گڑیا کا گبلو ___ تنزیلہ احمد

معمول کے مطابق دوپہر کے وقت اسکول سے گھر آتے ہی گڑیا نے بستہ کمرے میں مخصوص جگہ پر رکھنے کے بعد باورچی خانے میں جھانکا تھا۔
”السلام علیکم امی!“
”وعلیکم السلام بچے! کیسا گزرا دن؟“ امی نے ہنڈیا میں چمچ چلاتے ہوئے مسکرتے ہوئے پوچھا۔
”بہت اچھا!“ ماں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ وہیں بیٹھ کر پانی پینے لگی تھی۔
”اچھا جاؤ، کپڑے بدلو۔ کھانا بس تیار ہونے والا ہے۔“
”جی اچھا!“کہہ کر اپنے کمرے میں جانے کی بجائے وہ صحن کی طرف چلی آئی۔
میرا پیارا گبلو ہے
اچھا پیارا گبلو ہے
گنگناتے ہوئے وہ صحن کی بیرونی دیوار کے ساتھ بنے جالی دار ڈربے تک جا پہنچی تھی۔ جہاں اس کا اچھا پیارا گبلو آرام کر رہا تھا۔ اس نے جھٹ سے گول مٹول اور نرم و نازک سے گبلو کو اٹھا کر اپنے ساتھ لگا لیا۔
”کیسے ہو گبلو؟ پتا ہے اسکول میں بھی میں نے تمھیں بہت مس کیا۔“ اسے گود میں بٹھائے وہ دن بھر کی رودادا سنانے لگ گئی تھی۔ باورچی خانے کی کھڑکی سے امی کی اس پر نظر پڑی تو انھوں نے سر پیٹا۔
”او ہو، گڑیا! یہ کیا کر رہی ہو؟ سارا یونیفارم گندا کر لیا۔ ابھی کل تو دھویا تھا۔ کہا بھی تھا کہ پہلے کپڑے بدلو۔“
ماں کے ڈپٹنے پر وہ ہڑبڑا کر اٹھی، گبلو کو اس کے گھر میں چھوڑا، کپڑوں پر لگی مٹی جھاڑی اور کپڑے بدلنے کے لیے چپکے سے اپنے کمرے کی جانب بھاگی۔
٭
گڑیا نو برس کی اچھی اور پیاری سی بچی تھی۔ اصل نام تو اس کا آنیہ تھا پر سب اسے پیار سے گڑیا پکارتے۔ وہ درجہ چہارم کی طالبہ تھی۔ گبلو گڑیا کا پالتو اور لاڈلا خرگوش تھا جو اسے دادا جان نے اپنے کسی دوست کے گھر سے لا کر دیا تھا جب وہ بہت چھوٹا سا تھا۔ گبلو کے ساتھ کھیلتے، اس کا خیال رکھتے وہ اس سے مانوس ہوتی چلی گئی اور گبلو بڑا ہوتا گیا۔ اب وہ ننھا منا سا خرگوش نہیں بلکہ خوب پلا ہوا موٹا تازہ گبلو بن چکا تھا۔
ایک روز اپنی دوستوں کے ساتھ وہ صحن میں پکڑم پکڑائی کھیل رہی تھی اور گبلو بھی اس کے ساتھ آگے پیچھے اچھل اچھل کر خوش ہو رہا تھا۔ کئی بار ایک دوسرے کو چھوڑ کر وہ کھلکھلاتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگنے لگتیں۔ جو انھیں اپنی طرف بڑھتا دیکھ بڑی بڑی چھلانگیں لگانے لگتا۔ پورے صحن میں ان کے قہقہے گونج رہے تھے۔
امی برآمدے میں بیٹھی سبزی بنا رہی تھیں۔ گڑیا بھاگ کر ان کے پاس سے تازہ سرخ گاجر اٹھا لائی اور اسے دکھا کر گنگنانے لگی:
گبلو گاجر کھاتا ہے
آنکھیں گول گھماتا ہے
”دیکھنا کہیں تم سب کے پاؤں کے نیچے آ کر اس کا کچومر نہ نکل جائے۔“ ان کے گھر میں داخل ہوتی مینا باجی نے ہنستے ہوئے کہا تو اسے ان کی بات بہت بری لگی۔ ایک دم سے اس کا موڈ خراب ہو گیا تھا۔
”اللہ نہ کرے اس کا کچومر نکلے۔ آپ کی کسی چیز کا کچومر نکلے۔“ گڑیا نے غصے سے دو بدو جواب دیا تو اس کی امی اور مینا باجی اسے حیرانی سے دیکھنے لگیں۔ مینا باجی ان کی ہمسائی اور اس سے چار پانچ برس بڑی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں موجود ٹرے سے ظاہر تھا کہ وہ کچھ دینے کے لیے آئی ہیں۔
”کتنی بری بات ہے گڑیا۔ مینا نے مذاق سے کہا تھا۔ بڑوں کو ایسے نہیں کہتے۔ چلو سوری بولو!“
مگر وہ ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اندر بھاگ گئی تھی۔ گبلو کو کچھ ہو جانے کی بات سننا اسے ہرگز گوارہ نہ تھا۔
اس روز کے بعد سے وہ مینا باجی سے خفا خفا سی رہنے لگی تھی۔ نہ ان سے ہنس کر بات کرتی، نہ ان کے گھر جاتی اور نہ ہی انھیں سلام کرتی۔ اس طرح کئی دن گزر گئے تھے۔
٭
امتحان ختم ہونے کے بعد گڑیا کے اسکول میں چھٹیاں تھیں۔ وہ اپنی نانو کے گھر جانے کے لیے خوب اچھے سے تیار ہوئی تھی۔ پھولوں والی صاف ستھری فراک پہنے، بالوں کی اونچی پونی کیے اور ہئیر بینڈ لگائے وہ صحن میں گبلو کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔ ڈاکیا انکل ابو کے نام کا ایک پارسل دینے آئے تھے۔ اس نے گبلو کو صحن میں چھوڑا اور انکل سے پارسل لے کر امی کو کمرے میں دینے چل دی۔
تھوڑی دیر گزرنے کے بعد اسے باہر سے شور کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ وہ حیران ہوتی باہر کو بھاگی۔ صحن اور ڈربے میں گبلو کو نہ پا کر اس کی حیرانی پریشانی میں بدل گئی تھی۔ فٹافٹ گھر سے باہر بھاگی اور وہاں کا منظر دیکھ کر اس کا چھوٹا سا دل سہم گیا۔ مٹی سے اٹے گبلو کو مینا باجی نے تھام رکھا تھا۔
ڈر کے مارے نڈھال ہوئے گبلو کو اس نے فوراً اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر چمکارا۔ پاس ہی مینا باجی کھڑی تھیں۔ انھوں نے کالج کا سفید یونیفارم پہنا ہوا تھا۔ کتابوں سے بھرا بیگ کندھے پر ڈال رکھا تھا۔ کچھ ہی دور کیاری کے پاس ایک بڑا سا بلا بھوکی نظروں سے گبلو کو دیکھے جا رہا تھا۔
بے دھیانی میں گڑیا سے گھر کا بیرونی دروازہ کھلا رہ گیا تھا۔ وہ اندر آئی تو گبلو باہر گلی میں نکل گیا جسے شکار سمجھ کر بڑے بلے نے حملہ کر دیا۔ کالج سے واپس آتی مینا باجی نے عین وقت پر گبلو کو بچایا اور بلے کو مار بھگایا تھا۔
گڑیا نے شکر گزاری کی نظروں سے مینا باجی کو دیکھا۔ اسے شرمندگی ہو رہی تھی کہ وہ خوامخواہ ان سے خفا رہی۔ مگر انھیں اس کا اور اس کے پالتو جانور کا کتنا خیال کیا تھا۔
مینا باجی مسکراتے ہوئے اسے گبلو کو پیار کرتے دیکھ کر سوچ رہی تھیں کہ ”شکر ہے کہ میں وقت پر پہنچ گئی اور اللہ نے مجھے گبلو کو کچومر بننے سے بچانے کا موقع دیا… الحمدللہ!“

Leave a Comment