وہ ایک اندھیری رات تھی۔آسمان تاروں سے محروم دکھائی دیتا تھا۔چاند پر اماوس کی راتوں کا پہرہ تھا،اس لیے ہر سو گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔دہشت زدہ ماحول میں جیت کی امنگ لیے وقار بلا خوف وخطر میدان میں اتر چکا تھا۔موبائل کی محدود روشنی کے سہارے وہ آگے بڑھ رہا تھاکہ یک لخت اسے اپنے عقب سے کھٹکا سنائی دیا۔ایک لمحے کو تو اس کی روح کانپ اُٹھی۔وقار نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو دو آنکھیں اسے گھور رہی تھیں،جن سے مدھم مدھم شعلے پھوٹ رہے تھے….وقار کے پاؤں ڈگمگانے لگے۔ اُسے لگا جیسے وہ شعلے اُسے بھسم کر کے رکھ دیں گے۔اس سے قبل کہ وقار کے منھ سے دلخراش چیخ بلند ہوتی،
’میاؤں،میاؤں‘ کی آواز نے فضا میں گونج پیدا کی۔
”اوہ! تو یہ بلی تھی۔“ وقار کی جان میں جان آئی۔وہ کندھے اُچکاتے ہوئے اپنی منزل کی جانب بڑھنے لگا۔اس کا ہدف ایک لال چادر تھی۔
وقار،فیصل اور جمیل تینوں اچھے دوست تھے۔ وقار کی طبیعت لااُبالی تھی، اس کی فطرت میں ڈر نام کی شے کا وجود سرے سے ہی نہ تھا۔ سائنس کا اچھا طالب علم ہونے کی حیثیت سے وہ ہر عمل کو سائنسی نقطہ نظر پر پرکھتا تھا۔ وہ جنوں،بھوتوں کو محض دقیانوسی خیال گردانتا تھا۔ فیصل بھی کسی حد تک نڈر تھا مگر اس کا ماننا تھا کہ انسان سے تین گنا ایسی مخلوق ہے جو پُراسرار ہے، جہاں تک سائنس کی رسائی ممکن نہیں۔ رہا جمیل تو وہ جنات کے نام سے ہی کانپنے لگتا تھا۔ حتیٰ کہ سوتے میں بھی وہ بسترمیں سے منھ باہرنہ نکالتا۔
اتوار کا دن تھا۔ تینوں دوست ناشتے کے بعد اکٹھے ہوئے تھے۔ بات سے بات نکل رہی تھی۔ جنات کا ذکر آتے ہی ایک لمبی بحث چھڑ گئی۔ فیصل اور جمیل اسے ہر طرح سے قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر وقار اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔
”جن،بھوت سب قصّے کہانیوں کی باتیں ہیں یارو!حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ محض ایک وہم ہے جسے سادہ لوح عوام نے خود پر مسلط کر رکھا ہے۔“ وقار نے اپنا موقف پیش کیا تھا۔
”تمھیں سمجھانااور گدھے سے سائیکل چلوانا ایک برابر ہے۔“
فیصل نے طنزبھرے لہجے میں کہا۔
”تم لوگ مجھے کسی منطق سے قائل کرو،کوئی ٹھوس ثبوت سامنے لاؤتو میں بھی مانوں۔“وقار نے بحث ختم کرتے ہوئے کہا۔
”چلو ٹھیک ہے،آج ثبوت بھی تمھارے سامنے ہوگا مگر اس کے لیے تمھیں پرانے قبرستان کے اندر جاناہوگااور یہ لال چادر بڑے کیکر کے تنے سے کھول کر لانی ہوگی۔“ فیصل اپنے کندھے پر رکھی لال چادر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں بولا۔
پرانے قبرستان کا نام سنتے ہی جمیل پر لرزہ طاری ہو گیا۔
”پرانا قبرستان! تم لوگ ایویں الٹے پنگے میں گھس رہے ہو۔مجھے بخشو،میں تو چلا۔“
یہ کہتے ہی جمیل نے اپنے گھر کی راہ لی۔وقار نے خود اعتمادی کے انداز میں قہقہہ لگایااور وہ دونوں پرانے قبرستان کی جانب چل دیے۔
پرانا قبرستان زندہ انسانی آبادی سے قریباًڈیڑھ میل کی مسافت پرواقع تھا۔اس کی باؤنڈری وال کافی خستہ حال تھی۔اس قبرستان کا رقبہ مردہ اجسام کی آبادی سے بھر چکا تھا۔مزید قبر کھودنے کی گنجائش نہ ہونے کے سبب اسے ناقابلِ استعمال سمجھ کر زندہ آبادی کے عین قریب نئے قبرستان نے جنم لے لیا تھا۔پرانے قبرستان کے متعلق کافی پر اسرار باتیں مشہور تھیں،خاص طور پر اس میں موجودبڑاکیکر کا درخت آسیب کا ڈیرہ سمجھا جاتا تھا۔رات کیا دن میں بھی کوئی شخص اکیلے اس طرف نہ پھٹکتا تھا۔کئی بار اس درخت کو کاٹنے کی کوشش کی گئی مگر جو لوگ اس کوشش میں ملوث رہے،اُنہیں عجیب طرح کی بیماریوں نے گھیر لیا۔ کچھ تو زندگی کی بازی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔
پرانے قبرستان پہنچ کر فیصل اور وقار نے اردگرد کا جائزہ لیا اور پھر اس بڑے درخت کی جانب چل دیے۔فیصل نے اپنے ہاتھوں سے درخت کے تنے کے گرد چادر کو لپیٹا اور اسے کس کر باندھ دیا۔ وقار زیرِ لب مسکراتا ہوا یہ منظر دیکھ رہا تھا اور لطف اندوز ہو رہا تھا۔چادر باندھ لینے کے بعدفیصل نے وقار کی جانب دیکھا۔وہ اب بھی مسکرا رہا تھا،جیسے یہ سب ایک مذاق ہو۔
”ہنس لو…..خوب ہنس لو، شاید بعد میں ہنسنے کا موقع نہ ملے۔“
دن کے اجالے میں یہ عمل کر لینے کے بعد دونوں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔رات ہوئی تو فیصل نے وقار سے فون پر رابطہ کیا۔وہ پہلے ہی سے تیار تھا۔اب فیصل نے جمیل سے رابطہ کیا۔جمیل چادر اوڑھے لیٹا ہواتھا۔وہ موبائل کی اسکرین پر فیصل کا نام دیکھتا رہا مگر اُس نے فون نہ اٹھایا۔وہ جانتا تھا کہ فیصل دوستی کا واسطہ دے کر اسے قبرستان جانے پرمجبور کر لے گامگر وہ موت کو گلے نہیں لگانا چاہتا تھا۔ پھر فیصل اور وقار مقررہ جگہ پر ملے اور ایک ساتھ قبرستان کی جانب چل دیے۔خوف نے فیصل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا مگر وہ وقار کی ضد کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور تھا۔چلتے چلتے وہ قبرستان پہنچ گئے۔ قبرستان کا دروازہ دو حصوں پر مشتمل تھا۔ ایک حصہ جانے کیسے غائب ہو چکا تھا۔اب بس خستہ حال آدھا دروازہ ہی بچا تھا،جو کسی کام کا نہیں تھا۔
”یار! ایک بار پھر اپنے فیصلے پر غور کر لو۔“
فیصل نے ایک آخری کوشش کی مگر وقار اپنے مخصوص انداز میں مسکرایا اور نفی میں سرہلاتا ہوا قبرستان کے اندر داخل ہو گیا۔
قبرستان میں ہُو کا عالم تھا۔سب ہی ابدی نیند میں تھے۔اسے اپنے قدموں کی چاپ دوہری تہری سنائی دے رہی تھی۔بلی کی آواز سے وقار ایک پل کے لیے ٹھٹکا تھا مگر حقیقت جان لینے کے بعد اس نے اپنے اعصاب پر قابو پایااور منزل کی جانب قدم بڑھا دیے۔اب وہ کیکر کے بالکل قریب پہنچ گیا۔کیکرکو ٹٹولتے ہوئے وہ چادر ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھامگر چادر وہاں موجودنہیں تھی۔
”چادر کہاں جا سکتی ہے!“
وہ زیرِلب بڑبڑایا۔اچانک اس کے قدم کسی وجود سے ٹکرائے۔اس احساس کے زیرِاثر اس کا دل ڈانواں ڈول ہونے لگا۔اس کی سانس رکنے لگی،ہونٹ خشک اور ماتھا تر ہونے لگا۔یخ بستہ موسم میں وہ پسینے سے بھیگنے لگاتھا۔اعصاب پر اس کی گرفت ڈھیلی ہو گئی۔موبائل کی مدھم روشنی میں جب وقار اس وجود کو سمجھنے کے لیے جھکا تو اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ وہ وجود فیصل کا تھا۔اس سے پہلے کہ وقار اپنی سانسیں بحال کرتا،اسے حیرت کا دوسرا قدرے بڑا جھٹکا لگا۔فیصل کا وجود بے حس و حرکت تھااور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے خلا میں گھور رہا تھا۔’لال چادر‘ اس کی گردن کے گرد لپٹی ہوئی تھی۔فیصل کی آنکھیں ستاروں کی مانند ٹمٹما رہی تھیں۔ان میں اس قدر کشش تھی کہ کچھ لمحے کے لیے فیصل ان میں کھو گیااور محویت سے انھیں دیکھنے لگا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ رعنائی بھیانک انگاروں میں بدلنے لگی۔
اب تو وقار کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ اس سے قبل وقار نے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔اُس کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔وہ سمجھ گیا کہ اس نے بڑی بے وقوفی کردی۔اب مزید وہاں رکنااس سے بڑی بے وقوفی ثابت ہو سکتی تھی۔اس کے جی میں آیا کہ کاش بنا کسی منطق کے وہ قبرستان سے باہر پہنچ پائے۔آج سائنس اسے ایک مفروضہ دکھائی دینے لگی۔آیت الکرسی کا ورد کرتے ہوئے فیصل واپسی کے لیے مڑا مگرقدم اٹھنے کا نام ہی نہ لے رہے تھے۔جیسے تیسے وہ اس فاصلے کو سر کرنا چاہتا تھا۔واپسی کے لیے وہ اپنے قدم گھسیٹ ہی رہا تھا کہ یکایک اسے عقب سے فیصل کی شرارت بھری آواز سنائی دی،
”وکی یار!میں تو مذاق کر رہا تھا،تم تو ڈر ہی گئے۔رکو! اکٹھے باہر چلتے ہیں۔“
اس آواز میں شرارت کے ساتھ فریاد بھی شامل تھی۔
وقار کا ماتھا ٹھنکاکہ فیصل ایسا بھونڈا مذاق نہیں کر سکتا۔یہ کسی اور کی ہی کارستانی ہے۔ آیت الکرسی کے متواتر ورد سے وقار کے قدموں میں جان آگئی اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرنے لگا۔اسے پھر سے وہی آواز سنائی دی،
”کاش تم واپس پلٹ آتے….آہ…تم کیسے بچ گئے!“
اس بار آواز میں خاصا درد اور بے بسی تھی۔ وقار نہ رکا، قرآنی آیات اور دعائیہ کلمات اُس کے لبوں پر جاری رہے۔ بالآخر وہ صحیح سلامت قبرستان سے باہر پہنچ گیا۔باہر پہنچتے ہی اُس نے فیصل کی جانب عجیب سے انداز میں دیکھا، پھردہشت کے بوجھ سے وہ لڑکھڑا کر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔ یہ صورت حال دیکھتے ہی فیصل سارا معاملہ سمجھ گیا۔ وقار کی اِس حالت نے ثابت کر دیا تھا کہ اُس کا نظریہ دم توڑ چکا تھا۔