ٹوپی سے میری واقفیت دادی اماں نے کرائی تھی۔ وہ کریشیے کی مدد سے پَشم کی پیاری پیاری ٹوپیاں بُن کر گھر کے مردوں کو دیا کرتی تھیں۔ ظاہر ہے یہ محنت طلب کام تھا، اس لیے ان ٹوپیوں کی دیکھ بھال کا خصوصی خیال رکھا جاتا۔ وہ مختلف انداز کی ٹوپیاں بُنا کرتی تھیں اور سبھی انتہائی خوب صورت ہوتی تھیں، البتہ ایک انداز مجھے پریشان کرتا تھا۔ اُس ٹوپی کا انداز کچھ یوں ہوتا جیسے قلعے کی دیواروں پر کنگرے بنے ہوتے ہیں۔ دیکھنے پر وہ ٹوپی انتہائی خوب صورت دکھائی دیتی تاہم پوری گولائی پر مشتمل وہ کنگرے بالوں کو جکڑ لیا کرتے۔ ٹوپی اُتارنے کے بعد کافی دیر تک میرے سر میں عجیب سا درد اور کھچاؤ رہتا۔ سر کے بال بھی کنگروں کی شکل اختیار کر جاتے تھے، یوں کنگھی کرنے پر خاص پف نہ بن پاتا۔
کراچی میں نیول کالونی میں ہماری رہائش تھی، ایک دن میں حسبِ معمول دودھ لینے کے لیے باڑے کی طرف جا رہا تھا۔ باڑے سے چند قدم پیچھے تھا کہ میرا ایک گہرا دوست فرقان مجھے مل گیا۔ گہرا اِس لیے کہ مجھے اس کے کرتب بہت پسند تھے۔ وہ ہاتھوں کے بل اُلٹا کھڑا ہو جاتا، اسی انداز میں چل لیتا، حیرت انگیز قلابازیاں لگاتا۔ غرض یہ کہ وہ اپنے آپ میں پورا سرکس تھا۔ میری بات اُس نے کبھی نہ موڑی تھی، جب کبھی کرتب کی فرمائش کی تو اُس نے فوراً پوری کی۔ اس کے بدلے وہ مجھ سے ’نقلانہ امداد‘ لیا کرتا۔ ٹیسٹ اور امتحانات میں وہ مجھ سے خوب نقل کیا کرتا۔
اُس دن وہ مجھے ملا تو شرارت اُس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ اُس نے میرے سر سے ٹوپی اُتار لی اور اُسے ہوا میں اُچھالنے لگا۔ میں اُسے منع کرتا تو وہ اور بھی زور سے اوپر اُچھالتا اور پھر پکڑنے کی کوشش کرتا۔ اگلے چند لمحوں میں میری ٹوپی ایک درخت کے حُسن میں اضافے کا باعث بن چکی تھی۔ اس حسن کی لشکارا کافی اُونچائی پر موجود تھا۔ اُسے ٹوپی اُتارنے کو کہا تو وہ صاف انکار کر گیا کہ مجھ سے تو درخت چڑھنے ہی نہیں ہوتا۔ میں نے اُسے اُس کے کرتب یاد دلائے، اُن کا واسطہ دیا مگر وہ نہ مانا۔ کہنے لگا کہ کرتب کا کہو تو ابھی شروع کر دوں مگر اِس درخت پر میں نہیں چڑھ سکتا۔ میں نے پریشانی کی وجہ سے اپنا رونے والا منہ مزید بگاڑ لیا مگر اُس پر ذرا اثر نہ ہوا۔ وہ میری صورت حال سمجھنے سے قاصر تھا کہ میرا ننگے سر گھر جانا مجھے کتنی بڑی مصیبت میں گرفتار کر سکتا ہے۔ گھر جانا بھی ضروری تھا اور میں ننگے سر اپنے گھر پہنچ گیا۔
ابو دیکھتے ہی باز پُرس کرنے لگے۔ بالآخر تحقیقاتی کمیٹی نے مجھ سے اُگلوا کر دم لیا کہ ٹوپی کی ایسی بے حرمتی فرقان نے کی ہے۔ ابو نے میرا ہاتھ پکڑا اور میری ’قیادت‘ میں فرقان کے گھر جا پہنچے۔ دستک دینے پر فرقان کے ابو باہر آئے۔ ابو نے فرقان کا کارنامہ اُن کے گوش گزار کیا۔
’’فرقان!‘‘ اُنھوں نے ووکل کارڈ کا ربط لاؤڈ اسپیکر سے کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو پکارا۔ وہ بھاگ کر دروازے کے پاس پہنچا اور مجھے دیکھ کر مسکرایا۔ اُس کے ابو نے پوچھا:
’’کیا اس بچے کی ٹوپی تم نے درخت پر پھینکی؟ سچ بتانا مجھے۔‘‘
’’جی ابو!‘‘
چٹاخ کی آواز اُبھری تھی۔ اس سے زیادہ تو کچھ نہ ہوا البتہ مجھے اندر ہی اندر بہت ندامت محسوس ہوئی کہ اس سے بہتر تھا کوئی جھوٹ گھڑ لیتا۔ اگلے دن جب فرقان ملا تو اُس نے بتایا کہ ابو نے مجھے تمھارے ساتھ دوستی رکھنے سے سختی سے منع کیا ہے لیکن ہم دوست رہیں گے۔ میں بہت خوش ہوا، پھر مجھے یاد آیا کہ سالانہ امتحان تو سر پہ ہیں۔
ٹوپیاں بنانے کے معاملے میں، دادی اور نانی کے مابین گویا مقابلہ ہوتا تھا۔ نانی اماں تِلّے والی خوب صورت ٹوپیاں بنایا کرتیں اور بنانے کے بعد اسے چوڑے گلاس پر چڑھا دیا کرتیں۔ ایک یا دو دن بعد اسے گلاس سے اتار لیتیں اور وہ بالکل گلاس کی شکل اختیار کر جاتا، پھر وہی گلاس نما ٹوپی کسی تاج کی مانند میرے سر پہ سج جاتی۔ نانی اماں کے ہاتھ کی بنی ایک ٹوپی ابھی تک میرے پاس ہے اور اب وہ میرے بیٹے عماد علی کے سر پر سجا کرتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ٹوپی پہننے سے سر کی شان بڑھ جاتی ہے۔ شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔
سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید حفظ کرتے ہوئے ٹوپی سے میری نسبت قائم رہی۔ بعد از سکول و مدرسہ، میں نے ٹوپی کے ساتھ ٹوپی ڈرامہ شروع کر دیا۔ ٹوپی کے بجائے کنگھی کی مدد سے کنگرے بننے لگے۔ دوست یار مرعوب ہوتے اور پوچھتے کہ بالوں پہ ’جیل‘ لگاتے ہو کیا! ٹوپی سے میری نسبت فقط اتنی رہ گئی تھی کہ نماز پڑھتے وقت اُسے سر پہ رکھ لیا کرتا۔ بعض اوقات تو نماز کے دوران بھی سر ننگا رہنے لگا۔
پھر میرے ساتھ ’عُمراں توں پہلے چٹے وال تھی گئے‘ والا معاملہ پیش آیا یعنی بال سفید ہونے لگے۔ لیکن اس کا سبب کسی قسم کے وچھوڑے نہیں تھے۔ سبب تو خود بھی معلوم نہیں کر پایا، آپ کو کیا بتاؤں!
پچھلی گرمیوں میں اچانک جی میں آیا کہ ٹنڈ کرواتا ہوں، کچھ دنوں کے لیے سر ’ہولا پُھل‘ ہو جائے گا۔ فوری عمل کیا اور یوں میں ٹِنڈا ہو گیا۔ آئینے میں جب غور سے دیکھا تو خود کو پہچاننے سے انکار کرنے لگا۔ ٹِنڈ کے باعث شخصیت ٹُنڈ منڈ دکھائی دے رہی تھی۔ ٹِنڈ ہونے کی وجہ سے دماغ کی جیسے ٹیوننگ ہو چکی تھی، فوراً ایک ترکیب سوجھی۔ الماری میں سے ٹوپی تلاش کی اور اُسے سر پہ سجا لیا۔ پھر آئینے میں دیکھا، اب شخصیت میں جاذبیت تھی۔ میں مسکرایا اور ٹوپی کا دل کی بجائے سر سے شکریہ ادا کیا۔ گھر سے باہر نکلتے وقت ٹوپی سر پہ رکھنا نہ بھولتا۔ ضمیر نے مجھے ملامت کیا:
یہ ایک ٹوپی جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار مسئلوں سے دیتی ہے آدمی کو نجات
ضمیر صاحب کی سن کر عہد کیا کہ اب ٹوپی کے ساتھ ٹوپی ڈرامہ بالکل نہیں کرنا بلکہ اسے ہر وقت سر پہ سجائے رکھوں گا۔
کچھ دنوں بعد جب سر پہ بال نمودار ہونے لگے تو دھیرے دھیرے ٹوپی اُترتی گئی، مزید بڑھنے پر تو اُتر ہی گئی۔ یوں مجھ سے نہ چاہتے ہوئے بھی ٹوپی کے ساتھ پھر سے ٹوپی ڈرامہ ہو گیا۔ دعا کریں کہ ٹوپی کے ساتھ بچپن سے قائم شدہ نسبت قائم ہی رہے اور مجھے ٹوپی ڈرامے سے بچنے کی توفیق عطا ہو۔ اب تو دادی اماں اور نانی اماں، دونوں ہی اگلے جہاں پہنچ چکی ہیں۔لہٰذا بازاری ٹوپیوں سے ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔