حادثہ جان لیوا تھا۔ اس کی آنکھیں بند ہوئیں تو سب کی آنکھیں کھل گئیں۔ زندگی میں اسے اتنا عزت و احترام نہیں ملا تھاجتنا اسے مرنے کے بعد مل رہا تھا۔ یہ بات ابلیس کو گوارا نہیں تھی۔ وہ تو پہلے ہی ابلیس سے’غداری‘کر چکا تھا،تب سے ابلیس کا دل جلتا تھا۔ وہ وقفے وقفے سے اپنے چیلے چانٹوں کے ذریعے اس پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا مگر ہربار رسوائی اس کا مقدر بنتی۔ اب بعد از موت اس کی پذیرائی دیکھ کر ’آگ‘کو’آگ‘لگ رہی تھی۔ اب ابلیس نے اپنی مجلس شوریٰ کا اجلاس بلایا۔ سب سر جوڑ کر بیٹھے۔ ایک چیلے کی ترکیب ابلیس کو سب سے زیادہ پسند آئی۔وہ خوش ہوکر بولا،
”اے اولادِ ابلیس…! کام پر لگ جاؤ اور اپنا مقصد حاصل کرو….!“ابلیس کی اولاد کام پر لگ گئی۔ اب اس’غدار‘کے’نقش پا‘ کی تلاش ہو رہی تھی….پھر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر چرچا ہونے لگا…،
”وہ’غدار‘گانے گاتا تھا….!“
”وہ’غدار‘ڈانس کرتا تھا….!“
”وہ’غدار‘مخلوط محفلوں میں آتا جاتا تھا….!“ ابلیس اپنے چیلوں کے کام پر بہت خوش ہورہا تھا۔ اسے پکا یقین تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گا۔رات کا وقت تھا، مخلوقِ خدا کی رائے جاننے کے لیے وہ چپکے سے لوگوں کے گھروں میں داخل ہوا۔
”آفرین ہے اس پر…! جس نے زندگی کے ہر’لطف‘کو ٹھوکر مار دی….!“
”آفرین ہے اس پر…! جس نے جوانی میں توبہ کر لی….!“
”آفرین ہے اس پر…! جس نے دنیا کے مقابلے میں اپنے لیے آخرت کی سعادت کو پسند کیا….!“
مخلوقِ خدا کی رائے سن کر ابلیس کو صدمے سے ہی آگ لگ گئی۔وہ چیختے چلاتے دسمبر کی دھند میں غائب ہوگیا….!