میرے دل کی بے چینی کا عالم کیسا تھا۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تب بھی میں اسے سمجھانے کے قابل نہیں تھا۔ پچھلی چند راتوں سے میں سکون سے سو نہیں پایا تھا اور اس کی وجہ اسد تھا۔ میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں تھا… نہ کوئی تعلق، نہ کوئی واسطہ مگر اس کے رونے کی آواز مجھے سونے نہیں دیتی تھی۔ وہ دس سال کا ایک پیارا سا بچہ تھا۔ وہ جب سے اپنی امی، ابو کے ہمراہ ہمارے محلے میں رہنے کے لیے آیا تھا، محلے کے لوگوں میں بے چینی بڑھ گئی تھی۔ میرے گھر کے ساتھ والا مکان بہت دنوں سے خالی پڑا تھا۔ پھر مالک نے انھیں کرائے پر مکان دے دیا۔ جلد ہی بات کھل گئی کہ اسد کے والدین کرسچن ہیں۔ بس پھر کیا تھا، لوگ دبے دبے لفظوں میں احتجاج کرنے لگے تھے۔ کوئی ان سے میل جول نہیں رکھتا تھا۔ یہ مسلمانوں کی آبادی تھی۔ یہ اس رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماننے والے تھے جنھوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ کافروں کے درمیان گزارا تھا۔ اپنے حسن سلوک اور حسن اخلاق سے کافروں کو بھی یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صادق و امین ہیں اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر پورا بھروسا ہے۔ اس شام گلی میں ایک چھوٹا سا جھگڑا ہو گیا تھا۔ محلے کے چند معززین گلی میں آئے تھے۔ وہ احتجاج کر رہے تھے کہ برکت مسیح اپنی کمیونٹی کے ساتھ جا کر رہے۔ تب برکت کے دفاع کے لیے میں اپنے گھر سے نکلا تھا اور انہی باتوں سے اپنی بات کا آغاز کیا تھا۔ آخر میں، میں نے بات یہاں پر ختم کی تھی کہ
”جب پہلی وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت کی مبارک باد دی گئی تھی اور تبلیغ کرنے کی اجازت دی گئی تھی تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک چالیس برس تھی۔ ہم لوگ الحمدللہ مسلمان ہیں۔ ہم مسلمان اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے پہلے والی چالیس سالہ زندگی کو اپنے لیے نمونہ بنائیں تو فلاح پا جائیں گے۔ کیوں کہ یہ اسلام ہی تو ہے جو ہمیں اخوت، محبت، رواداری اور برداشت کا درس دیتا ہے۔“
میری باتیں سن کر تمام لوگ واپس لوٹ گئے تھے۔ برکت نے میری طرف شکرگزار نگاہوں سے دیکھا تھا مگر ہمارے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ اتنا میں نے محسوس کرلیا تھا کہ گھر کے اندر برکت کی بیوی اور اسد سہمے بیٹھے تھے اور اب اس بات کا رونا مجھے بے چین کر رہا تھا۔ دونوں گھروں کی دیوار مشترک تھی۔ توجہ نہ بھی کی جائے تب بھی باتوں کی سمجھ آتی تھی۔ دسمبر کے مہینے کے ابتدائی دو عشرے گزر چکے تھے۔ موسم خوشگوار ہو چکا تھا مگر ابھی سردی کی شدت میں اضافہ نہیں ہوا تھا۔ ہم گھر کے تمام افراد بھی برآمدے میں ہی سوتے تھے۔ رات ہوتے ہی سناٹا پھیل جاتا تھا۔ گرمیوں میں پنکھوں کے شور کی وجہ سے آواز سنائی نہیں دیتی مگر سردیوں میں تو معمولی سی آہٹ کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ میں کوشش نہ کرتا تب بھی برکت کے گھر میں ہونے والی گفتگو، برتنوں کے کھٹکنے کی آوازیں اور آہٹیں سنائی دیتی تھیں اور اب اسد کے رونے کی آواز میری سماعت پر ہتھوڑا بن کر برسنے لگی تھی۔ پہلے پہل تو میں سمجھ نہیں پایا کہ وہ کیوں روتا ہے جب تھوڑی سی توجہ کی تو بات سمجھ میں آنے لگی وہ روزانہ رات کو اپنی کسی خواہش کی تکمیل کے لیے ضد کرتا تھا۔ وہ ضد کیا تھی میں نہیں جانتا تھا۔ بس اس بات کی سمجھ آتی تھی کہ ضد کے جواب میں برکت،اسد کو ڈانٹ دیتا تھا تب اسد رونے لگتا تھا، پھر اس کا رونا سسکیوں میں بدل جاتا تھا۔ پھر وہ سسکیاں بھرتے بھرتے نہ جانے کب سو جاتا تھا۔ وہ تو سو جاتا تھا مگر مجھے رت جگے میں مبتلا کر دیتا تھا۔ میں محسوس کرتا تھا کہ دیوار کے دوسری طرف برکت اور اس کی بیوی بھی جاگ رہے ہوتے تھے۔ وہ سرگوشیوں میں بات کرتے تھے مگر مجھے ان باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ اب میرے پاس ایک ہی طریقہ رہ گیا تھا کہ اگر میں ان کی مشکل سمجھ جاتا تو شاید میری مشکل حل ہوجاتی۔
یہاں اپنے حوالے سے ایک بات کہہ دوں کہ میں کسی بچے کو تکلیف کی حالت میں یا روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ شاید یہ فطری جذبہ ہے کوئی بھی باپ کسی بچے کو روتے ہوئے یا تکلیف کی حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ میں اپنے بستر سے اٹھا تھا اور دبے پاؤں دیوار کے پاس آ بیٹھا تھا تھا۔ اب میں برکت اور اس کی بیوی کی بات چیت سننے کے قابل تھا۔
”آپ اسد کو مت ڈانٹا کیجیے۔“ برکت کی بیوی بولی تھی۔
”تم سوچ بھی کیسے سکتی ہو کہ میں اسے ڈانٹتا ہوں۔ میں تو بس اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔“ برکت کے لہجے میں دکھ تھا۔
”پھر بھی اس بات کا خیال رکھا کیجیے کہ وہ بس ایک بچہ ہی تو ہے۔“
”میرا بچہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا ہے مگر اس کی خواہش…“
”بچوں کی خواہش والدین ہی تو پورا کرتے ہیں۔“
”ہاں! مگر میں اس کی خواہش پوری کروں،میری اوقات نہیں ہے۔ گھریلو اخراجات ہی دم نہیں لینے دیتے۔ چھ ہزار کی رقم لاؤں تو کہاں سے!“
”خدا پر بھروسا رکھیے۔ وہ ہماری مدد کرے گا اور سنیے! اب آپ اسد سے کچھ نہیں کہیں گے۔ اسد سے بات میں خود کروں گی۔“
”تم اسے سمجھانے کی کوشش کرنا۔ ویسے میں بھی پوری کوشش کروں گا کہ اس کرسمس پر اس کی خواہش کسی نہ کسی طریقے سے پوری کر دوں۔“
اب بات ختم ہو چکی تھی۔ میں اپنے بستر پر واپس لوٹ آیا تھا مگر سوال اپنی جگہ موجود تھا کہ وہ کون سی خواہش ہے جس کی تکمیل کے لیے چھ ہزار روپے خرچ ہو سکتے ہیں۔ میں سوچنے لگا مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔ اگلی رات سونے سے پہلے اسد پھر سے ضد کر رہا تھا۔ میں دیوار کے پاس چلا آیا۔
”ابو جی! پورا ایک سال گزر چکا ہے اور یہ پورا سال میں نے انتظار کے عالم میں گزارا ہے۔ دو دن بعد کر سمس ہے۔ میں روزانہ آپ سے بس ایک سوال پوچھتا ہوں اور آپ مجھے ڈال دیتے ہیں۔ آج میں پوچھوں گا۔ یا تو آپ انکار کر دیجیے یا پھر اقرار کر لیجیے۔“ اسد کے لہجے میں دکھ تھا۔ امید اور نا امیدی کی کیفیت تھی۔
”بیٹا! آج امی تم سے بات کریں گی۔“ برکت نے امی کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اب اسد امی کے پاس آ بیٹھا تھا۔
”سنو بیٹا! کرسمس کی رات چھ گھوڑوں والی بگھی پر سانتا کلاز آسمان سے سے زمین پر اترتا ہے۔“ امی بولی تھیں۔
”یہ سانتاکلاز کون ہے؟“ اسد کا لہجہ بدل گیا تھا۔
”یہ خداوند کا ایک فرشتہ ہے۔ زمین پر موجود بچوں کے لیے سانتا کلاز تحفے لے کر آتا ہے۔“ حیرت سے اسد کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔
”کیا سانتا کلاز میرے لیے بھی تحفہ لا سکتا ہے؟“
”ہاں، کیوں نہیں! تم سچے من سے دعا کرنا۔ سانتا کلاز آئے گا اور وہ تمھیں تمہاری پسندیدہ ریس والی سائیکل دے جائے گا۔“ امی مسکراتے ہوئے بولی تھیں۔
چند منٹوں کی خاموشی کے بعد اسد کچھ سوچ کر بولا:
”امی جان! میں سانتا کلاز کو پہچانوں گا کیسے؟ وہ کیسا نظر آتا ہے؟“
”وہ سرخ رنگ کا لباس پہنتا ہے۔ اس کے کندھے پر ایک تھیلا موجود ہوتا ہے۔ اس تھیلے میں بچوں کے لیے تحفے ہوتے ہیں۔ چہرے پر سفید رنگ کی بڑی اور لمبی سی داڑھی ہوتی ہے۔ سر پر سرخ رنگ کی لمبوتری سی ٹوپی ہوتی ہے۔“ امی سانتا کلاز کا حلیہ بتا رہی تھیں کہ اسد بول پڑا۔
”امی! میری سائیکل تو بڑی ہو گی۔ وہ تھیلے میں کیسے آئے گی؟“ امی کھلکھلا کر ہنس پڑی تھیں۔
”فکر مت کرو! سانتا کلاز ایک نیک فرشتہ ہے۔ وہ کوئی ترکیب استعمال کرلے گا۔“
یہ پہلی رات تھی جب اسد خوشی خوشی سونے کے لیے لیٹا تھا۔اب بھید کھل چکا تھا۔ میں اپنے بستر پر چلا آیا۔ سوچوں نے مجھے گھیر لیا تھا۔ اسد کی امی نے اسے ایک بہت خوب صورت خواب دکھایا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اس خواب کی تعبیر ممکن نہیں تھی۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ خواب ٹوٹتے ہیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ مجھے اسد کو تکلیف سے بچانا تھا۔ اب میں بھی سونے کے لیے لیٹ گیا تھا مگر میں نے اپنے دل میں ارادہ کرلیا کہ میں اسد کا خواب ٹوٹنے نہیں دوں گا۔
پھر نئے دن کا آغاز ہوا۔ میں نے پہلی فرصت میں اسد کے خواب کو تعبیر تک پہنچانے کی تیاری کر لی تھی۔ میرے گھر کے افراد حیرت میں تھے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ جو اشیا میں اپنے ساتھ لے کر آیا تھا، ان کے مطابق ان چیزوں کی ضرورت کی کیا تھی مگر میں جو بات جانتا تھا، وہ نہیں جانتے تھے۔ میں تو بس ایک معصوم سے بچے کو خوشی دینا چاہتا تھا۔ اس کے لیے چاہے مجھے کچھ بھی کرنا پڑتا، میں تیار تھا۔
رات پھر آئی۔ میں دیوار کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ اسد جوشیلی آواز میں اپنی امی سے پوچھ رہا تھا۔
”امی جان! سانتا کلاز آئے گا نا؟“
”ضرور آئے گا بیٹا!“ میں امی کی آواز میں الجھن محسوس کر رہا تھا۔ میں نے دعا مانگی تھی۔
”میں جانتا ہوں سانتا ضرور آئے گا۔“ اسد بہت مسرور تھا۔ پھر وہ سو گیا۔ فضا میں خاموشی تھی۔ اسد کے امی ابو جاگ رہے تھے مگر اب شاید ان کے پاس بات کرنے کے لیے کوئی بات موجود نہیں تھی۔ انھیں تو بس ایک غم نے بے زبان کردیا تھا کہ کل کرسمس کی رات ان کے گھر خوشیوں کی روشنی لے کر آئے گی یا پھر غموں کا اندھیرا۔
رات گزری تھی، پھر دن بھی گزر گیا۔ کرسمس کی رات آپہنچی تھی۔ اسد کی خوشی بھری چہکار میرے گھر تک آ رہی تھی۔ اسے کسی کا انتظار تھا۔ یہ انتظار اسے سونے نہیں دے رہا تھا۔ میں محسوس کر سکتا تھا کہ اس وقت اسد کے والدین ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے ہوں گے۔ جب رات کے ٹھیک بارہ بجے تو میں چپکے سے اپنے گھر کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ ساتھ ہی تو اسد کے گھر کا دروازہ تھا۔ میں نے آہستگی کے ساتھ گھر کے دروازے پر دستک دی۔
”سانتا آ گیا!“ اسد کی جوش بھری آواز میرے کانوں سے ٹکرائی تھی۔ اسد نے دروازہ کھول دیا۔
”ہا…ہا…ہا…“ اب میں سانتا کلاز کے لباس میں موجود تھا۔ سرخ رنگ کے کپڑے، نقلی سفید داڑھی، سر پر سرخ رنگ کی لمبوتری سی ٹوپی اور کندھے پر تھیلا… اسد تو میری ٹانگوں سے لپٹ گیا تھا۔
”میرے بچے! تمھیں کیا چاہیے؟“ میں آواز بدل کر بولا تھا۔
”کیا آپ نہیں جانتے؟“ وہ شوخی سے بولا۔
”جانتا ہوں… جانتا ہوں… چلو پھر آنکھیں بند کرو اور جب تک میں آواز نہ دوں آنکھیں نہ کھولنا۔“
اسد نے فوراً ہی دبا کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔ میں لپک کر اپنے گھر سے بچوں والی ریس والی سائیکل اٹھا لایا تھا۔
”اب تم آنکھیں کھول سکتے ہو۔“ میری آواز سن کر اسد نے آنکھیں کھولیں اور پھر نئی نویلی سائیکل دیکھ کر وہ خوشی سے ناچنے لگا۔ اسے خوش دیکھ کر نہ جانے کیوں میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
”اب گھر جاؤ اور اندر سے دروازہ بند کر لو۔“ وہ خوشی سے میری ٹانگوں سے لپٹ گیا۔
”شکریہ دوست!“ وہ مسرت سے بولا تھا۔
”جاؤ!“
وہ فوراً ہی سائیکل دھکیلتے ہوئے اندر چلا گیا تھا اور میں اپنے گھر آ گیا۔ ابھی میں ٹوپی اور نقلی داڑھی اتار ہی رہا تھا کہ میرے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ابھی تو مجھے اپنا لباس بدلنے کا وقت بھی نہیں ملا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے اسد کی امی کھڑی تھیں۔ انھوں نے شاید دروازے کی اوٹ سے مجھے دیکھ لیا تھا اور پہچان بھی لیا تھا۔ پھر ان کے ہونٹ تھرتھرائے۔
”شش…شکریہ۔“ ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپا ٹپ گرنے لگے تھے۔ میرا ضبط بھی ٹوٹ رہا تھا۔ پھر اسد کی امی واپس لوٹ گئیں۔ میں پلٹا تو سامنے میری بیوی کھڑی تھی۔
”میں نے اچھا کیا نا؟“ میرا لہجہ سوالیہ تھا۔آنکھوں کے سامنے موجود منظر دھندلا رہا تھا۔
”ہاں! بہت اچھا کیا۔“ وہ مسکرا رہی تھی اور میں سن رہا تھا، اسد کی کلکاریاں میرے کانوں تک پہنچ رہی تھیں۔
” ہیپی کرسمس… ہیپی کرسمس…“
……٭……٭……