پُراسرار نقطے ___ عاطف حسین شاہ

تینوں ستارے خوب چمک رہے تھے۔ مجھے یہ سمجھنے میں ذرا دیر نہ لگی کہ ان کا رُخ میری جانب تھا۔ پھر جیسے جیسے وہ میرے قریب ہورہے تھے ان کی روشنی مدھم ہوتی جا رہی تھی۔ مجھے روشنی کے اس بدلاؤ کو سمجھنے کا موقع نہ مل سکا کیوں کہ میری آنکھیں اب واضح طور پر تین چٹانیں دیکھ رہی تھیں۔ زندگی اور موت کے درمیان عطاکردہ مہلت میرے سامنے تھی اور پھر یہ مہلت بھی مجھ سے چھین لی گئی۔ درد کی ایک لہر میرے وجود میں تیزی سے دوڑی اور پھر میری روح نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا۔ میرا جسم اب بے سدھ پڑا تھا۔
مجھ پر عجیب کیفیت طاری تھی۔میرے مردہ جسم کے پہلو میں شدید چبھن ہورہی تھی، جس کی تکلیف میری روح تک پہنچ رہی تھی۔ اس تکلیف نے مجھ پر اس قدر بوکھلاہٹ طاری کی کہ میں ہڑبڑاتے ہوئے بیدار ہوگیا۔خاصی دیر بعد جب میں اس سحر سے نکلا تو سمجھ میں آیا۔
”او میرے خدایا! یہ کیسا خواب تھا؟“ میں منہ میں بڑبڑایا۔
وقت دیکھا تو رات کے تین بج رہے تھے۔اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتا،اچانک مجھے اپنی پسلیوں کی جانب شدید چبھن محسوس ہوئی۔بے اختیار میرا ہاتھ اپنی جیب میں چلا گیاجس میں سے ایک بوسیدہ سا کاغذ نکلا۔کاغذ ہاتھ میں پکڑنے کی دیر تھی کہ وہی چبھن مجھے ہاتھ میں محسوس ہونے لگی۔زندگی میں پہلی بار مجھ پر ایسا حملہ ہوا تھا اور یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ مجھے اپنا ذہن مفلوج ہوتا دکھائی دیا۔میں نے ہاتھ کو جھٹکا دیتے ہوئے کاغذ کو خود سے الگ کرنا چاہا مگر وہ ایسے چپکا رہا جیسے لوہے کے ساتھ مقناطیس…کچھ ہی دیر بعد میرے ہاتھ میں چبھن ہونا بند ہوگئی۔میں نے سکون کا سانس لیتے ہوئے ایک بار پھر گھڑی کی جانب دیکھا۔اب تین بج کرپندرہ منٹ ہوچکے تھے۔میں نے جھٹ سے کاغذ سیدھا کیا تاکہ اس پر لکھی عبارت پڑھ سکوں۔
میری بچپن سے ایک عادت تھی، وہ یہ کہ مجھے جہاں کہیں بھی کاغذ کا ٹکڑ ا ملتا،اسے فورًا اٹھا لیتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ عادت مجھ میں پختہ ہوتی گئی۔گرے ہوئے کاغذ کے ٹکڑے کو اٹھا کر اسے پڑھنے کے بعد ٹھکانے لگانا میرا مشغلہ رہا ہے۔میں جب تک ایسا نہ کرتا،مجھے اضطراب گھیرے رکھتا۔اس عادت نے مجھے ہرقسم کے الفاظ سے آشنا کردیاتھا۔
گزشتہ شام کھیلنے کے بعد میں گھر جا رہا تھا کہ میری نظر ایک بوسیدہ سے کاغذ پرپڑی۔ عادت سے مجبور میں نے اس ٹکڑے کو اٹھا کر جیب میں ڈال لیاکہ گھر پہنچ کر بلب کی روشنی میں اسے پڑھوں گا۔ گھر پہنچتے ہی مصروفیت نے مجھے ایسا گھیرا کہ میں اس کاغذ سے غافل ہو گیا۔ رات ہوئی تواپنے کمرے کا رخ کیا اور بستر پر لیٹتے ہی نیند نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔
z
میں نے دیکھا، اس کاغذ پر سیاہ رنگ کے تین نقطے تھے۔ یہ جسامت میں بالکل برابر تھے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے تین سیاہ دھبے ہوں۔ میں اُن میں چھپے اسرار کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔ جیسے تیسے رات کٹی۔ تڑکا ہوتے ہی میرا رخ قریبی نالے کی جانب تھا۔نالے کے قریب پہنچ کر میں نے اس کاغذ کو جیب میں سے نکالااور تہیں لگا کر پانی میں پھینک دیا۔اب میں خود کو ایک بھاری بوجھ سے آزاد محسوس کررہا تھا۔
میرا حربہ ناکام ہوگیا تھا۔رات کے اسی پہر مجھے پھر سے وہی خواب دکھائی دیااور پہلو میں سوئیاں سی چبھتی محسوس ہوئیں۔میں حواس باختہ ہوکر بیٹھ گیا۔لرزتے ہاتھوں سے اپنی جیب کو کھنگالا تو ایک بار پھر وہی کاغذ برآمد ہوا۔ پندرہ منٹوں کی تکلیف جھیلنے کے بعد جب سکون ملا تو میں نے اس کاغذ کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا، کیوں کہ یہ کوئی عام کاغذ نہیں بلکہ آسیب زدہ تھا۔
کافی سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے کسی عامل سے رجوع کرنا چاہیے تا کہ معاملہ مزید پیچیدہ نہ ہو مگر نہ جانے کون سی چیز مجھے ایسا کرنے سے روک رہی تھی۔ اپنے گھر والوں کو پریشان کرنا بھی مناسب نہیں تھا۔ مجھے جلد از جلد ان نقطوں سے نجات چاہیے تھی۔ اس سلسلے میں جب ایک مخلص دوست سے رابطہ کیا تواُس نے آگ سے جلا دینے کا مشورہ دیا۔ مجھے یہ مشورہ پسند آیا کیوں کہ اس سے سب کچھ بھسم ہوجانا تھا۔ چناں چہ میں نے اسی مشورے پر عمل کیا اورکاغذ خاکستر ہوگیا۔ اب میں بالکل مطمئن تھا۔
وہ رات مجھ پربہت بھاری ثابت ہوئی۔میں کروٹیں بدلتا رہ گیا مگر نیند توجیسے مجھ سے روٹھ ہی گئی تھی۔یوں جاگتے جاگتے رات بیت گئی۔
اُدھرگھڑی نے تین بجائے،اِدھر میں حیرت اور دہشت کی کیفیت میں اچھل پڑا۔میری آنکھیں ایک عجیب منظردیکھ رہی تھیں۔تین انگارے دروازے کی اوٹ سے جادوئی انداز میں داخل ہوئے اور کمرے کے اندرگردش کرنے لگے۔ان کی گردش اس قدر ہولناک تھی کہ میں بھاگنے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا تھا۔یہ خواب نہیں بلکہ جاگتی آنکھوں کا منظر تھا۔مجھے اپنا حلق خشک ہوتا محسوس ہوا۔
تینوں انگارے میری جانب لپکے۔میں اپنے دفاع کے لیے بس اتنا ہی کرسکا کہ خود کو سمیٹ لیااور اپنے چہرے کو بازوؤں سے چھپا لیا۔انگارے میرے بازوؤں پرحملہ آور ہوگئے۔یوں محسوس ہورہا تھا جیسے مجھے دہکتی ہوئی سلاخوں کے کچوکے لگ رہے ہوں۔درد انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔میرے لیے یہ درد برداشت سے باہر تھا۔میں اب موت کی آرزو کر رہا تھا۔بے بسی،گھٹن اور درد کی شدت نے میرے حواس مجھ سے چھین لیے اور میں بے ہوش ہو گیا۔جب ہوش آیا تو دن کے بارہ بج رہے تھے۔میرے اردگردمیرے گھر والے پریشان بیٹھے تھے۔میری ایک جانب ڈاکٹر بھی موجود تھا۔بڑی مشکل سے میں نے سب کو مطمئن کیا کہ میں بالکل خیریت سے ہوں،پھرخود کو اکیلا پاتے ہی میں نے فوراً اپنے بازوؤں پرنگاہ دوڑائی اورانھیں ٹٹولا۔میرے بازو بالکل سالم تھے اورانگاروں کی آمد کو صاف جھٹلا رہے تھے،جب کہ رات کا سارا منظر میرے ذہن پر نقش تھا۔جب میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو کاغذکاوہی ٹکڑا سالم حالت میں موجود پایا، جس پرسیاہ نقطے ثبت تھے۔ میں ششدر رہ گیا۔ میرے لیے اب خطرہ بڑھ چکا تھا۔
مجھے ہرصورت آج ہی ان نقطوں سے چھٹکارہ پانا تھا، مگر میں تو اپنے طور پر ناکام ہوچکا تھا۔ مجھے اب کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ کھانے پینے سے بے نیاز ہوکر چاروناچارمیں شہر کے سب سے مشہورعامل کے ہاں چل دیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے کاغذکاٹکڑا اُسے تھماتے ہوئے ساری روداد سنادی۔
عامل نے کافی دیر اپنی نظریں کاغذ کے ٹکڑے پر جمائے رکھیں اور پھر آنکھیں بند کرکے کچھ بڑبڑانے لگا۔ یہ عمل میری سمجھ سے باہر تھا، اس لیے میں خاموشی سے بیٹھا رہا۔ کچھ دیر بعد عامل مجھ سے مخاطب ہوا:
”بیٹا! یہ نقطے بہت بڑی طاقت ہیں۔ ان کے ساتھ جڑی ہوئی ایک بے چین مخلوق ہے۔ انھیں کسی طرح ٹھکانے لگاناہوگا۔“
میں اُس عامل کی باتیں دھیان سے سن رہا تھا۔وہ بات بڑھاتے ہوئے بولا:
”کسی قبرستان کے قریب گھنا اور سرسبزوشاداب درخت تلاش کرو۔ اس درخت کے تنے کے قریب تین فٹ گہرا گڑھا کھود کر یہ کاغذ اس میں دفن کردو۔ یاد رہے یہ عمل رات کی تاریکی میں کرنا ہے تا کہ کسی آدم زاد کی نظر نہ پڑے۔ اور جب یہ عمل کرو گے تو پھر پیچھے مت ہٹنا ورنہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔“
عامل کی ان باتوں نے مجھے مزیدخوف زدہ کردیا تھا، مگر گزشتہ رات والی کیفیت مجھے مجبور کررہی تھی کہ میں آج ہی ان نقطوں کو ٹھکانے لگادوں۔ عامل سے ملاقات کے بعد میں سیدھا قبرستان پہنچ گیا۔
میں نے دن کی روشنی میں گھنے درخت کی نشان دہی کی اور پھر گھر واپس آگیا،پھر رات بارہ بجے تک انتظار کرتا رہا۔ جب ساراعالم تاریکی میں ڈوب گیا تو میں جانے کے لیے اُٹھا۔ احتیاطاً میں نے ایک چاقو بھی ساتھ لے لیا تا کہ کسی چھوٹے موٹے خطرے کا مقابلہ کرسکوں۔
مقررہ وقت پر میں گھر سے دبے پاؤں اور قبرستان کی جانب چل دیا۔ ہر طرف خاموشی کا راج تھا، چاند تھا کہ بادلوں کی اوٹ سے آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ میرے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ بغیر کسی برقی روشنی کے مجھے منزل کو جاتا ہوا راستہ دکھائی دے رہا تھا۔ میں تیز تیزڈگ بھرتا ہوا بالآخر قبرستان پہنچ گیا۔ میرا خیال تھاکہ مجھے قبرستان سے کدال مل جائے گی جو گڑھا کھودنے میں مدد دے گی مگر میرا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ ہزار کوشش کے باوجودمجھے کہیں کدال نہ ملی۔ میرے پاس وقت بہت کم تھا اور کدال کے بغیر گڑھا کھودنا ممکن نہ تھا۔ گھر میں ایسا کوئی اوزار نہیں تھا اور رات کے اس پہر دکانیں بھی بند تھیں۔
میں انتہائی پریشانی کے عالم میں مطلوبہ درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ مجھے کوئی ترکیب نہیں سوجھ رہی تھی۔ سوچتے سوچتے خبرہی نہ ہوئی کہ کب اڑھائی بج گئے۔ میرے پاس اب آدھے گھنٹے کی مہلت تھی۔ میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ چاقو ہی واحد اوزار تھا جس سے تین فٹ گہرا گڑھا کھودنامحال تھا، مگراس کے علاوہ میرے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ میں نے چاقو ہاتھ میں پکڑا اور پاگلوں کی طرح کھدائی شروع کردی۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ میرا ہیجان بڑھ رہا تھا اور جسم تھکن سے چور ہو کر نڈھال ہورہا تھا۔ سر کی نسیں زورزور سے پھڑپھڑارہی تھیں۔میں کسی طور بھی ہمت ہارنے پر آمادہ نہ تھا۔چاقو کی مدد سے کھدائی نہ ہونے کے برابر تھی۔مجھے اپنی مشقت بے سود دکھائی دینے لگی مگر میرے پاس رکنے کا کوئی جواز موجودنہیں تھا۔میں اسی جنون میں چاقو کی مدد سے وار کرتا رہا۔اچانک میرے کانوں سے دبی دبی ہنسی میں لپٹی سرگوشیاں ٹکرائیں۔مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا مذاق اڑایا جا رہاہے۔
اب تین بج چکے تھے۔میرادل ڈوبا جا رہا تھا اورہاتھ تھے کہ مسلسل کپکپا رہے تھے۔ میں نے انتہائی کرب کی حالت میں بھی اپنا عمل جاری رکھا۔ یکایک میرا چاقو کسی بڑی کدال کی مانند کام کرنے لگا۔ یہ ان انجانی طاقتوں کی بدولت تھا جو میرے ساتھ اس عمل میں شامل ہوچکی تھیں۔
کچھ لمحوں میں ایک گہرا گڑھا تیار ہوگیا۔ میں نے فوراً کاغذکو گڑھے میں پھینکا اور ہاتھوں کی مدد سے مٹی ڈال کر اسے زمین کے برابر کردیا۔ اس عمل میں بھی انجان طاقتیں میرے ساتھ تھیں۔ پندرہ منٹ سے پہلے ہی میں اس عمل سے فارغ ہوچکا تھا۔میں نے شکرکاسجدہ ادا کیا اور گھر لوٹ آیا۔
اگلی صبح تجسس مجھے اسی درخت کی جانب لے گیا۔ میری آنکھوں نے جو منظر دیکھا، وہ ناقابلِ یقین اور حیران کن تھا۔ زمین کی حالت ایسی تھی جیسے صدیوں سے اسے کسی نے چھوا تک نہ ہو۔ میں لاحول ولاقوۃ الا باللہ پڑھتا ہوا واپس آ گیا۔ یوں بالآخرمیں ان پراسرار نقطوں کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

Leave a Comment