درختوں کے سرسبز وشاداب جھنڈ میں کیکر کا ایک بہت بڑا اور خوب گھنا درخت تھا۔ آس پاس کے سبھی درخت اُس کے سامنے بچوں کی مانند تھے۔ جب کبھی ہوا کا رُخ اس جانب ہوتا تو سبھی درخت خوشی سے جھوم اُٹھتے اور خوب سریلے گیت گاتے۔ بعض اوقات طوفانی ہواؤں کی آمد سے کچھ درختوں کی شاخیں جدا ہو جاتیں جس پر سبھی درخت غم گین ہو جاتے۔ اُن کی خوشی ہوا کے معمولی جھونکوں سے وابستہ تھی۔ اُن کی خوشی دوچند ہو جاتی جب کوئی تھکا ہارا مسافر اُن کی گھنی چھاؤں میں آرام کرنے آ بیٹھتا مگر ایسا موقع برسوں بعد آتا تھا۔ وہ جگہ آبادی سے اتنی دور تھی کہ کیکر کے بڑے درخت کی چوٹی سے دیکھنے پر بھی کہیں کوئی گھر دکھائی نہ دیتا تھا۔
اُسی کیکر میں ایک عجیب سی پراسراریت تھی۔ کبھی کوئی بھولا بھٹکا مسافر یا لکڑہارا اُس کے سائے میں آرام کی غرض سے بیٹھتا تو اُسے چند ہی لمحوں میں نیند آ گھیرتی۔ یہ نیند اس قدر زور پکڑ جاتی کہ وہ شخص کئی کئی روز بعد بیدار ہوتا۔ جاگنے کے بعد وہ خود کو بالکل ہلکا پھلکا محسوس کرتا۔ اُسے کوئی غم یاد رہتا نہ کوئی پریشانی۔ اس کے علاوہ اس درخت میں کچھ خوف ناک بات نہ تھی لیکن دُور دُور تک یہ بات پھیل چکی تھی کہ یہ جگہ آسیب زدہ ہے۔ یہاں کے متعلق عجیب و غریب باتیں مشہور تھیں۔ ڈر کے مارے کوئی آدم زاد اس جانب رخ نہ کرتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ یہاں کے درخت انسان کے ظلم سے محفوظ تھے۔
واحد ارشاد ہی ایسا شخص تھا جسے وہاں کی پراسراریت سے ذرا خوف نہ تھا۔ وہ ایک دلیر اور سمجھ دار انسان تھا۔ وہ میلوں دُور سے اپنے اونٹ کے ہمراہ وہاں پہنچ جاتا اور جھکڑوں کی وجہ سے علیحدہ ہوئی شاخوں کی ضروری کاٹ چھانٹ کر کے انھیں اونٹ پر لاد کر اپنے گاؤں لے جاتا۔ وہ کھڑے درخت کی کسی بھی شاخ کو ہاتھ نہ لگاتا۔ بعض اوقات اُسے خالی لوٹنا پڑتا لیکن وہ اس پر ذرا نہ رنجیدہ ہوتا۔ ارشاد صرف ایک لکڑہارا ہی نہیں بلکہ ماہر بڑھئی بھی تھا۔ اس کی تیار کردہ پیڑھیوں، چارپائیوں اور کرسیوں کی بڑی دھوم تھی۔ وہ یہ سب کام اکیلے کرتا تھا اور ان چیزوں کو مناسب داموں فروخت کرتا تھا۔ اُس نے اپنے گھر کی بہت سی اشیا خود ہی بنائی تھیں۔
ارشاد کا ایک ہی مگر لاڈلا بیٹا سکندر تھا۔ اس نے ابھی نیا نیا سکول جانا شروع کیا تھا۔ ارشاد اپنے بیٹے کو کھیلنے کے لیے مختلف اشیا تیار کر کے دیتا تھا۔ گلی ڈنڈا،غلیل، ہاکی،بلا اور لکڑی کی ہی گیندیں …… ان چیزوں کے ساتھ سکندر خوب مزے سے کھیلتا اور انھیں ہمیشہ سنبھال کر رکھتا۔
کام میں اچھی مہارت حاصل کرنے کے بعد ارشاد نے تجرباتی طور پر چھوٹا سا پلنگ اور میز بھی تیار کیے۔ یہ دونوں چیزیں اس قدر خوب صورت تیار ہوئیں کہ سکندر نے ان پر فوری قبضہ کر لیا۔ سچ تو یہ تھا کہ ارشاد نے یہ چیزیں سکندر کے لیے ہی بنائی تھیں۔ اس دن سکندر نے گلے لگ کر ابو کا شکریہ ادا کیا تھا۔
ایک مرتبہ سکندر کے ماموں شہر سے انھیں ملنے آئے تو وہ پلنگ اور میز کی خوب صورتی سے بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے ارشاد کے فن کی تعریف کی اور سکندر کو خوش خبری سنائی کہ وہ اسے بہت جلد اتنا ہی خوب صورت تحفہ دینے والے ہیں۔ سکندر پوچھتا رہ گیا لیکن ماموں نے اس کا تجسس برقرار رہنے دیا کیوں کہ تجسس کا بھی ایک اپنا مزا ہے۔ ماموں کے جانے کے بعد سکندر روز اس تحفے کے متعلق سوچتا اور ماموں کے جلد دوبارہ آنے کی دعائیں کرتا۔
ایک مہینہ ہی گزرا تھا کہ اس کے ماموں پھر سے ملنے آ گئے۔ اس مرتبہ اُن کے ہاتھوں میں گتے کا ایک ڈبہ موجود تھا جسے وہ کسی کے بھی ہاتھوں میں تھمانے سے کترا رہے تھے۔ سکندر بڑے پرجوش انداز میں ماموں سے ملا تھا لیکن اُس کی نظریں گتے کے اُس ڈبے پر جمی تھیں۔ ماموں نے سکندر کی بے چینی بھانپ لی، وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لے آئے۔ پھر انھوں نے احتیاط کے ساتھ ڈبہ کھولا اور اگلا منظر دیکھ کر سکندر خوشی سے چیخ ہی اُٹھا۔
”سونے کی مچھلی……!“
”میرے بچے کو تحفہ پسند آیا؟“ ماموں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ کچھ دیر تو سکندر سے خوشی کے مارے بولا نہ گیا پھر وہ قدرے لمبا سانس لیتے ہوئے بولا:
”بہت زیادہ…… اتنی پیاری مچھلی! اس کا تو گھر بھی بہت خوب صورت ہے۔“
سکندر نے شیشے سے بنے مچھلی کے گھر کو چھوتے ہوئے کہا۔ سنہری مچھلی سکندر کی جانب ہی دیکھ رہی تھی کہ اچانک اُس نے رخ بدل لیا۔ شاید وہ ڈر گئی تھی۔
”ماموں جان! مچھلی کا گھر تو بہت نازک ہے، کہیں ٹوٹ ہی نہ جائے۔ اگر یہ ٹوٹ گیا تو ننھی سی مچھلی تو مر جائے گی۔“ سکندر اُداسی سے بولا تو ماموں بھی ایک پل کے لیے سنجیدہ ہو گئے پھر بولے:
”بیٹا! ہم اس پیارے گھر کو آپ کی اس چھوٹی سی خوب صورت سی میز پر نہ رکھ دیں؟ ساتھ ہی آپ کا بستر ہو گا تو مچھلی کو اکیلا پن بھی محسوس نہیں ہو گا۔“
سکندر کو ماموں کی تجویز پسند آئی اور یوں سنہری مچھلی کو میز پر رکھ دیا گیا۔ ننھی سی سنہری مچھلی نے بل کھاتے ہوئے دو چکر لگائے گویا اُسے بھی یہ جگہ پسند آ گئی۔ سکندر کے کمرے میں پلنگ، میز اور اب سنہری مچھلی کے آ جانے سے خوب رونق لگ گئی تھی۔ اب اُس کا کھیلنے والی دیگر چیزوں میں ذرا دل نہ لگتا بلکہ جب اُسے فرصت ملتی، وہ پلنگ پر چوکڑی مار کر بیٹھ جاتا اور سنہری مچھلی کو ٹُک ٹُک دیکھے جاتا۔ سنہری مچھلی کو سکندر کا یہ انداز بہت بھاتا۔ وہ بھی ٹُک ٹُک سکندر کی جانب دیکھنے لگتی اور پھر دل کش انداز میں تیرتے ہوئے اُس کا جی بہلاتی۔
چند ہی دنوں میں دونوں اچھے دوست بن گئے۔ اب دونوں دوست بنا ہونٹ ہلائے بہت سی باتیں کر لیا کرتے تھے۔ سکندر اُسے ننھے منے پودے اور کیڑے مکوڑے کھلاتا۔ کھلانے سے قبل وہ انھیں دھونا نہ بھولتا۔ وہ اُسے مخصوص خوراک کے چند دانے بھی کھلایا کرتا جو اُسے ماموں دے گئے تھے۔ ہفتہ دس دن بعد وہ گھر کی صفائی بھی کیا کرتا۔
سکندر نے کہیں سے سنا کہ مچھلیوں کو خوب صورت سنگ ریزے بہت اچھے لگتے ہیں تو اُس نے نیا کام شروع کر دیا۔ اب وہ گھر سے نکل جاتا اور اِرد گرد دکھائی دینے والے چھوٹے بڑے پتھروں میں سے حیرت انگیز اور دل کش سنگ ریزے تلاش کرتا۔ بسیار تلاش کے باوجود صرف چار سنگ ریزے ہی اُس کے ہاتھ لگے۔ سکندر نے اُنھیں اچھی طرح صاف کرنے کے بعد مچھلی کے گھر میں ڈال دیا۔ سکندر نے محسوس کیا کہ سنہری مچھلی اب پہلے سے بھی زیادہ خوش رہنے لگی ہے۔ کسی کسی وقت وہ اُن سنگ ریزوں کے ساتھ شرارتیں بھی کرتی۔ یہ منظر دیکھ کر سکندر بہت خوش ہوتا۔ وہ اُٹھتے بیٹھتے بس مسکراتا ہی رہتا۔
سکندر کی زندگی بڑے مزے سے گزر رہی تھی کہ اچانک اُسے ایک پریشانی نے آ گھیرا۔ اُس کی سنہری مچھلی نے تیرنا اور بل کھانا چھوڑ دیا تھا۔ وہ شیشے کے گھر میں بے سدھ سی پڑی رہتی۔ یہاں تک کہ وہ اب سکندر کی جانب ٹُک ٹُک دیکھا بھی نہ کرتی۔ کھانا بھی اُس نے ترک کر دیا تھا۔ دو دن یوں ہی گزر گئے، سکندر کو غم کے مارے تپ چڑھ گیا۔ اُسے یوں غم گین اور بخار میں مبتلا دیکھ کر امی سے رہا نہ گیا۔ اُنھوں نے اپنے بھائی سے موبائل فون پر بات کی اور صورت حال سے آگاہ کیا۔ یہ پریشانی سن کر سکندر کے ماموں بولے:
”وہی ہوا جس کا ڈر تھا، سنہری مچھلی رات کے وقت بھی دن کی روشنی مانگتی ہے۔ زیادہ تر سنہری مچھلیاں مصنوعی روشنی سے بہل جاتی ہیں لیکن چند ایک تو چاہتی ہیں کہ انھیں رات کے وقت بھی سورج کی روشنی ملے ورنہ اُن کا زندہ رہنا ممکن نہیں رہتا۔“
”اوہ! اب پھر؟“ سکندر کی امی نے فکرمندی سے پوچھا۔
”اب کیا کر سکتے ہیں، سوائے دعا کے!“ ماموں بھی بجھے دل کے ساتھ بولے۔
امی نے جب یہ بات سکندر کو بتائی تو وہ تڑپ کر رہ گیا۔ اُسے لگا جیسے کسی نے اُس کا دل زور سے پکڑ رکھا ہے۔ اُس کے جسم کا درجہ حرارت مزید بڑھنے لگا اور کپکپی سی طاری ہو گئی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُس کی آنکھوں سے ننھے ننھے سے چند قطرے ٹپک پڑے۔ امی نے فوراً اپنے دوپٹے سے اُس کا چہرہ صاف کیا اور اپنی گود میں بٹھا کر دلاسا دینے لگیں۔
”خیر ہو گی بیٹا! پریشان نہ ہو بالکل، دیکھنا جلد ٹھیک ہو جائے گی۔“
”ابو……!“ سکندر نے سسکیوں کے ساتھ ابو کو پکارا۔
”بیٹا! وہ تو سویرے منہ اندھیرے لکڑیاں اکٹھی کرنے چلے گئے تھے۔ پریشان نہ ہو میرے لعل! ابو جلد لوٹ آئیں گے۔“ یہ کہہ کر وہ تیزی سے باورچی خانے میں گئیں اور ایک دھجی کو گیلا کر کے لے آئیں۔ پھر وہ سکندر کے سرہانے بیٹھ گئیں اور گیلے کپڑے کو اُس کی پیشانی پر رکھ دیا۔ ساتھ ہی وہ اللہ سے فریاد بھی کر رہی تھیں کہ سکندر کو جلد شفا مل جائے۔ سکندر وقفے وقفے سے آنسو بہا رہا تھا، وہ روتے روتے کچھ سوچ رہا تھا اور پھر وہ امی سے مخاطب ہوا:
”امی……!“
”جی کرے امی! بول بیٹا! کچھ چاہیے؟“
”نہیں امی!وہ …… روشنی والی بات نہیں ہو گی، میری مچھلی اور سنگ ریزے مانگ رہی ہو گی۔“ وہ جواب طلب نظروں سے امی کی جانب دیکھنے لگا۔ امی نے اُس کا دل رکھنے کے لیے ہاں میں سر ہلا دیا۔
”میں اس کے لیے تلاش کروں گا پیارے پیارے،بہت سارے سنگ ریزے……“ پھر وہ پھرتی سے اُٹھا اور باہر کی جانب لپکا۔ امی اُس کے پیچھے دوڑیں اور روکنے کی کوشش کی مگر وہ کہاں رکنے والا تھا۔ اُس نے منت سماجت کرتے ہوئے امی کو یقین دلایا کہ وہ زیادہ دور نہیں جائے گا، بس اُسے جانے سے روکا نہ جائے۔ امی سے اُس کی تکلیف دیکھی نہیں جا رہی تھی، اس لیے مجبوراً انھوں نے ہتھیار ڈال دیے اور پھر سکندر گھر سے نکل گیا۔
وہ گاؤں کی گلیوں میں لڑکھڑاتے اور کپکپاتے قدموں کے ساتھ چل رہا تھا۔ اُس کی نظریں تیزی سے گرد و پیش کا جائزہ لے رہی تھیں مگر کہیں کوئی خوب صورت سنگ ریزہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ مسلسل چلتے رہنے کی وجہ سے وہ ہانپنے لگا تھا۔ ایک جگہ رک کر اُس نے اپنی جلتی آنکھوں کو کچھ دیر کے لیے مسلا اور پھر سے چلنا شروع کر دیا۔ دھیرے دھیرے اُس کا جسم سُن ہوتا جا رہا تھا اور پھر اُسے خبر نہ رہی کہ وہ کہاں جا رہا ہے اور کیوں جا رہا ہے۔
z
درختوں کے اُس جھنڈ میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ شاید وہ کسی ساتھی کی گری ہوئی شاخوں پر افسردہ تھے۔ یکایک مشرقی سمت سے ٹھنڈی میٹھی ہوا لہراتے ہوئے آئی اور اُس نے سب درختوں کو جھولنے پر مجبور کر دیا۔ وہ غم بھلا کر خوشی کے گیت گانے لگے۔ کیکر کا بڑا درخت تو خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ مدتوں بعد کوئی بھولا بھٹکا مسافر اُس کے سائے میں بیٹھا تھا۔ یہ مسافر کوئی اور نہیں بلکہ سکندر تھا۔ اُس کی سانسیں بے ترتیب ہو چکی تھیں اور آنکھوں کی پتلیاں اوپر ہی اوپر اُٹھے جا رہی تھیں۔ اگلے چند لمحوں میں وہ ہوش سے بالکل بے گانہ ہو گیا۔
ہوا کے ہلکورے درختوں کو خوب نچا رہے تھے۔ وہ مستی کی ایک عجیب سی کیفیت میں تھے۔ اگر اُس وقت ہوا تھم جاتی تو اُن کا دم ہی نکل جاتا۔ سر سبز و شاداب درختوں کے عین مرکز میں سنہرے رنگ کا طویل القامت درخت تن کر کھڑا تھا۔ یوں گمان ہوتا تھا جیسے کسی درخت کے موٹے تنے پر سونے کا پہاڑ جما دیا گیا ہے۔ سونے کی ڈالیاں، پھلیاں اور پتے جواہرات کی مانند دکھائی دے تھے۔ کائنات کی ساری دولت، سارا حسن ایک جگہ اکٹھا ہو چکا تھا۔ سنہری پھلیوں کے ساتھ کہیں کہیں سفید رنگ کے ہیروں جیسے کنکر بھی جھولتے دکھائی دیتے تھے۔ اُن کنکروں میں عجیب سی چمک تھی جو انھیں سونے کے پہاڑ میں بھی نمایاں کرتی تھی۔ اچانک ہوا میں تیزی آئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک کنکر ڈالیوں سے جدا ہو کر نیچے گرنے لگا۔ اگلے ہی پل وہ سکندر کی پیشانی سے ٹکرایا تھا۔ سکندر ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی دن کے مختصر سے وقفے میں نیند سے بیدار ہو گیا۔ سکندر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہاں تک پہنچا کیسے!
اُسے پورا طلسماتی منظر اچھی طرح یاد تھا مگر بیدار ہونے پر تو ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ کیکر کا درخت پہاڑ ہی کی مانند تھا مگر وہ پہاڑ ہرا بھرا تھا۔ سکندر نے محسوس کیا کہ وہ بالکل تروتازہ ہے، بخار کا ہلکا سا تاثر بھی موجود نہیں۔ وہ شدید حیران ہوا اور اسی حیرانی کی کیفیت میں اِردگرد دیکھنے لگا۔ اچانک اُس کی نظریں ایک کنکر سے ٹکرائیں جو ہیرے کی سی چمک لیے ہوئے تھا۔ کنکر اِس قدر پرکشش تھا کہ سکندر بے اختیار اُس کی جانب لپکا اور اُسے شہادت اور انگوٹھے کی مددسے اُٹھا کر دیکھنے لگا۔ مختلف زاویوں میں دیکھنے پر اُس کی چمک میں دل کش بدلاؤ آتا۔ ایسا خوب صورت سنگ ریزہ پا کر سکندر تو خوشی سے ناچ ہی اُٹھا۔
”سنہری مچھلی کو یہ کنکر بہت پسند آئے گا۔“ وہ بُڑبڑایا اور پھر اُس نے چمکتی آنکھوں سے کیکر کے درخت کی جانب دیکھتے ہوئے اُس کا شکریہ ادا کیا۔ اب وہ سوچ رہا تھا کہ گھر کیسے جائے، کیوں کہ یہ جگہ اُس کے لیے بالکل اَن جانی تھی۔ اتنے میں اُس کے کانوں سے ”ٹھک“ کی آواز ٹکرائی۔ درخت کی شاخ پر کسی نے کلہاڑے سے ضرب لگائی تھی۔ وقفے وقفے سے یہ آواز فضا میں گونج رہی تھی۔ سکندر نے کنکر مٹھی میں دبایا اور آواز کی سمت بڑھنے لگا۔ ابھی وہ چند قدم ہی چلا تھا کہ اُسے اونچی کوہان والا ایک اونٹ دکھائی دیا۔ وہ درخت کی شاخوں پر موجود نرم نرم پتے کھانے میں مگن تھا۔ اُسے دیکھ کر سکندر کے چہرے پر مسکراہٹ اُبھر آئی۔اگلے ہی پل وہ چلایا تھا:
”ابو جی!“
بوکھلاہٹ کے مارے ارشاد کے ہاتھ سے کلہاڑا چھوٹ گیا۔ وہ بجلی کی تیزی سے پلٹا تھا۔
”سکندر……میرا بچہ! تم یہاں؟ کب…… کیسے……“
سکندر کو کوئی جواب نہ سوجھا تو اُس نے مٹھی کھول دی۔ چمکتا دمکتا کنکر دیکھ کر ارشاد حیرت سے اُچھل پڑا۔
”یہ کیا چیز ہے؟ اور تم نے بتایا نہیں کہ یہاں کیسے آئے! تمھیں تو بخار……“ ادھوری بات کر کے ارشاد، اپنے لخت جگر کی جانب لپکا اور اُس کی پیشانی پر اُلٹا ہاتھ رکھتے ہوئے بخار کی کیفیت محسوس کرنے لگا۔
”ابو!میں بالکل ٹھیک ہوں اور حیران بھی ہوں کہ میرا بخار اُترا کیسے! یہ مجھے وہاں سے ملا۔“ سکندر نے کیکر کی جانب اشارہ کیا۔
ارشاد کو یوں لگا جیسے اُس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ سکندر کے جسم کو ٹٹولتے ہوئے دیوانہ وار پوچھنے لگا:
”سکندر! تمھیں کچھ ہوا تو نہیں؟ تم ٹھیک ہو نا؟“
”ابو! مجھے کچھ نہیں ہوا۔“
”شکر ہے میرے مولا!“ ارشاد کی جان میں جان آئی۔
”ابو! آپ کو ایک بات بتاؤں؟“
”جی بیٹا؟“
”وہ نا…… وہ……سونے کا درخت ہے۔“
”شش…… چپ! چلو گھر چلتے ہیں اور خبردار! کسی سے اس درخت کے متعلق ذکر نہ کرنا اور نہ ہی کبھی اس طرف آنا۔“
ارشاد نے چہرے پر سنجیدگی لاتے ہوئے سکندر کو تنبیہ کی۔ پھر اُس نے جلدی جلدی لکڑیوں کو اکٹھا کر کے اونٹ پر لادا اور سکندر کو ساتھ لیے گھر کی جانب چل دیا۔ روانگی کے وقت سکندر نے ”سونے کے درخت“ کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھا جس نے اُسے ایک بیش قیمت تحفہ دیا تھا۔ بچے کی پیاری سی مسکراہٹ نے سونے کے درخت کو بھی مسکرانے پر مجبور کر دیا۔ ہلکی سی ہوا چلی اور وہ شاخیں ہلاتے ہوئے ننھے دوست کو الوداع کرنے لگا۔ سکندر نے بند مٹھی والا ہاتھ لہرا کر اُسے خدا حافظ کہا اور پھر ابو کا ہاتھ تھام لیا۔
z
سکندر کو ہشاش بشاش دیکھ کر اُس کی امی بہت حیران ہوئیں۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتیں، سکندر بھاگ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ پھر انھوں نے سوالیہ انداز میں ارشاد کی طرف دیکھا۔ انھوں نے مصلحت کے تحت بات کو کچھ اس طرح گول مول کر کے پیش کیا کہ وہ مطمئن بھی ہو گئیں اور پوری بات سے واقف بھی نہ ہوئیں۔
مچھلی ابھی تک بے سدھ سی پڑی تھی۔ سکندر نے چپکے سے کنکر کو مچھلی کے گھر میں ڈال دیا اور چوکڑی مار کر اُس کے سامنے بیٹھ گیا۔ اگلا لمحہ سکندر کے لیے خوشی اور حیرانی والا تھا۔ مچھلی یوں تھرتھرائی جیسے اُسے کرنٹ لگا ہو اور پھر اگلے ہی پل وہ بل کھاتے ہوئے دل کش انداز میں تیرنے لگی۔ سکندر کو یوں لگا جیسے مچھلی ایک کھلونا ہے اور نیا بیٹری سیل ڈالتے ہی اُس میں جان آ گئی ہے۔ وہ کافی دیر تک یوں ہی ٹُک ٹُک اُسے دیکھتا رہا اور خوش ہوتا رہا۔ پھر اُسے ایک شرارت سوجھی، اُس نے پانی میں سے کنکر نکال لیا۔ مچھلی تو جیسے تڑپ ہی اُٹھی، وہ اوپر کی جانب منہ کر کے اُچھلنے لگی جیسے کہہ رہی ہو کہ کنکر کو واپس پانی میں ڈالو۔ سکندر کو اُسے تڑپانے میں مزا آ رہا تھا۔ وہ کنکر کو پانی کے قریب لاتا، پھر ہاتھ اوپر کھینچ لیتا۔ کچھ دیر یونہی شغل کرنے کے بعد اُس نے کنکر کو پانی میں ڈال دیا اور مچھلی کو خوشی سے تیرتے دیکھ کر مسکرانے لگا۔
”بڑا مسکرایا جا رہا ہے!“
امی کھانا لے کر کمرے میں داخل ہوئیں تو اپنے بیٹے کو مسکراتے دیکھ کر کہا۔
”جی امی! میں نے کہا تھا نا کہ مچھلی کو اور سنگ ریزے چاہییں۔ مجھے ایسا سنگ ریزہ ملا ہے کہ میری مچھلی اب کبھی اُداس نہیں ہو گی۔“
”بھئی مجھے تو بس تمھارے چہرے پر اُداسی نہیں چاہیے، چلو اب جلدی سے کھانا کھا لو۔ صبح سے تم نے کچھ نہیں کھایا۔“
سکندر نے مسکرا کر امی کی جانب دیکھا اور ہاتھ دھونے کے لیے نل کی جانب چل دیا۔
z
رات کو جب سکندر سونے کے لیے بستر پر لیٹا تو اُس نے دیکھا، مچھلی کا گھر مدھم مدھم روشنیوں سے چمک رہا تھا، دمک رہا تھا اور سنہری مچھلی اُن روشنیوں کو بل کھاتے ہوئے دیکھے جا رہی تھی۔ وہ بہت خوش دکھائی دے رہی تھی، اُسے خوش دیکھ کر سکندر کو ”سونے کا درخت“ یاد آیا۔ وہ اُسے تصور میں لا کر دیکھنے لگا اور یوں ہی دیکھتے دیکھتے نہ جانے کب وہ نیند کی وادی میں کھو گیا۔