بس اندھیرے کو مٹانے کی لگی رہتی ہے…غزل

شاعرہ:شہلا خان

روشنی والے وسیلے کی لگی رہتی ہے
بس اندھیرے کو مٹانے کی لگی رہتی ہے
وہ جو گوہر ہے سمندر میں اتر جاتا ہے
صرف سیپی کو کنارے کی لگی رہتی ہے
آنکھ والوں میں بصارت کی کمی ہے شاید
جب ہی اندھوں کو دکھاوے کی لگی رہتی ہے
پھر کسی نقشِ کفِ پا کو مٹانے کے لیے
راہ کو خاک اڑانے کی لگی رہتی ہے
زرد موسم میں گلابوں کی تمنا کر لی
جس طرح دھوپ میں سائے کی لگی رہتی ہے
خواب بنتی تھیں مگر آنکھوں کو اب شام ڈھلے
در کی،دستک کی، دریچے کی لگی رہتی ہے
دھوپ موسم میں برس جاتی ہے بارش اکثر
اس کو خوشیوں میں بھی رونے کی لگی رہتی ہے
پھر توجہ نہیں جاتی تری خفگی کی طرف
آنسوؤں کو ترے شانے کی لگی رہتی ہے

Leave a Comment