تحریر:علی اکمل تصور
بہت پرانے زمانے کی بات ہے، کسی جنگل کنارے ایک بہت بڑا ملک آباد تھا۔ اس ملک کا بادشاہ ایک نیک دل انسان تھا۔ اس بادشاہ کا بیٹا شہزادہ قدوس بہت بہادر نوجوان تھا۔ وہ فوج کا سپہ سالار بھی تھا۔ ایک دن چند بزرگ روتے پیٹتے محل میں داخل ہوئے۔
”بادشاہ سلامت!مدد… مدد..!“
”کیا ہوا؟“ بادشاہ سلامت نے شان سے پوچھا۔
”بادشاہ سلامت! ہم جنگل کے پاس ایک گاؤں میں رہتے ہیں۔ جنگل میں ایک آدم خور شیر رہتا ہے۔ اس شیر نے ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اس نے ہمارے بہت سے آدمیوں کو مار ڈالا ہے اور انھیں گھسیٹ کر جنگل کے اندر لے گیا ہے۔ ہمیں اس شیر کے شر سے بچائیے بادشاہ سلامت!“ یہ خبر سن کر بادشاہ سلامت کو غصہ آگیا۔
”قدوس!چند سپاہیوں کو لے جاؤ اور اُس شیر کا شکار کرو۔ جب تم واپس لوٹو تو مردہ شیر تمھارے ہمراہ ہونا چاہیے۔“
”جی ابو جان!“ قدوس اُٹھ کھڑا ہوا۔ اُس نے چند جری سپاہیوں کا انتخاب کیا اور پھر جنگل کی طرف روانہ ہوگیا۔ قدوس کا گھوڑا بہت تیز رفتار تھا۔ سپاہی پیچھے رہ گئے تھے۔ قدوس کو خود پر بڑا بھروسا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ شیر جب سامنے آئے گا تو وہ اپنی تلوار کے ایک ہی وار سے شیر کے دو ٹکڑے کر دے گا۔
جنگل میں پہنچ کر اب شہزادہ شیر کو تلاش کر رہا تھا مگر شیر گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب تھا۔ شہزادہ ادھر ادھر بھٹک رہا تھا کہ اُس نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ یہ ایک جنگلی بلی تھی۔ ایک خونخوار بھیڑیا اس کے تعاقب میں تھا۔ بلی اپنی جان بچانے کے لیے سرپٹ بھاگ رہی تھی۔ شہزادے نے اپنا گھوڑا بھیڑیے کے پیچھے لگا دیا۔ شہزادہ بلی کی جان بچانا چاہتا تھا۔ بلی تھک چکی تھی۔ وہ رُکی تو اُسے دبوچنے کے لیے بھیڑیے نے چھلانگ لگائی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب شہزادے نے اپنا نیزا بھیڑیے کی طرف پھینکا۔ نیزا بھیڑیے کے جسم میں آر پار ہو گیا۔
”شکریہ شہزادے!“ بلی نے جب انسانی زبان میں بات کی تو شہزادہ حیران رہ گیا۔ اب بلی نے سوال پوچھا:
”آپ اس جنگل میں کس لیے آئے ہیں شہزادے؟“
”مجھے ایک آدم خور کی تلاش ہے۔“ شہزادہ بولا۔
”وہ شیر نہیں ہے شہزادے! وہ ایک آدم خور جن ہے۔“
”کیا سچ میں؟“ شہزادہ حیرت سے بولا۔
”ہاں شہزادے! میں جنگل میں رہتی ہوں، مجھے ہر بات کا علم ہے۔ وہ جن بہت خوفناک ہے، وہ ہر قسم کا روپ دھار لیتا ہے۔“
”کوئی بات نہیں، میں اس سے مقابلہ کروں گا۔ مجھے اپنی رعایا کی حفاظت کرنی ہے۔“ یہ کہہ کر شہزادہ چل پڑا مگر وہ یہ بات نہیں جانتا تھا کہ بلی اُس کے پیچھے آ رہی ہے۔ ابھی شہزادہ تھوڑی دُور ہی گیا تھا کہ اُس نے ایک بہت بڑا شیر دیکھا۔ وہ شہزادے کو دیکھ کر غرا رہا تھا۔
شہزاد نے اپنی میان سے تلوار نکال لی، پھر شہزادے نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ شیر اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُس کی شکل بدل گئی۔ اب شہزادے کے سامنے ایک بھیانک شکل والا جن کھڑا تھا۔ توے جیسا کالا رنگ، سر پر دو نوکیلے سینگ، سرخ انگارا آنکھیں… اِس سے پہلے کے شہزادہ اُس پر حملہ کرتا، جن کے قد میں اضافہ ہونے لگا۔ اب وہ بلند درختوں سے بھی زیادہ اونچا ہو گیا تھا۔ شہزادہ اُس کے سامنے بونا نظر آ رہا تھا۔ اب جن نے ہاتھ بڑھا کر شہزادے کو اپنی مٹھی میں پکڑ لیا۔ شہزادہ بے بس ہو چکا تھا، پھر وہ جن دھم دھم کرتا ایک سمت میں چل پڑا۔ بلی نظر بچا کر اُس کے پیچھے آ رہی تھی۔ اب وہ اپنے محسن کی مدد کرنا چاہتی تھی مگر وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ ایک ننھی سی جان، اتنے بڑے جن کا مقابلہ کیسے کر پائے گی۔
جنگل میں موجود ایک پہاڑ کی غار میں وہ جن رہتا تھا۔ اُس نے شہزادے کو قید کر لیا اور بولا:
”ابھی تو مجھے بھوک نہیں ہے، جب بھوک لگے گی تب میں تمھیں کھاؤں گا۔“
شہزادہ تو بہت پریشان ہوا۔ اب وہ سوچ رہا تھا کہ کرے تو کیا کرے۔ ایسے میں اُس نے ایک آواز سنی:
”جن انکل! جن انکل!آپ اگر اجازت دیں تو میں اندر آ جاؤں؟“ یہ بلی تھی۔
”کیا بات ہے؟“ جن بدتمیزی سے بولا۔
”جن انکل! میں تو جانتی ہوں کہ آپ بہت بہادر ہیں مگر وہ گاؤں والے تو کچھ اور ہی بات کر رہے تھے۔“
”کیا کہتے ہیں گاؤں والے؟“جن غرا کر بولا۔
”وہ کہتے ہیں کہ جنگل میں رہنے والا جن بزدل ہے اور وہ جو شیر اُن پر حملہ کرتا ہے، وہ شیر ہی ہے، جن نہیں۔ اُن کی باتیں سن کر میں آپ کے پاس چلی آئی کہ دیکھوں تو سہی حقیقت کیا ہے۔“ بلی معصومیت سے بولی۔
”وہ شیر میں ہی ہوں۔“
”میں اپنی آنکھوں سے دیکھوں تو یقین کروں۔“
”اِس میں کون سی بڑی بات ہے۔ ابھی لو…“ جن دہاڑ کر بولا اور پھر اُس نے شیر کی شکل بنا لی۔
”کیا بات ہے! کیا بات ہے!“ بلی خوش ہوتے ہوئے بولی۔
”شیر کے علاوہ آپ کوئی اور شکل بھی بنا سکتے ہیں؟ میں گاؤں والوں کو جا کر بتاؤں گی کہ جن انکل بہت بہادر ہیں۔“
”تم بتاؤ! تم مجھے کس شکل میں دیکھنا پسند کرو گی؟“
”نہیں! رہنے دیجیے، آپ سے نہیں ہوگا۔“ بلی نے جن کو غصہ دلایا۔
”بتاؤ تو سہی! میں کر کے دکھاؤں گا۔“
”کیا آپ چوہا بن سکتے ہیں؟“
”ابھی لو!“
پھر دیکھتے ہی دیکھتے شیر سمٹ کر چوہا بن گیا۔ بلی کو اسی لمحے کا انتظار تھا۔ اُس نے چھلانگ لگائی، چوہے کو منہ میں دبایا اور نگل لیا۔ چوہے کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ شہزادہ بلی کی ذہانت پر اَش اَش کر اُٹھا۔ پھر وہ دونوں محل کی طرف روانہ ہوئے۔ بادشاہ نے شہزادے کے ساتھ بلی کو دیکھا تو حیرت سے پوچھا:
”شہزادے! تم تو شیر کے شکار پر گئے تھے، اپنے ساتھ بلی لے آئے ہو؟“
”شیر کو تو اِس بلی نے کھا لیا۔“ شہزادہ مسکرا کر بولا۔
”کیا مطلب؟“
شہزادہ سچ بول رہا تھا مگر کوئی بھی اُس کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔
پیارے بچو! کیا آپ شہزادے کی بات پر یقین کرتے ہیں؟
٭٭٭