واپسی…تنزیلہ یوسف

”اؤے رک!تیری تو…(گالی) تیری ہمت کیسے ہوئی میری امی کے بارے میں اس طرح سے بات کرنے کی!“عاطف اڑ کر سلیم تک پہنچا اور گریبان سے کھینچتے ہوئے بولا۔
”میرا مال کھاتے ہو اور مجھے ہی باتیں سناتے ہو۔“عاطف کے منہ سے سلیم کے لیے مغلظات نکلنا شروع ہوگئیں۔
”تیرا مال کہاں سے آگیا؟ ابا کی کمائی ہے تو کھلا رہا ہے، اپنا مال کون کھلاتا ہے؟مال مفت دل بے رحم۔“سلیم نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا۔
”اؤے شہزادے کیوں ٹمپر لوز کرتا ہے؟ چھوڑ، اس سے تو میں نپٹتا ہوں۔“ عدیل نے ایک دم سے معاملہ گرم ہوتا دیکھا تو فوراً سے پیشتر پینترا بدلا۔
”ابے تیری یہ مجال کہ تو آنٹی جی اور انکل جی کے بارے میں اس انداز سے گفت گو کرے۔ بھول گیا کتنے احسانات ہیں ہم پر عاطف جگر کے؟“عدیل سلیم کو گھرکتے ہوئے بولا ساتھ ہی اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کردیا۔
”اور تو نے کیا بولا تھا مجھے؟ یو… پیمپرڈ چائلڈ؟{{عاطف نے قہر برساتی نظروں سے عدیل کو گھورا اور عدیل کو اپنا خون خشک ہوتا محسوس ہوا۔ یہ وہ خاموش خاموش سا عاطف تو نہیں تھا جو یاروں پر جان چھڑکتا تھا۔ یہ تو کوئی اور ہی عاطف تھا جس سے کم ازکم عدیل اور سلیم تو واقف نہیں تھے۔

…………

”عاطف…میرا بچہ…آگیا تو؟“صفیہ نیند میں باتیں کرنے لگی۔ ضمیر احمد کی تو پہلے ہی نیندیں روٹھ چکی تھیں، صفیہ کی حالت دیکھ کر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
آنسوؤں نے گال بھگو ڈالے تو ایک دم چونک اٹھے۔
”کون کہتا ہے مرد نہیں روتے؟ جن کی جوان اولاد نافرمان ہو وہ باپ ساری عمر روتے ہیں۔“

…………

موبائل بپ نے ضمیر احمد کو ایک دم سے حقیقت کی دنیا میں لاکھڑا کیا۔
”اس وقت کس کی کال ہوسکتی ہے؟“خودکلامی کے انداز میں بولے اور کال ریسیو کرلی۔
”آپ ضمیر احمد ہیں؟“دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
”جی بول رہا ہوں۔“
”فوراً ماڈل ٹاؤن تھانے پہنچ جائیں۔“ پوری بات سنے بنا ہی دوسری طرف سے اطلاع دیتے ہی کال منقطع کردی گئی۔
وہ خدشات میں گھرے کتنی دیر موبائل ہاتھ میں لیے بیٹھے رہ گئے۔

…………

”دیکھیں بزرگو! میں اس طرح کسی کے گھر والوں کو زحمت نہیں دیتا، اس طرح کے کیس ہینڈل کرناایس ایچ او مولا بخش کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔“ایس ایچ او نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔
”مگر اس کے چہرے مہرے سے لگتا ہے کہ کسی شریف گھرانے کا بگڑا بچہ ہے، اسی لیے آپ کو اتنی رات گئے زحمت دی۔ ایسے کاکے تو یہ میرے ایک لتر کی مارنہیں، فرفر وہ وارداتیں بھی قبولتے ہیں جو انھوں نے کی ہی نہیں ہوتیں۔آئیں میں آپ کو دکھاتا ہوں اس نے اپنے یاروں کی کیا حالت کی ہے۔ جس محلے میں یہ کرائے پر کمرہ لے کر رہ رہے تھے ادھر کے لوگوں کی شکایت پر ہم نے چھاپہ مارا، یہ اپنے سے دوگنی طاقت کے لڑکوں کی درگت بنارہا تھا۔ محلے والوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے دو مہینے پہلے اس علاقے میں کمرہ کرائے پر لیا تھا۔ آئے دن شراب پی کر غل غپاڑہ مچاتے اور آس پاس کے رہنے والوں کو پریشان کرتے۔“
”کیوں بھئی کاکے! کیوں مارا تو نے انھیں؟“ایس ایچ او نے بات کرتے کرتے عاطف سے پوچھ لیا۔
”وہ جج…جج…جی…میری امی کے متعلق…“
”لعنت تیری غیرت پہ…اؤے یہ غیرت تب کدھر تھی جب ماں کا زیور بیچ بیچ کر یاروں کو عیش کرارہا تھا؟ تب کیا اس غیرت نے بھنگ چڑھائی ہوئی تھی؟“ ایس ایچ او عاطف کی پوری بات سنے بنا ہی غصے میں آگیا۔
”میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں، آپ اسے چھوڑ دیں۔ اس کی ماں اس کی جدائی میں بستر سے لگ گئی ہے۔ وہ یہ بھی بھول گئی ہے کہ اس کا لاڈلا گھر میں نقب لگا گیا ہے۔ بس یاد ہے تو یہی کہ عاطف آجائے کہیں سے۔“ ضمیر احمد نے ایس ایچ او کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
”او بزرگو! نہ کرو اینج…“ ایس ایچ او نے بڑھ کر ضمیر احمد کے بندھے ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
”اس ناخلف کو سزا ملنی ہی چاہیے۔ بڑے بوڑھوں سے سنتے آئے ہیں کہ بچوں کو سونے کا نوالہ دو تو شیر کی آنکھ سے دیکھو بھی۔“تھانے دار کی بات ضمیر احمد کو زمین میں زندہ گاڑنے کو کافی تھی۔ نظریں بے اختیار زمین پر بیٹھے عاطف کی جانب اٹھ گئیں۔ کیا نہیں تھا ان نظروں میں؟
بے بسی…غصہ…ملامت…خودترسی…بڑھاپے پر ترس کھانے کی التجا…

…………

”بابا! مجھے یہ والی گاڑی چاہیے۔“پانچ سالہ عاطف نے میگزین میں ایک تصویر پر ہاتھ رکھ دیا۔
”عاطف بیٹا! میں آپ کو کوئی اور کھلونا لے دوں گا، یہ بہت مہنگی گاڑی ہے۔“ضمیر احمد نے بیٹے کو پیار سے سمجھایا۔
”لے دیں نا، وہ اگر پہلی بار کچھ مانگ رہا ہے تو۔“صفیہ نے بیٹے کی حمایت کی۔
”میں اس کی ساری ضروریات پوری کرتا تو ہوں، پھر بھی آپ کہتی ہیں کہ پہلی بار کچھ مانگا ہے۔“ضمیر احمد کو حقیقتاً بیوی کی سوچ پر دکھ ہوا تھا۔
”اور پہلی بار آخری بار تو نہیں ہوتی نا۔ ایک بار جا کے ساتھ بے جا کا در کھل جائے تو بند کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی عمر ہے اسے جیسے سمجھائیں گے یہ معصوم سمجھ جائے گا۔“
”آپ بھی نا، حد کرتے ہیں۔ ایک کھلونا گاڑی ہی تو مانگی ہے کوئی تارے توڑ لانے کو تو نہیں کہا نا!“ صفیہ دور اندیش نہیں تھی بلکہ حال میں رہ کر مستقبل برباد کرنے والوں میں سے تھی۔ ضمیر احمد اس کی بات پر چپ ہوگئے۔ جب عورت سمجھنا نہ چاہتی ہو تب اس کے پاس ڈھیروں تاویلیں دھری ہوتی ہیں۔ اس نے بحث کی بجائے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔

…………

”بابا! مجھے ریموٹ کنٹرولڈ ایرو پلین چاہیے۔“دس سالہ عاطف نے ضمیر احمد کو اپنی نئی فرمائش بتائی۔
”ابھی دو دن پہلے تو آپ نے اپنی مرضی سے واٹر شپ لی تھی، اب پھر سے نئی فرمائش؟“ضمیر احمد نے عاطف کو یاد دلایا۔
”وہ ٹوٹ گئی ہے۔“عاطف بڑے آرام سے بولا۔
”لیکن کیسے؟ وہ تو اتنی مہنگی آئی تھی، آپ نے اسے توڑ دیا۔“ضمیر احمد کو عاطف کی بات پر ایک دم سے غصہ آگیا۔ ”روپیہ پیسہ درختوں پر تھوڑا لگتا ہے جو آئے دن برباد کیا اور نئی فرمائش پوری کروالی۔“
”افوہ بابا! آپ بھی نا، پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں۔ ایک ایرو پلین ہی تو مانگا ہے، آپ پتا نہیں کیوں اتنا غصہ کررہے ہیں؟“عاطف پیر پٹختا ماں کے پاس چلا گیا اور ضمیر احمد جانتے تھے کہ عاطف اپنی ضد ماں کے ذریعے پوری بھی کروالے گا۔

…………

”بابا! میں نے بائیک لینی ہے۔“پندرہ سالہ عاطف باپ کے دوبدو کھڑا تھا۔
ضمیر احمد نے ایک نظر اسے دیکھا، انہیں اپنے کندھے جھکے ہوئے لگے۔
”آپ کے پاس سپورٹس بائیسکل ہے نا!“ انھوں نے کمزور آواز میں کہا۔
”وہ…اولڈ فیشنڈ بائیسکل…آپ اسے سپورٹس بائیسکل کہہ رہے ہیں۔ کس دنیا میں رہتے ہیں بابا؟“عاطف کے پاس اپنی ضد پوری کروانے کے سو عذر ہوتے تھے۔
”ابھی نہیں دلا سکتا۔“
”کیوں نہیں دلا سکتے آپ؟“عاطف اب بہت بدتمیز ہوتا جارہا تھا۔
”پچھلے ہفتے آپ نے کمپیوٹر لیا ہے، انٹرنیٹ لگوانے پر الگ خرچہ ہوا ہے۔ اب آپ بائیک مانگ رہے ہیں۔“ ضمیر احمد کو لگا وہ وقت سے پہلے ہی بوڑھے ہوگئے ہیں عاطف کی بے جا فرمائشیں پوری کرتے کرتے۔
”نہ لے کر دیں، میں امی سے کہہ دوں گا۔“ غصے میں پیر پٹختا ماں کے پاس چلا گیا اور یہ اس کا پرانا اور کارآمد حربہ تھا۔

…………

”عاطف! ادھر آؤ! میری بات سن کر سونے جانا۔“ضمیر احمد رات گئے گھر واپس آنے والے اٹھارہ سالہ عاطف سے بولے۔
”اوہ بابا! آپ سوئے نہیں ابھی تک؟ سوجائیں میں بھی تھکا ہوا ہوں۔“عاطف نے ضمیر احمد کی بات یک سر نظر انداز کردی اور دھپ دھپ کرتا، سیڑھیاں چڑھتا اوپری منزل پر بنے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

…………

”امی مجھے پانچ لاکھ روپے چاہییں۔ آپ بابا سے بات کریں۔“عاطف جو ہمیشہ لیتا ہی آیا تھا، آج منہ پھاڑے اتنی بڑی رقم کا مطالبہ کررہا تھا۔
”اتنی بڑی رقم کا کیا کرو گے؟“صفیہ نے پہلی بار بیٹے سے استفسار کیا۔ اس سے پہلے وہ ہمیشہ اس کی بے جا ضد پوری کروانے میں اس سے دوقدم آگے ہی رہتی۔ اکلوتی اولاد بھی کبھی کبھی آزمائش ہی ثابت ہوتی ہے۔
”میں سلیم اور عدیل کے ساتھ مل کر کاروبار کرنا چاہتا ہوں۔“ عاطف نے اپنی طرف سے ماں کو بہلاوے کا لالی پاپ تھمایا۔
”وہ لفنگے…تم ان کے ساتھ کاروبار کرو گے؟“صفیہ کو شدید حیرت نے آلیا۔
”امی وہ میرے دوست ہیں۔ آپ مجھ سے ان کے بارے میں اس طرح سے بات نہیں کرسکتیں۔ آپ بابا سے کہیں کہ مجھے پانچ لاکھ روپوں کا انتظام کرکے دیں۔“عاطف اپنی نئی فرمائش پوری کرنے کا کہہ کر اپنے کمرے میں بند ہوگیا اور صفیہ کو پہلی بار احساس ہوا کہ اب تک جو ہوتا آیا ہے غلط تھا۔

…………

ضمیر احمد کو اس کی نئی ضد کا پتا چلا تو صاف انکار کردیا، ہونا بھی یہی چاہیے تھا مگر عاطف کو لیتے رہنے کی عادت پڑ چکی تھی، کسی بھی طرح سے…
دو دن بعد عاطف گھر سے ماں کا زیور اور جتنی بھی جمع پونجی ہاتھ لگی، لے کر چلتا بنا اور مڑ کر نہ دیکھا کہ پیچھے ماں باپ اس کی جدائی کے غم میں گھلتے جارہے ہیں۔ ضمیر احمد نے تو اپنے اوپر خاموشی کا غلاف چڑھالیا تھا مگر صفیہ اس کے جانے کے بعد بستر سے لگ گئی۔

…………

”آج دو مہینے ہوگئے ہیں گھر سے نکلے۔“عاطف دیوار سے ٹیک لگائے حساب کتاب میں لگا ہوا تھا۔
”عدیل! اب کیا ہوگا؟ اب تو سارے پیسے ختم ہوگئے ہیں۔“سلیم نے عاطف کے والٹ کو جھاڑنے والے انداز میں الٹا کردیا۔
”یہی تو میں بھی سوچ رہا ہوں۔“عدیل پریشانی سے بولا۔ اس کی نظریں بھٹکتی ہوئی دور بیٹھے عاطف پر جاکر رک گئیں۔
”کیا ہوا شہزادے! اداس لگ رہا ہے۔“عدیل نے عاطف سے پوچھ لیا، لیکن ایسا لگتا تھا کہ عاطف حاضر ہوکر بھی حاضر نہیں۔ وہ بظاہر اسی کمرے میں عدیل اور سلیم سے کچھ فاصلے پر مگر ذہنی طور پر کہیں دور خیالوں میں گم تھا۔
”کیا ہوا، کہیں مما تو یاد نہیں آرہیں؟ چہ چہ چہ…ماماز بوائے…“سلیم نے بات کو مزاح کا رنگ دیا۔
”یو پیمپرڈ چائلڈ…“عدیل نے بھی تمسخر اڑایا۔ ان دونوں کی باتیں عاطف کو ہوش میں لانے کو کافی تھیں۔ ایک جھٹکے سے جھکا ہوا سر اٹھا کر اس نے دونوں کو شرر بار نظروں سے گھور کر دیکھا۔
”اؤے رک!تیری تو…(گالی) تیری ہمت کیسے ہوئی میری امی کے بارے میں اس طرح سے بات کرنے کی!“عاطف اڑ کر سلیم تک پہنچا اور گریبان سے کھینچتے ہوئے بولا۔
”میرا مال کھاتے ہو اور مجھے ہی باتیں سناتے ہو!“عاطف کے منہ سے سلیم کے لیے مغلظات نکلنا شروع ہوگئیں۔
”تیرا مال کہاں سے آگیا؟ ابا کی کمائی ہے تو کھلا رہا ہے، اپنا مال کون کھلاتا ہے؟مال مفت دل بے رحم۔“سلیم نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا۔
”اؤے شہزادے! کیوں ٹمپر لوز کرتا ہے؟ چھوڑ، اس سے تو میں نپٹتا ہوں۔“عدیل کو معاملہ گرم ہوتا دکھائی دیا تو فوراً سے پیشتر پینترا بدلا۔
”ابے تیری یہ مجال کہ تو آنٹی جی اور انکل جی کے بارے میں اس انداز سے گفت گو کرے۔ بھول گیا کتنے احسانات ہیں ہم پر عاطف جگر کے؟“عدیل سلیم کو گھرکتے ہوئے بولا ساتھ ہی اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کردیا۔
”اور تو نے کیا بولا تھا مجھے…؟ یو… پیمپرڈ چائلڈ…؟“عاطف نے قہر برساتی نظروں سے عدیل کو گھورا اور عدیل کو اپنا خون خشک ہوتا محسوس ہوا۔ یہ وہ خاموش خاموش سا عاطف تو نہیں تھا جو یاروں پر جان چھڑکتا تھا۔ یہ تو کوئی اور ہی عاطف تھا جس سے کم ازکم عدیل اور سلیم تو واقف نہیں تھے۔

…………

”بابا پلیز مجھے معاف کردیں۔ آئندہ کبھی آپ کو مجھ سے شکایت نہیں ہوگی۔“عاطف آنسوؤں سے بھرا چہرہ لیے ضمیر احمد کے سامنے حرفِ ندامت بنا کھڑا تھا۔ تھانے سے واپسی ٹرانس کی سی کیفیت میں ہوئی لیکن جیسے ہی گھر کی دہلیز پر قدم رکھا، وہ جیسے ہوش میں آگیا۔ پچھلے دو ماہ فاسٹ موشن میں نظروں کے سامنے سے گزرے تو حال پر نگاہ ندامت بھی پڑی۔
”آپ جو کہیں گے اور جیسا کہیں گے میں اب وہی کروں گا۔ میں بھول گیا تھا کہ میں آپ دونوں کے بنا کچھ بھی نہیں۔ میں خود کو بہت عقل مند گمان کرنے لگ گیا تھا۔“
”اگر تمھیں اپنی غلطیوں پر واقعی ندامت ہے تو یہ ثابت کرو کہ تم اب پہلے والے لاپروا عاطف نہیں ہو۔ اپنی ذمے داریوں کو سمجھو اور زندگی میں ٹھوکریں کھا کر تجربہ حاصل کرنے کی بجائے دوسروں کے تجربات کو مشاہدے میں لاؤ۔ اپنی ذات کو تجربہ گاہ بنائے رکھنے سے ان تجربات سے ملنے والے سبق سے استفادہ کرنے کے لیے ان پلوں کے محتاج ہوگے جو اب ہیں مگر ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ میری ریٹائرمنٹ کے دن قریب آرہے ہیں۔ اگر تم ذمہ دار ہونے کا ثبوت دینے میں کامیاب ہوگئے تو میں اپنے آفس میں تمھارے لیے بات بھی کرسکوں گا۔ اپنی ادھوری تعلیم مکمل کرو اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل بنو۔ میری دعائیں ہمیشہ تمھارے ساتھ ہیں۔“
”آپ نے مجھے معاف کردیا ہے نا؟“عاطف کے لہجے میں نمی تھی۔
”ہاں میں نے تمھیں معاف کردیا ہے، جو ہوا اسے بھیانک خواب سمجھ کر بھول جاؤ۔“ضمیر احمد نے اسے گلے لگاتے ہوئے ایک نظر بے خبر سوتی صفیہ پر ڈالی اور عاطف کی پیشانی چوم لی۔

٭

Leave a Comment