جواب: دی گئی غزل کی تشریح:
شعر نمبر ایک:
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے، آخر کام تمام کیا
مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے عجیب بے کسی کے ساتھ اپنی داستانِ حیات کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم کو ایک نہایت سنگین مرض لاحق ہو گیا۔ زندگی گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مرض بڑھتا گیا اور اس کی آثار ظاہر ہونے لگے۔ ہم نے اس مرض کے علاج کے لئے طرح طرح کی تدبیریں کی اور مختلف دواؤں سے علاج کیا‘ ہر طرح سے جتن کر ڈالے۔ لیکن عشق کوئی ایسا مرض نہیں ہے کہ اس کا علاج ہو جائے۔ جوں جوں ہم اس کا علاج کرتے رہے اس کی سنگینی بڑھتی گئی‘ دوائیں بے اثر ہو گئیں اور تمام تدبیریں الٹی ہو گئیں۔ پھر وہ وقت آ گیا کہ یہ بیماری نا قابلِ برداشت ہو گئی اور اس کی وجہ سے ہم موت کے دہانے پر پہنچ گئے۔ اس روگ نے ہم سے ہماری زندگی چھین لی اور مرضِ دل کی بدولت ہم اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
مصرعہ ثانی میں لفظ ’دیکھا‘ ایک ڈرامائی کیفیت پیدا کر رہا ہے۔ اس سے پتا لگتا ہے شاعر کو یہ اندیشہ پہلے ہی سے تھا۔ وہ اس اندیشہِ جان کا ذکرمحبوب سے پہلے بھی کر چکے تھے۔ اب یقین کے ساتھ محبوب کو جتاتے ہیں کہ دیکھا! اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا۔
شعر نمبر دو:
عہدِ جوانی رو رو کاٹا، پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا
زیرِ تشریح شعر میں شاعر نے اپنی حسرت و یاس بھری زندگی کی کہانی بیان کی ہے۔ جوانی کا دور حیاتِ انسانی کا سنہرا دور ہوتا ہے۔ یہ امنگوں، آرزوؤں، خوابوں اور دلکشی و رانائی کی نرم و ملائم جہت ہوتی ہے۔ اِس میں انسان آزاد پنچھی کی مانند عزم و ہمت اور بے فکری کی فضاؤں میں اُڑتا ہے۔ اِس عہدمیں انسان کے پاس توانائیاں ہوتی ہیں اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے قوتیں ہوتی ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ میں اتنا بد نصیب انسان ہوں کہ یہ سنہرا دور بھی آلام و مصائب کی نذرہو گیا اور میں اس دور کی لطافتوں اور قوتوں سے بچھڑ گیا۔ میں نے یہ دور بھی نہایت دکھ درد اور بے چینی کے عالم میں اشک بہاتے ہوئے گزارا ہے۔ اب جب میں عمر کے آخری حصے میں پہنچ گیا ہوں تو میرے پاس اتنی ہمت و امید نہیں ہے کہ میں اپنے بھیانک ماضی کی وحشتیں دیکھ سکوں۔ میں اِس قدر ناتواں اور بے جان ہو گیا ہوں کہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ میری زندگی ایک ایسے شخص کی مانند ہے جس کی آنکھیں خمار آلود اورجسم بوجھل صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ رات بھر کسی فکر میں جاگتا رہا ہے۔ اب اُس میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ دن اور طلوعِ آفتاب کے مناظر دیکھے۔ اسی لیے وہ خوابیدہ ہو جاتا ہے۔
شعر نمبر تین:
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں، ہم کو عبث بدنام کیا
مندرجہ بالا شعر میں شاعر اپنی مجبوری اور بے کسی کی منظر کشی کر رہا ہے۔ شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تم ہم سے یہ کیوں کہتے ہو کہ ہم اپنے فیصلوں اور ارادوں میں بااختیار ہیں اور ہر فعل اپنی مرضی اور خوشنودی سے سر انجام دیتے ہیں‘ ہماری زندگی کے لمحات ہمارے اپنے ہیں اور اس کا دارومدار ہمارے ذہن اور ہمارے ارادوں پر ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ ہم تو بے کس اور مجبور ہیں۔ ہم تو وہی کرتے ہیں جو تم ہم سے کہتے ہو‘ ہمارے تمام اعمال تو تمہاری خواہشات کے مطابق ہیں‘ ہماری عشق کی انتہا یہ ہے کہ ہم نے اپنی مرضی بالکل ختم کر دی ہے اور ہر کام کرتے ہوئے اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ تمہاری کیا مرضی ہے‘ تم کس طرح رضامند ہو گے اور ہمیں اپنے چاہنے والوں میں جگہ دو گے۔ اس کے باوجود اگر تم ہمیں اپنے ارادوں میں خود مختار کہتے ہو تو یہ ہم کو بے وجہ بدنام کرنے والی بات ہے اور یہ محض ایک الزام ہے۔
اس شعر کو ہم حقیقی اور مجازی دونوں معنوں میں لے سکتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں شاعر نے صوفیائے کرام کا نظریہِ جبر پیش کیا ہے جس کے مطابق انسان اس دنیا میں ایک کٹھ پتلی ہے جو کاتبِ تقدیر کا پابند ہے۔ محبوب کی خوشنودی یا نظریہِ جبر دونوں حوالوں سے انسان ایک ایسی مجبورمخلوق ہے جسے اپنی زندگی پر کسی طرح کا اختیار نہیں ہے۔ اس شعر میں صنعت تضاد پائی جاتی ہے۔
شعر نمبر چار:
سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
بانکے ٹیڑھے، ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا
اس دنیا کے سب شراب خور، آشفتہ مزاج اور آوارہ منش لوگ تجھے سجدہ کرتے ہیں، تیری حضوری کو اپنا ایمان قرار دیتے ہیں۔ ہر وہ شخص جس کے مزاج میں کجی ہے، ٹیڑھا پن ہے، ضد ہے، انوکھی پھبن ہے، محبوبیت اور عاشقانہ وارفتگی ہے، اکڑ اور غرور ہے تو ان سب کا امام ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ عشاق طرح دار معشوق خود رندی واو باشی کس درجے پر فائز ہو گا۔
شعر نمبر پانچ:
سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
شاعر کہتا ہے کہ ہمیں اپنے محبوب سے اس قدر لگاؤہے اور ہم اس کی اتنی عزت کرتے ہیں کہ نیم بیہوشی اور مستی کی حالت میں بھی اس کی بے ادبی نہیں کر سکتے اور ہر حال میں اس کا احترام کرتے ہیں۔ چاہے ہم جتنے بھی ہوش و حواس سے عاری ہوں ہم اپنے رفیق کی عزت کرتے ہیں۔ چاہے ہم اس کے نزدیک ہوں یا اس سے کوسوں دور ہوں وہ ہماری عزت و احترام کا مستحق رہتا ہے۔ کبھی اگر ہم نہایت بے خودی کی حالت میں زبان سے کلمات نکال رہے ہوں تب بھی ہمارے ذہن میں یہ بات نقش ہوتی ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں سے بڑھ کر ہمارا محبوب لائقِ احترام ہے۔ اس شعر میں جس کیفیت کا تذکرہ کیا گیا ہے وو عشق کی معراج ہے۔
شعر نمبر چھ:
یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کی، یا دن کو جوں توں شام کیا
شاعر کہتا ہے کہ میں ایک بے اختیار اور بے بس انسان ہوں۔ میری بے چارگی کی حد یہ ہے کہ میں اپنی زندگی کے تمام تر معاملات میں مجبور ہوں اور میری مرضی کوئی اور تشکیل دیتا ہے۔ اس بے کس زندگی کے کسی بھی معاملے میں میرا دخل نہیں ہے اور میں سب کچھ اپنی مرضی کے خلاف کرتا ہوں۔ میری اختیارہے تو صرف اِس حد تک کہ میں دن کو بے قراری میں گزار دیتا ہوں اور رات کو چند آنسو بہا کر صبح دیکھ لیتا ہوں۔ میری زندگی ایک ایسے پنچھی کی مانند ہے جو پنجرے سے آزاد فضا میں اُڑنا چاہتا ہو لیکن ہر کوشش اُس کے لئے تکلیف کا سبب بنتی ہو۔ میں اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزارنا چاہتا ہوں۔ میں اس میں فیض، سکون، راحت اور نشاط کے موتی چمکانا چاہتا ہوں لیکن کہیں بھی میری مرضی نہیں چلتی۔ میرے مقدر میں یہ نہیں لکھا کہ میں اپنے حالات تبدیل کر سکوں اور اپنی سوچوں کی بے چینی تبدیل کر سکوں۔ میں اپنی ذات پر جتنا اختیار رکھتا ہوں اُسی کو استعمال کرتا ہوں۔
رات بھر بے قراری میں آنسو بہا کر وقت گزار لیتا ہوں اور دن میں مصیبتیں جھیل کر اپنی روح کو تسکین پہنچا لیتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میری اِس دنیا میں ناکامی و نامرادی کا کوئی صحرا نہ ہو لیکن یہ سماج اور معاشرہ میری خواہشات کا احترام نہیں کرتا۔ میں جبرِ فطرت کو پیروکار بنا ہوا ہوں اور یہ دردوالم بھری زندگی لاچاری اور مجبوری میں بسر کر رہا ہوں۔
شعر نمبر سات:
ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیے
بھولے اُس کے قول و قسم پر ہائے خیالِ خام کیا
اِس کی چاند جیسی گوری کلائیاں ہم نے ہاتھ میں پکڑ ک چھوڑ دیں، اس کی جھوٹی قسموں اور وعدوں پر اعتبار کرنا ہماری خوش خیالی بلکہ حماقت تھی۔
اس شعر کا پہلا مصرع پیکر بصری کی اچھی مثال ہے۔ ساعد سیمیں کی ترکیب میں ’س‘ کی تکرار نے پیکر تراشی میں مدد دی ہے۔ کلائیوں کا ہاتھ پکڑ کر چھوڑ دینا ایک جانب عاشقانہ ادب کی مثال ہے اور دوسری جانب عاشق کے شوق و اضطراب کی ایک حرکی تصویر بھی ہے۔ شعر کا دوسرا مصرع قول و قسم کی تکرار سے لبریز ہے، یعنی یہ کلائیاں کسی مناسب وقت ملاقات کے وعدے پر چھوڑی گئیں یا پھر محبوب نے موقع محل کی نزاکت کے پیش نظر ذرا سا التفات جتاتے ہوئے اپنی جانب سے اظہار محبت کر دیا اور دوبارہ ملنے کی قسم بھی دے دی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں شاعر ہکا بکا رہ گیا اور مارے حیرت کے ساعد سیمیں اپنے ہاتھ چھوڑ دیے۔
شعر نمبر آٹھ:
ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا، اعجاز کیا، جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
محبوب کی فطرت میں کرم کے بجائے بے رخی اور بے نیازی ہوتی ہے۔ وہ اپنے عاشق پر کبھی نظر عنایت نہیں کرتا۔ اگر کبھی التفات کرتا بھی ہے تو رقیب پر اس لئے نہیں کہ اسے رقیب سے محبت ہے بلکہ اس لئے کہ وہ اپنے عاشق کو مزید تکلیف پہنچائے۔ یہاں شاعر نے محبوب کو آہوئے رم خوردہ سے استفادہ کیا ہے جس طرح ہرن انسان کو دیکھ کر چوکڑیاں بھرتا ہوا اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح جب ہماری نظر محبوب سے ملتی ہے تو وہ ہم سے فوراً ہی نظریں چرا کر گزر جانا چاہتا ہے۔ اس کی ہم سے بیزارگی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہمیں دیکھتے ہی کترا کر گزر جاتا ہے اور ہمیں اتنا عکس بھی نہیں دیتا کہ ہم اس کا حسین عکس اپنی آنکھوں میں سمو سکیں۔ جبکہ وہ ہمارے رقیب پر نظر و التفات کی بارشیں کرتا ہے اور ہم یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ اس وحشت زدہ ہرنی پر ہمارے سامنے ایک لمحہ بھی ٹھیرنے کو تیار نہیں۔ وہ ہماری لاکھ کوشش کے باوجود ہم سے مانوس نہیں۔
شعر نمبر نو:
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
میر کے دین و ایمان کی بابت سوال مت کرو، اس کا کوئی دین و مذہب نہیں۔ اس نے ایک مدت ہوئی مذہب اسلام سے کنارہ کشی کر لی ہے۔ وہ ماتھے پر تلک لگاتا ہے اور مندر میں دھونی رماتا ہے۔
شعر میں بین السطور ہلکی سی ملامت کا پہلو ہے، میر کے بارے میں اظہار خیال کرنے والا تاسف اور افسوس کے جذبات کے زیر اثر ہے، ہو سکتا ہے وہ سرگوشی میں میر کی غیبت کر رہا ہو اور پہلے مصرعے کے شکوک کو تقویت دینے کے لیے اس عرصہ کو شمار کرنے سے بھی گریزاں ہو جب سے میر نے خدا کے حضور سجدہ ریز ہونا چھوڑ کر بتوں کی محبت کو اپنا مذہب قرار دیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں ’کب کا‘ کا اظہار حیرت شعر کی صوتی خوبی کا باعث ہے۔ حرف ک کی تکرار بھی لطف کا باعث ہے۔
بقول میر:
اب میر جی تو اچھے زندیق ہی بن بیٹھے
پیشانی پہ دے قشقہ، زنار پہن بیٹھے
محبت کے مسلک میں کسی مخصوص مذہب کی جگہ نہیں، سلسلہ سلوک پر چلنے والے انسانوں کی محبت کو خدا کی محبت کا ایک روپ سمجھتے ہیں۔ ایک صوفی کی طرح میر نے بھی اپنے لیے ملامت کا راستہ چنا ہے۔ جب سے وہ حسینوں کی محبت میں مبتلا ہوئے ہیں۔ روایتی مذہبی رہنما انھیں بری نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے:
بت پرستی کو تو اسلام نہیں کہتے ہیں
معتقد کون ہے میر ایسی مسلمانی کا
ایک اور موقع پر سلسلہ ملامت میں میر اپنے بارے میں لکھتے ہیں:
کافر ہوئے بتوں کی محبت میں میر جی
مسجد میں آج آئے تھے قشقہ دیے ہوئے
میر جس استغراق سے گزر رہے ہیں وہاں حدود اور رسوم و رواج کی کوئی جگہ نہیں، خدا کی محبت میں فنا ہونے والے من و تو کی بحث سے بلند ہو کر اناالحق کی آواز میں ڈھل جاتے ہیں اور یہی عین اسلام ہے:
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا
……٭……٭……