لاکٹ

تحریر: محمد جمیل اختر

ہمارے نلکے میں پانی نہیں آرہا اور کئی دن سے ہم کافی دُور سے پانی بھر کر لا رہے ہیں۔ زیرِ زمین پانی کی سطح گرتی جا رہی ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ مستقبل میں لوگ سمندر کے پانی کو میٹھا کرکے پئیں گے، تب تک معلوم نہیں کون زندہ رہے گا اور کون نہیں۔
ابھی تو دن رات پیاس ہی رہتی ہے۔ میں سوچتا ہوں ہمیں اس نلکے کو اکھاڑ کر پھینک دینا چاہیے۔ یاد آیا کہ ایک بار گاؤں کے بینک سے کوئی ATM اٹھا کر لے گیا۔
پولیس کی گاڑیاں سارا دن سائرن بجاتی رہیں مگر وہ بیدے کو نہ پکڑ سکیں۔ یہ کام اسی کا تھا کہ چوری کا ہنر اسے وراثت میں ملا تھا۔ اس کا باپ پولیس مقابلے میں مرا تھا اور جب پولیس نے اس کی جیب کی تلاشی لی تو اس وقت بھی اس کی جیب میں ملک صاحب کی بیوی کا سونے کا لاکٹ تھا۔ تاہم ملک صاحب نے کہا کہ یہ ان کی بیوی کا نہیں کسی اور کا ہوگا کہ ان کے ہاں تو کبھی چوری ہوئی ہی نہیں اور بیوی کو چند دن بعد طلاق دے دی۔
بہرحال بیدا مشین اکھاڑ کر گھر لے گیا تھا۔
بندہ پوچھے اس میں سے پیسے کیسے نکالو گے۔ 3 دن وہ لگاتار ہتھوڑے برساتا رہا، نکلا سوا اور مٹی، بالکل ہمارے نلکے کی طرح۔ ہم بھی اسے اکھاڑ کر پھینک دیں گے اور یہ کوئی غیر قانونی کام تو نہیں کہ بیدے نے بھی تو ایسا ہی کیا تھا۔
جب مشین سے کچھ نہ نکلا تو وہ مشین پھینکنے باہر گیا جس کی چنداں ضرورت نہیں تھی مگر اس نے ایسا کیا اور راستے میں پولیس نے اسے دھر لیا۔ دونوں طرف سے گولیاں چلیں، اور پھر اس کا انجام بھی باپ جیسا ہی ہوا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس کی جیب سے بھی وہی لاکٹ نکلا۔

معلوم نہیں یہ لاکٹ کس کا ہے!

Leave a Comment