بھگوڑا…علی اکمل تصور

    

وقاص کی عادت تھی، وہ بیٹھے بٹھائے گھر سے غائب ہو جاتا تھا، اسکول سے غائب ہو جایا کرتا تھا۔ یہ روز کا معمول تھا۔ ایسے میں سکول میں استاد جی اور گھر میں امی ابو پریشان ہو جاتے تھے۔ استاد جی چند ہوشیار طالب علموں کو اس کی تلاش میں روانہ کرتے تھے، پھر یہ طالب علم بھی غائب ہو جاتے۔ کھیل کے میدان میں وقاص تو مل جاتا تھا مگر پھر سب مل کر کھیلنے لگتے۔ اگلے دن سکول میں سب کو مرغا بنایا جاتا، پتائی بھی ہوتی تھی مگر وقاص اپنی عادت سے مجبور پھر سے غائب ہو جاتا تھا۔ گھر میں بھی یہی عالم تھا، دوپہر کا کھانا کھاتا تو امی تاکید کرتی تھیں کہ اب تھوڑی دیر آرام کے لیے لیٹ جاؤ۔ اِدھر امی کو جھپکی آئی، اُدھر وقاص غائب……
”وقاص کہاں گیا؟“ امی کلثوم سے پوچھتیں۔
”وہ بھگوڑا تو بھاگ گیا۔“ کلثوم ہنستے ہوئے جواب دیتی۔ کلثوم وقاص کی بڑی بہن تھی۔ اب امی برقع اوڑھے اُسے ڈھونڈنے نکلتی۔ طرح طرح کے وہم امی کو پریشان کرتے۔ ایک معصوم بچہ اور گھر سے باہر خطرہ ہی خطرہ…… کوئی ظالم انسان اغوا کر سکتا تھا۔ اغوا کرنے کا مقصد تاوان نہیں ہو سکتا تھا۔ کیوں کہ وہ بہت غریب لوگ تھے۔ ابو سارا دن ایک ایسی ورک شاپ میں کام کرتے تھے، جہاں لوہے کے سریوں کو ڈھال کر اور آہنی چادریں کاٹ کر ویلڈنگ کی مدد سے گھریلو استعمال کی اشیا بنائی جاتی تھیں۔ اُن کے ہاتھوں کی حالت بہت خراب ہوتی تھی۔ لوہا کوٹ کوٹ کر اُن کے ہاتھوں کی نرمی چلی گئی تھی۔ اُن کی محدود آمدنی میں بڑی مشکل سے گھر چلتا۔ امی کو یہ فکر ستاتی تھی کہ کہیں کوئی وقاص کو اغوا کر کے ہاتھ پیر توڑ کر بھکاری نہ بنا دے۔ مگر وقاص کو کسی بات کی فکر نہیں تھی۔ اُس کا دھیان تو بس کھیلنے میں لگا رہتا تھا۔ پھر کھیل چاہے کوئی بھی ہو، کرکٹ ہو یا پھر چھپن چھپائی…… سب چلتا تھا۔ امی اُسے کسی نہ کسی مقام سے ڈھونڈ تو لیتی تھیں مگر سزا نہیں دیتی تھیں۔ وہ امی کا بہت پیارا اور لاڈلا بیٹا تھا۔امی بس ڈانٹ ڈپٹ کرتی تھیں۔ شور کی آواز سن کر کوئی پڑوسن امی سے کہتی:
”اے بہن! یہ لاتوں کا بھوت ہے۔ لگاؤ دو تھپڑ، دیکھنا منٹ میں سیدھا ہو جائے گا۔“ مگر یہ بات سن کر امی کا رنگ فق ہو جاتا تھا۔ وہ وقاص کو سینے سے لگا لیتی۔
”بہن! بچہ ہی تو ہے۔ شرارتیں نہیں کرے گا تو کیا کرے گا؟“
”بس جی، اسی وجہ سے بگڑ گیا ہے۔ بڑا ہو کر چور ڈاکو بنے گا۔“
یہاں بات بگڑ جاتی۔ امی کی پڑوسن کے ساتھ لڑائی شروع ہو جاتی اور نظر بچا کر وقاص پھر سے غائب ہو جاتا۔
”کم بخت! کدھر گیا؟“ امی لڑائی بھول کر پھر ے وقاص کی تلاش میں نکل پڑتی۔
ایک رات سونے سے پہلے وقاص نے ڈرتے ڈرتے امی سے کہا:”امی جان! وہ سکول میں استاد جی، ابو کو بلا رہے تھے۔“
”پھر سے کوئی ہنگامہ ہو گیا کیا؟“
”نہیں تو……مگر ابو نہ گئے تو میری پٹائی ہو گی۔“
”اچھا، میں ابو سے کہہ دیتی ہوں۔“
اگلے دن ابو وقاص کے ہمراہ سکول پہنچے تھے اور پھر بیس منٹ کے بعد ہی اُن کی سکول سے واپسی ہو گئی تھی۔ وقاص کا سر جھکا ہوا تھا اور ابو کسی حد تک غصے میں نظر آ رہے تھے۔
”سنبھالو اپنے لڑکے کو……اسے سکول سے نکال دیا گیا ہے۔ استاد جی کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے دوسرے بچے بگڑ رہے ہیں۔“
”ایسے ہی جھوٹ بولتے ہیں۔“ امی نے وقاص کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
”سمجھ گیا میں …… تم سے نہیں ہو گا۔ مجھے ہی کچھ کرنا ہو گا۔ چلو وقاص! میرے ساتھ چلو!“ ابو نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا تھا۔ پھر جب ابو اپنے کام پر روانہ ہوئے تو وقاص اُن کے ہمراہ تھا۔ ابو اپنی ورک شاپ پر جانے سے پہلے ایک ریستوران پر چلے آئے تھے۔ وقاص دل ہی دل میں خوش ہوا تھاکہ چلیں کچھ کھانے پینے کا دور چلے گا۔ مگر جب ابو بولے تو پہلے تو وقاص حیران ہوا،پھر پریشان ہو گیا۔ ریستوران کا مالک ابو کا دوست تھا۔ ابو نے اُس سے کہا تھا:
”یہ میرا بیٹا وقاص ہے مگر آج سے یہ آپ کا ہوا۔ آپ اسے اپنے پاس کام پر رکھ لیجیے۔“ ابو نے جانے کیسا اشارہ کیا تھا۔ وہ فوراً تیار ہو گیا۔
”جی جناب!“
”اس کا خیال رکھیے گا۔“ ابو نے تاکید کی تھی۔
”جی! آپ فکر مت کریں۔ اب یہ میرا بیٹا ہے۔“ پھر ریستوران کے مالک نے کسی ملازم کو آواز دی۔
”منصور! اس بچے کو اندر لے جاؤ اور کام پر لگا دو۔“ منصور نے وقاص کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ کسمسایا تھا مگر ابو کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ پھر منصور وقاص کو کھینچتے ہوئے اندر لے گیا۔
”کیا بتا ہے فاروق بھائی؟ آپ کچھ پریشان لگتے ہیں۔“ ریستوران کے مالک نے ابو سے پوچھا۔
”نعمان بھائی! ابھی تو بات بس میں ہے مگر بس میں سے نکل بھی سکتی ہے۔ میرا بچہ بگڑ رہا ہے۔ سکول سے بھاگتا ہے، گھر سے بھاگتا ہے۔ اس کا دھیان کھیل کود میں ہے۔ میں اسے آپ کے پاس ایک مقصد کے تحت لایا ہوں۔ اسے کام پر لگانا نہیں ہے، اسے کام سے بھگانا ہے۔“
”کیا مطلب؟“ نعمان کو حیرت ہوئی۔
”دیکھیے! آپ اس سے کام لیجیے، اسے تنگ کیجیے…… اسے احساس دلائیے کہ تعلیم اچھی چیز ہے۔ سکول میں بچہ مزے سے رہتا ہے۔ پڑھنا آسان ہے، کام کرنا مشکل ہے۔ جب اسے مشکل بھری زندگی کا احساس ہو گا تو سدھر جائے گا۔“
”ترکیب تو بہت اچھی سوچی ہے۔“ نعمان مسکرایا۔
”اللہ خیر کرے گا۔“ اب ابو اپنے کام پر روانہ ہو گئے۔ نعمان نے ابو کی ہدایت پر عمل کیا تھا۔ اُس نے وقاص پر برابر نظر بھی رکھی تھی اور اپنا رویہ سخت رکھا تھا۔ ریستوران کے دروازے پر موجود چوکی دار کو بھی ہدایت کر دی تھی کہ یہ بچہ ریستوران سے باہر نہ نکلنے پائے، پھر ٹھیک ایک بجے وقاص غائب ہو چکا تھا۔ آثار بتا رہے تھے کہ وقاص ریستوران کے عقبی حصے سے روشن دان کے ذریعے فرار ہوا تھا۔ ابو کی ترکیب اور نعمان کی سکیورٹی، سب دھری کی دھری رہ گئی تھی۔ ابو کو خبر ہوئی تو وہ اپنا کام چھوڑ کر وقاص کی تلاش میں نکلے۔ وقاص کے تین چار ہی تو ٹھکانے تھے۔ جلد ہی وقاص مل گیا۔ ابو کو غصہ آیا تھا مگر اُسے کوئی سزا نہیں دی تھی، بس خاموشی سے گھر پر چھوڑ گئے تھے۔
زندگی اسی ڈگر پر چل رہی تھی کہ ایک دن بساط الٹ گئی۔ شاید قیامت اسی کو کہتے ہیں۔ گھر پر ایک خبر آئی تھی۔ یہ خبر سن کر امی تو بے ہوش ہو گئی تھیں۔ کلثوم دیواروں کے ساتھ سر ٹکرا رہی تھی اور وقاص سناٹے میں آ گیا تھا۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟“ وہ سوچ رہا تھا مگر یہ دنیا ہے۔ یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے، پھر خبر کی تصدیق ہو گئی۔
ورک شاپ پر ویلڈنگ کا کام کرتے ہوئے ابو کو کرنٹ لگا تھا اور وہ پل بھر میں اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ ابو کو گھر لای گیا مگر یہ بغیر جان کا جسم تھا۔ امی اور کلثوم کی بے قراری دیکھی نہیں جاتی تھی اور وقاص ایک طرف خاموش کھڑا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کرے، پھر ابو کو اُن کے حقیقی گھر پہنچا دیا گیا۔
وقاص اب گھر میں ہی رہتا تھا مگر خاموش رہتا تھا۔ کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ پھر ایک دن اچانک صبح کے وقت وقاص پھر سے غائب ہو گیا۔ امی کو آدھے گھنٹے کے بعد ہی اُس کے فرار ہونے کی خبر لگ گئی تھی۔ ایک تو ابو کی وجہ سے اُن کا دل پہلے ہی ٹوٹا ہوا تھا اور اب وقاص کی پریشانی…… انھیں غصہ آ گیا تھا۔ انھوں نے برقع اوڑھا اور پھر وہ وقاص کی تلاش میں نکلیں۔ پارک میں بچے کھیل رہے تھے مگر وقاص نہیں تھا۔ گلی کے کسی موڑ پر بھی نہیں تھا، گیمز کی کسی دکان پر بھی نہیں تھا۔ آج وقاص کہیں نہیں ملا تھا۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ امی کے غصے میں اضافہ ہو رہا تھا۔ تھک ہار کر وہ گھر واپس لوٹ آئی تھیں، عجیب کیفیت تھی۔ ایک وقت میں ہی پریشانی، غم، صدمہ اور غصے کی کیفیات نے امی کو گھیر لیا تھا۔ وہ بار بار گھر کے بیرونی دروازے کی طرف دیکھتی تھیں۔ کنڈی گرا رکھی تھی، جانے کب وقاص آ جائے اور پھر وقاص آیا۔ یہ مغرب کا وقت تھا، وقاص ڈرتے ڈرتے گھر میں داخل ہوا تھا۔ اُس کے کپڑے میلے کچیلے ہو رہے تھے۔ امی نے تیکھی نظر سے اُس کی طرف دیکھا۔ اتنے میں وقاص صحن تک آ پہنچا تھا۔ امی لپک کر اُس کی طرف بڑھیں۔ پھر امی کا ہاتھ فضا میں لہرایا۔ ایک زور کا تھپڑ وقاص کے رخسار پر پڑا تھا، پھرتھپڑوں کی بارش شروع ہو گئی۔ وقاص نے بچنے کی کوشش نہیں کی تھی اور نہ ہی وہ رویا تھا۔
”تم نے ہمیں دکھ دیا ہے۔اس دکھ میں ابو چلے گئے۔ کیا تم چاہتے ہو، میں بھی چلی جاؤں؟“
وقاص کے وجود پر کپکپی طاری ہوئی تھی۔ اُس نے امی کے سامنے اپنی بند مٹھی کھول دی۔ اُس کی ننھی ہتھیلی پر دو سو روپے موجود تھے۔ ہتھیلی پر ننھے ننھے آبلے بھی نظر آ رہے تھے۔
”ہائے میں مر گئی!“ امی تڑپ کر رہ گئی تھیں۔ پھر وقاص پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ابو تو جیسے آج فوت ہوئے تھے۔
”امی! میں دیکھ رہا تھا، ابو کے چلے جانے کے بعد گھر میں راشن ختم ہو چکا تھا۔ میں کھیلنے نہیں گیا تھا، میں آج کام کرنے گیا تھا۔“ وہ ہچکیاں بھرتے ہوئے بولا۔
امی نے اُسے اپنی آغوش میں چھپا لیا۔ امی کے بے قرار دل کو ایک لمحے میں راحت مل گئی تھی۔ کچھ کھویا تھا تو کچھ پا بھی لیا تھا۔ اب امی کی آنکھوں سے شکر کے آنسو جاری ہو گئے تھے۔
٭٭٭٭

Leave a Comment