آب آب ہونا

تحریر:محمد فیصل علی

”خیر تو ہے زبیر؟تمہاری چہرے کو کیا ہوا؟لال لال کیوں ہو رہا ہے ؟“عنصر نے مجھے حیرانی سے دیکھا۔
”بس یار کیا بتاؤں،آج تو میں شرم کے مارے آب آب ہو گیا۔“میں نے شرمندہ انداز میں منہ چھپایا۔
”یہ شرم تو سمجھ میں آتی ہے مگر ’آب آب‘ کیا ہوتا ہے بھائی؟“عنصر نے حیرت سے پوچھا۔
”یہ ایک محاورہ ہے بھائی۔آب کا معنی پانی ہے اور ’آب آب ہونا‘ کا مطلب پانی پانی ہونا،یعنی بہت زیادہ شرمندہ ہونا۔“میں نے اسے سمجھایا۔
”اب سمجھا،لیکن تم نے ایسی کون سی غلطی کر لی کہ پانی پانی ہو کر بہے جا رہے ہو؟“عنصر نے مجھے غور سے دیکھا۔
میں نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا:
”سنو، تمہیں پوری کہانی سناتا ہوں،شاید اس طرح میری خفت مٹ جائے۔میں نے کچھ کتابوں کو جلد لگوانی تھی، اس لیے آج وہ کتابیں ایک جلد ساز کے پاس لے گیا۔جب اس نے کام مکمل کر لیا تو میں نے کتابیں لے کر ہزار کا نوٹ لہرایا:
”صاحب! میرے پاس چینج تو نہیں ہے۔“ وہ گڑگڑایا۔
”تو کہیں سےلے آؤ، میں کیا کروں۔“ میں گرجا-
”صاحب! اس ساتھ والے دکان دار سے لے لیں نا!“اس نے التجا کی-
”کیوں؟میں تمہارا نوکر ہوں کیا؟حد ہو گئی،آئندہ تمہارے پاس آنا ہی نہیں ہے۔دکان کھول لی ہے مگر چینج نہیں…کیوں؟“میں ہذیانی انداز میں چیخ رہا تھا۔
تب وہ لڑکھڑا کر سہارا لے کر اٹھنے لگا۔ جب وہ اٹھا تو میں حقیقی معنوں میں بیٹھ گیا اور شرم کی وجہ سے پانی پانی ہو گیا۔اس کے دونوں پاؤں مڑے ہوئے تھے۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا چینج لینے چلا گیا اور میری روح اندر سے لڑکھڑا کر رہ گئی۔
مجھے لگا کہ وہ مجھ سے ہزار درجے بہتر ہے، کیوں کہ وہ تو صرف جسمانی معذور تھا اور میں غصے کی وجہ سے ذہنی معذور بھی تھا اور جسمانی معذور بھی۔“
میں نے اپنی کہانی مکمل کی اور عنصر کی طرف دیکھا۔وہ افسوس کے عالم میں اپنا سر نفی میں ہلائے جا رہا تھا۔

Leave a Comment