکا دے گیا تھا۔ سیماب نے شکوہ بھری نگاہوں سے اُس کی جانب دیکھا اور بجھے دل سے صرف اتنا کہا:
”خیر مبارک!“
”میرا نام علیان ہے۔ دراصل مجھے تمھاری گھڑی بہت پسند آ گئی تھی،اس لیے واپس کرنے کو جی نہ چاہا۔ میں بہت خوش تھا کہ مجھے مفت میں اتنی قیمتی گھڑی مل گئی،مگر میں اندر سے میں بے چین رہنے لگاتھا۔ میں جب بھی اپنی کلائی کی جانب دیکھتا تو تمھارا معصوم چہرہ سامنے آ جاتا۔ میں نے تمھارا دل دکھا کر اچھا نہیں کیا۔اپنی گھڑی واپس لے لو اورمجھے معاف کر دو میرے دوست!“
اپنی گھڑی دیکھ کر سیماب کا چہرہ خوشی سے تمتما اُٹھا۔ اب سیماب نے اُسے زبردستی گلے لگا لیا اور چہکتے ہوئے بولا:
”عید مبارک….عید مبارک!“
اچانک سیماب کو احساس ہوا کہ گھڑی کی خواہش علیان کو بھی تھی۔
”علیان بھائی! یہ گھڑی آپ ہی رکھ لیں۔آپ کو بہت پسند آئی تھی نا!“
سیماب اُس کی طرف گھڑی بڑھاتے ہوئے بولا مگر علیان نے اُس کا ہاتھ پیچھے کیا اورکہا:
”گھڑی کی خواہش تو میری بھی ہے۔خریدنے کے لیے اب میرے پاس روپے بھی ہیں،مگر میں چاہتا ہوں کہ میرے لیے گھڑی تم پسند کرو۔“ یہ سن کر سیماب مسکرا دیا۔ عید اب سچ میں میٹھی بن چکی تھی۔اب کی بار دونوں مل کر بولے:
”عید مبارک….عید مبارک!“

Leave a Comment