مغرور مٹکو

تحریر:علی اکمل تصور

کٹول ایک موٹی سی سفید رنگ کی مرغی کا نام تھا۔وہ گھر بھر کی لاڈلی تھی۔اچھو تو اس پر جان چھڑکتا تھا۔ وہ دس سال کا ایک ہونہار بچہ تھا۔سکول سے لوٹتے ہی وہ کٹول کے ساتھ کھیلنے میں مگن ہوجاتا تھا۔اچھو کے ابو کا نام حسن دین تھا۔ وہ اجرت پر مزدوری کرتا تھا۔جن دنوں کماد کی فصل تیار ہوتی تھی، ان دنوں حسن دین کے ہاں خوش حالی ہوتی تھی۔گھر میں کھانا بھی اچھا بنتا تھا اور نئے کپڑے بھی آتے تھے۔ ان دنوں حالات کچھ ایسے ہی چل رہے تھے۔کھیت خالی ہوچکے تھے۔حسن دین روزانہ صبح کام کی تلاش میں نکلتا تھا۔کبھی کام تھا،کبھی نہیں ملتا تھا۔آج بھی حسن دین کو کام نہیں ملا تھا۔اس وقت بھی وہ گھر کے آنگن میں بے کار چارپائی پر لیٹا تھا اور اچھو ایک کونے میں خاموش بیٹھا ہوا تھا۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ کسی کے انتظار میں ہو۔ایسے میں اس کے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی:
”کٹاک…..کٹ…..کٹ…..کٹاک….“
یہ کٹول تھی۔اس کی آواز سن کر اچھو اچھل پڑا۔اس کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔وہ کٹول کے ڈربے کی طرف لپکا اور پھر اس نے ڈربے کا دروازہ کھول دیا۔کٹول تیزی سے باہر نکلی اور صحن میں آ کھڑی ہوئی۔اچھو نے جھک کر ڈربے میں دیکھا۔سفید رنگ کا انڈا اچھو کی آنکھوں کے سامنے موجود تھا۔اچھو نے احتیاط سے انڈا اٹھا لیا اور پھر خوشی کے باعث صحن میں ناچنے لگا۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔یہ تو اس کی عادت تھی۔حسن دین پہلے ہی بے زار تھا۔یہ شور اسے ناگوار گزرا۔اس نے اچھو کو ڈانٹ دیا۔اچھو کے ساتھ ساتھ کٹول کا دل بھی بجھ کر رہ گیا تھا۔
”میرا مالک کتنا سنگ دل ہے۔“کٹول نے سوچا،پھر اس نے اچھو کی طرف دیکھا۔اچھو کے ہاتھ میں ابھی تک انڈا دبا ہوا تھا اور وہ بہت پیار سے کٹول کی طرف دیکھ رہا تھا۔
کٹول کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس نے کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہو۔پھر وہ اکڑ اکڑ کر صحن میں چلنے لگی۔اس کے بازو پھیلے ہوئے تھے۔ساتھ ہی وہ کٹاک…کٹاک کی آوازیں بھی نکالتی تھی۔اتنے میں اس نے ٹونی کو دیکھا۔ٹونی حسن دین کا پالتو کتا تھا۔وہ باہر سے آیا تھا اور کہیں سے ایک بڑی سی ہڈی بھی اٹھا لایا تھا۔اب وہ اس ہڈی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ٹونی کو دیکھ کر کٹول بدمزہ ہو گئی تھی۔وہ ٹونی کو پسند نہیں کرتی تھی۔
”تم گندے ہو اور تمھاری حرکتیں بھی گندی ہیں۔“ کٹول نے ٹونی سے کہا۔
”میں نے کیا کیا ہے؟“ٹونی حیران سا ہوکر بولا۔
”تم جانے کہاں سے یہ گندی ہڈی اٹھا لائے ہو اور گھر میں گندگی پھیلا رہے ہو۔“
”یہ میری خوراک ہے اور تم کہاں کی صفائی پسند ہو جناب؟سارا دن اپنے پنجوں سے کچے فرش کو کھرچتی رہتی ہو۔خاک اڑاتی ہو اور اس میں لوٹتی رہتی ہو۔“ ٹونی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”مجھ میں بہت سی خوبیاں ہیں۔میری وجہ سے روزانہ میرے مالک کو ایک انڈا ملتا ہے۔تم تو سارا دن سوتے رہتے ہو اور رات بھر بھونکتے رہتے ہو۔سب کی نیند خراب کرتے ہو۔“ کٹول چڑ گئی تھی۔
”یہ میری خوبی ہے۔میں اس گھر کی رکھوالی کرتا ہوں۔لیکن تم تو مغرور ہو۔تمھیں تو اللہ ہی سمجھے….!“ ٹونی اتنا کہہ کر ایک کونے میں جا بیٹھا۔
کٹول کو اس کی بددعا بہت ناگوار گزری تھی۔وہ ابھی تک اسے گھور رہی تھی۔پھر وہ دانے دنکے کی تلاش میں ادھر ادھر چونچ چلانے لگی۔تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اس کے کانوں سے تیں…تیں کی آوازیں ٹکرائیں۔اس نے چھوٹی سی اڑان بھری اور منڈیر پر آ بیٹھی۔سامنے ہی ایک جوہڑ کے کنارے چند بطخیں گندے پانی میں چونچیں چلا رہی تھیں۔انھیں دیکھ کر کٹول کو جیسے متلی سی ہونے لگی تھی۔بطخوں نے بھی کٹول کو دیکھ لیا تھا۔ایک موٹی سی بطخ نے پیار سے کہا:
”کٹول بہن….خوش آمدید…“
”میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتی۔تم گندی ہو۔“
کٹول نے اسے جھاڑ دیا۔وہ بطخ کٹول کا جواب سن کر شرمندہ سی ہو گئی۔اس کا دل دکھی ہو گیا تھا۔پھر وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی:
”تم بہت مغرور ہو،تم نے میرا دل دکھایا ہے۔اللہ تمھیں اس کی سزا دے گا….!“
اس کی بات سن کر کٹول کا ذہن گھوم گیا۔غصے میں کٹول نے اس بطخ کو خوب جلی کٹی سنائیں اور منڈیر پر سے نیچے اتر آئی۔
”سب ہی مجھ سے جلتے ہیں۔اللہ کرے سب کو موت آ جائے….!“وہ ابھی تک بڑبڑا رہی تھی۔وہ بھول چکی تھی کہ ساری مخلوق اللہ نے پیدا کی ہے اور جو اپنی خوبی کی وجہ سے کسی کا دل دکھاتا ہے،اللہ اسے سزا دیتا ہے۔کٹول تو روزانہ کسی نہ کسی کا دل دکھاتی تھی۔وہ مغرور تو تھی ہی ساتھ میں بدزبان بھی تھی۔
اگلے دن حسن دین گھر لوٹا تو وہ بہت خوش تھا۔اسے آج بھی کام نہیں ملا تھا لیکن اس خوشی کی ایک وجہ تھی۔وہ اپنی بیوی سے کہہ رہا تھا:
”اللہ کی بندی،اب ہمارے دن بدل جائیں گے۔ہم خوش حال ہو جائیں گے۔“
”کیا ہوا….؟ کیا کوئی خزانہ مل گیا ہے…؟“
اس کی بیوی چولہے میں موجود گیلی لکڑیوں کو پھونک مارتے ہوئے بولی۔پھر وہ کھانسنے لگی….
”مجھے کام مل گیا ہے لیکن اس کے لیے مجھے شہر جانا ہوگا۔بخشو نائی نے میری سفارش کی تھی۔مجھے آٹے کی مل میں نوکری مل گئی ہے۔“ حسن دین کہہ رہا تھا اور اس کی بیوی کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
”لیکن ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔پہلے ہی پڑوسیوں کا ہم پر قرض ہے۔تھوڑے بہت روپے تو ہونے چاہئیں۔شہر جانے کے لیے کرائے کی بھی ضرورت تو پڑے گی۔“
اپنی بیوی کی بات سن کر حسن دین کی خوشی جاتی رہی۔اس کی بیوی ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی۔ایسے میں حسن دین کی نظر کٹول پر پڑی۔وہ صحن میں گھوم رہی تھی۔حسن دین چٹکی بجا کر بولا:
”کرایہ مل گیا ہے….ہم کٹول کو بیچ دیتے ہیں۔“
حسن دین کی بات سن کر اس کی بیوی غصے سے بولی:
”کٹول اچھو کی ہے…!“
حسن دین جلدی سے بولا:
”سمجھا کرو،جب کام مل جائے گا تو ہم اچھو کو نئی مرغی لادیں گے۔اچھوسکول گیا ہوا ہے۔تم اسے سنبھال لینا….میں ابھی واپس آتا ہوں۔“ اتنا کہہ کر حسن دین کٹول کی طرف لپکا۔اسے پکڑا،بغل میں دبایا اور گھر سے باہر نکل گیا۔حسن دین کی بیوی اسے آوازیں دیتی رہ گئی۔
حسن دین تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا۔گاؤں سے تھوڑی مسافت پر بڑا قصبہ تھا اور قصبے میں بالے قصاب کی دکان تھی۔بالا ایک سنگ دل آدمی تھا۔دور دور سے لوگ اس کی دکان پر مرغیوں کا گوشت خریدنے آتے تھے۔مرغیوں کو ذبح کرنے کے لیے اس نے ایک ملازم رکھا ہوا تھا۔جس کا نام فیکا تھا۔فیکا ایک سمجھ دار نوجوان تھا۔حسن دین جب بالے قصاب کی دکان پر پہنچا تو وہاں کچھ زیادہ ہجوم نہیں تھا۔
”مجھے یہ مرغی بیچنا ہے،کتنے روپے دو گے؟“ حسن دین نے پوچھا۔
بالے نے مرغی کو ترازو میں رکھا اور حساب لگا کر بولا:
”دوسو روپے کا مال ہے۔اگر منظور ہے تو بولو….“
حسن دین فورًا ہی رضامند ہو گیا۔اس نے دوسوروپے جیب میں ڈالے اور خوشی خوشی گھر لوٹ آیا۔اس کے جانے کے بعد بالا قصاب مسکراتے ہوئے بولا:
”بے وقوف آدمی تھا۔تین سو روپے کی مرغی دوسو روپے میں دے گیا۔اوئے فیکے! اسے پنجرے میں ڈال دے۔“
فیکے نے کٹول کو پکڑا اور پنجرے میں ڈالتے ہوئے بولا:
”استاد میں جھوٹ نہیں بولتا،یہ اچھی نسل کی مرغی ہے۔انڈے بھی دیتی ہوگی۔اسے رکھ لیتے ہیں۔“
”خاموش رہو اور اپنا کام کرو…!“ بالے نے اسے ڈانٹا۔
کٹول بہت سہمی ہوئی تھی۔اس کے آس پاس اور بھی بہت سی مرغیاں موجود تھیں۔لیکن یہ مرغیاں فارمی تھیں اور کٹول دیسی نسل کی تھی۔اتنے میں ایک فارمی مرغی کٹول سے کہنے لگی:
”بہن ہماری زندگی کا کچھ بھروسا نہیں۔ابھی کوئی گاہک آئے گا اور ہمیں ذبح کر دیا جائے گا۔تم اللہ کو یاد کر لو۔“ وہ مرغی درست کہہ رہی تھی۔لیکن کٹول مغرور تھی،چڑ کر بولی:
”میں زندہ رہوں گی کیوں کہ میں انڈے دیتی ہوں۔میرا مالک میری وجہ سے ہمیشہ فائدے میں رہے گا۔“
اس کی بات سن کر تمام مرغیاں ہنس پڑیں اور پھر سب نے چپ سادھ لی۔
حسن دین گھر پہنچا تو اس نے ایک عجیب منظر دیکھا۔اچھو کا سر پھٹا ہوا تھا اور وہ دیوانوں کی مانند رو رہا تھا۔
”میری کٹول…..میری کٹول…..!“ وہ رونے کے ساتھ ایک ہی بات دہرا رہا تھا۔اسے زخمی دیکھ کر حسن دین گھبرا گیا۔
”کیا ہوا میرے بچے! کیا ہوا؟“
ایسے میں حسن دین کی بیوی بولی:
”جب اسے معلوم ہوا کہ کٹول چلی گئی ہے تو یہ رونے لگا۔ پھر اس نے اپنا سر دیوار پر دے مارا۔آپ کٹول کو واپس لے آئیے۔جلدی جائیے۔“
حسن دین اپنے بیٹے سے بڑی محبت کرتا تھا۔وہ اسے دکھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔وہ فورًا ہی گھر سے باہر نکل دوڑا۔
”مجھ سے غلطی ہو گئی،مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔“ وہ سوچ رہا تھا اور تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا۔دوسری طرف کٹول پنجرے میں سہمی کھڑی تھی۔اب تک فیکے نے جانے کتنی ہی مرغیوں کو اس کی آنکھوں کے سامنے ذبح کیا تھا۔خوف کی وجہ سے اس کا برا حال تھا۔اس کا جسم کانپ رہا تھا۔لیکن جانے کیوں اسے یقین تھا کہ وہ محفوظ رہے گی۔ شاید اس کی وجہ اس کی وہ خوبی تھی جس پر وہ غرور کرتی تھی۔وہ انڈے دینے والی مرغی تھی۔ ایسی مرغی کو کون ذبح کرے گا۔لیکن آج اسے اس کے غرور کی سزا ملنے والی تھی۔ ایک ادھیڑ آدمی عمر بالے قصاب کی دکان کے سامنے آ کھڑا اوربولا:
”مجھے دیسی مرغی کا گوشت چاہیے۔“
”ابھی دیتا ہوں جناب۔“بالے نے جلدی سے کہا اور فیکے کو اشارہ کیا۔
استاداس مرغی کو رہنے دو۔یہ انڈے دینے والی مرغی ہے۔“ فیکے نے دل کی بات کہہ ڈالی۔
”اُلو کی دم،دکان کا معاملہ ہے۔ ہمیں گاہک کو خوش کرنا ہے۔مرغی پکڑو اور تکبیر پڑھنے والی بات کرو۔“
فیکا مجبور تھا۔وہ ملازم ہی تو تھا۔ کٹول ساری بات سن رہی تھی۔اس کا ننھا سا دل لرز کر رہ گیا تھا۔
”رحم کرو….رحم کرو….!“ اس نے کمزور سی آواز میں فریاد کی لیکن یہاں اس کی فریاد سننے والا کوئی نہیں تھا۔پھر فیکے نے اسے دبوچ لیا۔اس کی گردن کے پَر فیکے نے اپنی چٹکی میں دبا لیے تھے۔ کٹول نے خوف کی وجہ سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔فیکے داہنے ہاتھ میں تیز دھار چُھری تھی۔یہ قیامت کا لمحہ تھا۔فیکے کے ہاتھ میں موجود چُھری کٹول کی گرن تک پہنچی ہی تھی کہ حسن دین آ پہنچا۔
”رک جاؤ….رک جاؤ…! یہ میرے بچے کا کھلونا ہے۔اسے چھوڑ دو….!“ پھر حسن دین نے فیکے کے ہاتھ سے مرغی چھین لی۔اس نے سوروپے والے دو نوٹ بالے قصاب کو تھمائے اور واپس تیز تیز قدم اُٹھانے لگا۔سب اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ایسے میں فیکا مسکرا رہا تھا۔جانے کیوں اسے خوشی کا احساس ہوا تھا۔
حسن دین گھر پہنچا تو اچھودوڑ کر آیا اور کٹول کو اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیا۔اس کی امی نے اس کے سر پر پٹی باندھ دی تھی۔
”پیاری کٹول!تم کبھی مجھ سے دور مت جانا۔“اچھو کہہ رہا تھا اور یہ منظر دیکھ کر حسن دین کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے۔
”میرے بچے مجھے معاف کردو۔اللہ کا شکر ہے کہ میں وقت پر پہنچ گیا۔“ حسن دین نے دل میں یہ کہا اور گھر سے باہر نکل گیا۔ کٹول اب صحن میں ٹہل رہی تھی۔پہلے وہ اکڑ اکڑ کر چلتی تھی۔اب سر جھکا کر چل رہی تھی۔اس نے آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد اس بات کو جان لیا تھا کہ خوبی تو اللہ کی عنایت ہوتی ہے اوراس پر دوسروں کا حق ہوتا ہے۔غرور اللہ کو پسند نہیں ہے۔غرور کرنے والے کو اللہ سزا دیتا ہے۔آج کٹول نے موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیا تھا اور اب اس نے غرور کرنے سے توبہ کر لی تھی۔

Leave a Comment