تحریر:محمد عثمان ذوالفقار
ہم سب ہی بچپن سے مختلف ادیبوں اور شاعروں کو پڑھتے آرہے ہیں ۔ مجھے جب کسی کی تحریر اچھی لگتی تھی تو اس رائٹر کے متعلق تجسس ہوتا تھا کہ وہ کیسا ہوگا؟ اس کی لکھائی کیسی ہوگی؟ اس کی شخصیت اور باتیں کرنے کا انداز کیسا ہوگا وغیرہ وغیرہ ۔ پڑھتے لکھتے کافی بڑے ہوگئے اور اب تک احقر کی الحمدللہ کئی مؤقر اخبارات و رسائل میں تحاریر شائع ہوچکی ہیں۔ میں بہت کم لکھتا ہوں لیکن کوشش ہوتی ہے کہ کچھ منفرد کرو ۔ کچھ ایسا جو پہلے نہیں ہوا یا پھر بہت ہی کم ہوا ہے ۔ مجھے مختلف مصنفین کے آٹو گراف لینے کا بھی بہت شوق تھا اور ابھی تک ہے۔ کئی بہترین مصنفین اور شعرا کے آٹو گراف میرے پاس موجود ہیں۔ ایک دن سوچتے سوچتے خیال آیا اگر تمام سینئر لکھاریوں کی لکھائی کو اکٹھا کر کے شائع کیا جائے تو کیسا رہے گا۔ راقم السطور یعنی محمد عثمان ذوالفقار نے اس خیال کو جناب نوشاد عادل صاحب سے شئیر کیا تو انہوں نے اس پر کام کرنے کی ہامی بھری۔ یوں اس شاندار پراجیکٹ پر کام شروع کر دیا گیا۔ کچھ دن بعد یہ شاہکار کتاب شائع ہورہی ہے جس میں تقریباً چار سو نئے و پرانے لکھاریوں کی ہاتھ کی لکھائی شامل ہے۔ لکھاریوں کے چند مشہور شخصیات جن میں ذوالفقار علی بھٹو، ڈاکٹر عبد القدیر خان و گاندھی جی وغیرہ کی ہینڈ رائٹنگ بھی شامل ہے۔
اس حوالے سے معروف ادیب و ناول نوشاد عادل صاحب کہتے ہیں:
”جب میں کم عمر تھا تو بڑا تجسّس ہوتا تھا کہ فلاں مصنف کی ہاتھ کی لکھائی کیسی ہے؟اشتیاق احمد کی ناولز پر ان کے اردو والے دستخط اکثر دیکھا کرتا تھا۔ کبھی کسی کے پاس ہمدرد نونہال کے بانی حکیم محمد سعید شہید کے دستخط اور ان کی لکھائی دیکھتا تو بڑا حیران ہوتا کہ اچھا، ایسی لکھائی ہے ان کی۔ میرا یہ تجسّس کبھی ختم نہ ہوا اب تک یہی حال ہے۔ سب کا اپنا اپنا انداز تھا۔ اتفاق سے میرا انداز احمد اقبال سے کافی ملتاجلتا تھا۔منظر امام کی لکھائی ٹیڑھی تھی، شاید ٹیڑھا ہوکر لکھتے تھے اور پڑھنے کے لیے بھی گردن ٹیڑھی کرنی پڑتی تھی۔ ایم اے راحت تو لگتا تھا کہ قلم ایک بار کاغذ پر رکھنے کے بعد اٹھاتے ہی نہیں تھے، قلم اٹھائے بغیر لکھتے چلے جاتے تھے۔ کاشف زبیر اور ڈاکٹر عبدالرب بھٹی کی لکھائی چکرا دینے والی تھی، دونوں بد خط تھے۔ نواب صاحب، احمد اقبال، الیاس سیتاپوری چھوٹا چھوٹا لکھتے تھے۔“
اس شاہکار کتاب کا خوبصورت نام تجویز کرنے والے بہترین لکھاری جناب عارف مجید عارف اس بارے رقمطراز ہیں:
”ایسے تاریخی کام خون مانگتے ہیں۔اتنی محنت اور جدوجہد کرنا۔مخلص اور بے لوث جنونی ہی کرسکتے ہیں۔جو آپ لوگ پہلے بھی کر کے ثابت کرچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مزید ہمت اور طاقت دے تاکہ ایسے اور بھی تاریخ ساز کارنامے انجام دے سکیں۔آمین۔“
معروف ادیب و ناول نگار محترم شہزاد بشیر قلم کتاب کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”قلم کتاب کی اہمیت کا اندازہ کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس میں 400 کے قریب عظیم شخصیات اور آج کے دور کے بہتری لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ نو آموز قلمکاروں کی ہاتھ کی تحاریر موجود ہے جو آئندہ ان شاءاللہ ادب کے آسمان پر چمکیں گے تو قارئین کو ان کی تحریر دیکھنے کی جستجو ہوگی۔ اس وقت ”قلم کتاب“ کے بارے میں میری کہی ہوئی بات سمجھ میں آئے گی کہ ”قلم کتاب ایک تاریخی دستاویز اور ایک ورثہ ہے۔“
بے شک یہ شاہکار کتاب آنے والی نسلوں کو تحقیق میں مدد دے گی اور ایک شاندار دستاویز ہوگی جس سے لوگ دیکھ سکیں گے کہ فلاں شخصیت کی ہینڈ رائٹنگ کیسی تھی۔
ایوارڈ یافتہ شاعر و مصنف محمد رمضان شاکر نے اس بارے اپنی رائے اظہار کچھ یوں کیا ہے:
”ہاتھ کی لکھائی پر مبنی چار سو کے قریب نئے اور پرانے قلمکاروں کی تحاریر سے سجی قلم کتاب کا شہرہ اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی گونج رہا ہے۔یہ اپنی طرز کی پہلی کتاب ہے جو ادبی تاریخ میں شائع ہونے جارہی ہے۔قلم کتاب کا یہ شاندار آئیڈیا سب سے پہلے محمد عثمان ذوالفقار نے پیش کیا تھا۔جسے سند پسندیدگی سے نوازا جناب محبوب الہٰی مخمور صاحب اور جناب نوشاد عادل صاحب نے۔قلم کتاب کا یہ منفرد اور پیارا سا نام جناب عارف مجید عارف نے تجویز کیا ۔قلم کتاب تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔یقیناً یہ ادب اور ادب اطفال کے لیے ایک بہترین تحفہ ثابت ہو گی۔“
امید ہے کہ یہ کتاب آپ سب کی توقعات پر پورا اترے گی۔ اللہ تعالیٰ اس سلسلے میں کام کرنے والے تمام ساتھیوں کو سلامت رکھے اور ڈھیروں کامیابیاں عطا فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین۔