جواب: نظم طلوعِ اسلام کا فکری پس منظر اور فنی و فکری خصوصیات:
اقبال نے اپنی مشہور نظم طلوع اسلام اقبال 31 مارچ 1923ء کو انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں پڑھی۔ یہ نظم اقبال کے اس دور شاعری سے تعلق رکھتی ہے جب وہ پورے عالم اسلام کے اتحاد کا خواب دیکھ رہے تھے اور یہ جانتے تھے کہ مسلمان من حیث القوم متحد ہوکر مغربی استعمار کے خلاف جدوجہد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ چناچہ ترکی میں مصطفیٰ کمال کی شاندار فتح سے متاثر ہو کر انہوں نے اس نظم کی تخلیق کی۔ اس لیے مصطفیٰ کمال کی فتح کی صورت میں انہیں مسلمانوں کے اتحاد کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا تھا۔ اقبال نے روایتی اور رسمی مضامین کی تقلید سے آزاد ہوکر اور مروجہ مصنوعی اور تقلیدی شاعری کو چھوڑ کر اپنی شاعری کی لگام اپنی فطرت کے باطنی تقاضے کے ہاتھ میں دے دی تھی۔
مصطفیٰ کمال کی کامیابی:
مصطفیٰ کمال کی کامیابی میں انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آئی اور اس کامیابی کو انہوں نے طلوع اسلام سے تعبیر کیا۔ ان کے خیال میں اب اس دور کا آغاز ہو گیا تھا جس کا خواب وہ ایک عرصے سے دیکھ رہے تھے۔ ترکوں کو یونانیوں کے خلاف جوابی کارروائیوں میں خاصی کامیابی حاصل ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ ستمبر ۱۹۲۲ء میں انھوں نے عصمت پاشا کی سر کر دگی میں سمرنا پر قبضہ کر لیا۔ اس فتح پر ہندی مسلمانوں نے زبردست خوشیاں منائیں اور مساجد میں گھی کے چراغ جلائے۔ ترکوں کو مشرقی یونان اور اَدَرْنہ بھی واپس مل گئے۔ ایران بھی انقلابی تبدیلیوں کی طرف گامزن تھا۔ مصر سے برطانوی پروٹیکٹوریٹ ختم ہوا اور سعد زاغلول پاشا کی قیادت میں مصر نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ مراکش میں ہسپانوی فوج کے مقابلے میں مجاہد ریف عبدالکریم کا پلہ بھاری تھا۔ ہندستان میں تحریک ِ ترکِ موالات زوروں پر تھی‘ جس کے متاثرین میں اسی فیصد مسلمان تھے۔ بیداری کی اس لہر نے ہندی مسلمانوں کے جذبات میں زبردست ہل چل مچادی تھی۔ ان کی یہ نظم جنگ صفاریہ میں مصطفیٰ کمال کی اس کامیابی کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ غرض یوں معلوم ہوتا تھا کہ تمام مسلمان ممالک سامراجیت اور غلامی کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکنے کے لیے انگڑائی لے کر بیدار ہو رہے ہیں۔ علامّہ اقبال اس کیفیت سے بے خبر نہ تھے۔ ”طلوعِ اسلام“ اسی کیفیت کا پر جوش اور فن کارانہ اظہار ہے۔ غلام رسول مہرؔ کے بقول یہ نظم:
”سراسر احیاے اسلامیت کے پرمسرت جذبات سے لبریز ہے۔“
نظم کا تجزیہ:
علامہ اقبال نے یہ نظم اس وقت ملی جب کمال اتاترک نے ترکی کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرا کے ترکی میں اسلامی جمہوریہ کی بنیاد رکھی۔ اقبال مغربی جارحانہ ذہنیت کے سخت مخالف تھے جس کا اظہار ان کے کلام میں جابجا موجود ہے لیکن وہ قومی حکومتوں کے خلاف نہ تھے انہیں اس کا اچھی طرح احساس تھا کہ دنیا میں ایک عالمگیر حکومت کا قائم ہونا مشکل ہے۔ قوم نسل تاریخ آب ہوا اور دیگر جغرافیائی اختلافات ان کی نظر سے پوشیدہ نہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اسلام میں خلافت راشدہ کے بعد سے اب تک ایک بھی متحدہ اسلامی ریاست قائم نہ ہوسکی اور نہ اس کی کوئی امید دکھائی دیتی ہے البتہ اتحاد اسلامی کا تخیل عثمانی میں ضرورعملی جامہ پہن سکتا ہے کہ تمام اقوام آزاد ہوں۔ وہ اسلامی مقاصد کے لیے باہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں یہ حکومتیں اپنی نوعیت کے اعتبار سے اسلامی قومی حکومت ہوگی مگر ان کو میں حکومتوں کی بنیاد اخلاق اور محبت پر استوار ہونی چاہیے۔
غم گین لہجہ:
یہی وجہ ہے کہ طلوع اسلام لکھنے سے قبل وہ اپنی دور اور معرکۃ الآرا نظموں، شمع اور شاعر، خضر راہ میں مسلمانوں کی غفلت پر نوحہ خوانی اور ملکی اسلامی کی زوال آمادہ روش پر تنقید کرکے ان کے زوال کے اسباب کی طرف اشارہ کر چکے تھے۔ اسی لئے ان دونوں مذکورہ نظموں میں کہی گئی ان کا لہجہ غم گین ہوجاتا ہے لیکن چونکہ وہ بنیادی طور پر حرکت و عمل میں امید کے پیامبر تھے اس لیے یہ حزن و ملال مایوسی سے نہیں بدلتا۔ مسلمانوں کو زوال زدہ دیکھ کر یہ کیفیت فطری طور پر ان کے اندر اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے سچے ہمدرد اور غمخوار تھے۔
مسلمانوں کی حالت زار:
مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر ان کا دل بے چین ہو جاتا تھا لیکن طلوع اسلام کا مجموعی تاثر رجائیت سے بھرپور ہے۔ اس نظم کا پہلا ہی شعر ان کے ان کا تعین کرتا ہے:
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی
اور پھر ایک نشاطیہ لہجہ از اول تا آخر پوری نظم میں جاری و ساری نظر آتی ہے اور دل گرفتگی اور ملال کی پرچھائی بھی طلوع اسلام میں کہیں نظر نہیں آتی۔
فکر:
طلوع اسلام میں اگرچہ مسلمانوں کی فتح پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے اور اس فتح کے ہیرو کمال اتاترک کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے لیکن کہیں بھی اقبال نے اپنے مخصوص اور فکر کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ خوشی سے بے قابو ہو کر جذبات کی رو میں بہہ گئے ہیں اور نہ انہوں نے اپنے ممدوح کو شان بڑھانے کے لیے بے جا تاریخ سے کام لیا ہے ہے۔ وہ شاعرانہ مبالغے کی آڑ لے کر ایسا کر سکتے تھے لیکن انہوں نے پوری نظم میں کہیں بھی رسمی قصیدہ گوئی کا رنگ پیدا نہیں ہونے دیا۔ اگرچہ اس نظم کے بعض اشعار سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کے ذہن میں مرد مومن کا جو تصور تھا، کمال اتاترک کی صورت میں کچھ عملی شکل نظر آنے لگی ہے لیکن اس کا اظہار انہوں نے بغیر کسی مبالغہ آرائی کے اس طرح کیا ہے:
جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
نصیحتیں:
اپنے مخصوص طرز ادا میں اپنے ممدوح کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ وہ مستقبل کے لیے اسے اور اس کے پردے میں مسلمانان عالم کو کچھ نصیحتیں کرتے ہیں اس لیے اقبال بڑی سے بڑی فتح کو بھی منزل قرار دینے کے لیے تیار نہیں۔ مثلاً ایک مقام پر کہتے ہیں:
تو رہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ اپنے مرد مومن میں جن اوصاف کو دیکھنے کے خواہاں ہیں وہ ان سے محروم ہو جائے۔ اس لیے وہ مرد مسلمان سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
انسانیت کا معیار:
اقبال جانتے ہیں کہ نسلی تفاخر کس طرح ملت کے لیے زہر ہلاہل کا کام کرتا ہے۔ ان کے پیش نظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ عجمی کو عربی پر اور عربی کو عجمی پر گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے۔ اس لیے وہ خبردار کرتے ہیں کہ:
یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا
اخوت کا درس:
اور اسی کے ساتھ ساتھ عالمی اخوت کا درس دیتے ہوئے اس نظم میں ایک جگہ کہتے ہیں:
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
ترکوں کی کامیابی:
نظم کا چھٹا بند جس میں ترکوں کی کامیابی کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور یونانی اور انگریزی فوج کے کروفر کے مقابلے میں ترکوں کی بے سر و سامانی کا ذکر کیا ہے۔ اقبال کی شاعرانہ کمال اور ان کی خلاقی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ انہوں نے خفیہ کمک، نظام لاسکی، ٹیلیگراف، ٹیلیفون اور آبدوز کشتیوں کا ذکر اور فنکارانہ نزاکت کے ساتھ کیا ہے کہ کم ازکم اردو شاعری میں تو اس کی مثال نہیں ملتی۔
عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے
ہوئے مدفون دریا، زیر دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کر گہر نکلے
غبار رہ گزر ہیں، کیمیا پر ناز تھا جن کو
جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو اکسیر گر نکلے
ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا
خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے
منفرد حیثیت:
غرض طلوع اسلام اقبال کی شاہکار اور نمائندہ نظموں میں سے ایک ہے۔ شوکت الفاظ، مضمون آفرینی اور نازک خیالی کے اعتبار سے یہ نظم بانگ درا کی دوسری نظموں کے مقابلے میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ اس نظم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اپنے معنوی ربط اور باطنی تسلسل کے اعتبار سے ایک مکمل نظم ہونے کے باوجود اپنے لطیف استعاروں اور رمز و کنایہ کی باریکیوں کی بدولت اس میں ایک خاص قسم کا رنگ تغزل بھی پیدا ہوگیا ہے جس نے اس نظم کی دلکشی اور رعنائی میں میں بے حد اضافہ کر دیا ہے۔
فکری جائزہ:
نظم میں کل نو بند ہیں۔ نظم کے مطالب و مباحث کو مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ جہانِ نوکی نوید
۲۔ کائنات میں مقامِِ مسلم
۳۔ مسلمان کا کردار اور اس کی خصوصیات
۴۔ جنگِ عظیم کے نتائج اور اثرات پر تبصرہ
۵۔ مغرب سے مایوسی
۶۔ انسانیت کا مستقبل: مسلمان
۷۔ روشن مستقبل
جہانِ نو کی نوید:
آغاز‘عالمِ اسلام کے موجودہ حالات اور نت نئی رونما ہونے والی تبدیلیوں پر تبصرے سے ہوتا ہے۔ عالمِ اسلام پر جنگِ عظیم اول (۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ء) کا مثبت اثر یہ ہوا ہے کہ مسلمان طویل خواب سے بیدار ہو رہے ہیں۔ طوفانِ مغرب نے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ستاروں کی تنک تابی صبح نو کا پیام دے رہی ہے۔ احیاے اسلام کے لیے مسلمانوں میں جو تڑپ اور لگن پیدا ہو رہی ہے‘ اسے دیکھ کر اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ وہ ایک بار پھر اقوامِ عالم کی رہنمائی کے منصب پر فائز ہوں گے اور ساری دنیا کی فکری‘ تہذیبی اور سیاسی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں گے۔ یہ جہانِ نو کی نوید ہے۔ یہاں علامّہ اقبال عالمِ اسلام کے عظیم ترین حادثے عرب ترک آویزش کی طرف اشارہ کررہے ہیں جس کے نتیجے میں:
الف: عربوں نے ترکوں کو بڑے پیمانے پر تہ تیغ کیا۔
ب: باہمی انتشار و افتراق سے مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ ہو گئی۔
ج: وہ دنیا میں رسوا اور ذلیل ہو گئے۔
تابناک مستقبل:
اقبال کے خیال میں اب مسلمانوں کا مستقبل بہت تابناک ہے۔ اگرچہ خلافت ِ عثمانی کا خاتمہ ہو گیا مگر ترک ایک نئے سفر اور نئی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ باہمی اختلافات کے بھیانک نتائج سامنے آنے پر ملت ِ اسلامیہ کے دل میں اتحاد و اتفاق کی اہمیت کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ شاخِ ہاشمی سے پھوٹنے والے نئے برگ و بار اسی احساس کا سرچشمہ ہیں۔ نظم کے دوسرے بندمیں جہانِ نو کی یہ نو ید‘ دراصل ان سوالات کا جواب ہے جو شاعر کے دل میں ”خضر راہ“ لکھتے وقت پیدا ہوئے تھے اور وہ عالم اسلام کی پریشان حالی کو دیکھ کر بے چین اور مضطرب ہو رہا تھا۔ ”خضر راہ“ میں شاعر کہتا ہے:
؎لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل ؑ
خشت بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز
ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے‘ ہیں آج مجبورِ نیاز
کائنات میں مقامِ مسلم:
شاعر مسلمانوں کو ان کے روشن مستقبل کی نوید سنا کر انھیں جہد و عمل پر اکسا رہا ہے۔ اس لیے وہ یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ کائنات میں مقامِ مسلم کیا ہے؟
اول: مسلمان خداے لم یزل کا خلیفہ اور نائب ہے اور اس ابراہیمی نسبت کی وجہ سے دنیا کی تہذیب و تعمیر اس کا فریضہ ہے۔
دوم:مسلمان کو کائنات میں ”مقصودِ فطرت“ ہونے کے سبب جاودانی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے جہد عمل کی کوئی انتہا نہیں۔
سوم:اللہ نے اسے نیابتِ الٰہی کے بلند درجے پر فائز کیا ہے تو یہ ایک آزمایش بھی ہے۔ کائنات کے مختلف النوع امکانات کو بروے کار لانا اس کے فرائض میں داخل ہے۔
چہارم: اس مقام و مرتبے کا تقاضا یہ ہے کہ اب اسے نہ صرف ایک ملت کی حیثیت سے اپنی بقا و تحفظ کی فکر کرنی ہے بلکہ ایشیا کی پاسبانی کا فریضہ بھی انجام دینا ہے۔
نظم کے تیسر ے بند میں ”کائنات میں مقامِ مسلم“ کے یہی چار پہلو بیان کیے گئے ہیں۔
مسلمان کا کردار اور اس کی خصوصیات:
مسلمان اگر اپنے مرتبے و منصب کا شعوری احساس رکھتا ہے تو پھر ان عظیم ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کے لیے‘ جن کے تصو ّر سے زمین اور پہاڑ لرز گئے تھے اور انھوں نے خلافت کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا‘ مسلمان کو اپنے عمل و کردار میں وہ پختگی اور مضبوطی پیدا کرنا ہوگی‘ جو اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے ضروری ہے۔ اقبال کے نزدیک مسلمان کو اپنے عمل و کردار کے ذریعے خود کو اس منصب کا اہل ثابت کرنا ہوگا۔ بنیادی طور پر دنیا کی امامت کے لیے صداقت‘ عدالت اور شجاعت کی تین خصوصیات ضروری ہیں۔ مگر خلوصِ عمل اور کردار کی پختگی کے لیے اقبال نے چند اور خصوصیات کو بھی لازمی قرار دیا ہے۔ سب سے پہلی اور ضروری چیز ایمان ہے:
گماں آباد ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا
جب اس انگارہء خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
ع:یقیں محکم‘ عمل پیہم‘ محبت فاتحِ عالم
چوتھا‘ پانچو اں اور ساتواں بند انھی نکات کی تفسیر ہے کہ اگر مسلمان ذوقِ یقیں‘ محبت فاتحِ عالم اور عمل پیہم کی صفات کو اپنا لے تو پھر ”ولایت‘ بادشاہی اور علم ِ اشیا کی جہانگیری“ اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ پھر وہ صرف ایک ”نگاہ“سے ایک دنیا کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ وہ پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن سکتا ہے۔ جہادِ زندگانی میں مسلمان کی حیثیت نہ صرف یہ کہ فاتح عالم کی ہوگی‘ بلکہ یہ انگارہ ء خاکی‘ روح الامیں کی ہمسری کادعویٰ بھی کر سکے گا مگرشرط وہی ہے کہ
”فطرت کی تعزیریں بہت سخت ہیں۔“
جنگِ عظیم کے نتائج و اثرات پر تبصرہ:
چھٹے بند میں جنگِ عظیم (اول) کے واقعات کے آئینے میں اس کے نتائج اور خصوصاً عالم اسلام پر اس کے اثرات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ پہلے پہل یونانیوں نے برطانیہ کی مدد سے ترکوں سے ان کے بہت سے علاقے چھین لیے مگر ۱۹۲۲ء میں پانسا پلٹا‘پہلے تو سقاریا کی جنگ میں یونانی‘ ترکوں کے ہاتھوں پٹ گئے۔ سمرنا کی فتح سے ان کے حوصلے بہت بڑ ھ گئے۔ یہاں ترکوں اور یونانیوں کے درمیان برپا ہونے والے انھی معرکوں کی طرف اشارہ ہے۔ ”ہوئے مدفونِ دریا زیردریا تیرنے والے“ کا اشارہ ان یونانیوں کی طرف ہے جنھوں نے آب دوزوں کے ذریعے جنگ میں حصہ لیا۔ ڈاکٹر ریاض الحسن کا خیال ہے کہ اس مصرعے میں اقبال کا اشارہ لارڈ کچنر کی طرف ہے۔ کچنر‘ جنگِ عظیم اول میں برطانیہ کا وزیر جنگ تھا۔ مذاکرات کے لیے‘ ایک آب دوز کے ذریعے‘ روس جارہا تھا کہ جرمنوں نے حملہ کر کے اس کی آب دوز غرق کر دی۔
کیمیا پر ناز کرنے والے یونانی جدید ترین اسلحے اور جنگی سازو سامان سے لیس تھے۔ ترکوں کے پاس اسلحہ کم اور ناقص تھا‘ مگر ان کے عزم و ہمت‘ جرأت و شجاعت اور ولولہء تازہ نے انھیں مفتوح سے فاتح بنا دیا۔ اقبال نے ”خضر راہ“ میں شریف مکہ کی غداری کا ذکر کیا تھا:
ع:بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیٰ
اس بند کے آخری شعر میں اقبال نے ایک بار پھر ایمان و ایقان کو تعمیر ملت کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے کہ ملت کی تقدیر اسی سے وابستہ ہے اور یہی اس کی اصل قوت ہے۔
مغرب سے مایوسی:
عالمِ اسلام خصوصاً ترکی کے حالات سے اقبال کی نظر دوسرے یورپی ملکوں کی طرف جاتی ہے‘ جہاں دنیا کی پہلی خوفناک جنگ لڑی گئی۔ اس کا سبب مختلف یورپی اقوام کی خودغرضیاں‘ مفاد پرستیاں اور نوآبادیاتی حسد اور ہوس تھی۔ اس جنگ نے تباہی و بربادی‘ خون آشامی اور ہلاکت آفرینی کا فقید المثال نمونہ پیش کیا۔ اقبال کا حساس اور درد مند دل انسان کی مظلومیت پر تڑپ اٹھا۔ چنانچہ اس نے آٹھویں بند کے پہلے چار شعروں میں مختلف پہلووؤں سے مغرب پر تنقید کی ہے۔
انسانیت کا مستقبل، مسلمان:
مغرب سے مکمل مایوسی کے بعد اقبال کی نظر میں انسانیت کا مستقبل مسلمان سے وابستہ ہے۔ ان کے نزدیک مسلمان اس گلستان (دنیا) کا بلبل ہے۔ اس کا گیت گلستان کے لیے بادِبہاری کا حکم رکھتا ہے۔ وہ بلبل کو گیت کی لَے بلند کرنے اور پرجوش آواز میں گیت گانے کے لیے اکساتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمان کے لیے محض نام کا مسلمان ہونا کوئی قابلِ لحاظ بات نہیں‘ آخرت میں قسمت کا فیصلہ عمل و کردار سے ہوگا۔
روشن مستقبل پر اظہارِ مسرت:
ترکوں کی فتح عالم اسلام کے لیے ایک بہت بڑا سہارا(Asset) تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا‘ جیسے عالمِ اسلام انگڑ ائی لے کر بیدار ہو رہا ہے۔ ترکوں کی فتح گویا مسلم نشاۃ ثانیہ کی طرف پہلا قدم تھا:
ع:سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے‘ وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
نام نہاد تہذیب:
دوسری طرف دنیا کی امامت کے دعوے دار‘ یورپ کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکاٖ تھا۔ یورپ کی نام نہاد تہذیب نے دنیا کو تباہی و بربادی اور بربریت و دہشت گردی کے سوا کچھ نہ دیا۔ اقبال کے سال نو کے پیغام(یکم جنوری ۱۹۳۸ء) سے انداز ہ ہوتا ہے کہ وہ مغرب سے قطعی مایوس تھے۔ منطقی طور پر انھوں نے قرار دیا کہ اب اسلام ہی بنی نوع انسان کے مسائل حل کر سکتا ہے۔ چنانچہ ”طلوعِ اسلام“ کے آخری بند میں اقبال نے اس پر بڑ ے جوش و خروش کے ساتھ خوشی اور مسرت کا اظہار کیا ہے۔
فنی تجزیہ:
”طلوعِ اسلام“ ترکیب بند ہیئت میں کل نو بندوں پر مشتمل ہے۔ نظم کی بحر کا نام ہزج مثمن ہے۔ بحر کا وزن اور ارکان یہ ہیں:مَفَاعِیْلُنْ مَفَاعِیْلُنْ مَفَاعِیْلُنْ مَفَاعِیْلُنْ
براہِ راست خطاب:
اقبال نے اپنی بعض دوسری طویل نظموں‘ مثلاً:”ذوق و شوق“ یا ”مسجد قرطبہ“ کے برعکس ”طلوعِ اسلام“ میں تخاطب کا بلاواسطہ اور براہِ راست طریقہ اختیار کیا ہے۔
خوش خبری:
یہ نظم ایک ایسے دور میں لکھی گئی جب بحیثیت ِ مجموعی عالمِ اسلام کے حالات میں خوش گوار تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ اس سبب سے اقبال کے جذبات میں تلاطم برپا تھا۔وہ مسلم دنیا کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے‘ مسلمانوں کو دعوتِ جہد و عمل دیتے ہیں اور روشن مستقبل کی خوش خبری سناتے ہیں۔ یہاں انھوں نے براہِ راست خطاب کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ”طلوعِ اسلام“ میں رمز و ایما کا وہ بلند معیار نہیں ملتا جو اقبالؔ کی بعض دوسری نظموں میں پایا جاتا ہے۔ جہاں فکر اور سوچ کم اور تلقین و اظہار زیادہ ہو اور وہ بھی براہِ راست‘ تو ظاہر ہے کہ بات”درحدیثِ دیگراں“ کے بجاے بلا واسطہ اور وضاحت سے کہی جائے گی۔
متنوع لہجہ:
نظم کا آغاز بڑ ے نرم اور دھیمے لہجے میں ہوتا ہے۔ پہلے مصرعے میں ”ستاروں کی تنک تابی“ کی ترکیب نرمی‘ سبک روی‘ گداز اور گھلاوٹ کا احساس پید ا کر رہی ہے‘ دوسرے مصرعے اور پھر دوسرے شعر تک پہنچتے پہنچتے شاعر کے لب و لہجے میں گرمی‘ جوش اور ولولہ پیدا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جوں جوں آگے بڑ ھتے جائیں‘ لب و لہجے کی تیزی و تندی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ طوفانِ مغرب، تلاطم ہائے دریا، شکوہِ ترکمانی، نوارا تلخ تر می زن، تقدیر سیمابی کی تراکیب گواہی دے رہی ہیں کہ شاعر اپنے بیان کے اظہار میں قو ّت اور شدت سے کام لینا ضروری سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ پہلے بند کے ختم ہوتے ہوتے شاعر ”چراغِ آرزو روشن کرنے“ اور شہیدِ جستجو کی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔
دوسرے بند کے آغاز میں شاعر کا لہجہ پھر قدر ے نرم ہو جاتا ہے۔ مگر بند کے اختتام پر ”سوزو سازِ زندگی“ کے ذکر سے بیان میں پھر وہی گرمی اور وہی جوش پیدا ہو جاتا ہے۔ لب و لہجے کا یہ اختلاف پوری نظم میں موجود ہے۔ نظم کا خاتمہ بڑا دل نشین ہے۔
تحسین فطرت:
بانگِ درا میں اقبال ایک مفکر سے زیادہ فن کار‘ شاعر اور مصور نظر آتے ہیں۔ ”طلوعِ اسلام“ میں انھوں نے حسن فطرت اور اس کے مظاہر و اجزا کے تذکرے اور تحسین کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ نظم کا آغاز ہی ”صبح روشن“ ”ستاروں کی تنک تابی“، ”افق“ اور ”آفتاب“ سے ہوتا ہے۔ آگے چلیں تو فطرت کے ان تمام خارجی مظاہر کا تذکرہ ملے گا‘ جن پر اقبال شیدا و فریفتہ ہیں‘ مثلاً:طوفان اور تلاطم ہاے دریا‘ لالہ‘ دریا اور گہر‘ انجم‘ نرگس‘ شاہین‘ عروسِ لالہ‘ پروازِشاہینِ قہستانی‘ قندیلِ رہبانی‘ خورشید‘ عقابی شان‘ستارے شام کے‘ خونِ شفق‘ طمانچے موج کے‘ بیکراں ہو جا‘ پر فشاں‘ سیلِ تند رو‘جوے نغمہ خواں‘ صداے آبشاراں‘ فرازِ کوہ‘ خیلِ نغمہ پردازاں‘ برگ ہاے لالہ وغیرہ۔
یہ الفاظ اور تراکیب اقبال کے ہاں مخصوص علامتوں کی نمایندگی کرتی ہیں۔
غنائیت:
”طلوعِ اسلام“ کی بحر رواں دواں‘ شگفتہ اور غنائیت سے بھر پور ہے۔ نظم کو پڑ ھتے ہوئے ایک طرح کی نغمگی کا احسا س ہو تا ہے۔ ردیف و قوافی کی موزونیت‘ غنائیت کے لطف کو دوبالا کرتی ہے۔ تکرارِ لفظی بھی غنائیت کا اہم عنصر ہے۔ چند مثالیں:
نہ تورانی رہے باقی‘ نہ ایرانی نہ افغانی
بیا ساقی نواے مرغ زار از شاخسار آمد
بہا ر آمد‘ نگار آمد‘ نگار آمد‘ قرار آمد
بلاغت:
”طلوعِ اسلام“ کا زمانہء تصنیف بانگِ درا کا دورِ اختتام ہے۔ اس دور میں اقبال کے ہاں وہ پختگی آچکی تھی جس کی حقیقی شکل بالِ جبریل کی نظموں میں نظر آتی ہے مگر اس کی ابتدائی جھلکیاں ”طلوعِ اسلام“ میں بھی موجود ہیں۔ یہاں انھوں نے تاریخ اسلام اور مختلف زمانوں اور علاقوں کے مسلمانوں کی قومی خصوصیات اور شخصی خوبیوں کی طرف بڑے بلیغ اشارے کیے ہیں۔ بعض اشعار تو بلاغت و جامعیّت کا شاہ کار ہیں، مثلاً:
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی‘ ذہن ہندی‘ نطقِ اعرابی
……٭……٭……