گامو بندر

تحریر: سلمان یوسف سمیجہ

”اس بار تو یہ ٹرافی میرے ہی پاس آئے گی!“ گامو بندر نے مسکراتے ہوئے دل ہی دل میں کہا۔
”مگر کیسے؟“اس سوچ نے گامو کو پریشان کردیا۔
”کسی طرح بھی مجھے یہ ٹرافی حاصل کرنی ہے،چاہے مجھے اس کےلیے کتنا ہی بُرا راستہ اختیار کیوں نہ کرنا پڑے۔کتنا اچھا لگے گا نا جب یہ ٹرافی میرے ہاتھوں میں آئے گی۔سب مجھے عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے!“گامو پریشانی دور کرتے ہوئے خود سے بولا اور مسکرا دیا۔
اچانک اس کے شیطانی دماغ میں ایک ترکیب آ گئی اور وہ خوش ہوگیا۔
بات کچھ یوں تھی کہ جنگل میں ہر سال جانوروں کے مابین کہانی نویسی کا ایک مقابلہ ہوتا تھا، جو کہانی ججز کو سب سے زیادہ پسند آتی، اس کے لکھاری کو ایک تقریب میں ٹرافی دی جاتی تھی۔ پھر اس لکھاری کے ہر طرف چرچے ہونے لگتے، اسے بہت عزت اور قدر ملتی۔
پچھلے دو سالوں سے ٹیمو چوہا یہ ٹرافی جیت رہا تھا کہ وہ ایک بہترین لکھاری تھا، گامو بندر اس مقابلے میں حصہ لیتا، مگر ٹرافی اس کی قسمت میں نہ آتی تھی۔ اب وہ کسی بھی طرح یہ مقابلہ جیتنا چاہتا تھا۔ٹرافی کے حصول کےلیے وہ برے راستے پر چل نکلا تھا۔
اس نے ایک کتاب ”دس انوکھی اور مزے دار کہانیاں“ میں سے سب سے انوکھی اور مزے دار کہانی چوری کی اور مقابلےکےلیے بھیج دی۔ وہ اب دعائیں مانگنے لگا کہ ججوں کو یہ پتا نہ چل سکے کہ اس نے کہانی چوری کر کے مقابلے کے لیے بھجوا دی ہے۔
ایک ماہ بعد ایک تقریب کا انعقاد ہوا، جس میں نتیجے کا اعلان ہونا تھا۔
”اور اس سال سب سے بہترین کہانی کے لکھاری ہیں…!“شینا لومڑی جو میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہی تھی،تجسس پیدا کرنے اور جانوروں کی حالت دیکھنے کےلیے نام لیتی لیتی چُپ ہوگئی۔ جانوروں کے دل دھک دھک کر رہے تھے۔گامو بندر یک ٹک شینا لومڑی کو دیکھ رہا تھا۔ٹیمو چوہا بھی آنکھیں پھاڑے بیٹھا تھا۔
”اور اس سال سب سے بہترین کہانی کے لکھاری ہیں، گامو بندر…!“جیسے ہی اعلان ہوا، زور دار تالیاں بجنے لگیں۔ ٹیمو چوہا تو پھیکے انداز میں مسکرا دیا، جبکہ گامو بندر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی اور منہ کھلے کا کھلا رہ گیا، وہ سنبھلا اور خوشی سے اچھلتے ہوئے اسٹیج پر آگیا، تالیاں ابھی بھی بج رہی تھیں۔
اسے سب سے بہترین لکھاری کی ٹرافی دی گئی، تو اس کی خوشی کا کوئ ٹھکانہ نہ رہا۔
°°°
گامو بندر گہری نیند سویا ہوا تھا کہ اسے کچھ عجیب سی آواز سُنائی دی، وہ جلدی سے اُٹھ بیٹھا اور لیمپ روشن کردیا۔
”کک…کون…ہے؟“گامو ہکلایا۔
”میں ہوں ٹرافی،جسے تم نے بے ایمانی سے جیتا ہے۔“ اسے نفرت آمیز آواز سُنائی دی۔
”ٹٹ…ٹٹ…ٹرافی…!“وہ ڈر گیا۔
”ہاں!تمہیں مجھے ایسے برے طریقے سے نہیں جیتنا چاہیے تھا۔ مجھے تم سے نفرت ہو رہی ہے۔ میں ایک بے ایمان کے پاس نہیں رہنا چاہتی! تم مجھے ہمیشہ اپنے پاس رکھوگے مگر تمہارا ضمیر مطمئن نہیں رہے گا۔ تمہیں ہمیشہ اس بات پر برا محسوس ہوتا رہے گا کہ تم نے مجھے برے طریقے سے جیتا۔ ہر کسی کو جو چیز جیتنی ہے، وہ اسے اچھے طریقے،محنت اور لگن سے جیتے تا کہ اسے گناہ کا احساس ہونے کے بجائے فخر محسوس ہو اور دوسرے بھی اس پر رشک کریں۔“ٹرافی نے کہا اور اس پر افسوس کرنے لگی۔
گامو کو بہت برا محسوس ہورہا تھا۔جس ٹرافی کو وہ بے ایمانی سے جیت چکا تھا، وہی ٹرافی اسے ڈانٹ رہی تھی۔
”میں تمہیں صبح انتظامیہ کو واپس کردوں گا اور سب سچ بھی بتاؤں گا!“گامو کے کہتے ہی ٹرافی مطمئن ہو گئی تھی۔
گامو یہ سمجھ کر دوبارہ سو گیا کہ اعزاز تو وہ ہوتا ہے جو ایمان داری اور اپنی محنت کے بل بوتے پر حاصل کیا جائے۔

Leave a Comment