بہت سے چھوٹے چھوٹے بچوں نے اسے گھیرا ہواتھا۔کوئی اسے چھونے کی کوشش کررہا تھا اور کوئی ہاتھ ملارہا تھا۔کوئی بچہ اسے دیکھ کر ہی خوش ہورہا تھا۔وہ بھی بچوں سے خوب گھل مل گیا تھا۔اس کا کام ہی بچوں کو ہنسانا اور ان کا دل لبھانا تھا۔وہ ایک مسخرہ تھا۔
ایکسپو سینٹر میں بین الاقوامی کتب میلہ لگا ہوا تھا۔ وہاں بے شمار پبلی شرز اور رسائل والوں نے اپنے اپنے اسٹال لگارکھے تھے،جہاں ان کی شائع کی ہوئی کتابیں رکھی تھیں۔لوگوں کی بہت بڑی تعداد کتب میلے میں آرہی تھی اور وہ ان کتابوں میں خوب دل چسپی لے رہے تھے۔ہر عمر کے افراد کی دل چسپی کی کتابیں وہاں موجود تھیں۔وہاں آنے والے لوگوں کے ساتھ ان کے چھوٹے بچے بھی تھے۔جن کی توجہ اپنی جانب مبذول کر نے کے لیے بعض بڑے اسٹال والوں نے ان کی دل بستگی کا سامان کیا ہوا تھا۔
ایک بڑے رسالے کے اسٹال پر مسخرہ کا لبادہ پہنے ایک شخص تھا۔اس کے ساتھ ایک بڑا سا مکی ماؤس اور ایک بھالو کے روپ میں فن کار بچوں کو تفریح فراہم کر رہے تھے۔
بڑی عمر کے افراد تو جانتے تھے کہ ان کے اندر انسان ہیں، جنہوں نے بھیس بدل رکھا ہے،لیکن چھوٹے چھوٹے بچے انھیں واقعی مسخرہ، بھالو اور مکی ماؤس ہی سمجھ رہے تھے۔وہ فن کار صبح گیارہ بجے سے یہاں موجود تھے اور آنے والے بچوں کی توجہ اپنی حرکات سے اپنی جانب مبذول کرارہے تھے۔کبھی وہ اچھلنے لگتے،کبھی تالیاں بجاتے اور کبھی رقص کرکے بچوں کو اپنی جانب راغب کرتے تھے۔
پھر مسخرہ وہاں سے نکل کر ایک طر ف چل پڑا۔چلتے چلتے وہ اس طرف آگیا، جہاں واش رومز بنے ہوئے تھے۔وہ ایک بڑی سی دیوار کے پاس آکر رک گیا۔ایک طرف قد آدم آئینہ دیوار میں لگا ہوا تھا۔اس میں خود کو سر سے پاؤں تک دیکھا جاسکتا تھا۔
مسخرہ آئینے کے مقابل کھڑا ہوگیا اور بغور خود کو دیکھنے لگا۔لبادے کے اندر موجود انسان کو آئینے میں ایک مسخرہ دکھائی دے رہا تھا،جس نے رنگین اور بے ڈھنگے سے کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔جس کے بڑے بڑے سبز بال گولائی میں بنے ہوئے تھے۔سفید چہرے پر پکوڑے جیسی سرخ ناک نے رہی سہی کسر پوری کر دی تھی۔وہ بت بنا آئینے میں خود کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔اسے یوں لگا کہ سامنے کھڑا مسخرہ اسے دیکھ کر ہنس رہا ہے۔قہقہے لگارہا ہے۔
یک بیک اس نے آئینے میں مسخرہ کے عقب میں ایک آدمی کو نمودار ہوتے ہوئے دیکھا۔
”تم یہاں کھڑے ہو؟“آنے والے شخص نے درشت لہجے میں کہا۔
مسخرے نے تیزی سے پلٹ کر عقب میں دیکھا۔
”وہ ……وہ……میں ……“ مسخرے نے ہکلاتے ہوئے وضاحت کرنی چاہی۔
”میں ویں چھوڑو……فوراً اسٹال پر پہنچو……ہم نے تمہیں اس لیے نہیں رکھا ہے کہ تم ڈیوٹی دینے کے بجائے اِدھر اُدھر گھومو۔تمہیں پیسے دے کر بلوایا ہے۔جاؤ جلدی سے وہاں“۔آدمی کا سابقہ لہجہ برقرار تھا۔
مسخرے نے خاموشی سے سر جھکا لیا اور واپس اسٹال کی طرف چل پڑا۔
٭……٭……٭
دروازے پر زور دار دستک ہوئی۔
شارق کمرے میں کالج کی کتاب پڑھنے میں مصروف تھا۔دستک سن کر وہ چونک گیا۔برابر والے کمرے میں اس کی بہن سعدیہ اپنی ماں کو دوا پلارہی تھی۔ا س نے آواز لگائی۔”بھائی!ذرا دیکھنا۔دروازے پر کون ہے؟“
شارق کے اٹھنے سے پہلے ایک بار پھر دروازہ زور سے کھٹکھٹایا گیا۔لگتا تھا کہ آنے والا بہت عجلت میں ہے۔شارق تیزی سے اپنے کمرے سے نکلا اور صحن سے گزر کر دروازے تک پہنچا۔
”آتا ہوں۔ایک منٹ……کون ہے؟“نزدیک پہنچ کر اس نے آواز لگائی۔دروازہ کھولا توسامنے ایک محلے دار خورشید صاحب کو کھڑا پایا۔ ان کے عقب میں دو تین افراد مزید کھڑے تھے۔اتنے افراد کو دیکھ کر شارق تھوڑا گھبرا گیا۔
”جی ……جی……کیا کام ہے؟“
”کام وام کچھ نہیں ہے۔جلدی چلو ہمارے ساتھ……تمھارے ابو کا ایکسی ڈنٹ ہوگیا ہے۔وہ اسپتال میں ہیں۔فوراً آجاؤ“۔خورشید صاحب نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں بتایا تو شارق کا بدن ٹھنڈا پڑگیا۔اسے یوں لگا جیسے اس کے بدن سے کسی نے روح کو ایک جھٹکے سے کھینچ لیا ہے۔
”کک۔کیا۔ابو کا ایکسی……ڈنٹ؟؟“ ٹوٹے پھوٹے الفاظ اس کے منہ سے نکلے۔
”ہاں جلدی چلو۔ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے“۔خورشید صاحب نے تیزی سے کہا۔
شارق نے کسی حد تک خود کو سنبھالا۔اگر امی کو پتا لگا تو ان کی حالت بھی خراب ہو سکتی ہے۔وہ تو پہلے ہی بیمار ہیں۔شارق نے لمحہ بھر میں سوچ کر فیصلہ کیا کہ وہ امی اور اپنی بہن سعدیہ کو فی الحال نہیں بتائے گا کہ ابو کا ایکسی ڈنٹ ہوگیا ہے۔
”میں ابھی آتا ہوں۔“شارق واپس پلٹا اور امی کے کمرے میں آکر بولا”سعدیہ!تم امی کے پاس ہی رہنا۔میں ذراا یک کام سے جارہا ہوں۔دروازے کی کنڈی لگادو“۔
”کہاں جارہے ہو بھائی!“سعدیہ نے استفسار کیا۔
”آتا ہوں تھوڑی دیر میں ……دوست کے پاس کام ہے“۔شارق اتنا کہہ کر باہر نکل آیا اور خورشید صاحب کے ساتھ اسپتال کی جانب چل پڑا۔
سڑک پر آکر خورشید صاحب نے رکشا روکا اور پھر وہ اس میں بیٹھ کر اسپتال روانہ ہوگئے۔راستے میں خورشید صاحب نے بتایا کہ اس کے ابو یعنی شہزاد صاحب سڑک کے کنارے چل رہے تھے کہ عقب سے آنے والی ایک بے قابو کار ان سے آٹکرائی تھی۔وہ اچھل کر کئی فٹ دور جاگرے اور لڑھکتے چلے گئے۔ان کے پیروں پر چوٹیں آئی ہیں۔اتفاق سے دیکھنے والوں میں وہ خود بھی شامل تھے،لہٰذا پہلی فرصت میں وہ شہزاد صاحب کو اسپتال لے آئے، تاکہ انہیں بروقت طبی امداد دی جاسکے۔شارق کا دل زور زور سے کانپ رہا تھا۔دل میں عجیب عجیب وسوسے اور اوہام سر اٹھارہے تھے۔جن سے وہ پیچھا نہیں چھڑا پارہا تھا۔
اسپتال پہنچنے کے بعد ہی پوری صورت حال ان پر واضح ہوئی۔شارق کے خدشات نے حقیقت کا روپ دھار لیا تھا۔اس کے ابو زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلاتھے۔ بس درمیان میں ایک کچا دھاگا باقی تھا جو کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا تھا۔ڈاکٹرز اپنی سی کوششوں میں مصروف تھے۔شارق بے جان سا ہوکر آپریشن تھیٹر کے سامنے فرش پر ہی پیر پھیلا کر بیٹھ گیا تھا۔وہاں ان کے جاننے والے اور بھی لوگ تھے۔وہ لوگ شہزاد صاحب کے دوست تھے۔وہ سب شارق کو تسلیاں دے رہے تھے۔ پھر معلوم ہوا کہ شہزاد صاحب زندگی کی بازی ہار گئے۔
٭……٭……٭
شارق کو ایسا لگا تھا کہ وہ تاحد نگاہ پھیلے ہوئے صحرا میں ننگے پاؤں تپتی ریت پر آکھڑا ہوا ہے اور اس کے سر پر پھیلا ہوا سائبان اچانک ہٹ گیا ہے۔گھر کی ذمہ داریاں یک لخت اس کے کاندھوں پرآگری تھیں۔اب گھر میں بیمار ماں اور بہن کا نگران وہ تھا۔ابو کے ہونے سے شارق کو کمانے کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوئی تھی۔اس کے باوجود اسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس تھا۔اپنے والدین کی پریشانیاں سمجھتا تھا۔اس لیے وہ بڑی محنت سے تعلیم حاصل کر رہا تھا تا کہ اچھی سی نوکری حاصل کر ے اور یوں وہ اپنے والدین کی ہر خواہش کو پورا کرسکے، لیکن شہزاد صاحب کی ناگہانی موت کے باعث اس کے سارے خواب ایک چھناکے سے ٹوٹ کر بکھر گئے تھے۔
اس کی امی نے برے وقت کے لیے کچھ رقم جوڑ کر رکھی ہوئی تھی، جو اس مشکل میں کام آرہی تھی۔ تھوڑا پیسہ اس کمپنی کی جانب سے مل گیا جہاں شہزاد صاحب ملازمت کیا کرتے تھے،لیکن شارق جانتا تھا کہ یہ پیسے زیادہ عرصے نہیں چل سکیں گے۔اسے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔ اس نے اپنی تعلیم کا سلسلہ موقوف کیا اور ملازمت تلاش کرنے لگا۔سب سے پہلے اس نے اسی کمپنی میں والد صاحب کی جگہ ملازمت کی درخواست دی۔
”مشکل ہے“۔مینیجر نے نفی میں سر کو ہلایا۔”تمھارے والد ایک تجربہ کار آدمی تھے اور تمہیں تو کسی بھی قسم کی ملازمت کا تجربہ نہیں ہے۔اگر میرے اختیار میں ہوتا تو کسی نہ کسی چھوٹی موٹی جگہ فٹ کرادیتا، مگر اب کمپنی کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں۔کئی سو افراد کو نکالا جاچکا ہے۔ا ب اگر کوئی چوکی دار بھی رکھنا پڑتا ہے تو براہ راست مالک اس کے آرڈر جاری کرتا ہے“۔
”آپ نے میرے لیے مالک سے بات کی؟“شارق بغور اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
”ہاں، وہ بھی میں کر چکا ہوں۔ شاید تمہیں اندازہ نہیں کہ شہزاد صاحب سے میری بہت اچھی دوستی بھی تھی۔میرے ہی کہنے پر مالک نے تمھارے گھر پیسے بھجوائے تھے۔ تب میں نے یہ بات بھی کی تھی کہ پیسے دینے کے بجائے شہزاد صاحب کے بیٹے کو ملازم رکھ لیا جائے، لیکن مالک نے انکار کر دیا تھا۔شہزاد صاحب کی جگہ اس نے اپنا کوئی قریبی رشتہ دار رکھ لیا ہے“۔
مینیجر کی باتیں سن کرشارق نے مایوسانہ انداز میں سر جھکا لیا۔اس کے بعد اس نے ملازمت کی کوشش شروع کی تو اسے دانتوں تلے پسینہ آگیا۔ملازمت کے چکر میں ایک سے دوسری جگہ گھومتا رہا،مگر ہر بار ناکامی اس کا مقدر ٹھہری۔جس کنویں میں وہ ڈول ڈالتا تھا وہ کنواں خشک ملتا تھا۔چاروں طرف سے مایوسی اور ناامیدی کے بادل اُمڈ آئے تھے اور کسی بھی لمحے سخت مشکلات کی موسلادھار بارش برس سکتی تھی۔ان کی ناؤ تو پہلے ہی بیچ من جدھا ر میں پھنسی ہوئی تھی۔شار ق کوئی بہت بڑا نہیں تھا۔ ابھی اس کی عمر کم تھی۔والدہ کی حالت تو بہتر ہورہی تھی، لیکن شہزاد صاحب کی اچانک موت نے انھیں دوبارہ لاغر کر دیا تھا اور دم توڑتی ہوئی بیماریاں ایک بار پھر پوری توانائیوں کے ساتھ اُبھر آئی تھیں۔
لے دے کے ایک خورشید صاحب تھے، جو بے چارے خیر خیریت پوچھنے آجاتے تھے اور انھی کی بھاگ دوڑ کے نتیجے میں شارق کی ایک جگہ نوکری لگ گئی۔وہ ایک کیرم بورڈ کی بڑی سی دکان تھی۔روز کے سو روپوں پہ شارق وہاں جانے لگا۔ عام حالات میں وہ یہاں ملازمت کرنا تو دور کی بات قریب سے بھی نہ گزرتا،لیکن سختی حالات کا شکار ہوکر وہ ایسا کرنے پر مجبور تھا۔صبح سویرے شارق وہاں آکر دکان کھولتا،جھاڑو لگاتا اور صفائی کرنے کے بعد کرسی پر بیٹھ جاتا تھا۔صبح بہت سے ایسے بچے اور لڑکے آجاتے،جو گھر سے تو اسکول جانے کے لیے نکلتے، مگر کنی کترا کر یہاں آجاتے۔سارا سارا دن وہاں گالم گلوچ کے سوا کچھ نہ ہوتا۔کوئی دن ایسا نہ جاتا کہ جب کیرم بورڈ کھیلنے والوں کے درمیان جھگڑا نہ ہوتا ہو۔ شارق خود کو ان جھگڑوں سے دور رکھتا تھا۔کئی بار تو اس کا دل چاہا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے۔اس ماحول میں اس کا دم گھٹتا تھا، مگر جب بیمار ماں اور اپنی چھوٹی بہن کا خیال آتا تو وہ خودکو ایسا کرنے سے باز رکھتاتھا۔
بہت مشکلوں سے دو مہینے گزرے تھے۔اس دوران شارق نے کئی ملنے جلنے والوں سے کسی بہتر اور باعزت ملازمت کا کہا تھا۔لوگوں نے اسے آسرے بھی دیئے تھے، لیکن تاحال کوئی بات نہیں بنی تھی۔اس لیے وہ اس غلیظ جگہ پر نوکری کرنے پر مجبور تھا۔
ایک روز شام کے وقت کیرم بورڈ کھیلتے ہوئے چار لڑکوں میں جھگڑاہوگیا۔وہ ایک دوسرے پر بے ایمانی کا الزام لگارہے تھے۔وہاں موجود باقی افراد نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی، مگر اس کا الٹا اثر ہوا جھگڑا بڑھ گیا۔شارق بے بسی کے عالم میں انہیں دیکھ رہا تھا۔نوبت ہاتھا پائی تک جاپہنچی۔انھوں نے وہاں خوب توڑ پھوڑ کرڈالی تھی۔وہ لوگ تو لڑ بھڑ کر چلے گئے، لیکن یہاں کا کباڑا کر گئے۔دکان کے مالک کو کسی نے خبر دی تو وہ چلا آیا۔ا س نے وہاں کی حالت دیکھی تو وہ شارق پر چڑھ دوڑا۔
”تم نے انھیں روکا کیوں نہیں“۔اس نے کاٹ کھانے والے انداز میں کہا۔”تمھارا کام صرف یہ نہیں ہے کہ یہاں بیٹھے رہو آرام سے۔یہاں ہر چیز کی حفاظت کرنا بھی تمھار ا کام ہے“۔
”مم ……مگر وہ تو بڑے لڑکے تھے“شارق کا حلق خشک ہورہا تھا۔
”تو وہ کون سا مار ڈالتے تم کو، قتل تو نہیں کر دیتے تمھارا…… اور اب یہ جو نقصان ہوا ہے یہ کیا تمھارے ابا جی آکر بھریں گے؟“
اس بات پر شارق فوراً بولا۔”میرے پیسوں میں سے نقصان پورا کر لینا، لیکن میرے باپ کا نام نہ لو“۔
”اچھا……اب ملکہ جذبات بننے کی کوشش مت کرو‘‘۔مالک نے منہ بناکر کہا۔
پھرجب تک مالک کے نقصان کے پیسے پورے نہیں ہوگئے،شارق وہاں آتا رہا۔اس کے بعداس نے دکان کی چابیاں مالک کے حوالے کردیں۔
”ارے تم تو سیریس ہورہے ہو……یار وہ تو ایسے ہی غصے میں میرا دماغ خراب ہوگیا تھا،اس لیے منہ سے الٹے سیدھے الفاظ نکل گئے تھے“۔مالک نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی، مگر شارق تو اسی روز دل میں ٹھان چکا تھا کہ اب وہ کسی صورت یہاں کام نہیں کرے گا۔گھر آنے کے بعد اس نے ماں کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا،مگر سعدیہ نے اس کی شکل دیکھ کر اکیلے میں پوچھا۔
”کیا ہوا بھائی۔ چپ چپ سے کیوں ہو؟“
”کچھ نہیں ایسے ہی تھکن ہورہی ہے“شارق نے ٹالنا چاہا۔
”تھکن تو روز ہی ہوتی ہے، مگر روز تو چپ چپ نہیں ہوتے“۔سعدیہ نے بھانپ لیا تھا کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہوئی ہے۔
پہلے تو شارق نے اسے ٹالنا چاہا،لیکن پھر اس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔
سعدیہ کچھ دیر کے لیے خاموش رہی تھی پھر اس نے کہا۔”چلو بھائی!اس میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہی ہوگی۔ویسے میرا دل کہہ رہا ہے کہ تمھیں جلد ہی کوئی ملازمت مل جائے گی“۔
”اللہ کرے ایسا ہی ہو……ورنہ……مشکل ہوجائے گی“۔شارق نے کہا۔سعدیہ کا کہنا درست ہی ثابت ہوا تھا۔ ایک دور کے جاننے والے نے شارق کو بتایا کہ اس کے ایک دوست کو لڑکوں کی ضرورت ہے۔معقول ملازمت ہے اور پیسے بھی بہتر مل جائیں گے۔ملازمت کی نوعیت کا اسے خود بھی نہیں معلوم۔اس نے اپنے دوست کا ایڈریس ایک کاغذ پر لکھ کر دے دیا تھا۔
شارق نے سوچا کہ اگلے روز وہ اس جگہ جاکر ملازمت کی کوشش کرے گا، مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ اگلے روز وہ جانہ سکا۔صبح سے ہی اس کی امی کی حالت بگڑنے لگی تھی۔دوا ختم ہوگئی تھی۔بس تھوڑے سے پیسے باقی تھے۔ اس کے آگے اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔شارق محلے کے ڈاکٹر کو لینے دوڑا۔ڈاکٹر نے آکر انھیں چیک کیا اور کچھ دوائیں لکھ دیں۔شارق نے ڈاکٹر کو فیس دی۔اب اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ دوائیں خرید کر لاتا۔ان دونوں کے کھانے کے لیے بھی پیسے نہ تھے۔
”اب کیا کریں بھائی!؟“سعدیہ کے آنسو نکل پڑے۔’
’اللہ مالک ہے۔میں دیکھتاہوں، شاید کچھ نہ کچھ بندوبست ہوجائے“۔شارق نے اسے تسلی دی، لیکن اس کے وجود میں دراڑیں پر رہی تھیں۔لے دے کر یہی سمجھ میں آیا کہ ان صاحب سے ملا جائے، جنھیں لڑکوں کی ضرورت تھی۔
اس کی جیب میں ایڈریس والا پرچہ اور ماں کی دوائیوں کا پرچہ تھا۔بس وہ اس ایڈریس پر جا پہنچا۔ایک شان دار عمارت میں ان کا آفس تھا۔۔وہاں دو تین امیدوار لڑکے اور بیٹھے تھے۔ایک مختصر سے انٹرویو کے بعد شارق کو ملازمت مل گئی،جس کے لیے کسی قسم کی تعلیمی اسناد کی ضرورت نہیں تھی۔
٭……٭……٭
”تمھیں اس وقت یہاں سے ہلنا نہیں تھا۔“ اسٹال کے مالک نے سخت مگر دبے لہجے میں مسخرہ سے کہا۔”اس وقت رش کا ٹائم ہے۔دیکھ رہے ہو ……کتنے بچے ہیں یہاں ……اور ذرا ٹھیک طرح سے بچوں کا دل بہلاؤ۔صرف کھڑے ہی نہیں ہونا ہے بت بن کر“۔ مسخرے نے سر ہلایا۔
اسٹال پر بہت سی فیمیلیز موجود تھیں۔لوگ کتابیں خرید رہے تھے اور چھوٹے بچے مسخرہ، مکی ماؤس اور بھالو میں دل چسپی لے رہے تھے۔ مسخرے نے پلٹ کر اسٹال کے مالک کو دیکھا تو اسے اپنا نگراں پایا۔مالک نے اسے آنکھوں سے اشارہ کیا۔ مسخرے نے سر ہلایا اور رقص کرنا شروع کر دیا۔چھوٹے بچے خوش ہوکر تالیاں بجانے لگے تھے۔ مسخرہ مضحکہ خیز انداز میں ناچ رہا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہاں بہت رش لگ گیا۔اب مالک خاصا خوش دکھائی دے رہا تھا۔اس کے اسٹال سے کتابیں بھی دھڑا دھڑ فروخت ہورہی تھیں۔ مسخرے کا مسکراتا ہوا چہرہ اور اس کا رقص دیکھ کر کئی بچے بھی ناچنے لگے تھے۔
یہ ہنگامہ رات نو بجے تک جاری رہا۔دھیرے دھیرے ہال خالی ہونے لگا۔ ساڑھے نو بجے تک اسٹال والے ہی رہ گئے تھے۔بھالو اور مکی ماؤس کے لبادے میں ملبوس افراد نے لبادے اتا ر دیئے۔وہ پندرہ سولہ سال کے لمبے قد والے لڑکے تھے۔ جوکر واش رومز کی طرف بڑھ گیا۔اس بار مالک نے اسے نہیں روکا۔
وہ دوبارہ آئینے کے آگے جا کھڑا ہوا تھا۔اس نے بغور آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا تو ایک مسخرہ کھڑا دکھائی دیا۔مسکراتا ہوا، مضحکہ خیز مسخرہ۔پھر اس نے سر پر پہنا ہوا مسخر ہ کا ماسک اتار دیا۔اب اسے اپنی اصل شکل دکھائی دی۔جس کی آنکھوں سے آنسو لکیروں کی صورت میں بہہ رہے تھے۔کسی کو کیا پتا کہ مسکراتے چہرے کے پیچھے آنسوؤ ں کا آبشار بہہ رہا تھا۔
پھر اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو مٹھی میں بہت سے نوٹ آگئے، جو بچوں کے والدین نے خوش ہوکر دیئے تھے۔ان نوٹوں کے ساتھ ماں کی دوائی کا پرچہ بھی تھا۔اب نہ صرف دوائی آسانی سے آسکتی تھی، بلکہ وہ کچھ دنوں تک گھر والوں کے لیے کھانے کا بندوبست بھی کر چکا تھا۔اور یہ اس کے لیے گھاٹے کا سودا ہرگز نہ تھا۔وہ خوش ہوکر آئینے میں کھڑے شارق کو دیکھنے لگا۔