سری کا چکر ___ عاطف حسین شاہ

اُس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑرہی تھیں۔وہ ہانپتا،کانپتا گھر میں داخل ہوا۔ صحن میں پانی ہی پانی تھا۔ بارش کی وجہ سے سب کمرے کے اندر دبکے ہوئے تھے۔ اُس نے پلٹ کر اپنے پیچھے دیکھاتو اُسے وہ خطر ناک چیز نظر نہ آئی،جس کی وجہ سے وہ بھاگا تھا۔ یوں اُسے کچھ حوصلہ ملامگر خود پر چھائے خوف میں کمی واقع نہ ہوئی۔زندگی میں پہلی بار اُس کا واسطہ ایک ایسی لرزا دینے والی شے سے پڑا تھا،جس سے اُس کاکلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔
امی باورچی خانے میں پکوڑے تلنے میں مصروف تھیں۔ باورچی خانے کے ساتھ ہی کمرا تھا۔ وہ جھٹ سے کمرے میں داخل ہوا۔اُس کی سانسیں ابھی تک پھولی ہوئی تھیں۔ اُس نے تیزی سے کمرے کا جائزہ لیا۔ نمرہ، احسن اور حذیفہ چٹائی پر بیٹھے،گرما گرم پکوڑوں کو پھونکیں مار مار کر منہ میں ٹھونس رہے تھے۔ چٹائی کی بائیں جانب موجودچارپائی پر اُس کے ابوبراجمان تھے۔ وہ ٹی وی دیکھنے میں مگن تھے۔ٹی وی پر کوئی ٹاک شو جاری تھا اور خوب بحث و تکرار جاری تھی۔
گھر کے سبھی افراد اِس بات سے بے خبر اور بے پروا تھے کہ وہ کتنی بڑی آفت کے شکنجے سے بچ کرگھر لوٹا ہے۔ چندلمحے وہ یونہی اپنے بہن،بھائیوں اور ابو کی طرف مسکین سی شکل بنائے دیکھتا رہا، پھر اُس سے برداشت نہ ہوا اور وہ فیصلہ کن انداز میں دروازے کی دہلیز پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ اُس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور ایک لمبی سانس کھینچتے ہوئے پورے زور سے چیخ مار دی۔ اس چیخ نے گھر والوں پرشدید بوکھلاہٹ طاری کر دی۔ سب اُس کی جانب لپکے۔
”ہائے میں مر گئی۔فہیم! کیا ہوگیامیرے بچے؟“
امی اُس کے چہرے پر اپنے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔ ابو نے ٹی وی بند کیا اور فکرمندی سے پوچھنے لگے:
”کچھ بولو فہیم! کسی نے کچھ کہا تو نہیں؟“
نمرہ، احسن اور حذیفہ اُس کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔ وہ کچھ پوچھنے سے قاصر تھے، کیوں کہ اُن کے منہ پکوڑوں سے بھرے ہوئے تھے۔ہاں یہ ضرور تھا کہ اُن پکوڑوں کو پیٹ میں جانے سے کچھ دیر کے لیے روک دیا گیا تھا۔
”سس….سس….سس“
فہیم کی زبان پر ایک ہی تکرار تھی۔
”سس…سس…سس؟میں کچھ سمجھی نہیں۔ کھل کر بولوفہیم!“
امی نے بے چینی کے عالم میں پوچھا۔
”اری پگلی! دیکھ نہیں رہی ہو، بھیگا ہوا ہے۔اسے سردی لگی ہوئی ہے۔اسی لیے سس…سس کر رہا ہے۔“
”منظور صاحب! کہہ تو آپ ٹھیک ہی رہے ہیں۔ میں نے پہلے کیوں نہ خیال کیا۔“
یہ کہتے ہی فہیم کی امی نے فوراًکھونٹی سے تولیہ اُتارا اور فہیم کو خشک کرنے لگی۔اچھی طرح خشک کرنے کے بعد اُس کی امی مزید پکوڑے تلنے کے لیے کچن کی جانب بڑھی تو فہیم نے امی کو پکارا:
”امی جی! سس….سس….سس!“
اب وہ عجیب سے انداز میں سر ہلا رہا تھا۔
”اف ہو!سس….سس سے آگے بھی تو کچھ بولو۔“
امی نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ابو بھی اُسے گھورنے لگے تھے۔ اُس کے بہن بھائی اس متعلق کسی دل چسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے۔ وہ پھر سے اپنی کارروائی (پکوڑوں سے ہاتھ صاف کرنے)میں مصروف ہو گئے تھے۔
”امی جی! ابو جی!وہ، سس….سس….سانپ!“
فہیم نے اس بار بم پھوڑ ہی ڈالا۔اس بم کا سب سے زیادہ اثر نمرہ، احسن اور حذیفہ پر ہوا۔تینوں نے آنکھیں بند کر کے چیخوں سے درو دیوار ہلا کر رکھ دیے اور پھر گرتے پڑتے چارپائی کے اوپر چڑھ گئے۔ خوف کی وجہ سے اُن کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ فہیم کی امی کا دل بھی ڈوبنے لگا تھا۔ ایک منظور صاحب تھے جو بظاہر دلیری کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اُنھوں نے چھڑی اُٹھائی اور سانپ کی تلاش شروع کر دی۔ منظور صاحب حیرت انگیز پھرتیوں کے نمونے پیش کر رہے تھے۔انھوں نے عجیب و غریب آوازیں نکالتے ہوئے کمرے کو اچھی طرح سے کھنگال ڈالا مگر کمرے میں سانپ ہوتا تو سامنے آتا۔ فہیم کچھ دیر تک حیرت سے ابو کی حرکات دیکھتا رہا، پھر بولا:
”ابو جی! ڈنڈا توآپ کے ہاتھ میں ہے،اور کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟“
”دیکھ نہیں رہے!سس….سانپ کو ڈھونڈ رہا ہوں۔“
”سانپ یہاں نہیں،وہ تو گھر سے باہر ہے۔“
فہیم نے ایک اور بم پھوڑا۔
”ہائیں!تو پہلے کیوں نہیں بتایا۔حد ہوتی ہے کم عقلی کی۔ ادھوری بات کر کے خواہ مخواہ اتنا وقت برباد کیا۔“
منظور صاحب سر پکڑ کر رہ گئے۔ انھیں فہیم پر سخت غصہ آ رہا تھا۔ غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے انہوں نے ریموٹ کنٹرول اُٹھایا اور ٹی وی آن کرلیا۔ فہیم کی امی نے شکر کے کلمات ادا کیے اور پھر سے باورچی خانے کی جانب چل دیں۔ دیگر بچے بھی اب گھبراہٹ کے حصار سے باہر نکل آئے تھے۔ وہ دھیرے دھیرے ابو کے قریب ہوئے اور بولے،
”ابو جی! ہم نے آج تک اصلی سانپ نہیں دیکھا۔ آپ ہمارے ساتھ باہر چلیں نا،ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔“
”بچو! یہ کوئی شغل نہیں، سانپ بہت خطرناک اور زہریلا ہوتا ہے۔ اُس سے دور رہنا چاہیے۔“
”ابو جی! ہم اُسے صرف دیکھیں گے،چھیڑیں گے نہیں۔ پلیز مان جائیں نا۔“
نمرہ معصومیت سے بولی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ابو کو ہار ماننا پڑی۔ انھوں نے فہیم کو جانے کا اشارہ کیا اور چھڑی اُٹھاکر باہر نکل پڑے۔ بچے خوشی خوشی اُن کے ساتھ ہو لیے۔
بارش اب تھم چکی تھی۔ آسمان بالکل صاف تھا مگر زمین پر جگہ جگہ پانی اکٹھا ہو نے کی وجہ سے چلنا دشوار ہو رہا تھا۔ فہیم آگے چلتا ہوا سب کی رہنمائی کر رہا تھا۔ چلتے چلتے اچانک وہ رُک گیا۔ آگے ایک چھوٹا سا گڑھا تھا۔ فہیم نے گڑھے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا،
”سس….سس….سس“
”بس،بس….سمجھ گیا،تم پیچھے ہٹو!“
ابو نے فہیم کا ہاتھ پکڑ کر اُسے پیچھے کیا اورخود گڑھے پر نظریں گاڑ دیں۔بچے بھی ذرا فاصلے سے سانپ ڈھونڈ رہے تھے۔ گڑھا گدلے پانی سے بھرا ہوا تھا۔ سانپ کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اِس سے پہلے کہ سب مایوس لوٹتے، یکایک پانی کی سطح پرایک سری اُبھری۔ ابو چوکس ہو گئے۔ بچے خوف اورتجسس کی ملی جلی کیفیت میں تھے۔ ابھی تک چھوٹا سا سر ہی دکھائی دیا تھا، جس پر دو ننھی ننھی آنکھیں اور نتھنے تھے۔ بچے پورا سانپ دیکھنا چاہتے تھے، اس لیے وہیں جمے رہے۔
ابو نے حفاظتی تدابیر کے طور پر چھڑی کو مضبوطی سے تھام لیا تھا۔ سب سانپ کے باہر آنے کے اشتیاق میں تھے۔
اچانک اُبھرے ہوئے سر پر موجود آنکھیں پھیلنے لگی تھیں۔ ابو نے چھڑی سے گڑھے کے پانی کو جنبش دی تو سانپ نے تھوڑی حرکت کی۔
”ٹَرررر…..ٹَرررر…..ٹَرررر“
فضا میں ایک عجیب سی آواز ابھری۔ اس کے ساتھ ہی ابو نے زوردار قہقہہ لگایا اور ہنستے ہنستے بولے:
”لو جی! کھودا گڑھا،نکلا مینڈک۔“
مینڈک کی آواز پر بچے خوب زور سے ہنسے جب کہ فہیم کو سخت ندامت ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُس چھوٹے سے گڑھے میں چار، پانچ مزید مینڈکوں نے بھی سر اُبھارا تو ”ٹَرررر…..ٹَرررر“ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اب وہاں رکنا بے کار تھا۔ سارے ہنستے ہنستے گھر کو واپس جا رہے تھے۔ فہیم کا سر شرم کے مارے جھکا ہوا تھا۔ نمرہ، احسن اور حذیفہ ”ٹَرررر….ٹَرررر“ کرتے ہوئے فہیم کو چھیڑ رہے تھے اور ابو مسلسل مسکرائے جا رہے تھے۔

Leave a Comment