مہمان ___ محسن حیات شارف

سارب کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔ وہ جلد از جلد اپنا ہوم ورک مکمل کرنا چاہتا تھا۔ آج ان کا کرکٹ کا میچ تھا۔ وہ آخری سوال حل کر رہا تھا کہ اوپر سے کوئی چیز اس کی کاپی پر آگری۔ اس کے ساتھ ہی اس کے چہرے اور ہاتھوں پر خون کے چھینٹے آن پڑے تھے۔ وہ اس اچانک افتاد سے گھبرا اٹھا۔ وہ چیخ مارتے ہوئے اپنی امی کی طرف بھاگا۔
”ارے! کیا ہوا؟ کیوں چیخ رہے ہو؟“
اس کی امی گھبرا گئیں۔ سارب کے چہرے پر نظر پڑتے ہی ان کے اوسان خطا ہوگئے۔
”یہ تمہارے چہرے پر خون کہاں سے آگیا؟ کیا کوئی چوٹ لگی ہے؟“
”نن…نہیں!وہ…وہاں کچھ گرا ہے کاپی پر،اوپر سے۔“
اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
”یا اللہ رحم! تم پر خون کی بوندیں آئی ہیں۔ یقیناً یہ کسی نے جادو کر دیا ہے۔ پہلے کیا گھر میں کم مصیبتیں ہیں جو اب یہ خون بھی آگیا ہے۔“
سارب کی بات اس کی دادی نے بھی سن لی تھی اور اب وہ جادو کرنے والوں کو کوس رہی تھیں۔ سارب اور اس کی امی بھی خوف زدہ ہو چکے تھے۔
”کیا ہوا ہے؟ اس قدر شور کیوں مچایا ہوا ہے؟“
سارب کے ابو فیضان صاحب ابھی ابھی بازار سے لوٹے تھے۔ گھر کا ماحول دیکھ کر وہ بھی پریشان ہوگئے۔ امی نے ابو کو ساری بات بتائی۔ یہ بات سن کر وہ اچھے خاصے فکرمند ہو گئے تھے۔ پچھلے کچھ دنوں سے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تھی۔ ان کی دکان کی آمدن بھی بہت کم ہوگئی تھی۔ ایسے حالات میں وہ فکر نہ کرتے تو کیا کرتے۔
”ہمیں ایک دفعہ چل کر دیکھنا چاہیے کہ آخر کیا چیز آ کر گری ہے۔“
سارب نے کہا۔ وہ ڈرا ہوا تو تھا لیکن اسے تجسس بھی تھا۔
آخر ڈرتے ہوئے وہ سب سارب کی کتابوں کے پاس آئے۔ دراصل جب سارب بھاگا تھا تو کاپی الٹ گئی تھی۔ اب کاپی اوپر اور وہ پراسرار چیز نیچے تھی۔ وہ چیز آہستہ آہستہ ہل رہی تھی۔ آخر ابو نے ہمت کر کے کاپی اوپر اٹھائی۔ اس چیز پر نظر پڑتے ہی وہ دھک سے رہ گئے۔
”ارے رے رے!یہ تو اُلو ہے۔ ہائے کسی منحوس مارے نے جادو کے طور پر پورا اُلو ہی بھیج دیا۔“
دادی کی دہائیاں پھر شروع ہوچکی تھیں۔
”نہیں! ایسا کچھ نہیں ہے۔ مجھے یہ جادو کا معاملہ نہیں لگ رہا۔“
ابو نے کہا۔وہ اس وقت تک اُلو کو الٹ پلٹ کر دیکھ چکے تھے۔
”اس نے شاید نیا نیا اڑنا سیکھا ہے اور اڑتے ساتھ ہی کسی شکاری پرندے کے ساتھ مڈبھیڑ ہوگئی ہوگی۔“
”جی ابو! مجھے ابھی یاد آیا کہ جب یہ میری کاپی پر آن گرا تھا تو میں نے اپنے سر پر ایک چیل کو منڈلاتے ہوئے دیکھا تھا۔“
سارب نے کچھ یاد کرتے ہوئے کہا۔
”یقیناً وہ چیل اس پر جھپٹی ہو گی اور یہ اس کے پنجے کے وار سے زخمی ہو کر گرا ہو گا۔“
ابو نے سوچتے ہوئے کہا۔ ”اس بے چارے کے لیے یہ بات بہتر ہوگئی کہ کاپی اس پر الٹ گئی ورنہ چیل نے اسے یہاں سے بھی اٹھا لینا تھا۔“
”اب تم دونوں باپ بیٹا یہاں کھڑے باتیں کرتے رہو گے یا اس نحوست کو گھر سے باہر بھی پھینکو گے؟“
دادی اماں نے چڑ کر کہا۔
”لیکن یہ بے چارہ تو زخمی ہے۔ ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہیے۔“سارب نے فکرمندی سے کہا۔
”اور اب تو یہ بات بھی پتا چل گئی ہے کہ یہ کسی نے جادو سے نہیں بھیجا۔“
”بیٹا! جادو نہ بھی ہو تو الو کی اپنی نحوست کیا کم ہے؟“امی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”سارب! تمہاری امی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ گھر اور کاروبار کی حالت پہلے ہی خاصی خراب ہے۔ ہم اس منحوس پرندے کو گھر میں نہیں رکھ سکتے۔“
سارب نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تو اس کے ابو نے ہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کا کہا۔
سارب سر جھکائے باہر جانے لگا تو اس کی امی نے آواز دی۔ ان کے ہاتھ میں ایک تھالی تھی۔ جس پر دو کٹوریاں موجود تھیں۔ ایک میں پانی اور ایک میں باجرہ تھا۔
”بیٹا! اس پرندے کو کسی ایسی جگہ رکھنا کہ جہاں یہ شکاری پرندوں سے بچا رہے اور اس کے ساتھ ہی یہ دو کٹوریاں رکھ دینا۔ شاید دانہ دنکا کھا کر یہ اچھا بھلا ہوجائے۔“
امی نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہا۔ ”میں تمہارے دل کی حالت سمجھ رہی ہوں لیکن میں اس کے لیے اتنا کچھ ہی کر سکتی ہوں۔ اب بھلا ہم خود اپنے گھر اس منحوس پرندے کو تو نہیں رکھ سکتے نا۔“
سارب نے امی کے ہاتھ سے تھالی پکڑی اور گھر سے باہر نکل گیا۔
٭
دن گزرتے گئے اور سب اس واقعہ کو بھول گئے۔ فیضان صاحب اکثر اپنے پڑوسی شہباز صاحب کے بارے میں سوچتے تو حیران رہ جاتے۔ ایک دو ماہ میں ہی شہباز صاحب نے اچھی خاصی ترقی کر لی تھی۔ ان کا کاروبار پھل پھول رہا تھا۔پہلے وہ اکثر ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر نظر آتے تھے۔ گھر میں کوئی نہ کوئی بیمار رہتا تھا لیکن اب تو شاید بیماری ان کے گھر کا راستہ ہی بھول گئی تھی۔ فیضان صاحب کی صحت اور مالی حالت بھی پہلے سے بہتر تھی لیکن پھر بھی وہ یہ جاننے کے لیے بے چین رہتے تھے کہ آخر شہباز صاحب کی پرسکون زندگی کا راز کیا ہے۔
آخر آج انہیں یہ موقع مل گیا تھا۔ شہباز صاحب کے بیٹے نے تقریری مقابلے میں ضلع بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ فیضان صاحب اس وقت اپنے گھروالوں کے ساتھ ان کے گھر میں موجود تھے۔
”بھائی! اللہ کا کرم ہے کہ اس نے میرے بیٹے کو صحت عطا فرمائی۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ کتنا بیمار رہتا تھا۔ ذہین تو شروع سے ہی تھا لیکن بیماری نے کسی قابل نہیں چھوڑا تھا۔“ شہباز صاحب نے کہا۔ ”اب اس کی حالت بہتر ہوئی ہے تو اس نے اپنے جوہر دکھانے شروع کیے ہیں۔“
”ماشاء اللہ، ہم سب بھی یہ جاننے کے لیے بے چین ہیں کہ آخر بیٹے کا علاج آپ نے کہاں سے کروایا۔“
سارب کی امی نے پوچھا۔
”اور میں نے تو آپ سے جلدی ترقی کرنے کے لیے کاروباری گر بھی سیکھنے ہیں۔“
فیضان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”بیٹے! ہم نے ہر طرح کا علاج کروایا۔ جہاں کسی ڈاکٹر، حکیم یا روحانی معالج کا پتا چلتا تھا، وہاں اپنے بچے کو لے جاتے تھے۔ کاروبار کی حالت بھی آپ کے سامنے تھی۔ گھر میں پریشانیوں نے ڈیرا ڈالا ہوا تھا۔“
شہباز صاحب نے بتانا شروع کیا۔
”اچانک اللہ نے ہمارے گھر اپنا ایک مہمان بھیج دیا۔ بس ہم نے تو صرف اس مہمان کی دل و جان سے خدمت کی اور پھر ہمارے حالات بدلتے چلے گئے۔“
”ارے بھائی! تو اب وہ مہمان کہاں ہیں؟ ہمیں بھی ان سے ملوائیے۔ ہم بھی ان کی دعائیں لیتے جائیں۔“
فیضان صاحب نے بے تابی سے کہا۔
شہباز صاحب نے اپنے بیٹے کو اشارہ کیا۔ وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔ سب لوگ بے چینی سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ جب وہ واپس لوٹا تو سب لوگ حیران رہ گئے۔ اس کے ہاتھ میں ایک پنجرہ تھا اور اس پنجرے میں وہی زخمی اُلو مزے سے بیٹھا تھا۔ اب اس کے زخم ٹھیک ہو چکے تھے۔ شہباز صاحب نے وہ پنجرہ تھام لیا۔
”یہ وہ اللہ کا مہمان ہے جو زخمی حالت میں میرے چھوٹے بیٹے طاہر کو ملا تھا۔ ہم نے اس کی دیکھ بھال کرنا شروع کر دی۔ ہم نے سوچا کہ تھا کہ جب یہ ٹھیک ہو جائے گا تو اسے آزاد کر دیں گے لیکن اس کا پر ٹوٹ چکا ہے۔ اب یہ ہمارے ساتھ رہے گا۔ یہ سب اسی کی برکتیں ہیں۔“
شہباز صاحب نے ساری بات بتائی۔
”برکتیں؟یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ اس منحوس پرندے کو بابرکت کہہ رہے ہیں۔“
سارب کی دادی نے حیرت سے کہا۔
”ماں جی! منحوس تو ہمارے اعمال ہوتے ہیں۔ ہم پر آنے والی مصیبتیں تو ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہیں۔ یہ بے چارہ کیا نحوست پھیلائے گا اور اب ہمارے گھر میں خیر و برکت کا نظارہ تو آپ خود بھی دیکھ چکی ہیں۔“
شہباز صاحب نے جواب دیا۔
وہ سب حیران و پریشان وہاں سے لوٹ آئے۔ فیضان صاحب نے سارب کی طرف دیکھا۔
”جی ابو! آپ ٹھیک سوچ رہے ہیں۔ یہی وہی اُلو ہے۔ میں جب اسے گھر سے باہر چھوڑنے جارہا تھا تو راستے میں طاہر ملا تھا۔“سارب نے کہا۔
”اس نے مجھ سے وہ پرندہ لے لیا تھا۔ وہ اسے اپنے گھر لے گیا تھا۔“
”لیکن میں یہ سوچ رہا ہوں کہ انہوں نے اللہ کے مہمان کی اتنی زیادہ خدمت کی۔ اس وجہ سے اللہ نے انہیں نوازا ہے۔ ہم نے تو اس پرندے کو گھر سے نکال دیا تھا۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے حالات پہلے سے بہتر کر دیے ہیں۔“
فیضان صاحب نے کہا۔
”ٹھیک ہے کہ ہمارے حالات شہباز صاحب جیسے بہتر نہیں ہوئے لیکن پہلے سے کافی بہتر حالات ہیں۔“
”اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مہمان کی تھوڑی سی خدمت ہم نے بھی کی ہے۔دراصل جب میں پرندے کو لے جارہا تھا تو امی نے اس کے دانہ پانی کے لیے دو کٹوریاں دی تھیں۔“
سارب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ سب اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔
”میں نے وہ کٹوریاں بھی طاہر کو دے دی تھیں۔ اس کے علاوہ میں اپنے جیب خرچ کے پیسوں سے اس کے لیے دانہ خرید لاتا تھا۔ اس طرح اس کی خدمت میں ہمار بھی حصہ شامل ہوگیا تھا۔ پھر اس نے تھوڑی سی ہمارے لیے بھی دعا کی ہو گی نا۔“
سارب کے آخری جملے پر وہ سب خوب ہنسے۔ ابو نے اسے اپنے پاس بلایا۔
”بیٹا! تم نے بہت اچھا کام کیا۔ تمہاری اس نیکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم سب پر فضل کیا۔“
ابو نے اسے شاباش دیتے ہوئے کہا۔ ابو نے جیب سے پیسے نکالتے ہوئے کہا۔
”یہ رقم لو اور اس سے مزید کٹوریاں خرید لاؤ۔ ہم انہیں اپنی چھت پر رکھیں گے۔ مہمان پرندوں کے دانہ پانی کا انتظام کریں گے۔ پھر وہ بھی ہمیں ڈھیر ساری دعائیں دیں گے۔“
سارب نے ابو کے ہاتھ سے پیسے پکڑے، خوشی سے نعرہ مارا اور بازار کی طرف بھاگ گیا۔

Leave a Comment