تحریر: سلمان یوسف سمیجہ
چیکو ایک پیاری اور موٹی تازی سی بطخ تھی۔ وہ ایک بڑے سے تالاب میں رہتی تھی۔تالاب کا پانی بے حد صاف شفاف تھا۔چیکو اپنی پیاری آواز میں ”قیں قیں“ کرکے ماحول کو خوش گوار بنائے رکھتی تھی۔ مگر جس تالاب میں وہ رہتی تھی۔ اس کو اُس نے اپنی ملکیت سمجھا ہوا تھا۔تبھی وہ اکثر باقی بطخوں کو مارتی رہتی تھی۔وہ چوں کہ طاقت ور تھی اور باقی بطخیں اس کے مقابلے میں کمزور تھیں۔ وہ بطخیں چیکو کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں۔اسی لیے اس تالاب میں اس کی حکومت قائم تھی۔
ایک روز اس نے بلاوجہ بینی بطخ کو بہت مارا، تو بینی سسکتے ہوئے بولی:
”تم ہم کمزور بطخوں کو کیوں بلاوجہ مارتی ہو؟ ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟”
”خاموش ہو جاؤ بینی! ورنہ تالاب بدر کر دوں گی۔ یہ میرا تالاب ہے، میری مرضی میں جو بھی کروں!“چیکو اس کو چونچ مارتے ہوئے بولی۔
”تم نے یہ خریدا ہوا ہے کیا؟ یہ ہم سب بطخوں کا مشترکہ تالاب ہے۔“بینی اس بار تلملا کر بولی۔
”میرے سامنے زبان چلا رہی ہو!“چیکو اس کو مارتے ہوئے کہنے لگی:
”یہ صرف اورصرف میرا تالاب ہے۔“
پھر بینی نے بہ مشکل اس سے اپنی جان چھڑوائی تھی۔ اب چیکو سوچنے لگی کہ مجھے ان تمام بطخوں کو اس تالاب سے نکال دینا چاہیے، تاکہ میں اکیلی اس تالاب میں خوب مزے اور آرام سے رہوں۔
دوسرے دن اس نے سب تیرتی بطخوں کو اکھٹا کیا اور بولی:
”یہ تالاب میرا ہے، تم سب یہاں سے نکل جاؤ۔ میں یہاں اکیلی رہنا چاہتی ہوں۔“ چیکو نے تحمکانہ انداز میں کہا۔
سب بطخیں ہکا بکا رہ گئیں۔
”ایسا تو مت کرو چیکو! یہ تالاب ہمارا بھی تو ہے، ہمارا اس پر حق ہے۔“میمی بطخ پریشان ہو کر بولی۔
”نہیں یہ میرا تالاب ہے۔تم سب بطخیں یہاں سے چلتی بنو۔“چیکو غصے سے بولی۔
”ایسا مت کرو۔“ کمزور بطخیں رو رہی تھیں۔چیکو کو اُن پر تھوڑا سا بھی ترس نہیں آیا وہ پھر بولی۔
”تمہارے رونے دھونے کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ ادھر سے کہیں اور جا کے رو لینا۔“ آخر چیکو نے اُن سب کو تالاب سے نکال کر ہی دم لیا۔
ساری بطخیں منہ لٹکائے انجانی منزل کی جانب چل دیں۔
چیکو اُن کو نکال کر بہت خوش تھی۔ وہ اب مزے سے تالاب میں رہتی۔”قیں قیں“ کرتے ہوئے تیرتی۔کچھ دن تو وہ آرام سے رہی، مگر اس تالاب میں کچھ خالی پن اور گہری خاموشی کا احساس ہوا۔وہ اکیلے رہ رہ کر بور ہو جاتی۔کسی سے باتیں نہ کر پاتی۔ وہاں کوئی ہوتا تو وہ اس سے باتیں کرتی نا۔
خاموشی اُسے کاٹ کھانے کو دوڑتی، وہ ہروقت اُداس رہتی۔
”کاش میں ان بطخوں کو یہاں سے نہ نکالتی، بے چاری بطخیں نہ جانے کہاں ہوں گی۔“ایک روز اس نے مایوسی سے سوچا۔
”میں اکیلی رہ گئی ہوں، میرے ساتھ کوئی نہیں ہے، یہ سب میری غلطی کا نتیجہ ہے۔“وہ خود سے بولی۔
”کاش وہ ساری بطخیں دوبارہ اس تالاب میں آجائیں،تو یہاں پہلے جیسی رونق لگ جائے۔“
اس نے دکھ سے آنکھیں بند کرلی تھیں،پھر اس نے کھول کر اوپر آسمان کی جانب دیکھا۔
”یا اللہ سب بطخیں یہاں دوبارہ واپس آجائیں!“اس نے دعا کی۔اچانک آواز آئی:
”چیکو بہن کیا دعا مانگ رہی ہو؟“
اس نے آواز کی سمت دیکھا بیکی چڑیا اُڑ رہی تھی۔چیکو نے دُکھی انداز میں اسے سب کچھ بتایا۔
”وہ ساری بطخیں تو یہاں قریب ہی ایک تالاب میں رہتی ہیں۔“بیکی چڑیا نے اُسے بتایا۔
”اچھا!میں جا کر اُن کو منا کر لاؤں گی۔ بیکی بہن! بہت بہت شکریہ کہ تم نے مجھے یہ بتایا۔“چیکو خوش ہو کر بولی تو بیکی مسکرا دی۔
دوسرے دن چیکو قریبی تالاب میں گئی، اُن بطخوں سے معافی مانگ کر ان کو منا لائی اور بولی:
”یہ ہم سب کا تالاب ہے، ہم سب کا گھر ہے۔“
بطخیں بے انتہا خوش ہوگئیں، اب اس تالاب میں پہلے جیسے رونق لگی رہتی ہے۔