مُنا بنا چوزہ ___ عاطف حسین شاہ

بارشیں ہوئے کافی دن بیت گئے تھے۔اب ہرسو خشک سالی تھی۔ ہر ذی روح پیاسی تھی۔ پھر لوگوں کی دعائیں رنگ لے آئیں۔رب کی رحمت بارش کی صورت میں نازل ہوئی۔ رات بھر برسات جاری رہنے سے ہر سو جھل تھل مچ گئی۔ اگلی سویر آسمان نکھرا نکھرا لگ رہا تھاگویا ہرچیز دُھل کر صاف ہو گئی ہو۔ فضا میں پرندے اُڑان بھر رہے تھے اور اپنے پروردگار کا شکر ادا کر رہے تھے۔ انہیں یوں آزاد اور بے فکری سے اُڑتا دیکھ کر لوگ رشک کر رہے تھے۔
اَسد اپنے گھر کے کچے صحن میں ایک گیند کے ساتھ کھیل میں مگن تھا۔ جگہ جگہ کیچڑ ہونے کے باعث گیند کی حالت مٹی کے گولے جیسی ہو گئی تھی۔کھیلتے کھیلتے اچانک اُس کی نظر آسمان کی جانب اُٹھ گئی۔ اُسے ہوا میں پرواز بھرتے پرندے بہت اچھے لگے۔ وہ کھیل چھوڑ کر انہیں دیکھنے لگ پڑا۔ اسی دوران ایک جہاز اُڑتے اُڑتے اَسد کی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ اَسد کو شرارت سوجھی۔ جہاز کافی اونچا اُڑ رہا تھا۔ اَسد نے سوچاکہ وہ کوشش کرے تو اُڑتے جہاز کو گیند مار سکتا ہے۔ اُس نے اپنی آنکھیں بھینچ کر پوری قوت کے ساتھ گیند آسمان کی جانب پھینک دی۔گیند جہاز کو چھو بھی نہ سکی۔ وہ بس کچھ ہی دیر ہوا میں رہی اور پھر پڑوس کے گھر میں جا گری۔ جہاز اُڑتا اُڑتا اَسد کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ اُسد کواپنی ناکامی پر سخت مایوسی ہوئی۔وہ گیند اُٹھانے کے لیے ساتھ والے گھر میں جا گھسا۔ اُس گھر کی مالکن نے جب اَسد کو گھر میں داخل ہوتے دیکھا تو غصے کے عالم میں بولی:
”تمھیں شرم نہیں آتی؟ میں نے ابھی ابھی کپڑے دھو کر تار پر ڈالے تھے۔ تم نے ان کا ستیاناس کر دیا۔“
”آ….آنٹی جی! میں نے اپنی گیند جہاز کو ماری تھی،پتا نہیں آپ کے گھر کیسے پہنچ گئی!“ اسد خود حیران تھا۔
”اچھا! اب تم میرے ساتھ مسخریاں بھی کرو گے۔ تمہیں سزا دینا ہی پڑے گی۔ چلو جلدی سے مرغابن جاؤاور جب تک میں کہوں نہیں،سیدھے نہ ہونا۔“
”آنٹی! ابھی تو میں بہت چھوٹا ہوں، چوزہ تو بن سکتا ہوں مگر مرغا نہیں بن سکتا۔“ اسد معصومیت سے بولا۔
”زیادہ باتیں نہ بنا….چل چوزہ ہی بن جا۔“ عورت آنکھیں دِکھاتے ہوئے بولی۔
اسدنیچے ہوکے چوزہ بن گیا۔ وہ دِل ہی دِل میں بہت خوش تھا کہ آنٹی نے صرف چوزہ ہی بنایا، چپیڑیں مار کے منہ لال نہیں کیا۔ یہ خوشی جلد ہی افسوس میں بدل گئی جب اسد کی ٹانگیں کپکپانے لگیں۔ وہ بیٹھنے لگا تو آنٹی کی کرخت آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی۔
”نہ…نہ…بیٹھنے کی کوشش مت کرنا….بنے رہو چوووزہ!“
اَسد کو یوں محسوس ہوا جیسے آنٹی نے کیمرے اُسی پر لگا رکھے ہیں۔وہ منہ بسورتا ہوا پھر سے چوزہ بن گیا۔ اب اَسد کی ٹانگیں تکلیف سے اکڑنے لگی تھیں اور اُس کا سر بھی چکرا رہا تھا۔ ایسے میں اُسے آسمان کی جانب سے گرج دار آواز سنائی دی۔ اَسد کو دھرتی کانپتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ بے اختیار کھڑا ہو گیا اور آسمان کی جانب دیکھنے لگا۔ یہ ایک جہاز تھا جو شاید اَسد کو کہنا چاہ رہا تھا کہ بیٹا! اب آرام آیا؟ اب تم کبھی میرے ساتھ پنگا لینے کی کوشش نہیں کرو گے۔اَسد نے اپنے کان مضبوطی سے پکڑ لیے اور جواباً بولا:
”میری سچی توبہ! میں اب تمہارے ساتھ تو کیا،کسی کے ساتھ بھی پنگا نہیں لوں گا۔ شرارت کرنا آسان ہے مگر چوزہ بننا بڑا مشکل ہے۔“
اَسد جذبات میں آکر اتنا اونچا بول گیا کہ یہ بات آنٹی کے کانوں میں بھی پڑ گئی۔ وہ مسکرا دیں۔اَسد ایک بار پھر چوزہ بن گیا۔
”اوئے چوزے! سیدھے ہو کے اب بندے بن جاؤ اور آیندہ ایسی شرارت بالکل نہ کرنا۔“
اسد سیدھا ہوا اور آنٹی کی بات مانتے ہوئے اپناسر ہلانے لگا۔ اُس نے دیکھا کہ آنٹی کے ہاتھ میں اب صاف ستھری گیند موجود تھی۔ کپڑوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے گیند کو بھی دھو ڈالا تھا۔ آنٹی نے اَسد کو گیند واپس کر دی۔ گیند ملتے ہی وہ مٹکتا مٹکتا اپنے گھر کی جانب چل دیا۔

Leave a Comment