اس نیلی چمک دار آنکھوں والی بچی کا آج اسکول میں پہلا دن تھا۔ وہ معلمہ صائمہ کے ساتھ ابھی جماعت میں داخل ہوئی تھی۔ اُستانی صاحبہ نے تعارف کرواتے ہوئے اس کا نام نیلم بتایا۔ ایک بنچ پر ایک بچی بیٹھی تھی۔ اس کے ساتھ دوسری بچی کی جگہ خالی تھی۔ اس بچی نے تیزی سے اپنی چیزیں سمیٹیں اور نیلم کا مسکرا کر استقبال کیا لیکن نیلم اسے نظر انداز کرتی پیچھے ایک خالی بنچ پر بیٹھ گئی۔ حماد نے یہ سارا منظر دل چسپی اور حیرت سے دیکھا۔ وہ ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔ نیلم کے چہرے پر اُداسی صاف دکھائی دے رہی تھی۔
”اپنا پرانا اسکول اور دوست چھوڑنے کا غم تو سب کو ہی ہوتا ہے۔“
حماد نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔
”بعد میں یہ بھی جماعت میں گھل مل جائے گی۔“
لیکن حماد کا یہ خیال وقت نے غلط ثابت کر دیا۔ نیلم سب بچوں سے الگ تھلگ رہتی تھی۔ اس عادت کی وجہ سے بچے اس کا مذاق اُڑاتے تھے۔ اسے اُلٹے ناموں سے پکارتے تھے۔ حماد وہ واحد بچہ تھا جو اس کا مذاق نہیں اُڑاتا تھا۔ ایک دن تفریح کے وقت حماد کسی کام سے کمرہ جماعت میں آیا۔ وہاں نیلم اکیلی بیٹھی تھی۔ حماد اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر چونک اٹھا۔ اس نے نیلم سے اس کی اداسی کا سبب پوچھا لیکن نیلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ حماد نے اسے اپنے ساتھ کینٹین پر آنے کا کہا۔ نیلم نے اس سے بھی انکار دیا۔
آخر اسے ایک ترکیب سوجھی۔ وہ کینٹین پر گیا اور کھانے پینے کی چیزیں جماعت میں لے آیا۔ نیلم نے پہلے تو انکار کیا لیکن پھر حماد کے اصرار پر کھانے میں شریک ہوگئی۔ اب یہ حماد کا روز کا معمول بن گیا۔
٭
”کیا تم اب بھی مجھے اپنی اداسی کا سبب نہ بتاؤ گی۔“
ایک دن اچانک حماد نے یہ سوال پھر پوچھ لیا۔
”میں تمہیں ضرور بتاؤں گی۔ میں تمہیں سب کچھ بتاؤں گی۔“
نیلم نے کہا۔ یہ کہتے ہوئے اس کا لہجہ بھاری ہوگیا تھا۔ اس نے مسکرا کر حماد کی طرف دیکھا۔ اس کی مسکراہٹ میں پراسراریت تھی۔
”کل تفریح کے وقت میں تمہیں سب کچھ بتاؤں گی لیکن اس کی ایک شرط ہے۔“
نیلم کا لہجہ عجیب تر ہوتا جا رہا تھا۔ حماد کو گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔
”کیسی شرط؟“
حماد نے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”میرا سچ جاننے کے بعد تمہیں میری مدد کرنا ہو گی۔ اگر تم کل تفریح کے وقت میری کہانی سننے کے لیے یہاں رکے تو اس کا مطلب ہو گا کہ تم میری مدد کرنے کے لیے تیار ہو۔“
نیلم نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کی آنکھیں سرد تھیں، اس کے لہجے سے بھی زیادہ سرد۔
”کہانی سننے کے بعد تم پیچھے نہیں ہٹو گے۔“
حماد نے بہ مشکل ہاں میں سر ہلایا۔
اس رات حماد نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ وہ ایک دلدل میں دھنستا جا رہا تھا۔ کوئی آواز اسے آگے بڑھنے سے روک رہی تھی لیکن وہ آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ گھبرا ہٹ سے اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کا سارا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ وہ اپنا خواب سمجھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن اسے کچھ سمجھ میں نہ آیا۔
٭
تفریح ہوچکی تھی۔ بچے میدان میں کھیل رہے تھے۔ حماد نے نیلم کی طرف دیکھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے حماد کو خوف آ رہا تھا۔ آخر حماد نیلم کے پاس گیا۔ وہ اس کی کہانی سننا چاہتا تھا۔
”میرا تعلق تمہاری اس دنیا سے نہیں ہے۔“
نیلم نے اچانک کہا۔
”میں ایک اور دنیا سے آئی ہوں اور تمہیں لینے آئی ہوں۔“
”کک….کیا مطلب؟یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔“
حماد نے گھبرا کر کہا۔
”میں سچ کہہ رہی ہوں۔ تم ایسے نہیں سمجھو گے، میں تمہیں تفصیل سے بتاتی ہوں۔“
نیلم نے اپنی کہانی کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے کہا۔
حماد دم سادھے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ نیلم کی باتوں پر یقین کرنا مشکل تھا۔
نیلم نے اسے بتایا تھا کہ وہ دراصل جادو کی ایک دنیا سے آئی ہے۔ وہ پریوں کا دیس تھا۔ وہ اپنے بابا کے ساتھ وہاں خوش رہ رہی تھی کہ اچانک ان کی زندگی میں ایک طوفان آ گیا۔ وہاں ایک جادوگر شیمان نے مختلف چلے کاٹ کر بے پناہ طاقت حاصل کر لی تھی۔ عیاری اور مکاری سے کام لیتے ہوئے وہاں کے راجہ رانی کو قید کر لیا۔ وہاں قبضہ کر لیا اور لوگوں کو اپنا غلام بنا لیا۔ نیلم کے بابا نے شیمان کے خلاف سخت مزاحمت کی تھی۔ اس لیے اسے سخت سزا دی گئی۔ زنجیروں میں جکڑ کر انہیں گھر میں نظر بند کر دیا۔
نیلم کے بابا نے اسے بتایا تھا کہ انسانی دنیا سے ایک بچہ ان کی مدد کرنے آئے گا۔ اس بچے میں اس کی اچھائیوں کی بدولت اتنی طاقت ہو گی کہ وہ شیمان کو شکست دے سکے گا۔ اسے انسانی دنیا سے جادو کی دنیا میں لانے کا ایک مخصوص وقت تھا۔ نیلم نے کئی سال اس دن کا انتظار کیا۔ آخر وہ وقت آ پہنچا تو نیلم یہاں آ گئی۔ وہ بچہ حماد تھا۔ اسے اپنی دنیا میں لانے سے پہلے نیلم اس کے دل کی سچائی کو جانچنا چاہتی تھی اور آخر وہ اس امتحان میں کامیاب ٹھہرا تھا۔ اب دو دن بعد اسے نیلم کے ساتھ جادو کی دنیا میں جانا تھا۔
ان دو دنوں میں حماد کو عجیب و غریب خواب آتے رہے۔ وہ یہ خواب دیکھ کر الجھ جاتا تھا اور آخر اسی الجھے ذہن کے ساتھ وہ جادو کی دنیا میں پہنچ گیا۔
٭
حماد اس دنیا کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ وہاں خوب صورت پہاڑ اور دل کش وادیاں تھیں۔ پھولوں سے لدے سرسبز پودے آنکھوں کو سکون بخش رہے تھے لیکن اس کے باوجود وہاں کی فضا سوگوار تھی۔ وہاں سب کی آنکھوں میں خوف نظر آ رہا تھا۔
”شیمان کو ہمارے یہاں آنے کی فوراً خبر ہو جائے گی۔ پھر ہم اس سے کیسے بچیں گے؟“
حماد نے فکرمندی سے پوچھا۔
”اسے ہمارے یہاں آنے کا پتا نہیں چلے گا۔ ابو کے سکھائے ہوئے کچھ جادو مجھے آتے ہیں جن کی وجہ سے میں تمہاری دنیا سے تمہیں یہاں لا سکی اور اب شیمان کی نظروں سے بچ سکتے ہیں۔“
نیلم نے کہا۔
”لیکن مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ اپنے ابو کو آزاد کروا سکوں یا شیمان کا مقابلہ کر سکوں۔“
یہ باتیں کرتے ہوئے وہ نیلم کے گھر پہنچ گئے۔ وہاں حماد نے تہہ خانے میں ایک بوڑھے کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھا۔ وہ سخت تکلیف میں تھا۔
”شیمان نے تمہارے ابو کو یہاں کیوں رکھا ہوا ہے؟ اس نے انہیں کسی جیل میں قید کیوں نہیں کیا؟“
حماد نے پوچھا۔
”شیمان نے ابو کو اپنے جادو کے زور پر زنجیروں میں ضرور جکڑ لیا تھا مگر اس میں اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ انہیں یہاں سے لے جا سکے۔“
نیلم نے بتایا۔
اس کے بعد نیلم نے اسے مزید تفصیلات بتائیں۔ کل ہونے والی لڑائی کے لیے اسے ایک جادوئی خنجر دیا۔ یہ سب باتیں جاننے کے بعد حماد نے کھانا کھایا اور سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
آج رات اس نے پھر ایک خواب دیکھا لیکن یہ خواب واضح تھا۔ خواب میں نظر آنے والے مناظر حماد کو حیران کر رہے تھے۔ اچانک حماد کو ایسے محسوس ہوا کہ کوئی اسے جاگنے کا حکم دے رہا ہے۔ حماد ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ اچانک اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو چونک اُٹھا۔
٭
اگلی صبح ناشتا کرنے کے بعد حماد نے سبز لباس پہنا۔ نیلم نے بتایا تھا کہ یہ خصوصی طور پر جادو سے تیار کیا گیا لباس ہے۔ نیلم اسے اپنے ساتھ ایک پہاڑ پر لے گئی۔ پہاڑ کے ساتھ ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ منظر بہت خوب صورت تھا۔ نیلم اسے ایک خاص مقام پر لے آئی۔ وہاں حماد کے سامنے اچانک ایک شخص آ گیا۔ اس شخص نے سرخ رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا۔ اس کے گھنگھریالے بال کندھے تک آ رہے تھے۔ یہ شیمان تھا۔
اس نے پھرتی سے حماد پر حملہ کیا۔ حماد نے دوگنا پھرتی کے ساتھ اپنا دفاع کیا۔ شیمان حیران رہ گیا۔ وہ حماد کو غافل سمجھ رہا تھا۔ حماد نے اپنا بچاؤ کرتے ہی دو کام انتہائی پھرتی سے کیے۔ اپنے ہاتھوں میں دبے ہوئے بالوں کو لائٹر سے آگ لگا کر فوراً ایک پھول پر پھینکا۔ وہاں سے اچانک گاڑھا دھواں ہوا میں بلند ہونے لگا۔ اس کے ساتھ ہی نیلم کی زوردار چیخ سنائی دی۔
دراصل حماد نے خنجر اس طرح پھینکا تھا کہ وہ نیلم کے پاؤں میں پیوست ہوگیا۔ یہ سب کرتے ہوئے حماد کا دھیان تھوڑا سا بھٹکا تو اچانک شیمان نے اس زور کا حملہ کیا کہ حماد پہاڑی سے نیچے پھسل گیا۔ نیچے ایک مگرمچھ منہ کھولے کھڑا تھا۔
اچانک حماد کو محسوس ہوا کہ اس کے پاؤں کے نیچے کوئی ٹھوس چیز آ گئی۔ اس نے نیچے دیکھا تو وہ ایک شفاف ٹھوس سطح پر تھا۔ اس وقت تک وہ دھواں ایک خوب صورت سبز پری کے روپ میں ڈھل چکا تھا۔ اس نے ہی حماد کے نیچے وہ شفاف سلیب بنائی تھی۔
یہ دیکھ کر شیمان جادوگر گھبرا گیا۔ وہ سبز پری رانی پری تھی کہ جسے اس پھول میں شیمان جادوگر نے قید کر رکھا تھا مگر اب آزاد ہوتے ہی وہ پہلے سے زیادہ طاقت ور ہوچکی تھی۔ حماد کے ہاتھ میں ایک طلسمی خنجر آ چکا تھا۔ یہ بھی پری کا عطا کردہ تھا۔ وہ اور شیمان آمنے سامنے لڑنے لگے۔ نیلم بے بس کھڑی یہ لڑائی دیکھ رہی تھی۔
سبز پری حماد کی مدد کر رہی تھی اور آخر سبز پری کو جادوگر پر براہ راست حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔ اس کے حملہ کرتے ہی جادوگر نیچے گر گیا۔ حماد نے اس کی آنکھ میں خنجر اُتار دیا۔ خنجر اترتے ہی جادوگر اور نیلم چیختے چلاتے دھوئیں میں تبدیل ہونے لگے اور جلد ہی ان کا نام و نشان مٹ گیا۔
انہیں ختم کرتے ہی حماد اس چٹان سے نیچے اُترا۔ وہاں نیلم کے بوڑھے ابو کھڑے ایک جادوئی منتر پڑھ رہے تھے۔ ان کے گرد جادوئی حصار تھا، جس میں سبز پری داخل نہیں ہوسکتی تھی لیکن وہ حصار حماد کو نہیں روک سکتا تھا۔ حماد نے آگے بڑھ کر بوڑھے کو گھسیٹتے ہوئے دائرے سے باہر نکالا۔ سبز پری پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھوں میں خوف سما گیا۔
٭
دراصل حماد کو خواب میں ساری سچائی بتائی گئی تھی۔ شیمان اور نیلم اس شیطانی کھیل میں حصہ دار تھے۔ وہ دونوں آپس میں بہن بھائی تھے اور وہ بوڑھا شخص ان کا استاد تھا۔ اس نے ہی ان دونوں کو اپنے ساتھ ملا کر اس خوب صورت ملک پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اب اس قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے انہیں مزید شیطانی قوتوں کی ضرورت تھی مگر یہ قوت کسی نیک بچے کی قربانی دے کر ہی حاصل کی جا سکتی تھی۔
انہوں نے اسی مقصد کے لیے حماد کا انتخاب کیا تھا۔ ایک خدا ترس اور نیک دل لڑکے کی قربانی ہی شیطان کو خوش کر سکتی تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس بچے کو جادو کے زور سے یا زبردستی وہاں نہیں لے جایا جا سکتا تھا۔ اس لیے یہ سارا کھیل کھیلا گیا۔
اس رات حماد نے نیلم کے استاد کو گھر سے باہر جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اس نے ان کا پیچھا کیا تو ساری اصلیت کھل کر سامنے آ گئی۔ اسی رات اس نے نیلم کے بال کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیے تھے۔ اسے خواب میں بتایا جا چکا تھا کہ نیلم کے بالوں کی راکھ سے ہی پری آزاد ہوسکتی ہے اور اس کے پاؤں پر خنجر مارنے سے وہ بے بس ہو جائے گی۔
وہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے ڈر رہا تھا کہ کہیں پکڑا نہ جائے لیکن خواب میں ملنے والے بزرگ نے اسے تسلی دی تھی کہ ان برے لوگوں نے ایک اچھے انسان کی نیکیوں کو اس کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب تمہاری یہ نیکیاں تمہاری طاقت بنیں گی۔ ان برے لوگوں کی آنکھوں پر ایسا پردہ طاری کر دیا جائے گا کہ یہ آخر وقت تک تمہارے ارادے نہیں بھانپ سکیں گے اور تب ہی یہ سب کچھ ممکن ہو سکا تھا۔
سبز پری نے آزاد ہوتے ہی شیمان جادوگر کے تمام ساتھیوں کو گرفتار کیا اور ان کے استاد کو انتہائی سخت سزائیں دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سبز پری نے حماد کا شکریہ ادا کیا اور اسے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ ہمیشہ اچھائی کے کاموں میں اس کی مددگار رہے گی۔
اس نے حماد کو ایسے تحائف سے نوازا جس سے وہ عام لوگوں کی مدد کر سکتا تھا۔ اس کے بعد حماد کو واپس اس کی دنیا میں بھیج دیا گیا۔