سفرِ مسلسل…سید خرم عباس

یہ سردیوں کی ایک خنک صبح تھی۔ ہلکی ہلکی دھوپ اُس کے چہرے پہ بہت بھلی لگ رہی تھی۔ وہ ابھی ابھی اپنے نرم بستر سے اٹھ کر دھوپ پہ پڑی کرسی پہ آ کر بیٹھا تھا۔اُس نے اپناموبائل سامنے پڑی چھوٹی سی میز پہ رکھ دیا۔بظاہر وہ جاگ رہا تھا لیکن اُس کے اعصاب سوئے ہوئے تھے۔ہلکی ہلکی دھوپ اُس کی کاہلی میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔اتنے میں موبائل بجا اور دوسری طرف سے ایک انجان شخص کی آواز سنائی دی:”آپ کے چچا’حاجی‘ کا ایکسیڈنٹ ہو گیاہے۔“
یہ خبر تھی یا بم، اُس کے سوئے ہوئے اعصاب جھٹ سے جاگ گئے۔ ساری سستی پل میں غائب ہو گئی۔وہ برق رفتاری سے بائیک کی جانب لپکا اور پلک جھپکنے کی دیر میں گلی کی نکڑ سے اوجھل ہو گیا۔ جائے حادثہ پر اُس کے پہنچنے سے پہلے ہی سرکاری امدادی ٹیم آ چکی تھی۔ گاڑی اس قدر شدید لگی تھی کہ کئی لمحوں تک وہ خود اپنی گاڑی کی پہچان نہ کر سکا۔ بہت سے لوگ بھی اب وہاں جمع ہو چکے تھے۔سرکاری ٹیم کے ارکان کی مدد سے اس کے چچا کو سٹریچر پر لٹا رہے تھے۔وہ بے حس و حرکت کھڑا تھا۔
چچا کا سفید ڈاڑھی سے سجا چہرہ، کشادہ پیشانی، سر پر حاجیوں والی مخصوص ٹوپی، عمر ڈھلنے کے باوجود سرخ اناروں جیسے رخساراور چہرے پر ہمہ وقت رہنے والی ایک خاص مسکراہٹ….اُس کی نظروں کے سامنے سحر طاری کر دینے والا وہی چہرہ گھومنے لگا۔ وہ ماضی کی یادوں میں کھوتا چلا گیا۔
حاجی صاحب روزانہ صبح سویرے اپنی گاڑی لے کر منڈی جاتے تھے۔ ان کے ساتھ گاؤں کے چند سبزی و پھل فروش اور ٹھیلے والے منڈی جاتے تھے۔ منڈی میں مسلسل کئی سالوں کی آمد ورفت کے باعث قریباً سبھی دکاندار اور مزدور ان کے شناسا ہو گئے تھے۔ ذرا سی دیر میں وہ ان کی گاڑی کو طرح طرح کے لفافوں سے بھر دیا کرتے۔اس دوران چچا حاجی ایک ادھیڑ عمر چائے والے سے چائے پیتے اور پھر لدی لدائی گاڑی کو لیے اپنے گاؤں کی جانب چل دیتے۔
جاڑا ہوتا یا گرمی،وہ وقت کی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھتے۔صبح نو بجے کے قریب وہ سبھی لوگوں بالخصوص دکانداروں کوا ن کے مقررہ مقام پر چھوڑتے جاتے۔گاؤں کی خواتین بچوں کو سکول روانہ کرنے کے بعد حاجی صاحب کی منتظر ہوتی تھیں۔حاجی صاحب شہر سے لوٹتے ہی وہ تمام اشیائے ضروریہ اُن خواتین تک پہنچاتے،جو اُنھیں پرچیوں کی صورت میں موصول ہوا کرتی تھی۔چند بڑے دکاندار صرف پرچی اور پیسے حاجی صاحب کے حوالے کر دیا کرتے تھے اور حاجی صاحب ناک چڑھائے بغیراُن کا مال شہر سے لیتے آتے۔ کبھی کبھی تو پرچیوں کی پوری ڈھیری بن جایا کرتی تھی مگر مجال ہے جو اُن کے ماتھے پر کبھی شکن نمایاں ہوئی ہو۔
شہر سے گاؤں آتے ہی دکاند اروں کامال مع بقایا جات اُن کے حوالے کرنا اور محلے کی خواتین کی اشیا ان کے گھر تک پہنچانا تو جیسے اُن کے فرائض میں شامل تھا۔ ان فرائض سے سبکدوش ہونے کے بعد حاجی صاحب جیسے ہی اپنے گھر میں داخل ہوتے تو ایک ننھا سا بچہ شدت سے اُن کامنتظر ہوتا۔ وہ جھٹ سے اُن کی گود میں بیٹھ جاتا اور اپنے تئیں گاڑی چلانے کی کوشش کرتا۔ حاجی صاحب مسلسل اُس ننھے بچے کو پدرانہ شفقت سے دیکھے جاتے۔کبھی اس کا ننھا سا نازک ہاتھ چومتے تو کبھی اُس کے رخسار پہ بوسہ دینے کی ناکام کوشش کرتے کیوں کہ چھوٹے صاحب پورے انہماک سے ڈرائیونگ میں مشغول ہوتے تھے۔
حاجی صاحب چھوٹے، بڑے سب کے چچا حاجی تھے۔وہ دن کے وقت اپنے پوتے کے ساتھ کھانا کھاتے،کھیلتے اور پھراُسے دل چسپ کہانیاں سناتے سناتے اپنے ساتھ سلالیتے۔ شام کو محلے کے چھوٹے بچوں کے ساتھ گاؤں کے قریب واقع گراؤنڈ میں جانا اُن کا معمول تھا۔ بچے کرکٹ کھیلتے اور وہ ان کے مابین منصف کے فرائض انجام دیتے رہتے۔
سبز وردی میں ملبوس ایک اہلکار نے اُس کو شانے سے پکڑ کر جھنجوڑ کر اُسے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔اپنے سارے وجود کی طاقت جمع کر کے وہ گاڑی میں بیٹھا۔پھر اُس کے کانوں نے زور سے دروازہ بند ہونے کی آواز سنی۔ اُس نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے وہی مسکراتا چہرہ دیکھا جو اس پل بالکل خاموش پڑا تھا۔ اُس کی آ نکھوں کے بند اچانک ٹوٹ گئے اور آنسوؤں کا ایک سیلاب امڈ آیا۔
اسے کچھ خبر نہ تھی کہ کب،کیسے اورکتنی دیر میں وہ سرکاری ہسپتال کے شعبہ ایمرجینسی کے سامنے پہنچ گئے۔ ایک اہلکار نے تیزی سے گاڑی کا دروازہ کھولا اورایک سٹریچر دروازے کے قریب سرکا دیا۔گاڑی سے حاجی صاحب کو اس سٹریچر پر منتقل کر دیا گیا۔وہ جو دوسروں کو گاڑی پر سیر کرایا کرتے تھے آج خود اس نئی طرز کی گاڑی پر سیر کر رہے تھے۔
تھوڑی دیر میں اس نے کاغذی کارروائی مکمل کر لی۔اس کے بعد سفید لباس میں ملبوس دو نوجوان حاجی صاحب کی گاڑی کو لے کر ایک کمرے میں چلے گئے۔اُس کمرے میں جانے کی اجازت اُسے نہ مل سکی۔ اگلے لمحے میں دروازے کے اوپر نصب ایک سرخ بلب روشن ہو گیا۔ندیم دیوار کے ساتھ لگے بینچ پر بیٹھ گیا۔
وہ کبھی مسکراتا، کبھی روتا اور دل ہی دل میں دعا کرتا…..اے خدا!ایک بار،صرف ایک بار انھیں ٹھیک کر دے۔کبھی بے چین ہو کر اپنی انگلی کے ناخن کو کاٹنے کی کوشش کرتا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے گزرے دنوں کے تمام واقعات اور باتیں ایک تیز رفتار فلم کی مانند چلنے لگیں۔ آنکھوں سے آنسو ؤ ں کی ندی ابھی بھی رواں تھی۔مسلسل بدلتے مناظر میں سے ایک منظر اُس کے دل ودماغ پر حاوی ہو گیا۔
گزشتہ عید پر حاجی کے صاحب کے بوسے کی ہلکی سی تپش وہ اپنی پیشانی پر محسوس کرنے لگا۔ وہ اب سسکیاں بھرنے لگا تھا۔ نہیں معلوم کتنا وقت ایسے گزر گیا۔اتنے میں ایک ادھیڑ عمر شخص، عمدہ مغربی لباس کے اوپر سفید لمبے چوغے میں ملبوس اُس کے سامنے آ کھڑاہوا۔ اُس انجان شخص نے نرمی سے اپنا ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھااور اپنا منہ اُس کے کان کے قریب لاتے ہوئے بولا، ”اللہ آپ کو صبر دے!“
ٓیہ دعا تھی مگر نہ جانے کیوں یہ دعا سُن کر اُس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اب اُس کے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا۔ وہ حیران تھا کہ اتنا اندھیرا اُس کے گرد کیسے جمع ہوگیا؟ اسی دوران ایک قریبی دوست نے اُسے اپنی بانہوں میں لے لیا اور روتی ہوئی آواز میں کہا،”میرے بھائی! میرے دوست! میرے پیارے! جن کے دم سے رونق تھی،انھوں نے وفا نہ کی۔“ یہ سنتے ہی اُس کی آنکھوں کے سیلاب میں مزید تیزی آ گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ اگلے چند لمحوں میں سارا جہان ان آنسوؤں میں ڈوب جائے گا۔
ڈاکٹر نے ایک فائل اُسے تھمائی اورساتھ چند ضروری ہدایات بھی دیں۔اب وہ اُس فائل کو لے کر ایک کمرے سے دوسرے کمرے، ایک کاؤنٹر سے دوسرے کاؤنٹر، اُس دفتر…. فلاں کے پاس….اِدھر بھاگ، اُدھر بھاگ….. مسلسل ایک گھنٹہ بھاگنے کے بعد وہ اُسی دروازے کے سامنے آ گیا۔
حاجی صاحب اپنی گاڑی پر سوار دو آدمیوں کے ہمراہ باہر آئے۔اُن کے اوپر سفید چادر ڈال دی گئی تھی۔ چچا حاجی کو اس حالت میں دیکھ کر اُس کی ہمت بالکل جواب دے گئی۔ گاؤں کی تمام مساجد میں جنازے کا اعلان کیا جاچکا تھا۔مقررہ وقت پہ جنازہ ہوا، جس میں بڑی خلقت نے حاضری دی۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ یوں دھوم دھام سے حاجی صاحب اپنے نئے سفر پہ روانہ ہو گئے۔
شام کے وقت کمرے میں وہ اکیلا چھت کو گھور رہا تھا۔ ننھی سی جان اُس کی گود میں بیٹھی اِس سارے سانحے سے بے خبر پورے دھیان سے اپنی کھلونا گاڑی چلانے کی مشق میں مشغول تھی۔
……٭……٭……

Leave a Comment