جواب: اردو میں ترقی پسند ناول کی روایت:
اردو میں ترقی پسند ناول کی روایت کو بیان کرنے کے لیے ہم اسے دو ادوار میں تقسیم کرتے ہیں پہلا دور قیام پاکستان سے قبل رومانی ترقی پسندانہ ناولوں کا مختصر جائزہ ہے اور دوسرا دور قیام پاکستان کے بعد رومانی اور ترقی پسندانہ ناول۔
قیام پاکستان سے قبل رومانی ترقی پسندانہ ناول:
قیام پاکستان سے قبل رومانی ناول نگاروں میں سجاد حیدر یلدرم نیاز فتح پوری عظیم بیگ چغتائی مجنوں گورکھپوری وغیرہ کے نام آتے ہیں۔شرر کا رومان یا ان کی رومانیت عام طور پر تاریخ سے وابستہ تھی نیاز فتح پوری سجاد حیدر یلدرم مجنوں گورکھپوری راشدالخیری عظیم بیگ چغتائی قاضی عبدالغفار وغیرہ کا رومان عشق و محبت کے جذبات اور کا حسن اس سے حقیقی محبت جس میں افلاطونی محبت بھی شامل ہے۔وفاداری عورت کے دم سے تصویر کائنات میں رنگ رنگ قرب وصال اور دوری مہم جوئی خیر و شرکا بھی ان سب میں داخلی ہے۔
سجاد حیدر یلدرم:
سجاد حیدر یلدرم نے چونکہ سفارتی ذمہ داریوں کے تحت ترکی میں خاصا وقت گزارا اور انہوں نے ترکی زبان سیکھیں تو اس کا اثر یہ ہوا کہ ترکی ادب میں رومانوی تحریک کی اردو میں ترجمہ ہو کر سامنے آئیں۔یلدرم کے رومانی قصے خارستان، گلستان اور شیرازہ روزہ میں زبان کی رنگینی اور داستانی ماحول ہے۔ ان کا ناول ثالث بالخیر تضاد نہیں بلکہ ایک ترکی ناول کا ترجمہ ہے اور اس زبان اور مندرجہ بالا موضوعات کا احاطہ میں کیا گیا ہے۔
مصور غم:
راشد الخیری جنہیں مصور غم کہا جاتا ہے ہے اور جنہوں نے عورتوں پر اٹھائے جانے والے ظلم کو مختلف جہات کے ساتھ اپنے ناولوں میں احاطہ کیا ہے ہے رومانی طرز حساس والے ناول بھی تصنیف کر چکے ہیں۔احسنو میمونہ اور صالحات ان کے رومانی ناول ہیں ڈپٹی نذیر احمد سے عقیدت کی بنا پر پر بقول ڈاکٹر مسعود رضا خاکی انہوں نے دوسرا رنگ اختیار کر لیا تھا یعنی عورتوں کی داد رسی کا سامان اپنے ناولوں میں کرنے لگے تھے۔
عشقیہ حرکات و سکنات:
عظیم بیگ چغتائی نے گھرانوں کے نوجوانوں کی عشقیہ حرکات و سکنات اور اچھل کود کا احاطہ کیا ہے ان کے ہاں واقعات اور ان کی جزئیات بے تحاشا پائی جاتی ہیں ہیں ان کے مختصر کینوس کے ناول یہ ہیں ہیں ان میں مہم جوئی کے ساتھ ساتھ مزاح کا پہلو نمایاں ہیں اور تخلیقیت کی بھی کمی ہے۔
کولتار چمکی شری روی شنکر دوری فلائٹ کمزوری ومپائر واضح رہے کہ ان کی تخلیقی قوت سے زیادہ تخیل نمایاں ہیں۔
ہجر و وصال کا بیان:
نیاز فتح پوری کی مرسڈیز زبان اور ہجر و وصال کا بیان اردو ادب کا قابل ذکر حصہ ہیں ان کے دور معنی ناول شہاب کی سرگزشت اور شاعر کا انجام شاعرانہ فلسفیۃ شاعرانہ نثر نگاری کی اعلی مثال ہیں۔ دونوں میں نیم فلسفی نوجوانوں کی داستان حیات ہے مگر فنی اعتبار سے یہ کوئی بلند پایہ تصنیف نہیں ہیں۔
مجنوں گورکھپوری:
مجنوں گورکھپوری کا ناول زیدی کا حشر سمن پوش اسی قبیل کی رومانی ناول ہیں قیام پاکستان سے قبل پریم چند کے ناول بالخصوص اور عصمت چغتائی سجادظہیر عزیز احمد کرشن چندر وغیرہ کے ناول بالعموم اس تحریک کے حوالے سے قابل ذکر ہیں۔
پریم چند کے کردار:
پریم چند کے کردار مثالی ہیں وہ رحمانی طرز احساس کے ساتھ حقیقت کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔پریم چند کی انسانی دوستی کے قابل ذکر ہیں ان کے ناول یہ ہیں ہیں ہم خرما و ہم ثواب جلوہ ایثار بازارحسن بہ گوشہ عافیت نرملا انبن چوگان ہستی اسرار معابد میدان عمل گودان جان منگل ستروغیرہ۔
فنی و فکری پختگی:
فنی اور فکری پختگی کے اعتبار سے میدان عمل اور دیو دان کے نام عام طور پر لے جاتے ہیں رمضان کے ہاں مقصدیت نمایاں ہیں جو ترقی پسند ادب کی ایک جہد ہے دہی زندگی کی پیشکش کے لئے بھی ان کا نام نمایاں ہیں۔
عصمت چغتائی:
عصمت چغتائی کے ناولوں جدی ٹیڑھی لکیر میں قیام پاکستان سے قبل جنم لیا یا ان میں ٹیڑھی لکیر انسانی نفسیات کی کنجی کے حوالے سے زیادہ مشہور ہے ان کے باقی پانچ ناول قیام پاکستان کے بعد منظر پر آئے۔
سجاد ظہیر:
سجاد ظہیر کا مختصر ناول لندن کی رات ہندوستانی لوگوں کے لندن میں قیام اپنے ملک کی عوام کی پسماندگی اور بیڈ زندگی پر سوچ و بچار کے حوالے سے شعور کی رو کی تکنیک میں لکھا گیا یا قابل ذکر ناول ہے۔
عزیز احمد کے ناول:
عزیز احمد کے دو مختصر ناول ہوس مرمر اور خون اور مکمل ناول گریز آگ قیام پاکستان سے قبل سامنے آئے البتہ ایسی بلندی ایسی پستی قیام پاکستان کے وقت منظر عام پر آیا عزیز احمد ناول کی دنیا کے اہم فرد ہیں۔
کرشن چندر:
کرشن چندر ناول نویس اور افسانہ نگار تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ان کا قابل ذکر ناول شکست ہے، بعد میں انہوں نے جو ناول لکھے وہ پاکستان سے ذرا پہلے سے لے کر چھٹی ساتویں دہائی تک وجود میں آئے تھے شکست میں اشتراکی پروپیگنڈے میں اس ناول کو دھندلا دیا تھا انہوں نے مجموعی طور پر 30 32 کے قریب ناول لکھے تھے کچھ جعلی ناول بھی ان کے نام سے شائع ہوئے۔
ان کا کا اثر و نفوذ بحیثیت افسانہ نگار جاتا ہے۔ ان کے ناول کا تااور لے یہ دوڑی کی مثال ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد رومانی….ترقی پسندانہ ناول:
قیام پاکستان کے بعد عزیز احمد کا ناول ایسی بلندی ایسی پستی جس کی گونج صحیح معنوں 1948ء میں سنی گئی وہ قول نقاد حسن عسکری اردو کا اجتماعی ناول ہے۔انہوں نے ناول شبنم لکھنے کے بعد ناول نگاری سے علیحدگی اختیار کر لی وہ گریز اور ایسی بلندی ایسی پستی کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔
جرائم کی دنیا کا منظر نامہ:
شوکت صدیقی کا ناول خدا کی بستی اس زمانے کے کراچی اور ہجرت کر کے آتے ہوئے خانماں برباد مفلس حاجت مند اور غربت کی ستم کاریوں کے تحت جرائم کی دلدل میں پھنس کر اپنی عاقبت برباد کرنے اور سفید پوش لوگوں کے خفیہ جرائم، شہری جرائم کی دنیا کے مجموعی منظرنامے کو پیش کرتے ہیں۔ ان کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ پاکستان ٹی وی پر یہ دونوں مرتبہ اپنی ڈرامائی تشکیل کے دوران مقبول ڈرامہ گردانہ گیا۔
نویں دہائی میں دہی ہنڈرڈ یعنی جمشید دارانہ ظلم و استحصال پر مبنی جرائم تین جلدوں میں ان کے ناول جلوس نے شوکت صدیقی کے قد قامت میں اضافہ کیا۔اردو ناول کی وہ ان ویٹسیپ ہیں ان کا ایک معاشرتی ناول چار دیواری بھی اشاعت کی منزل سے گزر چکا ہیں۔خدیجہ مستور کا ناول آنگن اردو کے ان چند لوگوں میں شامل ہے جن سے اس صنف ادب کی حرمت قائم ہے۔فاروقی نے یہ کہہ کر خراج تحسین پیش کیا کہ اس کے معجزے سے فلسفہ پھوٹتا ہے تقریبا تمام ہی فنکشن نقادوں نیآنگن کو سراہا ہے۔
مرز ا ادیب:
مرزا ادیب مرحوم جنہوں نے روانی فنکار کی حیثیت سے صحرا نورد کے خطوط اور صحرا ذرا نورد کے رومان جیسی تحریروں سے پورے برصغیر میں تہلکہ مچا دیا تھا ڈرامے بچوں کے ادب اور دوسرے اصناف ادب میں نام کمایا1988ء میں ان کا ایک ناول لمحوں کی راک سامنے آیا اس پر ان کے شایان شان بحث کا سلسلہ ضروری ہے ہے یہ ایک ترقی پسندانہ ناول ہے منٹو نے مختصر ناول بغیر عنوان کے لکھا تھا مگر ان کی افسانہ نگار حیثیت مسلم ہے یہ ناول ان کی توقیر میں اضافہ نہیں کرتا۔
محمد خالد اختر کا فنتسیانی ناول چاکیواڑہ میں وصال ترقی پسندانہ ذہنیت کا حامل ہے۔
الطاف فاطمہ:
الطاف فاطمہ کے ناول و نشان محفل دستک نہ دو اور چلتامسافر اکرام بریلوی کے ناولوں لاوا الصراط اور عشرا رضیہ فصیح احمد کے ناولوں اگلا یہ خواب سارے صدیوں کی زنجیر فضل احمد کریم فضلی کے ناولوں خون جگر ہونے تک ک سحر ہونے تک ک گلام عبّاس کے مختصر ناول گوندنی والا تکیہ نثار عزیز بٹ کے ناولوں نگری نگری پھرا مسافر نے چراغے نے گلے کروانے وجود علی پور کا ایلی اور علی پور لکھ نگری کریں ہم ترقی پسند تحریک کے زیر اثر تصنیف شدہ ناول قرار دیتے ہیں۔خواہ ان کی تحریر کرنے والوں نے اس تحریک کی حمایت کی ہو یا نہ کی ہو میں بہت دور تک محسوس کیے جاتے ہیں مگر ہو سکتا ہے کہ یہ نقطہ بہتوں کے لیے متنازع ہو جس پر بحث کی جا سکتی ہے۔
عشقیہ ناول:
رومانی ناولوں کی ایک علیحدہ قسم بھی ہے جسے عام طور پر خواتین تحریر کرتی ہیں۔ ان میں زندگی کی بصیرت کی تلاش بے سود ہے۔ یہ مقبول عام رومانی عشقیہ ناول ہوتے ہیں جوقاری کے عام سے جذبات کو متلاطم کرتے ہیں مگر ان کو کسی فکر یا علی سوچ سے ہمکنار نہیں کرتے ان میں زندگی کی تیز وطن اور تلخ سچائیوں سے آنکھیں چار کرنے کا جذبہ نہیں ملتا ان کے واقعات اور حیرت انگیز طور پر یکساں ہوتے ہیں اور ان میں مکالمے جذبات اور رومانی انداز کے ملتے ہیں جس سے عام کمرشل فلموں میں رومان پسند عورتیں اور مرد کالج اسکول کے طالبعلم شامل ہیں۔ایسے ادیبوں میں رضیہ بٹ اور ان جیسی دیگر خواتین اور فیاض علی ہیں جنہوں نے انور اور شمیم نامی ناول پیش کیے تھے کیسی رامپوری بھی اسی صف کے سپاہی رومانی ناولوں میں خانگی جھگڑے اور مرد و زن کے اختلافات اور کھنچاؤ کی بھی عکاسی ہوتی ہیں۔
ہیرو کے کارنامے:
رومانی ناول کی ایک جہد جاسوسی ناول بھی ہے جس میں ہیرو کے کارنامے جاسوسی کے حوالے سے قاتلوں ڈاکوؤں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کو تلاش کرکے کیفرکردار تک پہنچانے کا ماجرہ پایا جاتا ہے ہے مظفر عمر زبیر صاحب کی نیلی چھتری بہرام کی گرفتاری وغیرہ اور ابن صفی کے جاسوسی ناول اس کے اعلیٰ مثالیں ہیں ان ناولوں کی مقبولیت بھی اس طبقے میں پائی جاتی ہیں ان میں بھی زندگی کی کوئی بصیرت یا ویژن نہیں ملتا مگر چونکہ یہ سنسنی خیز واقعات و اعمال سے بھرپور ہوتے ہیں اس لئے معاشرے میں ان کی بھی کھپت ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ جاسوس اور عام سے رومانی ناول ادب عالیہ میں شمار نہیں ہوتے۔
……٭……