جواب:جدید دور میں صحافت میں رونما ہونے والی تبدیلیاں:
دوسری عالمی جنگ کے بعد اس تیزی سے صنعتی ترقی ہوئی کہ دنیا سمٹ کر مختصر ہو گئی۔ یورپ میں مارشل پلان کے نفاذ سے معاشی بدحالی کا دور ختم ہوا اور ایسی خوش حالی کا دور دورہ ہوا جس کی کبھی مثال نہ ملتی تھی۔ معاشی اور تکنیکی ترقی نے صحافت پر بھی اپنے اثرات مرتب کیے۔ عالمی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا، مختلف ملکوں میں شرح خواندگی بڑھی اور اخبارات و رسائل کی اشاعت میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔
فنی تبدیلیاں:
اس صدی کی پچاسویں دہائی میں ریڈیو اور ٹیلی وژن بھی جم کر مطبوعہ صحافت کے مقابلے پر آ گئے۔ ٹیلی وژن کو مطبوعہ صحافت پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ کسی واقعے کو اسی انداز میں پیش نہیں کر سکتا جیسے وہ وقوع پذیر ہو۔ ریڈیو نے دنیا کے دور دراز حصوں تک رسائی حاصل کی۔ ٹرانسسٹر ریڈیو کی ایجاد نے ریڈیو کو گھروں سے نکال کر اسے سچ مچ لاسلکی بنا دیا۔ اخبارات نے اس مسابقت کے سبب بے شمار فنی تبدیلیاں کیں جن میں تصویری صحافت، خوب صورت میک اپ اور لے آؤٹ جدید طباعتی مشینوں کا استعمال، نیز قارئین کو تازہ ترین اطلاعات فراہم کرنے کے لیے اخبارات کے مختلف ایڈیشن شامل ہیں۔
تصویری صحافت:
موجودہ دور کی صحافت، مصور صحافت ہے۔ گذشتہ صدی میں جو مدعا بیان کرنے کے لیے پرکشش لفظوں کا سہارا لیا جاتا تھا۔ اب وہی مدعا صرف ایک تصویر بیان کر سکتی ہے۔ اگرچہ اس صدی کے شروع میں بھی اخبارات میں اکا دکا تصاویر نظر آ جاتی تھیں مگر وہ تصویریں بھدی اور غیر واضح ہوتی تھیں کیوں کہ ایسی تصویریں بلاک بنا کر شائع کی جاتی تھیں۔ آفسٹ طریق طباعت کی ایجاد کے بعد تصویری صحافت کا صحیح معنوں میں آغاز ہوا۔
تصویری صحافت (اردو):
اردو زبان میں تصویری صحافت کا آغاز تو ہفت روزہ ”الہلال“ سے ہوا تھا مگر قیام پاکستان کے بعد روزنامہ ”امروز“ نے تصویری صحافت کو فروغ دیا جس کی پیروی جنگ، انجام اور کوہستان نے کی۔ بعد ازاں روزنامہ ”مشرق“ نے تصویری صحافت کو چار چاند لگا دیے۔ اردو زبان کی تصویری صحافت میں فلمی ہفت روزہ ”نور جہاں“ اور ”نگار“ کا بھی حصہ ہے۔ ماہناموں میں ”شمع“ دہلی لاہور پیش پیش رہے۔ 1970ء کی دہائی کے بعد روزنامہ حریت اور جنگ نے تصویری صحافت کو نئی وسعتیں عطا کیں۔ اب تصویروں کے بغیر کسی اخبار کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
تصویری صحافت (انگریزی):
ٹیلی وژن سے مسابقے کی وجہ سے انگریزی زبان کی مطبوعہ صحافت بھی تصویروں کے وسیع پیمانے پر استعمال پر مجبور ہوئی۔ عالمی سطح پر امریکی ہفت روزہ ”لائف“ تصویری صحافت میں پیش پیش تھا۔ جس کی دیکھا دیکھی دوسرے اخبارات و رسائل نے بھی تصویری صحافت کو اپنایا۔ زرد صحافت اور مقبول عام اخبارات کی وجہ سے بھی تصویری صحافت کو فروغ ملا۔ رنگ دار تصویروں کی اشاعت اور اخبارات کے سنڈے یا ہفتہ وار ایڈیشنوں کی بدولت بھی تصویری صحافت میں ترقی ہوئی۔ پاکستان میں کچھ عرصے کے لیے ”سن“ اور اب کراچی کا روزنامہ ”ڈان“ تصویری صحافت میں پیش پیش ہے۔
تصویروں کے ذرائع:
اخبارات و جرائد نے تصویروں کے حصول کے لیے نہ صرف اپنے سٹاف فوٹوگرافر بھرتی کیے ہیں بلکہ اخبارات میں تصاویر کا تبادلہ بھی شروع ہوا۔ عالمی خبر رساں ایجنسیوں نے عالمی واقعات و حادثات کی تصویروں کی فراہمی کے انتظامات کیے ہیں۔ ان میں رائٹر، اے ایف پی۔ یو پی آئی اور ڈی اے پی سر فہرست ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ فوٹو گرافر تنظیمیں ایسی ہیں جو تصاویر کی فراہمی میں تخصیص کی حامل ہیں۔ ان میں سگما، گیما لیزان، بلیک سٹار اور پکچر گروپ عالمی سطح پر تصویریں فراہم کرتی ہیں۔
ریڈیائی صحافت میں جدید تبدیلیاں:
ریڈیائی صحافت اگرچہ اس صدی کی تیسری دہائی میں شروع ہو چکی تھی مگر دوسری عالمی جنگ کے دوران اور اس کے بعد ریڈیائی صحافت میں حیرت انگیز تبدیلیاں آئیں۔ شارٹ ویو ٹرانسسٹر کی ایجاد سے ریڈیائی نشریات دور دراز علاقوں تک سنی جانے لگیں۔ صنعت و حرفت کی ترقی اور عالم گیر سطح پر سماجی سیاسی تغیر سے بھی ریڈیائی صحافت کو فروغ ملا۔ اس وقت ریڈیو دنیا بھر کے مختلف خطوں کو ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ کرنے میں پیش پیش ہے۔ اس ضمن میں بی بی سی اور وی او اے پیش پیش ہیں۔
ریڈیو نیوزریل:
ریڈیو سے خبروں کے علاوہ ریڈیونیوزریل پروگرام شروع کیے گئے۔ دنیا کے تمام بڑے بڑے نشریاتی اداروں نے اہم مقامات پر اپنے نمائندے متعین کیے جو ان علاقوں کے اہم واقعات کے بارے میں تازہ ترین اطلاعات اور تجزیے بھیجتے ہیں۔ ان نمائندوں کی بھیجی ہوئی خبروں کو بلٹن میں استعمال کیا جاتا ہے بلکہ نیوزریل پروگرام میں ان نمائندوں کو بھیجی ہوئی رپورٹ انھی کی آواز میں نشر کی جاتی ہے۔
ریڈیو انٹریو:
ریڈیو انٹرویو کے نئے سلسلے شروع کیے گئے ہیں جن میں منہ در منہ انٹرویو کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون پر بھی انٹرویو ریکارڈ کیے جاتے ہین اور اس سہولت کے ذریعے دنیا کے مختلف حصوں میں مقیم افراد سے بیک وقت انٹرویو کیا جا سکتا ہے۔ ریڈیو کی خبروں کی ایڈیٹنگ کے دوران جو تنوع پیدا ہوا ہے اس میں بعض خبروں کا انٹرویو دینے کے بعد کسی سیاست دان یا ممتاز شخصیت کا باقی بیان خود اس کی زبانی سنا دیا جاتا ہے۔ اس سے خبر کا تاثر اور اس کی صداقت بڑھ جاتی ہے۔
خصوصی پروگرام:
ریڈیائی صحافت میں مخصوص دل چسپی کے حامل افراد کے لیے خصوصی پروگرام نشر ہونا شروع ہوئے ہیں جن میں کھیلوں کی خبریں، تبصرے، موسم کا حال اور اس پر تبصرے، کھیلوں پر رواں تبصرے، ریڈیائی صحافت کا لازمی جزو بن گئے ہیں۔
جدید ٹیلی وژن صحافت:
قدیم چینی کہاوت ہے کہ ایک اچھی تصویر ایک ہزار الفاظ کے برابر ہے، صدیاں گزرنے کے باوجود اس کہاوت کی صداقت برقرار ہے بلکہ ٹیلی وژن کی ایجاد نے اس حقیقت کو زندہ حقیقت بنا دیا ہے۔ صنعتی اور مصروف زندگی کے اس دور میں ٹیلی ویژن تفریح اور معلومات حاصل کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ بن گیا ہے۔ مواصلاتی سیارے کے ذریعے بین البراعظمی ٹیلی ویژن نشریات کی بدولت ٹیلی ویژن صحافت اپنے درجہ کمال کو جا پہنچی ہے۔ جدید تکنیکی ترقی کے باعث ٹیلی ویژن صحافت میں تصویری امکانات اور بڑھ گئے ہیں۔
تصویری امکانات:
ٹیلی ویژن کے آغاز کے دنوں میں کسی واقعے کی فلم بندی کے لیے ٹیلی ویژن کیمرے کسی خاص مقام پر نصب کیے جاتے تھے پھر خصوصی گاڑیاں ایجاد ہوئیں جن میں ٹیلی ویژن کی نشریات کے تمام آلات نصب تھے۔ گویا یہ چلتا پھرتا ٹیلی ویژن تھا مگر اب اس سے بھی زیادہ ترقی ہوئی ہے اور خصوصی طیارے اور ہیلی کاپٹر اسی مقصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک جام یا کسی بلندوبالا عمارت کی آخری منزل پر آتش زدگی یا حادثے کی تصویر ان ہیلی کاپٹروں سے لی جاتی ہے۔ اس طرح سمندر میں امدادی کاروائیوں کی فلمیں بھی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بنتی ہیں اور بعض ہیلی کاپٹروں میں انھیں نشر کرنے کا بھی انتظام ہے۔
عالمی خبروں کی پیش کش:
مواصلاتی سیاروں کے ذریعے ٹیلی ویژن سگنل کی ترسیل اور وصولی نے پوری دنیا کو یک جا کر دیا ہے۔ اب دنیا کے کسی بھی کونے ہونے والے واقعات کی فلم اسی روز دنیا بھر میں دکھائی جاتی ہے۔ یہ فلمیں دو قسم کے ادارے تیار کرتے ہیں، ان میں ایک تو ٹیلی ویژن سٹیشنوں کے اپنے نمائندوں کی فراہم کردہ فلیمیں اور رپورٹیں ہوتی ہیں۔ دوسرے عالمی واقعات کی فلمیں فراہم کرنے والے کچھ بین الاقوامی ادارے ہیں۔ ان میں سے اہم نیوز فلم ڈسٹری بیوشن ادارے یہ ہیں۔ وزنیوز، برطانیہ یوپٹن، امریکہ اور برطانیہ کا مشترکہ ادارہ سی بی ایس نیوز فلم اور مغربی جرمنی کے ڈی اے پی ایٹس۔
حالات حاضرہ پر تبصرے:
جدید ٹیلی ویژن صحافت میں حالات حاضرہ پر تبصرے صرف ایک شخص نہیں کرتا بلکہ شعبہ کے ماہرین کو اس میں شریک کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے عام طور پر ماہرین کو ٹیلی ویژن سٹوڈیوز میں بلایا جاتا ہے تاہم اگر ان کا تعلق دور دراز ملکوں سے ہو تو پھر ٹیلی کانفرنس کے ذریعے ان سے وہیں رابطہ کر کے ان کی رائے حاصل کی جاتی ہے۔ بی بی سی ٹیلی ویژن کا پروگرام نیوز نائٹ اس کی بہترین مثال ہے۔
صحافت میں جدید ترین دریافتیں اور ایجادات:
جدید بصری صحافت میں تازہ ترین ایجاد ٹیلی ٹیکس ہے جس کے ذریعے آپ گھر بیٹھے اپنی پسند کی خبریں پڑھ سکتے ہیں۔ اس نظام اطلاعات کی یک طرفہ ٹرانسمشن کے لیے ٹیلی ویژن کا خالی چینل استعمال کیا جاتا ہے۔ جس چینل پر ٹیلی ٹیکس کے ذریعے خبریں دی جاتی ہیں، وہاں خبروں کے کئی صفحات نشر کر دیے جاتے ہیں۔ ان صفحات کی زیادہ سے زیادہ سو تک ہو سکتی ہے۔ اگر ٹیلی ویژن سیٹ پر کوئی دوسرا پروگرام دیکھا جا رہا ہو تب بھی یہ معلومات یا اطلاعات مسلسل موصول ہوتی رہتی ہیں اور ٹیلی ویژن سیٹ کی لوکل میموری میں جمع ہوتی رہتی ہیں،جیسے ناظرین خبریں دیکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو ٹی وی کا وہ چینل بدل دیا جاتا ہے جو ٹیلی ٹیلی ٹیکس کے لیے مخصوص ہے۔ بٹن دباتے ہی ٹیلی ویژن سکرین پر سرخیاں یا ہیڈلائنز آ جاتی ہیں۔