جواب:اقبال کی طویل نظمیں:
اقبال نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور ہر صنف میں ان کے اضافے انفرادی نوعیت کے ہیں۔ غزل، نظم، قطعہ اور مثنوی کی قدیم صنفیں ان کے ہاتھوں اندر سے بدل گئی ہیں یعنی اُن کی ظاہری شکل وہی رہی ہے جو تھی لیکن ان کا باطن کچھ سے کچھ ہو گیا ہے۔ اب وہ کسی خاص موضوع کی خاص واردات، کسی خاص جذبے یا کسی خاص واقعے کے لیے مخصوص نہیں رہیں بلکہ حیات انسانی کے سارے شعبوں اور ذہن انسانی کے سارے محسوسات و ادراکات کی نباض اور ترجمان بن گئی ہیں۔ بعض نظمیں جو خاصی طویل ہیں، ان میں شکوہ، جواب شکوہ، والدہ مرحومہ کی یاد میں، شمع و شاعر، خضر راہ، طلوع اسلام، ذوق و شوق مسجد قرطبہ، ساقی نامہ اور ابلیس کی مجلسِ شوریٰ خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ یہاں ہم اقبال کی ایک طویل نظم خضر راہ کا فکری و فنی جائزہ لیتے ہوئے اقبال کا فن شاعری سمجھیں گے۔
خضر راہ کا فنی و فکری جائزہ:
یہ نظم اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے ۳۷ ویں سالانہ اجلاس میں جو ۱۲ اپریل ۱۹۲۲ کو اسلامیہ ہائی اسکول اندرون شیرانوالہ میں منعقد ہو ا تھا میں ترنم سے پڑھ کر سنائی تھی۔بعض اشعار پر اقبال خود بھی بے اختیار روئے اور تمام مجمع بھی اشکبار ہو گیا تھا۔عالم اسلام کے لئے وہ وقت بہت نازک تھا۔قسطنطنیہ پر اتحادی قابض تھے۔اتحادیوں کے ایماء پر یونانیوں نے انا طولیہ میں فوجیں اتاردی تھیں۔شریف حسین جیسے لوگ انگریزوں کے ساتھ مل کر اسلام کا بیڑا غرق کرنے میں پیش پیش تھے۔خود ہندوستان میں تحریک ہجرت جاری ہوئی۔
پھر خلافت اور ترک موالات کا دور شروع ہوا۔ادھر دنیا ئے اسلام کے روبرو نئے نئے مسائل گئے۔اقبال نے انہیں میں سے بعض اہم مسائل کے متعلق حضرت خضر کی زبان سے مسلمانوں کے سامنے صحیح روشنی پیش کی اور نظم کا نام خضر راہ اسی وجہ سے رکھا۔ابتدا میں نظم میں صرف دو عنوان تھے۔پہلے دو بندوں کا عنوان تھاوا’شاعر’یعنی شاعر کا خضر سے خطاب،باقی نو بندوں کا عنوان تھا ”جواب خضر”نظر ثانی میں اقبال نے مختلف مسائل پر الگ الگ عنوان قائم کر دیے۔
فکری جائزہ:
اقبال کی یہ نظم اپنے دور میں بہت زیادہ مقبول ہوئی اس کے بارے میں پروفیسر اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں ”اس نظم کی ہر دل عزیز ی کابڑا سبب اس کے موضوع یا موضوعات کا ہنگامی اہمیت کا حامل ہونا تھا”اس نظم کو فکری لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ایک حصہ”شاعر”کے عنوان سے پس منظر،خضر کی أمداور شاعر کے سوالات پر مبنی ہے جب کہ دوسرا حصہ خضر کے جوابات پر مشتمل ہے۔نظم کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ شاعر انتہائی پریشانی اور ذہنی کشمکش کی حالت میں سکون کی تلاس میں ساحل دریا کی جانب رخ کرتا ہے۔شاعر کو ایک نئی صبح کی تلاش ہے۔جہاں زندگی با معنی ہو جہاں اس کا وطن عزیز فرنگی جال سے آزاد ہو۔جہاں عالم اسلام یوروپی رخنہ گردوں کے فتنہ و فساد سے محفوظ ہو۔
یہاں پہنچ کر اقبال دو حصوں میں منقسم ہو جاتا ہے ایک شاعر اقبال اور دوسرا مفکر اقبال،شاعر اقبال سوال کرتا ہے اور مفکر اقبال جواب دیتا ہے۔پہلے بند میں منظر کش کا بہترین نمونہ ملتا ہے۔جو ایک خاص کردار خضر کے ظہور کے لئے ہے۔یہاں ایک سکوت کی فضا ملتی ہے وہ دراصل اس انسانی ماحول کے جمود کی طرف اشارہ کرتا ہے۔جس کو توڑنے کے لئے ہی شاعر کا دل ایک جہاں اضطراب بنا ہوا ہے۔
جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شے رخوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب
منظر فطرت کا یہ طلسم پانچویں ہی شعر میں ٹوٹ جاتا ہے اور نہایت ڈرامائی طور پر خواجہ خضر کی شخصیت منظر پر ابھرتی اور جزو منظر بن جاتی ہے۔خضر شاعر کو بتاتا ہے کہ اگر چشم ودل واہو یعنی انسان کی روح اپنی تمام تر گہرائیوں کے ساتھ بیدار ہو جائے،دل کی آنکھ کھل جائے تو دل کے اندر وہ روشنی پیدا ہو جاتی ہے جو مظاہر حیات اور واقعات عالم کے پیچھے مضمر حقائق کے مشاہدے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔
کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرار ازل
چشم دل واہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب
دوسرے بند کے پہلے دو اشعار میں اقبال ”خضر“کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں کہ کائنات کے تمام سر بستہ راز آپ پر منکشف ہیں اور آپ کو مستقبل کے وہ حالات بھی معلوم ہیں جو مستقبل میں ظہور پذیر ہوں گے۔اقبال خضر کو موسی کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں کہ موسیٰ کا علم بھی آپ کے سامنے ہیچ ہے اس لئے وہ ان کے سامنے چند سوالات رکھتے ہیں اور سوال اسی سے پوچھے جاتے ہیں جو صاحب علم و صاحب اسرار ہو۔سوالات کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
پہلا سوال:خضر کو صحرا نوردی اس قدر عزیز کیوں ہے؟
دوسرا سوال:زندگی کا راز کیا ہے؟
تیسرا سوال:سلطنت کیا چیز ہے؟
چوتھا سوال:سرمایہ اور محنت میں جھگڑے کی وجہ کیا ہے؟
پانچواں سوال:دنیا ئے اسلام کی زبوں حالی کی وجہ کیا ہے؟
اندازِ نظر:
اقبال کا انداز نظر بالکل انسانی اور آفاقی تھا۔وہ سماجی انصاف کی علم برداری کرنا اپنا فرض تصور کرتے تھے۔اس طرح کمزوروں،مظلوموں اور محروموں کی حمایت اپنا فرض جانتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی ملت دوستی کو ”ایشیا کا خرقہ دیرینہ”سے وابستہ کر دیا ہے یعنی وہ اپنے ملی موقف میں ایک آفاقی نقطہ سے پورے مشرق کو اس لئے شامل کرتے ہیں کہ اس کے خرقہ دیرینہ کو بہت ہی جابرانہ اور ظالمانہ انداز میں چاک کرکے اس کی قیمت پر مغربی اقوام نو دولت ”نو جوان”پیرا پوش ہو رہے ہیں۔
عالمِ مشرق:
یہاں اقبال کی نظر انتہائی وسیع ہو جاتی ہے۔وہ دنیا ئے اسلام کو عالم مشرق کا مترادف قرار دیتے ہیں کہ ملت اسلامیہ مشرق کی نمائندگی کرتی ہوئی ایک خطرناک امتحان میں پڑ گئی ہے۔بادشاہت و ملوکیت سے اقبال کو نفرت ہے۔اقبال کے خیال میں اگرچہ سکندر مر گیا ہے۔اس کو دوام نہیں ملا مگر فطرت اسکندری ابھی قائم ہے۔حکمران طبقہ ابھی تک داد عیش دے رہا ہے۔
گرچہ اسکندر رہا محروم آب زندگی
فطرت اسکندری اب تک ہے گرم ناؤ نوش
صحرائیت پسندی:
تیسرے بند میں خضر پہلے سوال کا جواب دیتے ہیں۔اقبال فطرتاً صحرائیت پسند اور بدویت پسند ہیں۔اقبال کے نزدیک جو افراد اور قومیں مسلسل جدوجہد کرتی ہیں وہ دوام پاتی ہیں جہاں وہ تھک کر بیٹھ جاتی ہیں موت ان کو دبوچ لیتی ہے اور صحرا نوردی مسلسل حرکت کا استعارہ ہے۔جو اس حقیقت کو روشن کرتی ہے کہ قدرت کے کارخانے میں سکون محال ہے۔دنیا میں ہر لمحہ حرکت و تغیر کا تماشا جاری ہے اور اس تماشے کے کسی منظر کو قیام نہیں ہے۔خضر اپنی مسلسل دوڑ دھوپ اور حرکت و عمل کو اصل زندگی بتاتا ہے۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ صحرا سے اقبال کو اتنی انسیت کیوں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کا روحانی مرکز اور اصل مولد و منشا صحرائے عرب ہے۔ اسی بدولت ان میں فاتحانہ اخلاق پیدا ہوئے صحرائیت میں تکلف و تصنع کا کوئی گزر نہیں۔صحرا نشین آدمی میں بلا کی قوت برداشت ہوتی ہے۔ایک متمدن انسان جوش اور ولولے سے عاری ہوتا ہے۔صحرا نشین کی ضروریات زندگی بھر حد درجہ محدود ہوتی ہے۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کہستانی
اگلے دو بندوں میں زندگی کے متعلق بحث کی گئی ہے۔بقول اسلوب احمد انصاری:
”زندگی اقبال کے نزدیک مترادف ہے ایک ایسے مظہر کے جس کی وسعتوں اور گہرائیوں کو ادراک کی گرفت میں آسانی سے نہیں لایا جا سکتا۔“
اقبال انسان کو بتاتا ہے کہ زندگی سودو زیاں،نفع نقصان کی سوچ سے بلند تر چیز ہے۔اس میں کبھی تو اعلی مقصد کے لئے جان قربان کردی جاتی ہے جس طرح حضرت امام حسین نے کربلا میں اور حضرت اسماعیل نے خدا کے حکم پر اپنی جان عزیز کو قربانی کے لیے پیش کیا اور کبھی اعلی مقاصد کی خاطر ہجرت کرکے جان بچائی جاتی ہے۔
برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
ذوقِ عمل:
آگے چل کر اقبال انسان کے ذوق عمل اور جدو جہد کو ابھارنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے خیال میں انسان کو سچائی اور صداقت کا دلدادہ ہونا چاہیے۔لیکن اس کے لئے پہلے اپنے جسم میں جان پیدا کرنا ضروری ہے۔یعنی اپنے دل میں ولولہ اور عزم و جوش پیدا کرنا چاہیے۔
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
طاقت کی جادوگری:
چھٹا بند سلطنت سے متعلق ہے اقبال فرماتے ہیں کہ سلطنت و حکومت کو طاقت کی جادوگری کہنا ایک نہایت بلیغ بات ہے۔جادوگری کا لفظ ایک طرف طاقتور حکمرانوں کی ننگی جارحیت اور طاقت کے استعمال پر محیط تو دوسری طرف مدبرانہ مصلحتوں اور رعایا پروری کے ظاہر ی سلوک کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔جب کوئی محکوم نیند سے بیدار ہوتا ہے اور ملوکیت و شہنشاہیت کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو حکمران اسے انوکھے ہتھکنڈوں سے پھر سلا دیتا ہے۔اسے ایسے سہانے سپنے دکھاتا ہے کہ وہ پھر سے غلامی کا طوق گلے میں پہن لیتا ہے۔
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اسے حکمرانوں کی ساحری
آزادی:
اقبال مسلمانوں کو آزادی کی نعمت حاصل کرنے کے لئے زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے مسلمان تو آزاد پیدا ہوا ہے۔تیری مثال تو شاہین جیسی ہے تو اپنی آزاد فطرت کو غلامی کی دلدل میں پھنسا کر بدنام نہ کر اگر ایسا کریگا تو برہمن سے بھی بڑا کافر ہوگا۔پھر اقبال کہتا ہے کہ جمہوریت ظالم و جود کا جن ہے جو خوبصورت لباس پہن کر ناچ رہا ہے لوگ اس کے زرق برق لباس کو دیکھ کر اس کو آزادی کی نیلم پری سمجھ لیتے ہیں۔جبکہ حقیقت میں یہ وہی مطلق العنان ملوکیت ہے۔اقبال مسلمانوں کو خطاب کرکے کہتا ہے کہ اے ناداں انسان تو اس رنگ و بو کے دھوکے کو باغ سمجھ رہا ہے اور اپنی نادانی سے اس پنجرے کو گھونسلہ سمجھ رہا ہے جبکہ حقیقت میں یہ تجھ کو تادیر غلام رکھنے کے ہتھکنڈے ہیں۔
اس رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
ساتواں اور آٹھواں بند سرمایہ داری سے متعلق ہے۔اقبال خضر راہ کی زبانی مزدور کو پیغام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کائنات کے دل سے اٹھنے والی آواز ہے۔یہ میرا ذاتی پیغام نہیں بلکہ قدرت اور فطرت کا ازلی پیغام ہے۔میری آواز میں زمانے کی آواز شامل ہے۔
بندہ مزدور کو جاکر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا،ہے یہ پیغام کائنات
جذبات کی تسکین:
آخری تین بند دنیائے اسلام سے متعلق ہیں،یہاں اقبال نے اپنے جذبات کی تسکین کے لئے راہ نکالی ہے جو ان کے قلب اور روح کی گہرائیوں میں نہ جانے کتنی مدت سے پوشیدہ تھے۔مسلمانوں کے تمام اشعار اور میراث کو مسیح دنیا نے اپنایا۔اندھی تقلید کی جگہ اجتہاد سے کام لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سر فراز اور کامران ہو گئے اور مسلمان پستی کی عمیق گہرائیوں میں ڈوب گئے۔عربوں نے غداری کرکے اپنے پاو ں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔جب تک ایک تھے مضبوط تھے جدا ہوئے تو دشمن نے ان کو ایک ایک کر کے ہڑپ کر لیا اور وہ ترک جو کبھی جاہ و حشمت کے مالک تھے،جو بادشاہ تھے آج وہ پوری دنیا میں رسوا ہو گئے ہیں۔خلافت کا تاج ان کے سر سے اتر چکا ہے جس میں کچھ مغرب کی عیاری اور سیاسی چالبازی کا کمال ہے تو بہت زیادہ مسلمانوں کا ترک مذہب اور اسلامی شعار سے دوری کا نتیجہ ہے۔ایران بھی یورپ کی طرف دیکھ رہا ہے اور مغربی تہذیب باکل کھوکھلی ہے۔جو آئندہ نسلوں کے لئے تباہی کا پیغام لائے گی۔اس لئے اقبال ایرانیوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ ان اثرات سے پرہیز کریں اس کے بعد اقبال خودی کا درس دیتے ہیں کہ اپنی حاجتوں کو دوسروں کے سامنے نہ لیں۔اپنی خودی کو قربان نہ کر ا ور دوسروں کے آگے ہاتھ مت پھیلا۔اگر تو دوسروں کی محتاجی کرے گا تو اس سے تیری خودی کو ٹھیس لگے گی۔خودی جو آئینے کی مانند نازک ہے ایسی ٹھیس سے چکنا چور ہو جاتی ہے۔
اتحاد و اتفاق:
اقبال مشرق کے مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تمہارے مصائب و آلام کا حل ملت اسلامیہ کے اتحاد و اتفاق میں مضمر ہے۔اگر مسلمان چاہتا ہے کہ ذلت کے گھور اندھیروں سے نکل آئے تو انھیں آپس میں باہمی ربط و ضبط پیدا کرنا ہوگا۔مگر افسوس ایشیا والے اس نکتے سے اب تک بے خبر ہیں۔لہذا جب بھی ان پر ہ راز منکشف ہوگا تو وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
فنی جائزہ:
”خضر راہ“ فنی لحاظ سے ایک مکمل نظم ہے۔اس بارے میں ’آل احمد سرور‘ لکھتے ہیں:
”خضر راہ میں اقبال کا فن پہلی دفعہ اپنی بلندی پر نظر آتا ہے یہ وہ بلندی ہے جس میں مستی اندیشہ ہائے افلاکی کے ساتھ زمین کے ہنگاموں کو سہل کرنے کا حیرت انگیز رزم موجود ہے۔“
”خضر راہ“ کل گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ نظم ترکیب و ہیئت میں ہے۔ اس میں ۸۵ اشعار ہیں،اس نظم میں کم و بیش ۱۴۰۰ الفاظ ہیں۔یہ بحر رمل مثمن مقصور میں ہے۔اس کے ارکان یہ ہیں۔فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
نظم کے کردار:
اس نظم میں دو کردار سامنے آتے ہیں ایک خود شاعر اور دوسرا خضر،شاعر ایک بے قرار شخص ہیں اس نے اپنے آپ کو ”جویا ئے اسرار ازل“کہا ہے۔جو ایک ایسے انسان کو ظاہر کرتا ہے جس کے دل میں سب کچھ جاننے کی خواہش موجزن ہے۔دوسرا کردار خضر کا ہے۔خضر کی شخصیت کو اقبال نے اس شعر میں مکمل کر دیا ہے:
دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر
جس کی پیری میں ہے مانند سھر رنگ شباب
پہلے مصرعے میں ان کو ”پیک جہاں پیما“ کہا گیا ہے اس لیے کہ وہ جہاں گرد مشہور ہیں دوسرے مصرعے میں ”پیری میں مانند سحر رنگ شباب“ کا بیان ملتا ہے۔اس لئے ان کی طویل عمر کی روایت خاصی مشہور ہے اور جس طرح صبح،صدیوں سے ایک ہی طرح ہر روز طلوع ہونے کے باوجود تازگی و شادابی کا مظہر ہے، جیسے شباب کے سا تھ وابستہ کیا جاتا ہے۔اس طرح خضر راہ بھی صدیوں پر محیط طویل عمر کے باوجود جوانوں کی طرح مستعدی سے جہاں گردی کرتے رہتے ہیں،بقول فتح محمد ملک:
”اقبال نے خضر کا کردار مشرقی روایات اور داستاں کی بجائے براہ راست قرآن سے اخذ کیا۔“
ڈرامائی کیفیت:
اس نظم میں ڈرامائی کیفیت پائی جاتی ہے۔یہ ڈرامائیت خضر کے کردار کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہے۔اس نظم کے پہلے منظر کو اگر دیکھیں تو لگتا ہے کہ ڈرامے کا پہلا سین شروع ہوگیا ہے۔ یہ سین ساحل دریا کا ہے۔شاعر مضطرب دل کے ساتھ محو نظارہ ہے۔اس کے دل میں ایک طوفان مچا ہوا ہے۔مگر بیرونی ماحول انتہائی پر سکون ہے۔رات کا سکون پر پھیلائے ہوئے ہے۔قاری تجسس کا شکار ہو کر پورے انہماک سے مطالعہ شروع کرتا ہے۔اس پر سکون ماحول کے پیچھے ایک طوفان چھپا ہوا ہے۔اس لیے قاری بھی کسی طوفان کا منتظر ہے۔اسی اثنا میں اچانک خضراسٹیج پر آکر مکالمہ شروع کرتا ہے۔
کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرار ازل
چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب
نظم کا لہجہ:
پہلے بند میں لہجہ انتہائی دھیما اور محتاط ہے۔اسی طرح پوری نظم میں مجموعی طور پر دھیما پن اور نرمی غالب ہے۔کہیں کہیں لہجہ پر جوش ہو جاتا ہے۔مگر اقبال اسے دوبارہ نرم کر دیتا ہے۔مثلا دوسرے بند میں شاعر انتہائی جوش سے کہتا ہے۔
بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفیﷺ
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
یہ اتار چڑھاو اور مدو جزر پوری نظم کا کلاصہ ہے مگر مجموعی تاثر دھیما ہے۔اختتام ناصحانہ ہے اور نصیحت نرم لہجے میں ہوتی ہے۔
رنگ تغزل:
تغزل اقبال کے کلا م کا خاصا ہے۔”خضر راہ“ اگر چہ ایک نظم ہے جس میں حیات و کائنات کے حقائق اور ٹھوس مسائل کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔مگر چونکہ اقبال کے مزاج میں شریعت اور تغزل رچا بسا ہے اس لئے غزلوں کے علاوہ ان کی بیشتر نظموں میں تگزل کا رنگ نمایاں
ہے۔خضر راہ کے بعض حصوں اور شعروں میں ہمیں اقبال کا یہی رنگ تغزل نظر آتاہے۔
برتر اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز
دیکھتی ہے حلقہ گردن میں ساز دلبری
تراکیب اور تشبیہات:
اقبال نے خضر راہ میں بھی نادر تراکیب کا استعمال کیا ہے مثلا قلزم، ہستی،شہید جستجو،ضمیر کن فکاں،شمشیر بے زنہار، ساز دلبری،ساخ آہو وغیرہ۔تشبیہ کسی چیز کو کسی خاص و صف کی بنا پر کسی دوسری چیز کی مانند ظاہر کیا جائے اقبال کے ہاں نادر تشبیہات ملتی ہیں۔
گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب
صنائع بدائع کا استعمال:
اقبال کے کلام میں صنائع بدائع کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے،جو اقبال کی غیر شعوری فنی مہارت کا شاہکار ہے۔
صنعت تلمیح:
بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفیﷺ
خاک و خون میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
صنعت تجنیس:
خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو
صنعت ملمع:
ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں
حق تیرا چشمے عطا کر دست غافل در نگر
صنعت مراۃالنظیر:
آگ ہے،اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
صنعت تضاد:
دیکھتا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر
جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب
محاکات:
اس نظم میں محاکات یعنی تصویر کشی کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔مثلا پہلا بند جس میں اقبال لفظی تصویر کشی کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں۔
شب سکوت فزاء ہوا آسودہ،دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب
جیسے گہوارے میں سوجاتا ہے طفل شیر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب
طلوعِ اسلام:
طلوعِ اسلام 1924ء میں خضر راہ سے تین سال بعد منظر عام پر آئی لیکن اس کی تخلیق میں خضر راہ میں بیان کیے ہوئے افکار کا بھی عکس ہے۔ خضر راہ کے آخری حصے میں اقبال نے مسلمانوں کے روشن اور پُر امید مستقبل کی جو نوید دی تھی، طلوعِ اسلام اسی کا تمتمہ ہے۔ اس نظم کو ہر مکتبہ فکر کے ادیبوں نے سراہا ہے اور ان کے سخت سے سخت تنقید نگاروں نے بھی اس کی داد دی ہے۔ بقول کلیم الدین احمد:
”اقبال کا مخصوص رنگ ”طلوعِ اسلام“ کے ہر شعر میں جلوہ گر ہے۔“
مسجد قرطبہ:
مسجد قرطبہ کے متعلق جگن ناتھ آزاد، مجتبیٰ حسین، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی وغیرہ کے مقالات خاص طور پر قابلِ مطالعہ ہیں۔ علاوہ ازیں دوسرے ناقدین نے بھی جہاں اقبال کے فکر و فن پر قلم اُٹھایا ہے، مجد قرطبہ اور اس کی شاعرانہ عظمت کا تذکرہ ضرور کیا ہے۔
ساقی نامہ:
ساقی نامہ، میر حسن کی مثنوی سحر البیان کی بحر میں ہے۔ اُردو نظموں میں یہی ایک نظم ایسی ہے جس میں اقبال کا فلسفہ خودی قدرے تفصیل سے زیرِ بحث آیا ہے۔ جوش و اثر کے لحاظ سے یہ بالِ جبریل کی نمائندہ نظم ہے۔ اس کا تسلسل اور روانی غضب کی ہے۔
……٭……٭……