وہ لڑکپن کے دن تھے، ہر کام میں تیزی… ہر کام میں جوش…یوم آزادی تو بہت دھوم سے مناتے تھے۔گھر کی چھت پر سبز ہلالی پرچم اور آنگن میں جھنڈیاں… اس کے بعد ہم ہوتے اور ٹیلی ویژن ہوتا….۔ایک ٹی وی اور بیسیوں افراد دیکھنے والے… وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔ تبدیلی کا دور تھا۔گھر بھر کے افراد نور جہاں کے ملی نغمے شوق سے سنتے تھے۔”اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے…“سن کر رو پڑتے۔عنایت حسین بھٹی کا”دھڑ رگڑا…“سن کر ہنس پڑتے۔ایسے ماحول میں ایک ملی نغمہ آن ائیر ہوا،
”ایسی زمین اور آسمان…اس کے سوا جانا کہاں….“دیکھنے والے حیرت سے بول پڑے،
”ارے یہ لونڈے لپاڑے کہاں سے آ گئے…“ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ملی نغمہ ہٹ ہو گیا۔ موسیقی کی دنیا کو ایک نیا گلوکار ملا۔وہ آیا…اس نے دیکھا… اس نے فتح کر لیا۔
پھر یوں ہواکہ کعبہ کو مل گئے پاسبان صنم خانے سے….
شیطان نے اسے کسی اور کام کے لیے تیار کیا تھا، پاک اللہ نے اسے کسی اور کام کے لیے تیار کر لیا۔
آج خبر ملی کہ’مسافر‘ رخصت ہوا۔کسی نے کہا،
”اللہ جنت کی طرف اس کا سفر آسان فرمائے…!“ میں چیخ اٹھا،
”وہ تو دنیا میں ہی دوزخ سے جنت تک کا سفر طے کر چکا تھا…!“
لاجواب کے پاس کوئی جواب نہ تھا…!