جواب: معاشی نظام کی تعریف:
عبدالحلیم خواجہ لکھتے ہیں:
”عام فہم انداز میں معاشی نظام سے مراد مختلف اداروں کا ایک ایسا مربوط سلسلہ ہے جس کی بدولت کسی ملک یا قوم کے لوگ اپنے مقدر کی طبعی اور انسانی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی احتیاجات کی تسکین کے لیے اشیاء و خدمات پیدا کرتے ہیں۔“
مختلف ادارے:
ایک معاشی نظام میں مختلف ادارے ہوتے ہیں۔ یہ ادارے سیاسی، سماجی اور بالخصوص معاشی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ یہ ادارے ایک خاص طریقہ کار اور ضابطہ کے تحت کام کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا لائحہ عمل ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پیداواری سرگرمیاں معرض وجود میں آتی ہیں اور لوگوں کی ضروریات کے مطابق اشیاء اور خدمات پیدا ہوتی ہیں۔ کس طرح ایک خاص معاشی نظام سے وابستہ لوگوں کو اپنی حاجت پوری کرنے کا موقع ملتا ہے۔
اس پر مختلف ممالک میں مختلف معاشی نظام کار فرما ہیں۔ کسی ملک میں تمام ذرائع پیداوار حکومت کے ہاتھ میں ہیں اور کسی ملک میں زیادہ تر ذرائع پیداوار لوگوں کی نجی ملکیت میں ہیں۔ اس وقت دنیا میں جو مختلف معاشی نظام کار فرما ہیں، ذیل میں ان کے ناموں کی فہرست دی جا رہی ہے۔
٭نظام سرمایہ داری
٭اشتمالیت
٭مخلوط معاشی نظام
٭اشتراکیت
٭اسلامی معیشت
نظام سرمایہ داری:
سرمایہ داری نظام دنیا کے بہت سارے ممالک میں رائج ہے۔ یہ نظام اپنی ساکھ نوعیت اور ترقی کے لحاظ سے منفرد خصوصیات کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔
اس نظام کے تحت حکومت کا دائرہ کار محض کا عام نام اور بین الاقوامی تعلقات کی حد تک محدود ہوتا ہے۔ لوگ اپنے معاشی عمل میں مکمل طور پر آزاد ہوتے ہیں۔ قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے ذرائع پیدائش کو بروئے کار لاتے ہیں اور پیدائش دولت کے عمل کو آزادانہ طور پر جاری رکھتے ہیں۔ البتہ حکومت بعض اوقات معاشی پالیسیوں کے ذریعے پیداواری سرگرمیوں، ملکی ذرائع کے استعمال، صرف دولت اور سرمایہ کاری کا رخ متعین کرتی ہے۔ تمام افراد کو نجی ملکیت اور کاروباری آزادی کے تمام مواقع میسر ہوتے ہیں۔
کرنسی چھاپنے کا اختیار:
سرمایہ دارانہ نظام ایک معاشی و معاشرتی نظام ہے جس میں سرمایہ بطور عاملِ پیدائش نجی شعبہ کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کرنسی چھاپنے کا اختیار حکومت کی بجائے کسی پرائیوٹ بینک کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اشتراکی نظام کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ کی ترقی معکوس نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ داروں کی ملکیت میں سرمایہ کا ارتکاز ہوتا ہے اور امیر امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس میں منڈی آزاد ہوتی ہے اس لیے اسے آزاد منڈی کا نظام بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ آج کل کہیں بھی منڈی مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتی مگر نظریاتی طور پر ایک سرمایہ دارانہ نظام میں منڈی مکمل طور پر آزاد ہوگی۔ جملہ حقوق، منافع خوری اور نجی ملکیت اس نظام کی وہ خصوصیات ہیں جس سے سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفین کے مطابق غریبوں کا خون چوسا جاتا ہے۔ جدید دانشوروں کے مطابق آج سرمایہ دارانہ نظام اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک متبادل نظام کی آوازیں شدت سے اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔
ہر پابندی سے آزاد:
مختصراً سرمایہ دارانہ نظام یہ کہتا ہے کہ ذاتی منافع کے لیے اور ذاتی دولت و جائیداداور پیداواری وسائل رکھنے میں ہر شخص مکمل طور پر آزاد ہے، حکومت کی طرف سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم دنیا میں سو فیصد (%100)سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی جگہ ممکن نہیں، کیونکہ حکومت کو کسی نہ کسی طرح لوگوں کے کاروبار میں مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، اٹلی وغیرہ میں سرمایہ دارانہ نظام ہیں۔
بنیاد:
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ایڈم سِمتھ(1723ء – 1790ء) (Adam Smith) نے رکھی جو ایک برطانوی فلسفی اور ماہر اقتصادیات تھا۔
اشتمالیت:
یہ نظام مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے، مثلاً اجتماعیت خالص اشتراکیت، آمرانہ اشتراکیت اور مرکزی طور پر منضبط معیشت ہی کہا جاتا ہے۔
اشتمالیت اور سرمایہ دارانہ نظام اپنی اپنی نوعیت، یہ دونوں ترکیب کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں بلکہ یہ دونوں نظام ایک دوسرے کی ضد سمجھے جاتے ہیں۔ دونوں نظاموں میں بعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ یہ نظام کارل مارکس نے پیش کیا اور وہی اس کا بانی مبانی ہے۔
انقلابی سماجی تحریک:
اشتمالیت یا کمیونزم ایک انقلابی سماجی تحریک ہے جس کے ذریعہ درجہ بندی اور ملک سے بالاتر سماجی نظام کی تخلیق مقصود ہے۔ اشتمالی نظام میں ذرائعِ پیداوار مشترکہ ملکیت میں ہوتے ہیں۔ یہ اشتراکیت کی ایک شاخ ہے۔ مارکسیت اور اشتمالیت میں مماثلتیں بہت ہے۔یہ آپ یوں کہہ لیں کہ ملک میں دولت کی تقسیم کا فرسودہ نظام ختم کر کے ایک منصفانہ اور مساوی نظام لایا جا سکے۔
اشتمالیت کی خصوصیات:
نجی ملکیت کا خاتمہ:
اشتمالی نظام میں تمام ذرائع پیدائش جنگلات، ذرائع آبپاشی آمد و رفت، بینک انشورنس، کمپنیاں وغیرہ ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں۔ اس نظام کے تحت فرد کی ملکیت کا کوئی تصور نہیں۔
معاشی تحفظ:
اشتمالیت میں عوام کے معاشی تحفظ کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے۔
معاشی منصوبہ بندی:
یہ نظام کی قیمتوں کے خود کار نظام کے تحت نہیں چلتا بلکہ اس نے معاشی منصوبہ بندی کا مرکزی بورڈ کرتا ہے۔
منضبط تقسیم دولت:
اس نظام میں محنت کو بطور عمل پیدائش جو معاوضہ ملتا ہے اس کو حکومت خود مقرر کرتی ہے۔
محدود آزادی کا انتخاب:
اشتمالیت میں چوں کہ تمام پیداواری ادارے حکومت کے انتظام میں کام کرتے ہیں اور حکومت ہی اشیاء کی مقدار، معیار، اقسام اور قیمتیں متعین کرتی ہے لہٰذا صارفین کو ان پیدا کردہ اشیا میں سے ہی اپنی پسند کے مطابق خریداری کرنا پڑتی ہے۔
مخلوط معاشی نظام:
مخلوط معاشی نظام اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک میں رائج ہے اور اس کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ اجتماعیت اور سرمایہ دارانہ نظام دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور دونوں اپنی اپنی انتہا پر ہیں۔ یعنی اگر سرمایہ داری نظام میں ہر چیز نجی ملکیت میں ہے تو استعمالی نظام حکومت کے تسلط میں ہے لیکن ان دونوں کے برعکس مخلوط معاشی نظام ایک متوازن نظام ہے۔
متنوع معاشی نظام:
ایک مخلوط معیشت کو متنوع معاشی نظام کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جس کی منصوبہ بندی معیشتوں، ریاستی مداخلت کے ساتھ آزاد بازاروں، یا عوامی انٹرپرائز کے ساتھ نجی کاروبار کے ساتھ مارکیٹ کی معیشت کے عناصر کو ملاوٹ کرنے والی ایک معاشی نظام ہے۔ مخلوط معیشت کی صرف ایک تعریف نہیں ہے، بلکہ ”مخلوط معیشت” کے لیے تسلیم شدہ دو بڑی تعریفیں ہیں۔ ان میں سے پہلی تعریف کا مطلب ریاستی مداخلت کے ساتھ منڈیوں کے مرکب کا حوالہ دیا جاتا ہے، جس میں سرمایہ دارانہ مارکیٹ معیشتوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جس میں قاعدہ مستقل نگرانی، مداخلت پسندانہ پالیسیاں اور عوامی خدمات کی سرکاری فراہمی ہے۔ دوسری تعریف غیر فطری نوعیت کی ہے اور اس کا سختی سے مطلب ایسی معیشت سے ہے جس میں عوامی انٹرپرائز کے ساتھ نجی انٹرپرائز کا مرکب ہوتا ہے۔
زیادہ تر معاملات میں اور خاص طور پر مغربی معیشتوں کے حوالے سے، مخلوط معیشت سے مراد سرمایہ دارانہ معیشت ہے جس میں منافع کے حصول کے ذریعہ پیداواری ذرائع کے نجی ملکیت کی اہمیت اور اس کی بنیادی محرک کی حیثیت سے سرمایہ جمع کرنا ہوتا ہے۔
مختلف ریگولیٹری کے ماتحت:
اس نظام میں، مارکیٹیں مختلف ریگولیٹری کنٹرول کے ماتحت ہیں اور حکومتیں مالی اور مالیاتی پالیسیوں کے ذریعہ بالواسطہ معاشی اثر و رسوخ کا حامل ہیں جو بوم/ بسٹ سائیکل، بے روزگاری اور آمدنی کے اختلافات کی سرمایہ داری کی تاریخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئیں۔ اس فریم ورک میں، عوامی سہولیات اور ضروری خدمات کی مختلف ڈگری عوامی ملکیت کے تحت ہیں اور ریاست کی سرگرمی اکثر عوامی سامان اور عالمی سطح پر شہری ضروریات جیسے صحت کی دیکھ بھال، جسمانی انفراسٹرکچر اور عوامی زمینوں کے انتظام تک محدود ہے۔
ضروری خدمات:
عیسائی ڈیموکریٹس اور سوشل ڈیموکریٹس کے زیر اقتدار جنگ کے بعد مغربی اور شمالی یورپی معاشی نمونوں کے حوالے سے، مخلوط معیشت کو سرمایہ دارانہ نظام کی ایک شکل سے تعبیر کیا گیا ہے جہاں زیادہ تر صنعتیں نجی طور پر صرف ایک چھوٹی سی عوامی سہولیات اور عوام کے تحت ضروری خدمات کے مالک ہیں۔ ملکیت جنگ کے بعد کے دور میں، یوروپی معاشرتی جمہوریت اس معاشی ماڈل کے ساتھ وابستہ ہو گئی۔ معاشی مثالی ہونے کے ناطے، مخلوط معیشتوں کی حمایت مختلف سیاسی قائل لوگوں کے ذریعہ کی جاتی ہے، عام طور پر وسط،بائیں اور درمیان دائیں، جیسے سوشل ڈیموکریٹس یا کرسچن ڈیموکریٹس۔
سوشلسٹ معیشت:
مخلوط معیشت سوشلسٹ معیشتوں کا بھی حوالہ دے سکتی ہے جو پیداوار کے وسائل میں ملکیت کی غیر سماجی یا غیر عوامی شکلوں کے لیے، یا سوویت نوعیت کی منصوبہ بند معیشتوں کے لیے خاطر خواہ کردار کے حامل ہیں جن کو بازاری قوتوں کے لیے زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنے کے لئے بہتر بنایا گیا ہے۔
اشتراکیت:
اشتراکیت اپنی اصل میں اشتمالیت ہی کا عکس ہے لیکن انقلابی نہیں بلکہ ارتقائی طریقے پر ہونی چاہیے۔ زمین اور تمام بنیادی صنعتیں سرکاری تحویل میں ہونی چاہئیں۔ زرعی پیداوار کا زیادہ تر حصہ ہیں حکومت کی تحویل میں ہونا چاہیے تا کہ دولت کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر ہو۔ تاہم اشیائے صرف کی پیداوار نجی شعبے کے ذریعے ہو۔ لوگوں کے معاوضہ میں ان کی ذاتی قابلیت اور صلاحیت کا خیال رکھا جائے۔
اشتراکیت کے گروہ:
موجودہ اشتراکی فلسفہ بنیادی طور پر چار گروہوں میں منقسم ہے۔ چاروں گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ چونکہ تمام معاشرتی امراض و مسائل کی جڑ شخصی حق ملکیت ہے، اس لیے وسائلِ پیدائش کی شخصی ملکیت کو ختم کر دینا چائیے۔ ان گروہوں میں اختلاف اس بات پر ہوتا ہے کہ ایسی ریاست کو تشکیل دینے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔
٭کسبی اشتراکیت
٭فیبین
٭گلڈ اشتراکیت
اشتراکیت کے بنیادی اصول:
اشتراکیت کے مذکورہ بالا فلسفے کے نتیجے میں اشتراکی معیشت میں مندرجہ ذیل بنیادی اصول کار فرما ہوتے ہیں:
(۱) اجتماعی ملکیت:(Collective property)
اس اصول کا خلاصہ یہ ہے کہ وسائل پیداوار یعنی زمینیں اور کار خانے وغیرہ کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں نہیں ہوں گے بلکہ وہ قومی ملکیت میں ہوں گے۔اور حکومت کے زیر انتظام چلا ئے جائینگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ٹھیٹ اشتراکی ممالک میں نہ صرف زمینیں اور کار خانے بلکہ تجارتی دکانیں بھی کسی فردِ واحد کی ملکیت میں نہیں ہوتیں۔ ساری آمدنی حکومت کے خزانے میں جاتی ہیں اور وہیں سے ملازمین کو تنخواہیں ملتی ہیں۔
(۲) منصوبہ بندی:(Planning)
اشتراکی نظام کا دوسرا بنیادی اصول منصوبہ بندی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام بنیادی معاشی ضروریات اور تمام معاشی وسائل کی اعداد و شمار جمع کئے جاتے ہیں۔اور یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کون سے وسائل کس چیز کی پیداوار میں لگائے جائیں؟ کیا چیز پیدا کی جائے اور محنت کرنے والوں کی کیا اجرت مقرر کی جائے؟
منصوبہ بندی کا یہ تصور اشتراکیت کے ذہن کی تخریب کاری تھی مگر بعد میں جزوی طور پر سرماداریت نے بھی منصوبہ بند معیشت کے اصول اپنائے۔حکومت کو کاروبار سے بلکل الگ رکھنا سرمایہ دارانہ نظام کے لیے بھی ممکن نہ ہوا اور آخر کار حکومتوں کو تجارتی مراکز (Trade Centres)میں مداخلت کرنی پڑی۔اور اشتراکی نظام میں حکومت جزوی نہیں بلکہ کلی طور پر با اختیار ہوتی ہے اور تمام فیصلے ان کے اپنے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔
(۳) اجتماعی مفاد:(Collective interest)
اشتراکیت کا تیسرا اصول اجتماعی مفاد سے وابستہ ہے۔ یعنی اشتراکیت کا دعویٰ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں ساری معاشی سرگرمیاں افراد کی ذاتی مفاد کے تابع ہوتی ہے لیکن اشتراکی نظام میں منصوبہ بندی کے تحت اجتماعی مفاد کو بنیادی طور پر مد نظر رکھا جاتا ہے۔
(۴) آمدنی کی منصفانہ تقسیم:(Equitable Distribution of Income)
چوتھا اصول اشتراکیت کا یہ ہے کہ پیداوار سے جو آمدنی حاصل ہو وہ افراد کے درمیان منصفانہ طور پر تقسیم ہو۔اور غریب و امیرکے درمیان زیادہ فاصلے نہ ہوں۔ آمدنیوں میں توازن ہو۔ اشتراکیت نے شروع میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ آمدنی میں مساوات ہوگی۔ یعنی سب کی آمدنی برابر ہوگی لیکن اس پر کبھی بھی عمل دار آمد نہیں ہوا۔ لوگوں کی اجرتیں اور تنخواہیں کم اور زیادہ ہوتی رہیں۔ البتہ اشتراکیت میں کم از کم یہ دعویٰ ضرور کیا گیا ہے کہ اس نظام میں اجرتوں کے درمیان تفاوت بہت زیادہ نہیں ہے۔
اسلامی معاشی نظام:
اسلام دین فطرت ہے، اس میں نسل آدم کی ہر طرح کی ضروریات کو پورا کرنے کے طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی اپنی کتاب اسلام کا اقتصادی نظام میں لکھتے ہیں کہ اسلام میں دور حاضر کی طرح یہ نہیں کیا کہ اول اقتصادی نظام کے نام سے ایک عنوان قائم کرتا اور اس کے تحت ایک خاص نظریہ یا چند مخصوص نظریے بیان کرتا اور پھر ان نظریوں کے پیش نظر مختلف ابواب میں اس کے نظام علمی و عملی پر بحث کرکے کسی مخصوص نام کے ساتھ اس کو موسوم کرتا لیکن اس نے ایسا کیوں نہیں کیا! صرف اس لیے کہ موجودہ دنیا کے جتنے اقتصادی نظام ہیں وہ عموماً انسانوں کے خود سخت ہیں اور ایسے فلسفہ پر مبنی ہیں جن میں روحانیت اور مذہب کو یا تو سرے سے نظر انداز کر دیا گیا ہے اور یا اس کی نہاد روحانیت اور مذہب کی مخالفت پر قائم کر کے اس ہو فلسفیانہ رنگ میں ڈال دیا ہے۔
معیشت فطرت:
اسلام کا نظریہ معیشت فطرت سے ہم آہنگ اور تمام معاشی مشکلات کا واحد حل ہے، اس لیے کہ یہ نظام نہ تجربات کا مرہون منت ہے اور نہ اقتصادی ماہرین کی ذہنی کاوش کا نتیجہ،بلکہ یہ معاشی نظام پروردگار نے تجویز کیا اور پیغمبر اسلام نے پیش کیا، اس لیے یہ نظام ہی وہ واحد نظام معیشت ہے جو اگر تمام عالم پر چھا جائے تو دنیا میں صرف معاشی سکون ہی سکون ہو، اس لئے کہ یہ مالک حقیقی نے بنایا ہے وہ ہم سب کا رب ہے، لہٰذا اس کی ربوبیت کا سایہ بھی سب پر یکساں ہے، اس میں اجتماعی مفاد ہی ملحوظ ہے، شخصی یا گروہی مفاد کا شائبہ تک نہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے حقیقی مالک صرف اللہ ہے، ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز اور بڑی سے بڑی چیز اس کی ملکیت میں داخل ہے، چنانچہ اُس نے مال کی نسبت اپنی ذات کی طرف دیتے ہوئے فرمایا:
”خدا کے مال میں سے جو اُس نے تمہیں دیا ہے، اُن کو بھی دو۔“
یکساں حقوق:
اللہ کے مال میں بنیادی طور پر تمام انسانوں کو یکساں حق تصرف حاصل ہے، تمام چیزیں جو زمین سے نکلتی ہیں یا دنیا میں پائی جاتی ہیں، سب کی سب بنی نوع انسان کی نفع رسائی کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔اسلام نے معاشی آزادی کے ساتھ انفرادی ملکیت کا بھی حق دیا ہے، اس لیے کہ انفرادی ملکیت ایک ایسا جذبہ ہے جو فطرت انسانی ہے اور اسلام اپنے تمام شعبہ ہائے حیات میں فطرت کا ہم نوا ہے، چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
”آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھا جائے اور نہ حاکموں کو بطور رشوت دو تاکہ لوگوں کے مال میں سے جو کچھ ہاتھ لگے خورد بُرد کرنے لگ جائے، حالانکہ تم جانتے ہو“
اسلام نے ملکیت کے تحفظ و احترام پر بھی زور دیا ہے، چنانچہ غصب، خیانت اور چوری ڈکیتی پر سزا لازم قرار دی ہے۔ اسلام کا عدل پسند مزاج یہ گوارا نہیں کرتا کہ کسی کا مال اس کے مالک کی رضا مندی کے بغیر استعمال کیا جائے۔ ارشاد رسول اکرم ہے: ”کسی شخص کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر جائز نہیں۔“
شخصی ملکیت کا حق:
اسلام نے اگرچہ شخصی ملکیت کا حق دیا ہے، مگر وسائل معیشت پر ایسے قیود عائد کر دیئے ہیں کہ بے قید سرمایہ داری کا انسداد اور اُس سے پیدا ہونے والے مفاسد کا تدارک ہو جاتا ہے، چنانچہ جائز و ناجائز، حلال و حرام کی تفریق قائم کر کے دولت کو متوازن حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا اور اندھا دھند دولت حاصل کر کے اس کی اجارہ داری کے آگے ایک بند خودبخود بندھ جاتا ہے، اس بے قید سرمایہ داری کا ایک بڑا سبب سودی کاروبار ہے۔ اسلام سود کو حرام قرار دیتا ہے تاکہ سرمایہ داری کو تقویت حاصل نہ ہو۔ اسی طرح جوائلاٹری اور سٹہ بھی حرام ہے، ان چیزوں میں دوسرے کا مال بغیر معاوضے کے ہتھیا لیا جاتا ہے، جس سے ہارنے والے کا دل مال جیتنے والے کی طرف سے خراب ہو جاتا ہے اور فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے، جو امن عامہ کو خراب کرتا ہے، اسی لئے قرآن مجید میں اس کو عمل شیطان قرار دیا گیا ہے:
”جب اللہ کسی چیز کو حرام بتاتا ہے تو اس کے معاوضے میں حاصل ہونے والا مال بھی حرام قرار دیتا ہے“
یعنی ایک شخص اپنا مکان کرائے پر دیتا ہے، وہاں شراب فروخت ہوتی ہے، تو وہ رقم جو کرایہ کی صورت میں حاصل ہو وہ قطعی حرام ہے۔
میانہ روی:
معاشی نظام کی اصلاح میں میانہ روی کو بڑا دخل ہے۔ اگر خرچ کو آمدن سے بڑھنے نہ دیا جائے، تو ذہنی و معاشی پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل ہوتا ہے۔ ارشاد رب العزت ہے کہ:
”بے موقع و بے ضرورت مال ضائع کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں“
اس بے ضرورت صرف سے روکنے کا مقصد یہ ہے کہ غریب اور نادار لوگوں میں احساس محرومی پیدا نہ ہو اور اگر کوئی شخص مالدار ہے، تو اس کو چاہیے کہ اپنے غریب بھائی کی مدد کرے تاکہ دولت کے انبار جمع نہ ہوں اور سب مسلمان اچھی اور بہتر زندگی بسر کریں۔ یعنی اسلام یہ چاہتا ہے کہ سونا چاندی جمع کرنے کے بجائے گردش میں رکھا جائے، تو صاحب مال کے مال میں بھی وسعت ہو گی اور دوسرے اس گردش زر سے فائدہ اُٹھا کر بے روز گاری سے بچیں گے۔ اگر ہم عہد امیر المومنین کے معاشی نظام کا جائزہ لیں تو بالکل روشن ہو جائے گا کہ کاروباری آزادی کے ساتھ پیداواری وسائل عوام کی ملکیت تھے، ہر شخص معیشت کے مختلف ذرائع زراعت، تجارت، دستکاری وغیرہ اختیار کرنے میں آزاد تھا، جس کے نتیجے میں ہر شخص مطمئن ہو کر جدوجہد میں لگا ہوا تھا اور معاشرے میں سکون تھا۔
منفرد تہذیب سے روشناس:
ایک مکمل ضابطہ حیات اور آفاقی مذہب ہونے کی بنا پر اسلام ایک منفرد تہذیب روشناس کرانے اور ایک نیا انقلاب پربا کرنے کا پیش خیمہ بنا۔ اسلام نہ تو روحانیت پر مبنی محض چند سطحی قسم کے تصورات کا نام ہے اور نہ ہی یہ محض اخلاقی قدروں کا ایک سادہ مجموعہ ہے۔ یہ ایک ایسا نظام حیات ہے جس میں زندگی کا ہر پہلو ایسا مربوط اور ہم آہنگ کیا گیا جس سے ایک منفرد و متوازن معاشی، سیاسی اور سماجی نظام اجاگر ہوتا ہے۔ دیوانی اور فوجداری قوانین کے ظابطوں سے لے کر عالمی قوانین تک کے اساسی اصول زندگی کی مادی و روحانی ضرورتوں کو پورا کر نے کیلئے بھی فراہم کیے گئے ہیں۔
اسلام کا دعویٰ ہے کہ وہ ہر دور کے تقاضوں سے عہدہ بر آہونے کی صلاحیت سے پوری طرح بہرہ ور ہے۔یہی دعویٰ ہر دور میں مخالفین اور موافقین دونوں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت سے موجود رہا ہے۔