سوال: کشمیری زبان کا تفصیلی تعارف تحریر کریں۔

جواب: کشمیری زبان کا آغاز و ارتقا:

کشمیری وہ زبان ہے جو وادی کشمیر کے اکثر لوگ بولتے ہیں۔ وادی کے لوگ ان کو کا شر اور اپنے وطن کشمیر کو کشیر کہتے ہیں۔ وادی کے رہنے والے کو کاشر کہا جاتا ہے۔ جو لوگ وادی کے چاروں طرف پہاڑوں کے پار رہتے ہیں ان کو پاریوم کہا جاتا ہے یعنی پہاڑوں سے پریرہنے والے۔
وادی کشمیر کے علاوہ کشمیری زبان صوبہ جموں کے ضلع ڈوڈہ اور ضلع پونچھ کی کئی علاقوں خاص طور پرکس بات میں بولی جاتی ہے۔ ریاست کے آزاد شدہ علاقوں میں بھی کشمیری زبان بولنے والے کس بات موجود ہیں چنانچہ مظفرآباد چکار،ہٹیاں،باغ،پلنگی،بھیڈی، وادی نیلم،کہوڑی،مچھیارہ،سکردو اور گلگت میں بھی کشمیری زبان بولنے والے موجود ہیں۔
یہ کیفیت 1947ء سے پہلے کی ہے۔وادی کشمیر کے جو لوگ انیس سو سینتالیس کے دوران اور اس کے بعد مہاجر ہوئے اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے وہ بھی کشمیری بولتے ہیں۔سب سے پہلی لکھی ہوئی کتاب جس میں کشمیری کے الفاظ آتے ہیں پنڈت کلہن کی راج ترنگنی ہے۔ یہ کتاب کشمیر کی تاریخ ہے جو سنسکرت میں لکھی گئی تھی لیکن اس میں کلہن نے کشمیری کے چند الفاظ بھی لکھے ہیں۔
محققین کے نزدیک کشمیری زبان پشاچہ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔
کشمیری زبان (Kashmiri language) بھارت اور پاکستان کی ایک اہم زبان ہے۔ کشمیری، جموں صوبے کے بانہال، رامبن اور بھدرواہ میں بھی بولی جاتی ہے۔ کل ملا کر بولنے والوں کی تعداد 15 لاکھ سے کچھ اوپر ہے۔ وزیر اپبھاشا کشتواڑ کی ”کشتواڈی“ ہے۔

پرانی تہذیب:


بہ مطابق 2011ء آبادی شماری جموں و کشمیر کی کل آبادی 12541302 ہے۔ جس میں کم و بیش 9567000 کشمیری زبان بولنے والے افراد ہیں۔ کشمیری زبان بولنے والے افراد میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، کشمیری پنڈت اور سکھ قوم کے لوگ بھی کشمیری بولتے ہیں مگر اصل میں یہ زبان کشمیری مسلمانوں سے ترویج پا رہے۔ کشمیری زبان کی تاریخ 5000 سال پرانی تہذیب کا احاطہ کیے ہوئے ہے جس کے علمی ثبوت 2000 سال پرانے ہیں۔ کشمیر میں ہندو،سکھ، افغانی،مغلیائی،ڈوگری اور خاص کر ایرانی زبان کے الفاظ وقت کی گردش کے ساتھ شامل ہوتے رہیں اور رسم الخط بھی تبدیل ہوتا رہا۔

موجودہ دور:


موجودہ دور میں کشمیری زبان کا رسم الخط فارسی زبان کے مطابق ہے۔ 1947ڈوگرا شاہی کے زوال کے ساتھ ہی کشمیری زبان نے اپنے پیر جمانے شروع کیے اور کئی معتبر مصنف ادیب اور شاعر منظر عام پر آئے۔ تقسیم ہند کے بعد جو سماجی تبدیلیاں برصغیر میں رونما ہوئیں، اس کی لپیٹ میں کشمیری زبان بھی آگئی اور تا دم ایں کشمیری زبان ریاست جموں و کشمیر کی سرکاری زبان نہ بن پائی کشمیر کے دونوں حصوں یعنی آزاد کشمیر جو پاکستان کے زیر قبضہ ہے اور کشمیر جو ہندو ستان کے زیر قبضہ ہے میں کشمیری زبان کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔

فردوس بر بروئے:


وطن کے تعلق سے اہل وطن جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔جیسے روس کے باسی روسی،چین کے باسی چینی،پاکستان کے باسی پاکستانی اسی نسبت سے کشمیر میں رہنے والے کو کشمیری کہا جاتا ہے۔ کشمیری زبان جیسے اہل زبان”کاشر“کہتے ہیں۔ وادی کشمیر کے علاوہ دیگر علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ آج سے تقریباً چار ہزار سال قبل یہ وادی ایک جھیل تھی پھر جب یہ جھیل خشک ہوئی تو یہ علاقہ سرسبز و شاداب نظر آنے لگا جس وجہ سے اسے”فردوس برروئے“ زمین کہا جانے لگا۔

کشمیری زبان کا جنم:


جب مختلف علاقوں سے یہاں قبائل آباد ہوئے تو یہ قبائل”درد آریائی“زبان بولتے تھے یعنی شینا، بلتی، چترالی، بروشکی، کوہستانی وغیرہ۔ چناں چہ مختلف قبائل کے میل جول اور باہمی معاشرت کے نتیجہ میں کشمیری زبان وجود میں آئی۔ محققین کے نزدیک کشمیر میں آج سے سترہ سو سال پہلے اپ بھرنش بھاشا کا چلن ہوا اور اس کے بعد کشمیری زبان نے جنم لیا۔ گویا یہ زبان تیسری صدی عیسوی کی دین ہے۔ کشمیری زبان بھارت اور پاکستان میں کثرت سے بولی جانے والی زبان ہے۔

ترویج:


کشمیری زبان بولنے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔کشمیری پنڈت اور سکھ قوم بھی کشمیری زبان بولتے ہیں مگر اصل میں یہ زبان کشمیری مسلمانوں سے ترویج پا رہی ہے۔ کشمیری زبان کی تاریخ 5000سال پرانی ہے اور اس کے علمی ثبوت 2000سال پرانے ہیں۔ کشمیری زبان کا موجودہ رسم الخط فارسی زبان کے مطابق ہے۔ 1947ء کے بعد جب ڈوگرہ شاہی کو زوال ہوا تو کشمیری زبان نے مقبوضہ وادی کشمیر میں پیر جمانہ شروع کیے اور کئی معتبر مصنف و ادیب اور شاعر منظر عام پر آئے۔کشمیری زبان کی ابتدا بھی باقی زبانوں کی طرح شاعری سے ہوئی۔

کشمیری ادب کے چار ادوار:


کشمیری شاعری و ادب کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے دور میں عشق ومحبت کے قصے ہیں۔ اس دور میں گیت کثرت سے لکھے گئے۔ اس دور کا نمائندہ شاعر”شستی کنٹھ“ہے، اسے کشمیری زبان کا پہلا شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ دوسرا دور (1335ء) عشق و محبت کا دور ہے جس کی نمائندہ شاعرہ حبہ خاتون ہیں۔ اس کی شاعری میں اسلامی تصوف کے ساتھ وصل و ہجر کے رنگ نظر آتے ہیں۔تیسرا دور (1422ء) فارسی کی آمیزش کا دور ہے۔ اس دور میں روحانیت کا عنصر پایا جاتا ہے اس کے روح رواں“محمود گامی”ہیں۔ کشمیری زبان و ادب کا چوتھا دور (1848ء) جدید ادب کا ہے۔اس دور کے ادب نے نئے فکری رجحانات پیدا کیے۔ اس دور کا مشہور شاعر“غلام احمد مہجور ”ہے۔اس دور میں کشمیری ادب نے خوب ترقی پائی۔

صوفی شاعر:


کشمیری زبان کی ایک زبردست صوفی شاعرہ للّہ عارفہ(للّہ دید ایک عارفہ تھی اس لیے مسلمان انہیں للّہ عارفہ کہتے ہیں جو سید حسین سمنائی کے ذریعے مسلمان ہوئی) ہیں۔ جیسے اہل کشمیر”لل ماج”اور ہندو“لل ایشوری“کے نام سے پکارتے ہیں۔اس کے گیت اس دور کے ہر بچے کے زبان پر تھے۔اس نے بت پرستی کے خلاف آواز اوٹھائی اور توحید کا درس دیا۔ کشمیری زبان کی دوسری شہرہ آفاق شاعرہ حبہ خاتون ہیں۔حبہ نے کشمیر میں غزل کو روشناس کروایا۔حبہ کے علاوہ نورالدین رشی، محمود گامی، رسل میر، غلام احمد مہجور، عبدالاحد آذاد، شمس فقیر جیسے عظیم شاعروں نے کشمیری زبان کے ادب کو عروج بخشا۔کشمیری زبان کا نثری ادب بھی موجود ہے اور آج کشمیری بین الاقوامی زبان ہے۔

جموں و کشمیر کی سرکاری زبان:


تقسیم ہند کے بعد جو سماجی تبدیلیاں برصغیر میں رونما ہوئیں، اس کی لپیٹ میں کشمیری زبان بھی آ گئی، جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی سرکاری زبان کشمیری کی بجائے اُردو قرار دی گئی اور بات کروں میں اگر مقبوضہ وادی کی وہاں بھی ایسی ہی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ آزادکشمیر میں کشمیریات کا شعبہ تنزلی کی طرف بڑھ رہا ہے اور آزادکشمیر کی اکثریتی آبادی کشمیری زبان سے لا علم ہے۔

کشمیری زبان کا رسم الخط:


کشمیری زبان کا اپنا رسم الخط تھا بلکہ اب تک موجود ہے۔ جس کو شاردا کہا جاتا تھا۔ شاردا نام کی ایک یونی ورسٹی اسی نام کے ایک گاؤں ”شاردا، وادی نیلم“ ضلع مظفرآباد آزاد کشمیر میں ماضی بعید میں ہوا کرتی تھی۔ اس یونی ورسٹی کے کھنڈر اب بھی موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس رسم الخط کو اس یونی ورسٹی کے ماہرین نے ہی ایجاد کیا تھا۔ یہ دیوناگری رسم الخط سے ملتا جلتا ہے اور بائیں سے دائیں طرف لکھا جاتا ہے۔

حروف علت:


اسم معرفہ پر بھی کشمیری زبان کے اعراب اثرانداز ہوتے ہیں۔ لفظ ”پاکستان“ کو لیجیے، اس میں ”پ“ کے بعد ”الف“ ہے کشمیری اس کو ”آ“ پڑھے گا۔ اسی طرح ٹھیٹھ کشمیری کابل کو ”کوبل“ کہتے ہیں۔ حیرت کو ”حارت“ کہتے ہیں۔ غالب کو ”غألب“ لکھتے ہیں اور پھول کو ”فول“ بولیں گے۔

کشمیری زبان کے حروف تہجی:


ا،ب،بھ، پ، پھ، ت، تھ، ٹ، ٹھ، ث، ج، جھ، چ، چھ، ح،خ، د،ڈ، ذ، ر، ڑ، ز، ژ، ژھ، س، ش، ص،ض، ط، ظ، ع، غ، ف، ق، ک، کھ، گ، گھ، ل، م، ن، ں، و، وھ، ھ، ہ، ی، ے۔ ان میں سے الف اور ہمزہ پہلے ہی اعراب کا کام دیتے ہیں یعنی حروف علت ہیں۔ واؤ بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام حروف کی کشمیری میں وہی آواز ہے جو اُردو میں ہے سوائے ژ کے جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔

کشمیری مصادر:


کشمیری زبان میں مصدر کی علامت یہ ہے کہ اس کے آخر میں نون ہوتا ہے اور آخری حرف یعنی نون سے پہلے کا حرف پیش والا یعنی مضموم ہوتا ہے۔ یہ اس مصدر کی حالت ہوتی ہے جو مذکر ہوتا ہے۔ اگر مصدر مونث ہو تو ”ن“ سے پہلے حرف کے نیچے۔ء۔ یعنی نصف زیر لگتی ہے۔ کرنا جس کو فارسی میں کردن کہا جاتا ہے، اس کو کشمیری میں کرُن، کہیں گے اور مؤنث ہو تو کرِن کہیں گے۔

کشمیری زبان کی بعض خصوصیات:


کشمیری زبان میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ فعل ناقص میں بھی تذکیر و تانیث کارفرما ہوتی ہے۔ انگریزی میں عورت اور مرد دونوں کے لیے isاستعمال ہوتا ہے اور اُردو میں دونوں کے لیے ”ہے“ استعمال ہوتا ہے۔ جب کہ کشمیری میں مرد کے لیے چھ اور عورت کے لیے چھیہ۔ اسی طرح اشارہ میں اُردو کا لفظ ”وہ“ مذکر اور مؤنث دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً وہ مرد اور وہ عورت لیکن کشمیری زبان میں کہیں گے ہہ مرد اور ہوہ عورت۔
ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اُردو میں ”وہ“ واحد غائب اور جمع غائب کے لیے استعمال ہوتاہے خواہ وہ باتیں کرنے والوں یعنی متکلم اور مخاطب کے سامنے ہوں یا سچ مچ غائب ہوں یعنی تھرڈ پرسن کے واحد اور جمع بے شک موجود ہوں یا نہ ہوں، دونوں کے لیے ”وہ“ کہا جاتا ہے جب کہ کشمیری میں اس تھرڈ پرسن کو جو حد نظر تک موجود ہے ”ہہ“ کہیں گے اور اگر وہ نظروں کے سامنے نہ ہو تو ”ہتہ“ کہیں گے۔ جمع کی صورت میں حاضر کو ”ہم“ کہیں گے اور غائب کو ”تم“۔
……٭……

Leave a Comment