گلاب پری

تحریر:علی اکمل تصور

وہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ یوں جیسے کوئی چور چوری کرنے سے پہلے گھبرا جاتا ہے۔ اُس کے اعصاب پر یہ خوف سوار ہوتا ہے کہ کہیں چوری کرتے پکڑا نہ جاؤں، کوئی مجھے دیکھ نہ لے۔ اسی خوف کے پیش نظر وہ گھبرایا ہوا تو تھا ہی، ساتھ ہی وہ اپنے اطراف میں دیکھ رہا تھا۔ اُس کے امی ابو ایک درخت کی چھاؤں میں چٹائی بچھائے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ اُس کے چھوٹے بہن بھائی تتلیوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ وہ اپنے کھیل میں پوری طرح مگن تھے اور وہ ایسے ہی چہل قدمی کرتے ذرا دُور آ گیا تھا اور پھر ایک منظر دیکھ کر وہ ٹھٹھک کر رُک گیا۔ گلاب کا ایک بڑا سا کھلا ہوا پھول اُس کی نظروں کے سامنے تھا۔ حیرت والی یہ تھی کہ پورے باغ میں بس یہ ایک ہی گلاب کا پودا تھا اور اُس سے بھی بڑی حیرت والی بات یہ تھی کہ اُس اکلوتے پودے پر بس ایک ہی گلاب کھلا ہوا تھا۔ کوئی دوسری کلی نہیں تھی۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا گلاب کے اُس پودے کے پاس آ گیا۔ گلاب کے پھول کی مہک اُسے مسرور کر رہی تھی۔ بہت ہی خوشبودار اور خوب صورت پھول تھا۔ اتنے میں اُس کے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی۔ یہ اُس کی امی کی آواز تھی۔
”رضوان…! رضوان…! کہاں ہو تم؟“
”آیا امی…!“ اب اُس کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا۔ اُسے فوراً امی کے پاس پہنچنا تھا اور گلاب کا پھول…… پھر اُس نے ایک ایسی حرکت کی جو اکثر بچے کرتے ہیں۔ اُس نے ایک جھٹکے سے گلاب کا پھول شاخ سے توڑ لیا تھا اور پھر وہ پھول ہاتھ میں پکڑے واپسی کے لیے دوڑ پڑا۔ چند لمحوں میں ہی وہ امی ابو کے پاس پہنچ گیا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں اتنا خوب صورت پھول دیکھ کر امی اور ابو کو حیرت ہوئی تھی۔
”گلاب کا یہ پھول کہاں سے لیا؟“ ابو نے پوچھا تھا۔
”وہ اُس طرف ایک پودا تھا گلاب کا…… وہاں سے توڑا ہے۔“
”بہت غلط بات… پھولوں کو توڑنا نہیں چاہیے۔ ان کی وجہ سے ماحول خوب صورت نظر آتا ہے۔ اب یہ ایک آدھ دن میں مُرجھا جائے گا۔ تم نے بہت غلط کام کیا ہے۔“ ابو ناراضی سے بولے تھے۔
”ابو جی معاف کر دیجیے!“ رضوان نے فوراً ہی اپنی غلطی مان لی اور ابو خوش ہو گئے۔
”اگلی بار احتیاط کرنا۔“ ابو نے ہدایت کی تھی۔
”جی ابو!“ اب گھر واپسی کا سفر شروع ہوا۔ آج چھٹی کا دن تھا۔ تفریح کی غرض سے گھر کے تمام افراد اُس باغ میں آئے تھے۔ باغ کا مالک ابو کا دوست تھا۔ اس لیے فکر والی کوئی بات نہیں تھی۔ اب وہ سب اس تفریح کی یادیں اپنے ساتھ لے کر جا رہے تھے جب کہ رضوان کے پاس یاد سے کچھ زیادہ تھا اور وہ تھا گلاب کا تروتازہ پھول… مگر ابو نے بتایا تھا کہ یہ مرجھا جائے گا۔ اس وجہ سے رضوان کچھ بے چین بھی تھا۔ واپسی کے سفر میں ایک بات جو رضوان نے محسوس کی تھی، وہ یہ تھی کہ اب گلاب کا یہ پھول مہک نہیں دے رہا تھا۔ خوب صورت تو تھا مگر خوشبو سے محروم۔
پھر وہ سب گھر پہنچ گئے۔ ابو نے رضوان کو ایک ترکیب بتائی تھی کہ ایک تنگ منہ والی بوتل بھر کر اس پھول کو بوتل میں رکھو۔ اس عمل سے پھول ترو تازہ رہے گا۔ اب وہ پھول رضوان کے بستر کے پاس ایک چھوٹی سی گول میز پر ایک بوتل میں رکھا ہوا تھا۔ رضوان نے ایک آدھ بار اس پھول کی طرف دیکھا۔ نہ جانے کیوں اُسے اِس بات کا احساس ہوا کہ پھول اُداس ہے۔ پھر اُس نے اِس بات کو اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹک دیا۔ رات ہوئی، رضوان سونے کے لیے لیٹ گیا۔ وہ دن بھر کا تھکا ہوا تھا۔ لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی۔ معلوم نہیں وہ رات کا کون سا پہر تھا جب سوتے جاگتے کی کیفیت میں رضوان کے کانوں سے کسی کے سسکیاں بھرنے کی آواز ٹکرائی۔ پہلے اُسے یوں محسوس ہوا کہ وہ جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہو مگر یہ خواب نہیں تھا۔ وہ تڑپ کر اُٹھ بیٹھا۔ آواز اب بند ہو چکی تھی۔کمرے میں انرجی سیور جل رہا تھا۔ اُسے عادت تھی روشنی میں سونے کی، سسکیوں کی آواز سن کر وہ بے چین ہو چکا تھا۔ اُس نے اِردگرد نظر دوڑائی اور پھر ایک مقام پر اُس کی نظر ٹھہر کر رہ گئی۔
”یہ کیا ماجرا ہے؟“ وہ سوچنے لگا۔ گول میز کے اوپر پانی کے قطرے بکھرے ہوئے تھے۔ پھول تروتازہ نظر آ رہا تھا۔ اُس نے بوتل اُٹھا کر دیکھی، وہ سلامت تھی۔ بوتل میں کسی بھی جگہ ایک سوئی برابر بھی سوراخ موجود نہیں تھا۔ پھر پانی کے قطرے کہاں سے آئے۔ وہ سوچنے لگا مگر اِس سوال کاکوئی جواب موجود نہیں تھا۔ باقی کی رات رضوان نے آنکھوں میں کاٹ کر گزار دی۔ اُسے نیند نہیں آ رہی تھی اور پھر سسکیاں بھرنے کی آواز بھی نہیں آئی۔ اگلے دن وہ وقت پر سکول پہنچا۔ رات بھر جاگنے کی وجہ سے اُس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ پھر کلاس روم میں اُسے ایک بات یاد آئی اور وہ لرز کر رہ گیا۔ اُس کا انگریزی کا ٹیسٹ تھا اور وہ بھول گیا تھا۔ اُس نے تیاری بھی نہیں کی تھی۔ چھٹی کا سارا دن آوارہ گردی میں گزار دیا تھا اور امی، ابو کو بتایا بھی نہیں تھا۔ پھر نتیجہ حسبِ حال آیا۔ رضوان ٹیسٹ میں فیل ہو گیا تھا۔ نتیجے میں اُسے اپنے دونوں ہاتھوں پر ایک ایک ڈنڈے کا تحفہ ملا تھا۔ سکول سے چھٹی کے بعد جب وہ گھر پہنچا تو بہت اُداس تھا۔ سزا ملنے کی وجہ سے اُس کا رونے کو دل چاہ رہا تھا۔ وہ اپنی آنکھوں میں آنسو چھپائے کمرے میں چلا آیا۔ ہاتھوں میں ابھی تک درد ہو رہا تھا۔ پھر وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے منہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
”کیا ہوا رضوان؟“ اچانک ایک سیٹی کی آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اُس نے چونک کر آواز کی سمت میں دیکھا مگر وہاں تو کوئی نہیں تھا۔ بس گلاب کا تروتازہ پھول نظر آ رہا تھا۔ حیرت والی بات تھی، وہ ابھی تروتازہ تھا۔ رضوان نے سر جھکا لیا۔
”رضوان کیوں رو رہے ہو؟“ اب کی بار تو رضوان اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔ وہ بہت ڈر گیا تھا۔ خوف اُس کی آنکھوں میں اُتر آیا تھا۔
”ڈرو نہیں! یہ میں ہوں۔“ آواز گلاب کے پھول میں سے آ رہی تھی۔ خوف کی جگہ حیرت نے لے لی تھی۔
”تت…تم کون ہو؟“ وہ ہکلا کر بولا۔
”یہ میں ہوں… گلاب پری۔“ پھول میں سے آواز آئی تھی۔
”یہ… یہ کیسے ممکن ہے؟“ رضوان جو دیکھ رہا تھا، اُس پر یقین کرنا مشکل تھا۔ بھلا کبھی گلاب کے پھولوں نے بھی باتیں کی ہیں۔
”ہاں! میں سچ کہہ رہی ہوں۔ میں گلاب پری ہوں، تم نے انجانے میں میرے ساتھ بہت ظلم کیا ہے۔“
”ظلم… کیسا ظلم؟“
”میں پرستان سے آئی تھی۔ تمھاری دنیا کی سیر کرنے، میری امی نے مجھے روکا بھی تھا مگر میں بغیر بتائے چلی آئی۔ پھر میرا گزر باغ مین سے ہوا۔ دل چاہا کہ تھوڑی دیر یہاں قیام کر لوں۔ میں اپنی شکل بدل کر گلاب کا پودا بن گئی۔ میں دھوپ کی حرارت محسوس کر رہی تھی۔ میں ٹھنڈی ہواؤں کے مزے لے رہی تھی کہ تم چلے آئے۔ میں نے تمھارے ارادے کو بھانپ لیا تھا۔ اپنی اصل شکل میں آنے کے لیے مجھے تھوڑا وقت چاہیے تھا مگر تم نے مجھے وقت نہیں دیا۔ میں نے شور مچایا مگر تم نے میری آواز نہیں سنی اور ایک جھٹکے میں میرا سر میرے وجود سے الگ کر دیا۔ بہت ظلم کیا اور پھر مجھے اِس کمرے میں قیدی بنا کر رکھ دیا۔ ساری رات میں اپنے ابو اور امی کو یاد کر کے روتی رہی ہوں اور اب تمھیں روتا دیکھ کر سمحسوس ہوا کہ میری طرح تم بھی شاید تکلیف میں ہو۔ اس لیے تمھارے ساتھ بات کی۔ کیا ہوا تمھیں؟ کیا تمھارے ساتھ بھی کسی نے ظلم کیا ہے؟“
”نہیں، نہیں… ایسی کوئی بات نہیں۔ ہم سکول میں پڑھنے والے بچے ہیں۔ جب ہم اپنا سبق یاد نہیں کرتے تو ہماری پٹائی ہوتی ہے۔ میری مشکل اتنی بڑی نہیں ہے۔ میں دل لگا کر پڑھوں گا تو پٹائی بھی نہیں ہو گی اور اپنے ٹیسٹ میں بھی کام یاب ہو جاؤں گا مگر تمھاری مشکل بہت بڑی ہے۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔ کیا اب میں تمھاری کچھ مدد کر سکتا ہوں؟“
”ہاں! اگر تم چاہو تو۔“
”کیا کرنا ہو گا مجھے؟“
”تمھیں شاید تکلیف تو ہو گی مگر تم مجھے جس باغ میں سے توڑ کر لائے ہو، اُسی باغ میں مجھے واپس لے کر جانا ہو گا۔ جب تم اُس پودے کے ساتھ میرا سر جوڑو گے تو میں ایک خاص خم کروں گی اور پھر سے اُس پودے کا حصہ بن جاؤں گی۔ اُس کے بعد میرے لیے ممکن ہو گا کہ میں اپنی اصل صورت میں واپس آ جاؤں اور پھر اپنے گھر اپنے امی ابو کے پاس واپس لوٹ جاؤں۔ کیا تم میرے لیے یہ تکلیف اُٹھا سکو گے؟“ گلاب پری کا لہجہ سوالیہ تھا۔
”ہاں…ہاں! کیوں نہیں۔ تمھاری زندگی کا سوال ہے۔ غلطی میں نے کی ہے، مداوا بھی مجھے ہی کرنا چاہیے۔ ہم ابھی روانہ ہوں گے۔“ اب رضوان نے کمرے سے نکل کر ٹوہ لی تھی۔ ابو تو شام کو گھر لوٹتے تھے۔ ہاں، امی کھانا تیار کرنے میں مصروف تھیں۔
”امی! میں اپنے دوست کے گھر جا رہا ہوں، جلد لوٹ آؤں گا۔“
”بیٹا! ابھی ابھی سکول سے آئے ہو۔ کھانا کھا لو… پھر چلے جانا۔“
”امی جان! بہت ضروری ہے… میں یہ گیا اور یہ آیا…!کھانا واپس آ کر کھاؤں گا۔“ امی رضامند ہو گئی تھی۔ اب رضوان نے اپنی ریسی سائیکل نکال لی تھی۔ پھول اُس کے پاس تھا۔ اب باغ کی طرف سفر شروع ہوا۔ رضوان کے سر پر جنون سوار تھا۔ اس لیے اُس کی رفتار بہت تیز تھی۔ دوپہر ہونے کی وجہ سے سڑک پر ٹریفک ہجوم بھی نہیں تھا۔ وہ شہری حدود سے نکلا اور گاؤں کی حدود میں داخل ہو گیا۔ یہاں بھی ویرانہ تھا۔ پھر وہ اپنے ابو کے دوست کے باغ میں پہنچ گیا۔ اُس نے ایک جگہ سائیکل کھڑی کی اور پیدل ہی آگے بڑھا۔ پھر وہ خوف کی شدت سے کانپ کر رہ گیا۔ اُس کے کانوں سے کتوں کے بھونکنے کی آواز ٹکرائی تھی۔ باغ کی رکھوالی پر مامور کتے آ پہنچے تھے۔ قریب تھا کہ رضوان دوڑ لگا دیتا کہ گلاب پری بول اُٹھی۔
”رُک جاؤ رضوان! کتوں کی فطرت ہوتی ہے کہ یہ بھاگنے والوں کا تعاقب کرتے ہیں اور کاٹتے ہیں۔ تم اپنی جگہ پر کھڑے رہو، یہ کتے تمھیں کچھ نہیں کہیں گے۔“ اب رضوان کے قدم اپنی جگہ جم گئے تھے۔ یہ تعداد میں تین کتے تھے۔ وہ بھاگتے ہوئے آئے تھے اور انھوں نے رضوان کو گھیر لیا تھا۔ اب وہ مسلسل بھونک رہے تھے اور رضوان اپنے قدموں پر جما ہوا تھا۔ چند لمحے گزرے تو گلاب پری نے سرگوشی کی۔
”اب جھک کر پتھر اُٹھانے کی اداکاری کرو۔“ جیسے ہی رضوان جھکا، کتوں نے اُلٹے قدموں دوڑ لگا دی۔ یہ عام سے دیہاتی کتے تھے۔ انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ آنے والا چور نہیں تھا۔
پھر رضوان اُس سمت میں بڑھا جہاں گلاب کا وہ پودا موجود تھا۔ پھر وہ پودے کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اُس نے احتیاط سے گلاب کا پھول اپنے ہاتھ میں پکڑا اور پودے کے سامنے دوزانوں بیٹھ گیا اور پھر جیسے ہی اُس نے گلاب کا پھول ڈالی کے ساتھ لگایا۔ اُس کے اطراف میں جیسے ستاروں کی بارش ہونے لگی۔ اُس نے ایسا منظر اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔ مسرت اُس کی آنکھوں میں رقص کر رہی تھی۔ پھر رضوان نے محسوس کیا، خوشبو سے فضا مہک اُٹھی تھی۔ گلاب کا پھول پودے کے ساتھ پھر سے جڑ گیا اور اب وہ ہوا کے دوش پر جھوم رہا تھا۔ اچانک ایک بار پھر سے ستاروں کی بارش ہوئی اور رضوان حیران رہ گیا۔ گلاب کا پودا اب غائب ہو چکا تھا اور فضا میں ایک پیاری سی ننھی منی سی پری معلق تھی۔
”شکریہ رضوان… شکریہ!“ وہ مسکرا کر بولی۔ رضوان کی حیرت کا عالم دیکھنے والا تھا۔ اُس نے اپنی زندگی میں پہلی بار پری دیکھی تھی۔
”اب میں اپنے گھر چلتی ہوں، تم بھی اپنے گھر جاؤ۔تمھاری امی انتظار کر رہی ہو گی۔“ رضوان نے اثبات میں سر ہلایا۔
”اور سنو! تم نہیں جانتے، پاک خالق کی مخلوق کس حال میں موجود ہوتی ہے۔ اس لیے کسی کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش مت کیا کرو۔“
”ہاں! اب میں یہ بات اچھی طرح سمجھ گیا ہوں۔“ رضوان نے سر ہلا کر جواب دیا، پھر جلدی سے بولا:
”اچھی گلاب پری! کیا یہ ہماری آخری ملاقات ہے؟“
گلاب پری کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
”نہیں! ابھی تو ہم دوست بنے ہیں۔ میں اکثر تم سے ملنے آتی رہوں گی۔“ اتنا کہہ کر گلاب پری نے بل کھا کر پرواز کی اور اپنے پیچھے ستاروں کا جھرمٹ چھوڑ گئی۔ رضوان اپنا ہاتھ ہلا ہلا کر اُسے الوداع کہہ رہا تھا۔ یہ دوستی اُن دونوں کے لیے بہت مبارک ثابت ہوئی تھی۔ ایک دوسرے کی مدد سے وہ دونوں کام یاب ہوئے تھے۔
……٭……٭……

Leave a Comment