سوال:”پیامِ مشرق“ اقبال کے فکر و فلسفے کی تفہیم میں کس طرح اور کس طور پر معاونت کرتی ہے؟ تفصیل سے لکھیں۔

جواب:پیامِ مشرق:
پیام مشرق، علامہ اقبال کا تیسرا فارسی مجموعہ کلام ہے۔ یہ پہلی بار1923ء میں شائع ہوا۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر، اب تک اس کے بیسیوں ایڈیشن اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ اس میں علامہ اقبال کا تحریر کردہ مفصل اردو دیباچہ بھی شامل ہے۔

سبب تالیف:


پیام مشرق کے دیباچے میں علامہ اقبال نے بڑی تفصیل سے اس کا سببِ تالیف بیان کیا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کتاب جرمنی کے مشہور شاعر گوئٹے کے مجموعہ کلام ”دیوانِ مغرب” کے جواب میں تخلیق ہوئی۔ گوئٹے ایک عظیم دانشور اور بلند پایہ شاعر تھا۔ اسے جدید مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن کا احساس تھا۔ اس کی حساس روح مغربی دنیا کی بے معنی ہلچل اور ہنگامہ خیزی سے بیزار تھی۔ وہ مشرق کی پر سکون فضاوں میں بڑی دلچسپی محسوس کرتا تھا۔ وہ فارسی غزل کے عظیم شاعر خواجہ حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری سے انتہائی متاثر تھا۔ چناچہ اس نے دیوانِ حافظ کی شعوری تقلید کرتے ہوئے، یورپی شاعری میں، مشرقی اندازِ فکر متعارف کروانے کی کوشش کی اور دیوان مغرب کے نام سے اپنا دیوان شائع کیا۔ یورپی چاعری میں یہ ایک مختلف آواز تھی، جو منفرد افکار کی حامل بھی تھی اور بے حد توانا بھی۔
علامہ اقبال، خواجہ حافظ کے اسلوبِ کلام سے بھی متاثر تھے اور گوئٹے کے فکر وفن سے بھی۔ انہیں گوئٹے کے طرزِ احساس میں اپنائیت محسوس ہوئی۔ چناچہ انہوں نے ایک سو سال بعد ”پیام مشرق” کے نام سے اپنا فکر انگیز مجموعہ کلام شائع کیا اور اسے مشرق دنیا کی طرف سے جہانِ مغرب کو ایک تحفہ قرار دیا۔

انتساب:


پیام مشرق کا زمانہ تالیف 1918 سے 1922 تک ہے۔ اس عرصے میں افغانستان کے امیر امان اللہ خاں نے انگریزوں کے خلاف اعلانِ جنگ کرکے ایک تاریخی قدم اٹھایا جس کے نتیجے میں برطانیہ نے افغانستان کو آزاد ملک تسلیم کر لیا۔
اس زبردست کامیابی پر امیر امان اللہ خاں پوری اسلامی دنیا کا قومی ہیرو بن گیا اور ملت اسلامی نے اس کی ذات سے بہت سے توقعات وابستہ کرلیں۔ علامہ اقبال بھی اس کے جذبہ جہاد اور ولولہ ایمانی سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ اسے دنیا بھر کے مسلمانوں کی حریت فکر اور سیاسی و سماجی سربلندی کی علامت سمجھتے تھے۔ اس پسِ منظر میں انہوں نے اپنے مجموعہ کلام کا انتساب امیر امان اللہ خاں والی افغانستان کے نام کیا۔ اس کتاب کے تمہیدی اشعار میں علامہ اقبال نے انہیں بہت خراجِ تحسین پیش کیا اور خلوص و محبت سے لبریز نصیحتیں کیں۔ امیر امان اللہ خان ان توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔
یہ مجموعہ علامہ اقبال نے معروف شاعر گوئٹے کے ”مغربی دیوان“ کے جواب میں لکھا ہے۔ دیوان گوئٹے اس کی بہتریں کاوشوں میں شمار کی جاتی ہے۔ جرمن میں ایک وقت ایسا آیا کہ لوگ فارسی شاعری کے مضامین و اخلاقا ت کی طرف متوجہ ہو گئے جس کے نتیجے میں گوئٹے بھی سعدی کی پیروی کرتے ہوئے اپنے مضامین کو حیات بخشنے لگا۔ مشرقی تحریک نے پورے یورپ میں ایک تحریک کی صورت اختیار کر لی جس کا نتیجہ دیوان مشرق ہے۔علامہ نے مشرق کو ایک پیام دیا اور ”پیام مشرق“ کے عنوان سے گوئٹے کا جواب بھی دیا۔ علامہ کی یہ کاوش داد و تحسین کے قابل ہے اور اس میں انھوں نے بہترین شاعری کی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس مجموعہ کی اشاعت کے فوراً بعد ہی جرمن کے ایک ادیب نے اس کا ترجمہ کرنے کی اجازت لے کر شایع کر دیا۔ اس میں علامہ نے اپنی بہترین صلاحت کا مظاہرہ کیا ہے اور اہل مشرق کو بے داری کا پیغام دیا ہے۔

پیام مشرق کے ذیلی عنوانات:


علامہ اقبال نے پیام مشرق کی پانچ عنوانات میں تقسیم کیا ہے،
لالہ طور:
پہلے حصے میں ایک سو تریسٹھ رباعیات ہیں۔ ان رباعیات میں انسانی زندگی کے باطنی پہلو اُجاگر کیے گئے ہیں۔ بیشتر موضوعات حکیمانہ اور فلسفیانہ ہیں۔ خودی، عشق، عظمتِ آدم، زندگی، روح، مادہ، کائنات، حیات و موت، مسئلۂ جبر و قدر اور وحدت الوجود کے مسائل کو بڑے لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔
افکار:
کتاب کا یہ دوسرا حصہ سب سے زیادہ ضخیم ہے۔ اس میں اکاون نظمیں ہیں۔ یہ نظمیں اپنے موضوعات اور اسالیب کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ کچھ نظموں کا تعلق مناظرِ فطرت کے بیان سے ہے اور کچھ منظومات اقبال کے مخصوص فلسفہ حیات و کائنات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ دو نظمیں گوئٹے کے نام منسوب کی گئی ہیں۔ بیشتر نظموں میں تمثیلی اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے جو مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی و معنوی کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔
می باقی:
یہ پیام مشرق کا تیسرا حصہ ہے اور پنتالیس غزلوں پر مشتمل ہے۔ ان غزلوں میں علامہ اقبال کا فکر رسا اور قدرتِ کلام، اوجِ کمال پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ روائتی غزلیں نہیں ہیں بلکہ جدید موضوعات اور عصری مسائل کی آئینہ دار ہیں۔ زبان و بیان کے اعتبار سے انہیں سلیس اور رواں غزلیں کہا جا سکتا ہے۔ اور یہ فارسی شاعری کے مشہور اسلوبِ عراقی کی نمائندہ ہیں۔ اقبال کے افکار اپنی تمام تر وسعت اور گہرائی کے ساتھ ان میں موجود ہیں۔ ان میں فلسفہ و حکمت بھی ہے اور تصوف و عرفان بھی، سعی و عمل کا درس بھی دیا گیا ہے اور سخت کوشی اور خود شناسی کو بھی موضوعِ سخن بنایا گیا ہے۔ تہذیب حاضر اور مغربی تمدن کی سطحیت سے بھی آگاہ کیا گیا ہے اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تمام مسائل کا حل بھی قرار دیا گیا ہے۔ ان غزلوں کی سب سے بڑی خوبی، ان کی رجائیت اور امید پسندی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اقبال نے فارسی غزل کو منفرد معنویت عطا کی اور اسے نئے شعور اور جدید طرزِ احساس سے روشناس کرایا ہے۔
نقشِ فرنگ:
پیام مشرق کے چوتھے حصے کی نظموں میں مغربی تہذیب و ثقافت اور اقوامِ مغرب کے فلسفہ و فکر کو متعارف کروا کر، فرنگی تمدن کے کمزور پہلووں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ علامہ اقبال نے مغربی دانشوروں کے افکار پر جا بجا سخت گرفت کی ہے اور اس کے مقابلے میں مشرقی حکمت و فلسفہ کے حوالے سے اپنی آراء بیان کی ہیں۔ ان منظومات میں جن مغربی فلسفیوں کے نظریات کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے، ان میں شوپن ہار، نٹشے، آئن سٹائن، بائرن، ہیگل، برگساں اور ٹالسٹائی قابلِ ذکر ہیں۔ انہی نظموں میں سوشلسٹ انقلاب کے پس منظر میں مزدور اور سرمایہ دار کے موضوعات پر بھی دادِ سخن دی گئی ہے۔ علامہ اقبال کو اس ناکام ہو جانے والے انقلاب کے جس پہلو نے بے حد متاثر کیا تھا، وہ اس کا نظریہ مساوات تھا۔ دوسری طرف یورپ کی اندھی استعماری قوتیں تھیں، جن کے جبر و استبداد سے وہ شدید نفرت کرتے تھے۔
خردہ:
پیام مشرق کے پانچویں اور آخری حصے کا نام خُردہ ہے۔ اس میں مختلف عنوانات کے تحت تیئیس متفرق اشعار شامل ہیں۔ ان اشعار کے مضامین میں نُدرت اور فکر و خیال کی تازگی اور گہرائی کا عنصر کار فرما ہے۔

دیگر زبانوں میں پیام مشرق کے تراجم:


علامہ اقبال کو اپنی اس غیر معمولی تخلیق کی اہمیت اور افادیت کا بخوبی احساس تھا۔ پیام مشرق کی اشاعت سے پہلے اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:
”مجھے یقین ہے کہ دیوان (پیام مشرق) کا ترجمہ بھی ضرور ہوگا۔ کیونکہ یورپ کی دماغی زندگی کے ہر پہلو پر اس میں نظر ڈالی گئی ہے اور مغرب کے سرد خیالات و افکار میں کسی قدر حرارت ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔“
علامہ اقبال کی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور اس وقت تک پانچ بین الاقوامی زبانوں میں اس کے تراجم ہوچکے ہیں۔ کئی اہم مغربی مفکرین نے اس کتاب پر شاندار تبصرے لکھے ہیں اور علامہ اقبال کے فکر و فن کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

علم و دولت کی نوعیت:


پیامِ مشرق میں اقبال علم و دولت کی نوعیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ مسلمان کو علم اشیاء اور لذت احساس سے محروم پاتے ہیں اور انہیں حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ فرمانروائے افغانستان کو قبائے خسروی میں درویشی کی زندگی بسر کرنے اور ہجوم امور مملکت میں خود شناسی کا سبق دیتے ہیں، کہ جن مسلمانوں نے عظمت و سطوت کے جھنڈ گاڑے تھے انہوں نے فقیری کو اپنا شعار بنایا تھا۔ آخر میں وہ عشق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ بیدار کرتے ہیں کہ ملت کی زندگی اسی ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے دم سے ہے۔ اور اسی کے عشق سے کائنات میں رونق ہے۔ یہاں وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے اپنی بے تاب، والہانہ محبت کا ذکر کرتے ہیں اور پھر اپنے مخاطب کو اسی عشق میں سرشار ہونے کی دعوت دیتے ہوئے ”پیشکش“ کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔پیام مشرق چار حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں ”لالہ طور“ کے نام سے رباعیات ہیں۔ دوسرا ”افکار“ کے تحت نظموں پر مشتمل ہے۔ تیسرا حصہ ”مے باقی“ کے عنوان سے غزلیات سے عبارت ہے اور چوتھے میں ”نقش فرنگ“ کے نوان کے تحت جو نظمیں کہی گئی ہیں ان کا موضوع مغربی افکار و سیاست ہے۔

لالہ طور کی رباعیات:


لالہ طور”لالہ طور“ کی رباعیات کا اسلوب مشہور ایرانی رباعی نگار بابا طاہر عریان سے متاثر ہے اور علامہ نے اپنی تمام رباعیات روایت سے ہٹ کر اسی وزن میں کہی ہیں جو پانچویں /گیارھویں صدی کے اس عظیم مجذوب شاعر نے اختیار کیا تھا۔ وزن کے اس غیر معمولی انتخاب کی وجہ سے بعض نقادوں نے ان رباعیات کو قطعات کہا تھا چنانچہ علامہ نے اپنے ایک خط مورخہ 5 جون 1933ء میں یہ غلط فہمی رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔
”ان کو رباعیات کہنا غلط نہیں۔ بابا طاہر عریان کی رباعیات جو اس بحر میں ہیں رباعیات ہی کہلاتی ہیں۔ ان میں قطعات بھی داخل ہیں۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ یہ رباعیات رباعی کے مقررہ اوزان میں نہیں ہیں۔ مگر اس کا کچھ مضائقہ نہیں۔“
بابا طاہر کی رباعیات میں سوز و ساز اور درد و خاش کی ایک غیر معمولی کیفیت ہے۔ عشق ان رباعیات کا واحد موضوع ہے۔ شاعر نے اپنے لطیف پاکیزہ عشق میں، جس کی آگ نے اس کے خرمن حیات کو جلا کے راکھ کر دیا ہے، قلندری اور بے نیازی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ بابا طاہر کے لطیف جذبات عشق، قلندرانہ انداز اور وفور شوق و مستی نے علامہ کو بہت متاثر کیا ہے۔
”لالہ طور“ میں ایک سو تریسٹھ رباعیاں ہیں اور ان میں ترتیب وار مختلف مسائل کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ ان کا تعلق اقبال کے بنیادی افکار سے ہے۔ ہر موضوع پر متعدد رباعیات ہیں، اور ہر موضوع کے مختلف پہلووؤں اور گوشوں پر لطیف اور دلآویز رنگ میں الگ الگ رباعیات ہیں۔
شہید ناز او بزم وجود است
نیاز اندر نہاد ہست و بود است
نمی بینی کہ از مہر فلک تاب
بسیمانے سحر داغ سجود است

لمحاتی زندگی:


زندگی کا ہر لمحہ ابد کا راز داں ہے اور ہر ذرہ منزل دوست کی طرف رواں دواں ہے۔ اس حقیقت سے بیگانگی زندگی کے تقاضوں سے بے وفائی ہے۔ ہر گزرتا ہوا لمحہ تخلیق و تعمیر چاہتا ہے۔ اور آنے والے کل سے بے نیاز ہو کر اپنے آج کو سنوارنا اور ہر گزرتے ہوئے لمحے میں کاوش کے رنگ بھرنا زندگی کے تقاضوں کی صحیح تکمیل ہے:
مگر کار جہان نا استوار است
ہر آن ما ابد را پردہ دار است
بگیر امروز را محکم کہ فردا
ہنوز اندر ضمیر کائنات است

خطرجوئی:


انسان کی عظمت، اور زندگی کے ساتھ اس کے پیہم ربط کا احساس دلانے کے بعد شاعر نے اپنے ایک اور مرغوب مضمون خطر جوئی کو موضوع سخن بنایا ہے۔ اس سے پہلے اسرار خودی میں بھی علامہ نے خطرات کو انسانی قوتوں کے تعمیری استعمال کا زرین موقع قرار دیا ہے۔ خطرات کا مقابلہ ان کی نظر میں خودی کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔ انہیں مشکلات اور خطرات اتنے پسند ہیں کہ وہ پر پیچ راستے کو منزل مقصود پر ترجیح دیتے ہیں۔

اخوت اسلامی:


رباعیات کا ایک اور موضوع اخوت اسلامی کا تصور ہے۔ وہ ملت اسلامی کو اپنے ملی تشخص کا احساس دلاتے اور اس کی نگہداری کی تلقین کرتے ہیں۔ مسلمان رنگ و نسب سے بالاتر ایک حقیقت ہے۔ اس ملت کی آبیاری ایک چمن میں ہوئی ہے اور اسے ایک ہی نوبہار نے پروان چڑھایا ہے:
نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم
 تمیز رنگ و بو برما حرام است
کہ ما پروردہ ء یک نوبہاریم

افکار:


”افکار“ کے تحت علامہ نے اپنے فلسفہ و فکر کے مختلف پہلووؤں کا اظہار کیا ہے۔ موضوعات میں عظمت آدم، تسخیر فطرت، فلسفہ زمان، عشق و خرد، سوز و ساز، زندگی و عمل، جوش کردار، تخلیق و ارتقا، آزادی و غلامی، اسلام، جمہوریت، کشمیر اور تہذیب وغیرہ شامل ہیں۔ بہت سی نظمیں ایسی ہیں جن میں شاعر نے فطرت کے حوالے سے اپنے فلسفہ زندگی کی ترجمانی کی ہے۔ ان نظموں کے عنوانات ہی سے علامہ کے اس شعری رحجان کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً ان میں گل نسختین، بوئے گل، فصل بہار، افکار انجم، نسیم صبح، لالہ، کرمک شب تاب، قطرہء آب، شبنم اور جوئے آب میں علامہ کے مخصوص طرز تخیل پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

حسن و جمال:


مذکورہ بالا عنوانات میں اکثر ایسے مظاہر فطرت کا ذکر ہے جو حسن و جمال سے ایک خاص نسبت رکھتے ہیں۔ ان میں لطافت، شگفتگی اور رنگ و بو کا دلآویز امتزاج ہے۔ ان مظاہر کی خصوصیات کو شاعر نے اپنے فلسفہ زندگی پر اس طرح منطبق کیا ہے کہ تجریدی افکار نے حسن و زیبائی میں ڈھل کر محسوسات کی سحر آفرین شکل اختیار کر لی ہے۔ تجریدیا ور غیر محسوس حقائق کو موزوں الفاظ اور حسن آفرین تشبیہہ و استعارہ میں اس طرح سے پیش کرنا کہ وہ اپنے پورے عشق کے باوجود شعر کے نازک اور لطیف پیکر میں ڈھل جائیں اور فکر کے ساتھ ساتھ ایک غنائی اور نغماتی کیفیت پیدا کر لیں، ایک عظیم فنکار ہی کی ندرت طبع اور قوت تخیل کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔
”افکار“ میں ”تسخیر فطرت“ کے نام سے علامہ نے اپنی نظم میں انسان کی عظمت کا ذکر بڑے شکوہ اور طمطراق کے ساتھ کیا ہے۔ انہوں نے صاحب نظر، خودگر، خود شکن، خود نگر اور پردہ در ایسے الفاظ سے انسان کی قوت اور مضمرات بیان کیے ہیں۔ ادھر ”افکار ابلیس“ کے نام سے اسی نظم میں انہوں نے ابلیس کی سرکشی، بے باکی اور قوت عصیاں کا ذکر بڑے زور دار الفاظ میں کیا ہے۔ ”نوائے وقت“ میں وقت نے سیل بے پناہ کی قوت کا بیان ایک دلکش، مترنم اور نغمہ ریز نظم میں کیا ہے۔
”افکار“ کے تحت دو نظمیں گوئٹے سے منسوب ہیں۔ ایک ”حور و شاع“ اوردوسری ”جوئے آب“ پہلی گوئٹے کی ایک ایسی نظم کے جواب میں ہے، جس میں شاعر کی فطرت کی بے تابی، اضطراب اور عینیت پرستی کا ذکر نہایت خوب صورت اور پاکیزہ اشعار میں کیا گیا ہے۔ اور دوسری گوئٹے کی نظم ”نغمہ محمدؐ“ کا بقول علامہ ”ایک نہایت آزاد ترجمہ ہے“ جوئے آب یہاں زندگی کے اسلامی تخیل کی نمائندگی کرتی ہے۔ اور مقصد گوئٹے کا نقطہ نظر پیش کرنا ہے۔ اس نظم میں جوئے آب ہی کی روانی، تندی اور نغمہ آفرین کیفیت ہے اور علامہ نے گوئٹے کی فکر کو صوتیاتی تاثر، آہنگ اور جوش و خروش کے جس سحر آگین تانے بانے میں پیش کیا ہے۔ اس نے اس نظم کو لازوال حسن و شکوہ بخش دیا ہے۔ان نظموں میں شاعر نے ذوق نمود، شوق تخلیق، لذت آرزو، خلش جستجو، ذوق طلب، قوت، عمل، حرکت، رجائیت، عشق کی ہمہ گیری اور عشق و دانش کا باہمی ربط، سوز ناتمام، ولولہ تعمیر، بلند نظری، خطر پسندی، جرأت و بیباکی، عظمت ایمانی اور تہذیب مغرب کی تاریک ضمیری ایسے موضوعات پر اظہار فکر کیا ہے، اور اپنے شاداب اور توانا تخیل سے ان حقائق کو جان بخش دی ہے۔

مے باقی:


پیامِ مشرق کے حصہ غزلیات کا عنوان ”مے باقی“ ہے۔ یہ اصطلاح علامہ نے حافظ سے لی ہے، اور اس کے مشہور شعر کی یاد دلاتی ہے:
بدہ ساقی مے باقی کہ در جنت نخواھی یافت
کنار آب رکنا باد و گلگشت مصلیٰ را

حافظ شیرازی سے نسبت:


یہ اصطلاح اس لحاظ سے نہایت معنی خیز ہے کہ اگرچہ علامہ نے اسرار خودی میں حافظ کے فلسفہ زندگی پر کڑی تنقید کی تھی، لیکن انہوں نے اپنی پہلی مطبوعہ غزلیات کو حافظ کی ایک مقبول ترکیب سے یاد کیا، مگر حافظ سے یہ نسبت یہیں ختم نہیں ہو جاتی، ان غزلیات میں حسن و زیبائی کی جو فضا چھائی ہوئی ہے وہ حافظ کے سحر آخریں انداز کی یاد دلاتی ہے۔ ان غزلیات کا اسلوب اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ اقبال کی نظر میں حافظ ایک عظیم فنکار تھا اور ا سکی غنائی تخلیقات ساحرانہ حسن و تاثیر کا مرقع تھیں۔ یہ ایک طرح سے حافظ کے جمالیاتی شعور کو اقبال کا خراج تحسین ہے۔ علامہ کی ان غزلیات میں وہی شگفتگی اور رعنائی، وہی آہنگ نشاط اور انداز بے نیازی ہے جو حافظ کے کلام پر سر بہ سر چھایا ہوا ہے۔

رومی کا اثر:


”مے باقی“ کی متعدد غزلیں حافظ شیرازی کی غزلیات کی زمین میں کہی گئی ہیں۔ حافظ کے علاوہ ان غزلیات میں رومی کا گہرا اثر جھلکتا ہے۔ یہ اثر اس عظیم صوفی او رمفکر شاعر کے طرز فکر کا بھی ہے اور طرز اسلوب کا بھی، چنانچہ بعض غزلیں رومی کے تتبع میں کہی گئی ہیں۔ اسی طرح علامہ نے بعض دوسرے شعرا کی غزلیات کے جواب میں بھی غزلیں کہی ہیں۔غزل اس لحاظ سے باقی تمام اصناف سخن سے مختلف ہے کہ اس میں منطقی تسلسل او رمعنوی ربط کی وہ کیفیت نہیں ہوتی جو مثال کے طور پر مثنوی میں نظر آتی ہے۔

وحدت:


غزل کا ہر شعر ایک مکمل وحدت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ صنف سخن شاعر کے فکر و احساس کے داخلی اظہار کا نام ہے۔ اس میں شاعر کی فکر جذبے کی آنچ سے ڈھل کر نکلتی ہے اور فکر و احساس کا یہ امتزاج دلآویز اور اثر آفرین کیفیت پیدا کر لیتا ہے جو دوسری اصناف سخن میں عام طور سے ممکن نہیں۔ اچھے شاعر کی غزل میں خاص طور سے جب وہ زندگی کے بارے میں ایک مثبت نقطہ نظر رکھتا ہو اور اس کے اظہار کے لیے اس نے اپنی تمام فکری، فنی اور جمالیاتی قوتیں داؤ پر لگا دی ہوں۔ عام غزل کی طرح جذبات و احساسات کی محض پراگندہ تصویریں نہیں ہوتیں، بلکہ فکر کے قوی عنصر کی وجہ سے ایک نقطہ نظر یا زاویہ نگاہ بھی جاری و ساری ہوتا ہے جس کا نقش ایک مکمل وحدت کی شکل میں قاری کے ذہن پر مرتسم ہو جاتا ہے۔ البتہ اس نقطہ نظر کو جذبات سے ہم آہنگ ہونے کے باعث اظہار کا ایک لطیف وسیلہ میسر آ جاتا ہے۔ پیام مشرق کی غزلیات اس حقیقت کا زندہ ثبوت ہیں کہ ایک عظیم فنکار کے ہاتھوں خواہ وہ فن شعر سے لاتعلقی کا کتنا ہی اظہار کیوں نہ کرے عمیق اور بلند افکار نہایت کامیابی کے ساتھ غنائیت کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں، اور سنگین حقائق غزل کی لطیف زبان تخیل اور شاداب لہجے میں اپنی پوری معنویت اور اثر انگیزی کے ساتھ پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتے ہیں۔

زندگی میں حرکت:


شاعر کی نظر میں زندگی ہمیشہ سے حق و باطل کی آویزش کی آماجگاہ رہی ہے اور شر ہمیشہ خیر سے ٹکراتا رہا ہے:
شبے بہ میکدہ خوش گفت پیر زندہ دلے
بھر زمانہ خلیلؑ است و آتش نمرود

اقبال کا نصب العین:


اقبال کا نصب العین مسلک شبیر ہے۔ گوشہ نشینی کی بجائے وہ کار زار زندگی میں شمشیر و سنان اور نعرہ ء تکبیر کو رفیق راہ سمجھتے اور عواقب سے بے پرواہ ہیں:
تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزوست
با من میا کہ مسلک شبیرمؓ آرزوست
از بہر آشیانہ خس اندوزیم نگر
باز این نگر کہ شعلہ در گیرم آرزوست
گفتند لب بہ بند و ز اسرار ما مگو
گفتم کہ خیر، نعرہ ء تکبیرم آرزوست

خودی کا استحکام:


شاعر کا عقیدہ ہے کہ خودی مضبوط و مستحکم ہو تو خطرات کی تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں اور زندگی کے طوفانی سمندر سے انسان گوہر تابندہ بن کر نکلتا ہے:
گر بخود محکم شود سیل بلا انگیز چیست
مثل گوہر در دل دریا نشستن میتوان

زندگی کو کسی پل قرار نہیں۔ اس میں جمود کو راہ نہیں یہ نئی منزلوں کی تلاش میں ہمیشہ سرگرم سفر رہتی ہے اس خیال کو شاعر نے کس موثر اور دلنشین انداز میں پیش کیا ہے:کجاست منزل این خاکدان تیرہ نہادکہ ہرچہ پست چو ریگ روان بہ پرواز استایک دوسری غزل میں حرکت اور پروز کے اسی تصور کو پھول کی مہک اور نسیم سحر سے ہم آہنگ کر کے شاعر نے زندگی کے سنگین عمل کو تغزل کے لطیف ساز میں ڈھالا ہے۔ اس غزل میں زندگی کے امکانات کو روشن کرنے اور ناسازگار ماحول میں بھی شخصیت کے اظہار کے مواقع ڈھونڈنے اور شکست پر غالب آنے کی بات گل و سبزہ اور شبنم و لالہ کے رنگین پیکروں کے ذریعے کی گئی ہے۔

نقشِ فرنگ:


پیام مشرق کا چوتھا جزو ”نقش فرنگ“ ایک طویل ترکیب بند سے شروع ہوتا ہے۔ جس کا عنوان ”پیام“ ہے۔ یہ پیام اقبال کی طرف سے مغرب کے نام ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ پیام ہے جو بیسویں صدی کے اس عظیم مفکر شاعر نے گوئٹے کے جواب میں مغرب کے نام بھیجا ہے۔ پیام کیا ہے مغرب کے نام ایک دعوت مبارزت ہے جس میں شاعر نے مغربی نظام فکر و عمل اور تمدن و سیاست کو للکارا ہی نہیں بلکہ اس کے تار و پود کو بھی بکھیر کے رکھ دیا ہے۔ اس نظم میں شاعر نہ مغرب کے افکار سے مرعوب ہے نہ اس کی حاکمیت سے نظم میں ایک للکار اور بے باکی ہے۔ ایک برتری کا احساس اور اعتما دکا آہنگ ہے۔ اس کی گونج شاعر کے متفکرانہ شکوہ و جلال کی آئینہ دار ہے۔ اس نے مغرب کے نظام حیات کا بے مثال جرأت اور بصیرت کے ساتھ تجزیہ ہی نہیں کیا، انتہائی قوت و توانائی کے ساتھ اپنے رد عمل کا اظہار بھی کیا ہے۔ اس شعلہ بدامان نظم میں فکر و نظر کے شراروں اور انداز بیان کی تابانیوں نے اسے اقبال کی شاہکار تخلیقات میں ایک ممتاز مقام بخشا ہے۔ نظم کا آہنگ و صوت، اس کی بے پناہ روانی اور الفاظ کا شکوہ شاعر کے افکار کے ساتھ پوری مطابقت رکھتا ہے۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ یہ شعلہ بیانی شاعر کو جذبات کی رو میں بہا کر نہیں لے گئی ہے، بلکہ اس کا ہر شعر عمیق فکر کا آئینہ دار ہے، اور اس کا ایک ایک لفظ مغرب کے لیے تازیانہ عبرت کا کام دے رہا ہے۔

کتاب کا اختتام:


”نقش فرنگ“ کے ساتھ کتاب ختم ہو جاتی ہے لیکن ”خردہ“ کے نام سے علامہ نے چند صفحات کا مزید اضافہ کیا ہے۔ ان اشعار میں بھی علامہ کے مخصوص فلسفہ زندگی، ذوق جستجو اور شوق تخلیق و تازہ کاری کی خوبصورت مثالیں ملتی ہیں۔ کتاب کا اختتام تقلید کے خلاف مندرجہ ذیل اشعار پر ہوتا ہے:
چہ خوش بودے اگر مرد نکوپے
ز بند پاستان آزاد رفتے
اگر تقلید بودے شیوہء خوب
پیمبرﷺ ہم رہ اجداد رفتے

……٭……٭……

Leave a Comment