قسمت کے کھیل ___ رخسانہ محفوظ

وہ ایک کالی کلوٹی بلی تھی لیکن نام اس کا ”اُجالا“ تھا۔ وہ ایک بڑی بی کے گھر میں عرصے سے پل رہی تھی۔ بڑی بی ایک غریب عورت تھی۔ جو روکھی سوکھی خود کھاتی، وہی اپنی پیاری اجالا کو بھی کھلادیتی۔
ایک دن بی اجالا نے سوچا آخر کب تک بڑی بی کے گھر کی روکھی سوکھی پر گزارا کروں، ذرا باہر نکل کر دنیا تو دیکھوں۔ شاید میرے لیے اس سے اچھی زندگی باہر کی دنیا میں ہو۔
پڑوس کا موٹا سا بلا بھی اکثر اس کی نیت خراب کرتا رہتا تھا۔ وہ اسے قصائی کی دکان پر چلنے کی دعوت دیتا اور مزے دار قسم کے چھیچھڑ ے کھلانے کا وعدہ کرتا۔ لیکن بی اجالا اب تک اس کے کہنے میں نہیں آئی تھی۔ اس دن نہ جانے اس کی نیت اتنی زیادہ خراب کیوں ہوئی کہ وہ خیالوں میں چھیچھڑے بساکر گھر سے اکیلی ہی نکل کھڑی ہوئی۔ گھر سے باہر نکل کر اس نے جو موڑ کاٹاتو وہ ایک جھکی سے بڑے میاں کے سامنے آگئی۔ بڑے میاں صرف جھکی ہی نہیں شکی بھی تھے۔ وہ شاید کسی اہم کام سے جا رہے تھے۔ کالی بلی کو جو یوں راستہ کاٹتے دیکھا تو غصے سے آگ بگولا ہوگئے۔ انھوں نے آگے بڑھ کے بی اجالا کو دبوچا اور اپنے تھیلے میں ڈال لیا کہ آج تو اس کم بخت کو دریا برد کرکے ہی دم لوں گا۔
وہ غصے میں تھیلے کو دونوں ہاتھوں میں دبوچے یوں جا رہے تھے جیسے اس میں کوئی خزانہ ہو۔ ان کے قریب سے ایک اچکا گزر رہا تھا۔ اس کے دل میں بھی یہی خیال آیا کہ ہو نہ ہو بڑے میاں کے اس تھیلے میں ضرور کوئی خزانہ چھپا ہے۔ بڑے میاں کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے تھیلے پر جھپٹا مارا اور دوڑتا چلا گیا۔ اچکے کی اس تیز رفتاری سے دوڑنے پر بی اجالا کا جوڑ جوڑ ہل گیا۔ لیکن وہ مجبور تھی، کچھ کر نہیں سکتی تھی۔ کافی دیر دوڑنے کے بعد ایک ویران سی جگہ پہنچ کر اچکے نے جو تھیلے کا منہ کھولا تو اس کا اپنا منہ بگڑتا چلا گیا۔ تھیلے میں بجائے خزانے کے ایک کالی بلی کو دیکھ کر وہ بھنا گیا اور تھیلے کو زور سے اچھال کر ایک کوڑے دان پر پھینک دیا۔ اس اٹھا پٹخ سے اُجالا بیگم کا سر چکرا گیا، پھر ذرا ہوش ٹھکانے آئے تو اسے احساس ہوا کہ وہ کسی کوڑے دان پر پڑی ہے۔کیوں کہ بدبو سے اس کا دماغ پھٹا جارہا تھا۔ ہمت کرکے اس نے اپنا تھوڑا سا سر تھیلے سے باہر نکالا مگر یہ کیا؟ وہ اوپر اور اوپر اٹھتی چلی جارہی تھی۔ وہ کوڑا اٹھانے والی کوئی گاڑی تھی اور بی اجالا دیکھتے ہی دیکھتے کوڑے کے ساتھ ساتھ اس اونچی سی گاڑی میں آپڑی اور گاڑی چل پڑی تھی۔ بے بسی سے اُجالا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اب اُجالا نے زور شور سے تھیلے میں سے باہر نکلنے کی جدوجہد شروع کردی۔ تھیلے میں چوں کہ اس کے ساتھ ساتھ کوڑا بھی بھر چکا تھا، اس لیے ا سے بڑی مشکل پیش آرہی تھی۔ اس کوشش میں وہ اچانک دھم سے گاڑی سے نیچے آگری اور تھیلا وہیں رہ گیا۔ چکراتے سر اور درد کرتے جسم کے ساتھ بی اُجالا نے جب آنکھیں مل مل کر دیکھا تو حیرت اور خوشی سے اس تکلیف میں بھی اس کی باچھیں کھل گئیں۔کیوں کہ وہ عین بڑی بی کے گھر کے سامنے ہی گری تھی۔
ٹوٹے ہو ئے دل کے ساتھ وہ گھر میں داخل ہوئی۔ بڑی بی شاید بہت دیر سے اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ اسے دیکھ کر خوشی سے اس کی طرف بڑھیں:
”آؤ میری اُجالا! میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ آج تو میں قصائی کے پاس سے تمھارے لیے مزے دار چھیچھڑے لے کر آئی ہوں۔ یہ لو!“
انھوں نے چھیچھڑوں کا برتن اجالا کے سامنے رکھ دیا۔اُجالا حیرانی اور پریشانی سے سوچنے لگی کہ جن چھیچھڑوں کے لیے وہ اتنی خوار ہوئی، وہ اسے گھر ہی میں ملنے تھے۔ دراصل جو پریشانی اس نے اٹھائی، وہ اس کی لالچ کی سزا تھی۔٭

Leave a Comment