سوال: جدید پنجابی افسانے کے ارتقاء پر جامع نوٹ لکھیں۔

جواب: جدید پنجابی افسانے کا ارتقا:

ناول کی طرح یہ صنف بھی بدیسی ہے۔ اس کا آغاز مذہبی اور اصلاحی ضرورتوں کے تحت ہوا۔ انگریزوں کی آمد کے بعد جو ابتدائی طور پر کہانی لکھیں گی، وہ سادہ بیانیہ انداز میں تھیں اور ان میں دینی اخلاقی اور اصلاحی موضوعات کو اہمیت دی جاتی تھی۔ پنجابی میں پہلی کہانی انیس سو اکتیس میں لال سنگھ نے کملا ہیں کے عنوان سے لکھی جبکہ نانک سنگھ کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ہنجواں دے ہار کے نام سے انیس سو چونتیس میں شائع ہوئی۔ اس کے ساتھ ہیں جو شو افضل دین کے مجموعے ”ادبی افسانے“ ”اخلاقی کہانیاں“ اور ”نکیاں کہانیاں“ بھی چھپ کر سامنے آئیں۔ اخلاقی کہانیاں میں 31 مختصر کہانیاں ہیں جو سماجی اور اخلاقی مسائل پر مبنی ہیں۔1936ء میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا اور اس نے طبقاتی کشمکش کے حوالے سے لکھنے والوں کے لیے نئے موضوعات کی راہیں ہموار کیں۔ 1940ء تک پہنچتے پہنچتے پنجابی کہانی کا رنگ روشن کرنا شروع ہو گیا اور اس نے مغربی اثر قبول کرنا شروع کردیا۔ 1947ء تک افسانوں کے کئی مجموعے چھپ چکے تھے مگر یہ گرمکھی رسم الخط میں تھے۔
قیام پاکستان کے بعد افسانہ لکھا تو گیا مگر اگر کوئی مجموعہ شائع نہ ہوا۔ اس دور کے لکھنے والوں میں شفیع عقیل،وقار انبالوی،نظر فاطمہ،اکبر لاہوری،رشید سلیم زیادہ نمایاں ہیں۔ اب افسانہ اصلاحی اور ترغیبی انداز سے نکل کر ایک 27 تاثر اور بیانیہ انداز اختیار کر چکا تھا اور جیتی جاگتی زندگی کے مسائل ان کا موضوع بن چکے تھے۔ 1960ء میں نواز کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”ڈونگھیاں شاماں“شائع ہوا جس میں شامل افسانے بظاہر خواب اور رومان کی ایک ایسی ملی جلی فضا پر مبنی ہیں، جن میں استدلال کے بجائے جذبہ مرکزی اہمیت رکھتا ہے مگر ذہنی سطح پر یہ پرتوں والی کہانیاں ہیں جن کی بنیاد پر رکھ دی گئی ہے اور بجلی سطح پر جاکر جذبہ فکری لہر سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
نذر فاطمہ کی کتاب ”کاغذ دی زنجیر“ا1972ئاوراکبر لاہوری کی کتاب اکبر کہانی انیس سو چھہتر میں شائع تفصیلی انداز اپنایا گیا ہے جس پر کبھی کبھی علامتی انداز کا گمان بھی گزرتا ہے مگر اصطلاحی معنوں میں یہ احسان ہے آج کے علامتی افسانے سے مختلف ہیں کیونکہ ان میں علامتی مفہوم ثانوی حیثیت رکھتا ہے جبکہ علامتی افسانے میں علامات اور شعوری استعمال کے باعث اولیت اختیار کر جاتی ہے اور مفہوم کو ہتھیلی پر رکھ کر سامنے لانے کے بجائے مٹھی میں چھپائے رکھتی ہے اور آسانی سے اپنا بھید نہیں کھولتی۔

1980ء تک کا دور:


پنجابی افسانے کے اس پہلے دور میں جو انیس سو اسی تک پھیلا ہوا ہے،رفعت کے افسانوں کی کتاب ”اک اوپری کڑی“ حنیف چوہدری کی ”کچ دی گڈی“حسین شاہد کی”لاپریت“سلیم خان گمی کی ”لہو دی خوشبو“اور افضل احسن رندھاوا کی کتاب ”رن تلوار تے گھوڑا“خصوصی اہمیت کی حامل ہیں جو مختلف اور متنوع موضوعات اور مسائل کے فنکارانہ اظہار پر مبنی ہیں۔ افضل احسن اپنے افسانوں کے ذریعے پڑھنے والے کو اسان جی فضا میں لے جاتے ہیں جہاں کیا میں پاکستان سے قبل کا دیسی علاج جاگیردارانہ اخلاقی اقدار روایتی تعصب کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ جبکہ سلیم خان رومی کے افسانوں میں عام سماجی مسائل کے فنکارانہ اظہار کے ساتھ ساتھ جھوٹی اقدار کوطنز کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ حسین شاہد کی کہانیاں اپنی مختلف اسلوب کے باعث گہرا فکری تاثر لیے ہوئے ہیں۔ اس دور میں قیام پاکستان کے وقت جنم لینے والے فسادات بھی پنجابی افسران کا ایک اہم موضوع ہیں اور مختلف لکھنے والوں میں اس مسئلہ کو اپنے اپنے انداز میں پیش کیاہے۔ رفعت کے افسانوں میں زیادہ تر عورتوں کی مجبوریوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں مردوں اور عورتوں کو دو طبقوں میں تقسیم کرکے عورتوں کی حمایت کرتی نظر آتی ہیں اور ایسے میں ان کا لہجہ کہیں مصنفہ عورتوں کے حقوق کیلئے مردانہ باہر لڑکی ہوئی کہیں بھی سمجھوتے کی قائل نظر نہیں آتی۔

دوسرا دور:


پنجابی افسانے کا دوسرا دور انیس سو اسی سے شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں افسانے کء کروٹیں لیں۔ حقیقت پسندی کے علاوہ علامتی اور تجریدی افسانے کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا جس کے باعث انہیں فنی اور تکنیکی تبدیلیوں سے روشناس ہوا۔ اس دور کے اہم لکھنے والوں میں منشا یاد،کہکشاں ملک،پروین ملک،فرخندہ لودھی،افضل توصیف،مہر کا چیلوی،اور مسرت کلانچوی نمایاں ہیں۔

فن اور کہانی پن:


اپنے افسانوں کی کتاب ”چڑیاں دی موت“میں محترمہ کہکشاں ملک کا انداز خاصا سنبھلاہوا ہے۔ وہ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے عام شہری عورت کی مظلومیت کو سماجی حوالے سے موضوع بناتے ہوئے فن اور کہانی پن کی طرف بھی پوری توجہ دیتی ہیں پلیز کرداروں کو اپنی خواہش کے مطابق پیش کرنے کے بجائے انہیں اپنی مرضی سے چلنے پھرنے دیتی ہیں۔ جس کے باعث کہانی میں حقیقت پسندی برقرار رہتی ہے۔ پروین ملک ”کی جاناں میں کون“میں علامتی اور کہیں کہیں نیم علامتی انداز کی افسانہ نگاری کے طور پر سامنے آتی ہیں۔ چھاچھی لہجے میں لکھی گئی اور کتاب میں مصائب میں گھرے ہوئے افراد بیوہ عورتوں چھوٹے بچوں، غریب لڑکیوں اور اسی نوع کی مجبور عوام کے اردگرد بکھریہوئے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اور ترقی پسند سوچ کے تحت معاشی صورتحال کو بھی پس منظر کے طور پر برتا گیا ہے۔فرخندہ لودھی کی کتابیں ”چنے دے اوہلے“اور ”ہر دے وچ تریڑ“پختہ اسلوب کے حامل ایسے افسانوں پر مشتمل ہیں جن میں طبقاتی حوالہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی ان میں زریں طبقہ کی مجبوریاں اور دکھوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔
محترمہ افضل توصیف کی کتابوں و ”ٹاہلی میرے بچھڑے“اور”پنجواں گھنٹہ“ میں پیش کیے گئے افسانے ترقی پسندانہ سوچ کے تحت لکھے گئے ہیں جن میں مزدوری کرنے والی غریب اور محنت کش خواتین کے مسائل کو درد مندانہ اور حقیقت پسندانہ انداز سے اجاگر کیا گیا ہے۔

دکھ دھرتی دے:


راجہ محمداحمد کی کتاب”دکھ دھرتی دے“ میں شامل افسانے بھی ترقی پسند سوچ کے حامل ہیں جن میں جذباتی انداز اختیار کرنے کے بجائے حقیقت پسندانہ رویہ اپنا کر غریب کے مارے ہوئے افراد کی ضرورتوں کو سماجی اور نفسیاتی سطح پر اجاگر کیا گیاہے۔ ان افسانوں کو بڑی مہارت سے لکھا گیا ہے جس کے باعث ان کے آخر میں ایک چونکا دینے والی صورت حال بھی پائی جاتی ہے۔ سرائیکی میں لکھی گئی مہر کا چیلوی کی کتاب”سدھر“زندانی ادب کا شاہکار ہے جس میں ایک قیدی پاک کی چھوٹی اور بے سہارا بچیوں کی دکھ بھری داستان کو فنکارانہ انداز میں موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کے دوسرے مجموعے بردا فرش میں بھی غریب کو ہی مرکزی نکتے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے حفیظ خان کے سرائیکی افسانوں کا مجموعہ ”ویندی رت دی شام“مطبوعہ عہد حاضر کی زندہ مسائل اور تیزی سے بدلتی ہوئی اقدار کا عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ علامات کے بامعنی ابلاغ کا آئینہ دار ہے۔

ستیاں اکھاں والے:


ناصر بلوچ کی کتاب ”ستیاں انکھیاں والے“میں زبان و بیان خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ علامتی انداز کے ان افسانوں میں ناصر بلوچ نے پنجابی افسانے کو ایک نئی تکنیک سے متعارف کرایا ہے جو ہر کے بیانیہ ہیں مگر اپنے اندر ڈرامائی تاثر لیے ہوئے ہے۔ منشا یاد کی کتاب”وگدا پانی“بھی افسانوں کی ایک زندہ کتاب ہے جس میں سماجی مسائل کا علامتی اظہار ایسے انداز میں کیا گیا ہے کہانی کہیں بھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا اور افسانے کے دونوں پرتیں اور علامتیں خود بخود کھلی چلی جاتی ہیں۔

معیاری افسانہ:


ایک معیاری افسانے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بہت سی خوبیوں کا حامل ہوتا ہے اور کی چیزیں مل کر کہانی میں تاثیر پیدا کرتی ہیں مثلا فقیروں کی بناوٹ،فنی پختگی،بات کرنے کا منفرد انداز،اظہار کی تازگی،کہانی یا واقعہ کی اہمیت،پلاٹ یعنی وجہ یا سبب،کردار نگاری،دل دلچسپ اور موہ لینے والا آغاز،واقعات کا تسلسل اور اتار چڑھاؤ،سامنے کی بات کو تخیل کی پرواز سے نیا روپ دینے کا فن،زندگی کے کسی ایسے تجربے کو سامنے لانے کا ڈھنگ جو عام آنکھوں سے اوجھل ہو،تجسس اور ایسا انجام کے پورے واقعے کا کوئی نتیجہ نکل کر سامنے آ سکے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اب تک مختلف موضوعات پر لکھے گئے افسانوں میں ان خوبیوں کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور پایا جاتا ہے جس کے باعث یہ افسانے با اعتبار اور با وقار ٹھہرتے ہیں۔

پنجابی نثر کی تاریخ:


ادبی سطح پر پنجابی نثر کی تاریخ زیادہ قدیم نہیں ہیں اس کا آغاز انگریزوں کی آمد سے ہوتا ہے جو اپنے ساتھ نء اصناف لے کر آئے۔ اس سے قبل پنجابی کی دو نثری کتب ملتی ہیں وہ مذہبی اور اصلاحی جذبے کے تحت لکھی گئی تھیں جن میں پہلے کتاب مواعظ نوشہ گنج بخش بنتی ہے۔ جس میں سلسلہ نوشاہیہ کے ایک بزرگ نوشہ گنج بخش کے چھریاں شامل ہیں اس کے بعد بوہل نماز رسالہ مہتدی کچی روٹی اور پکی روٹی وغیرہ کے نام سے سامنے آنے والی کتابیں بھی اسی ذیل میں آتی ہیں۔ بوہل نماز کے مصنف حافظ برخوردار اپنے وقت کے جید عالم ہیں۔ وہ حل پنجابی میں کھلیان کو کہتے ہیں۔آپ نے اس کتاب میں امدادی کسانوں کو دینی مسائل سے آگاہ کرنے کے لیے زراعت کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔
آپ نے تبلیغ انداز کی اور اور بھی کئی کتابیں تحریر کیں جن میں انوح برخوردار کی تصنیف بتائی جاتی ہے۔ فقہی مسائل سے متعلق اٹھارویں صدی کی ایک اور تصنیف کی روٹی کے مصنف کا نام آج تک پردہ اخفا میں ہے۔ان کتابوں کا نام روٹیاں غالبا اس لئے رکھا گیا کہ عام دیہاتیوں کی ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں فقہ کے مسائل ترتیب بار یوں اکٹھے کیے جاتے تھے جس طرح گندم بونے کاٹنے گاہنے پیسنے اور آٹا گوندھنے کے بعد تیار ہوتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسلامی مدرسہ میں پڑھانے کے لیے نہ صرف و نحو کی کتابیں بھی لکھی گئی اور یہ سلسلہ انگریزوں کی آمد تک جاری رہا جنھوں نے ناول افسانے اور ڈرامے کو پنجابی ادب سے متعارف کرایا۔
……٭……

Leave a Comment