سوال:فیچر کی مختلف اصناف پر روشنی ڈالیں۔ نیز فیچر نویس کے پیشہ ورانہ اوصاف بیان کریں۔

جواب: فیچر نگاری:

عام فہم معنی میں فیچر کا لفظ کسی چیز کے نمایاں نقوش، شکل و صورت کے خاص پہلوؤں،اہم خدوخال یا وضع قطع، چیدہ چیدہ خصوصیات اور امتیازی خواص کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لغت کی بعض کتب میں اسے داستان نما مضمون، افسانوی طرز کے مضمونوں یا کم اہمیت کی خبروں کو دل چسپ بنانے کے لیے تفصیلی اور ڈرامائی تحریر کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

فیچر کی اصناف:


فیچر کی کئی قسمیں ہیں۔ صحافت کے اساتذہ اور صحافیوں نے فیچر کی اقسام کے بارے میں اپنی اپنی آرا پیش کی ہیں۔ بعض آرا کے ساتھ اختلاف سے قطع نظر موضوعاتی لحاظ سے مندرجہ ذیل چند اہم اقسام ایسی ہیں، جن سے صحافیوں اور صحافت کے اساتذہ کی اکثریت متفق ہے۔

واقعاتی یا خبری فیچر:


اس میں کسی ایسی خبر یا واقعے کو مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے جو انسانی جزئیات اور احساسات اور عام دل چسپی کی حامل ہو۔

وضاحتی فیچر:


جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، اس فیچر میں وضاحت کا پہلو غالب ہوتا ہے اور قارئین کو کسی موضوع پر تفصیل کے ساتھ معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ قومی بچت حفظان صحت، ٹریفک کے قوانین وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔

سائنسی فیچر:


جوہری توانائی، خلانوردی، کمپیوٹر، انجینئرنگ، جدید طب، زرعی سائنس اور اسی طرح کے دوسرے موضوع سائنسی فیچر کے لیے وقف ہیں۔

سوانحی یا شخصی فیچر:


جو کسی نام ور شخصیت کی سوانح، اخلاق و کردار، تعلیمات اور فکر و عمل کے بارے میں لکھا جائے۔

تاریخی فیچر:


یہ فیچر عام طور پر کسی یادگار یوم یا واقعے کی بنیاد پر لکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی نئے واقعے یا دعویٰ کے حوالے سے بھی مختلف تاریخی حقائق کو اجاگر کرنے کے لیے فیچر لکھے جاتے ہیں۔

سماجی یا معاشرتی فیچر:


معاشرے کے مختلف پہلو اس فیچر کا موضوع بنتے ہیں مثلاً جرائم، انسانی، مشاغل، کارخانوں کے ھالات، درس گاہوں، تفریحات، دیہی زندگی، کھیتی باڑی، میلے اور تہوار نمائشیں وغیرہ۔

فیچر نویس کے اوصاف:


جس طرح موثر اور پرکشش فیچر میں بعض خصوصیات کا ہونا ضروری ہے اور جب تک یہ خوبیاں اور خصوصیات پیدا نہ ہوں، کوئی فیچر اپنے اندر مطلوبہ اثر پیدا نہیں کر سکتا۔ اسی طرح فیچر نگار میں بعض بنیادی اوصاف ہونے چاہئیں اگرچہ ریاضت مسلسل مشق اور تجربے سے فیچر لکھنے کا فن حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن فیچر لکھنے والے صحافیوں اور ادیبوں کو اپنے اندر بعض اہم خواص پیدا کرنے چاہئیں۔ انھیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے قارئین عام لوگ ہیں۔ اس لیے فیچر کی تحریر آسان، عام فہم اور سادہ ہونی چاہیے۔ فیچر نویس کے لیے ضروری ہے کہ وہ زودنویس ہو نہ ہو خوب نویس اور سادہ نویس ضرور ہو۔
فیچر میں کسی ایک نکتے، واقعے، بیان، شخصیت یا خبر کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے لکھنے والے کو ایک رپورٹر یا واقعہ نگار ہونا چاہیے۔ اس میں قوت مشاہدہ بدرجہ اتم موجود ہو اور وہ تجسس اور تحقیق کا جذبہ رکھتا ہو۔
رابرٹ رچرڈ لکھتا ہے:
فیچر نگار کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی تحریر کن لوگوں تک پہنچے گی۔ میری کامیابی کا راز ان لوگوں کے معاملات سے متعلق حساسیت کا شعور حاصل کر لینے میں ہے جن لوگوں میں، میں رہتا ہوں۔ اگر لکھنے والا مقامی واقعات اور رجحانات کا شعور رکھے اور بدلتی ہوئی آرا پر اس کی نظر ہو تو اس سے فیچر کے لہجہ اور مندرجات کے تعین میں مدد ملے گی۔ اس سے قارئین کا حلقہ بڑھے گا اور وہ معمولی واقعات پر بھی کامیاب فیچر لکھ سکے گا۔“

بنیادی صلاحیتیں:


فیچر کی کوئی سی بھی قسم ہو، مگر فیچر نگار کا ماہر ہونا ضروری ہے۔ اگر فیچر نگار میں بنیادی صلاحیتیں نہ ہوں یا وہ اوصاف نہ ہوں جو ایک فیچر نگار کے لیے لازمی ہیں تو پھر وہ اپنے فرائض بخوبی سرانجام نہیں دے سکتا۔ کسی بھی فیچر نگار کے لیے ضروری ہے کہ فیچر کی زبان و بیان پر عبور رکھتا ہو، کیونکہ فیچر کو سیدھے سادے انداز میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں فنکاری اور کلاکاری دکھانا ہوتی ہے۔ ایک اچھے فیچر کی پہلی خوبی فیچر کا عام فہم اور دلچسپ ہونا ہے۔ اس کا انحصار فیچر کے اسلوب، بے ساختگی، شستہ زبان پر ہے۔

وسیع مطالعہ:


فیچر نگار کا مطالعہ بے حد وسیع ہو۔ اچھی کتابوں اور رپورٹوں کا مطالعہ انسان کے ذہنی افق کو بھی وسیع کردیتا ہے۔ آپ خود سوچیں اگر فیچرنگار کا مطالعہ زیادہ نہیں ہوگا تو پھر وہ کس طرح فیچر میں مختلف چیزیں، الفاظ کا انبار اور علم کے موتی اکٹھے کرسکے گا۔ اسی طرح فیچر نگار میں تخلیقی صلاحیتوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اور تخلیقی صلاحیتوں کو مزید بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ مسلسل محنت، مطالعے اور مشق سے تحریر میں چاشنی، دلکشی، روانی اور حسن پیدا کیا جاسکتا ہے۔

متوازن شخصیت:


عمومی طور پر فیچر نگار میں یہ صفات ہونی چاہییں۔ فیچر نگار کی شخصیت متوازن ہو، اعتدال پسند ہو۔ قومی اور ملکی تقاضوں کا شعور رکھتا ہو۔ انٹرویو کے فن سے واقفیت رکھتا ہو، تخلیقی اور فنی صلاحیت کا حامل ہو، حالات جانتا ہو، اچھا رپورٹر ہو، انسانی نفسیات کا مطالعہ رکھتا ہو، مختلف اندازِ فکر سے سوچنے اور دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، جذبہ تجسس رکھتا ہو، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ عوام کی نفسیات کو جانتا ہو اور محنتی ہو۔ جو کام دیا جائے اس میں لیت و لعل سے کام نہ لیتا ہو۔

اخبار کی پالیسیوں سے واقفیت:


اپنے اخبار کی پالیسیوں سے واقف ہو، کیونکہ فیچر جتنا بھی عمدہ ہو اگر وہ اخبار کی پالیسی کو مدنظر رکھ کر نہیں لکھا گیا تو اخبار کی زینت نہیں بن سکے گا۔ اخبار کی پالیسیوں سے، اخبار کے ایڈیٹر کے مزاج سے لاعلمی کسی بھی فیچر نگار کی ناکامی کا سبب بن سکتی ہے، چنانچہ جس اخبار کے لیے فیچر لکھا جارہا ہے، اس کی پالیسیوں کو جاننا اور اس اخبار کے ایڈیٹر کے مزاج سے واقف ہونا نہایت ہی ضروری ہوتا ہے۔ اچھا فیچر نگار فیچر لکھنے سے پہلے فیچر کے موضوع پر اپنے ایڈیٹر یا صفحے کے انچارج سے مشورہ کرلیتا ہے۔
اخبارات خصوصاً میگزین میں فیچر کی اہمیت مسلّم ہے۔ فیچر کو صحافت کی ایک بڑی، مضبوط اور توانا قسم شمار کیا جاتا ہے۔ تمام بڑے اخبارات میں روزانہ اور ان کے سنڈے میگزین میں ہفتہ وار کئی کئی فیچر شائع ہوتے ہیں۔ فیچر کی اہمیت کی ایک وجہ قارئین کی نفسیات بھی ہیں۔ اکثر قارئین اور عوام بوجھل، خشک، مشکل، بوگس…وغیرہ تحریروں کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ چٹ پٹی خبریں اور فیچر نما تحریریں پسند کرتے ہیں، چنانچہ اخبار مالکان، ایڈیٹروں اور منتظمین کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اخبار میں عوام کی دلچسپی کی چیزیں لازمی طور پر شامل ہوں۔ دلچسپ اور معلو ماتی چیزوں میں فیچرز بھی آتے ہیں، کیونکہ فیچر کے معنی ہی کسی چیز کے نمایاں نقوش، شکل و صورت، وضع قطع، خدوخال اور چہرے مہرے کے ہیں۔ جرنلزم میں فیچر کا مطلب اور مفہوم کسی واقعے اور معاملے کی ایسی لفظی تصویر پیش کرنا ہے جس میں کسی حقیقت اور کیفیت کا اظہار ڈرامائی، افسانوی اور خوبصورت انداز میں کیا گیا ہو۔
فیچر کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود صحافت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ”اردو صحافت“ میں فیچر کا لفظ انگلش سے آیا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ مقبول سے مقبول تر ہوتا چلا گیا۔ اب کوئی اہم اخبار فیچر سے خالی نہیں ہوتا۔ فیچر کی اہمیت، فیچر کی تاریخ، فیچر کی اقسام کے بعد اب فیچر کے عناصر، لوازم اور ساخت کے بارے میں بھی مختصراً جان لیں۔ فیچر کے کئی مختلف حصے ہوتے ہیں۔ ہر حصے کے کچھ فنی تقاضے ہوتے ہیں۔ ان کو پورا کرنا یا ان کے قریب قریب رہ کر لکھنا ہوتا ہے، ورنہ کچھ کا کچھ ہی بن جاتا ہے۔
فیچر کے پہلے حصے کو ابتدائیہ اور ”انٹرو“ (Intro) کہا جاتا ہے۔ فیچر کا یہ حصہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ فیچر کے ابتدائیے میں اصل بات اور بنیادی چیز اس کا پرکشش، دلکش اور جاذب نظر ہونا ضروری ہے۔ ابتدائیہ اچھا، انوکھا اور اچھوتا ہونا چاہیے۔ غیرروایتی ابتدائیے کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی شعر بھی ہوسکتا ہے اور کوئی حکایت بھی، کوئی واقعہ بھی ہوسکتا ہے اور کوئی کہاوت بھی، کوئی چونکا دینے والا لفظ بھی ہوسکتا ہے اور کوئی سوال بھی، کوئی ڈرامائی انداز بھی ہوسکتا ہے اور کوئی علامتی بیان بھی…اس کے لیے کوئی جچاتلا اصول و قاعدہ نہیں ہے۔

فیچر کا انٹرو:


فیچر کا عمدہ انٹرو (Intro) اسے قرار دیا جاتا ہے جس میں انسانی نفسیات، احساسات اور جذبات کو اپیل اور مہمیز دینے والاکوئی عنصر پایا جاتا ہو۔ مثال کے طور پر ”اُچے برج لاہور دے“ کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک تاریخی فیچر کا ابتدائیہ یوں ہے: ”لاہور کے شمال میں ایک بلند وبالا اور فیل پیکر دیواروں کا سلسلہ ایستادہ ہے۔ ان دیواروں کی بلندیوں پر کہیں کہیں مغلئی محرابیں اور امتداد زمانہ کے ہاتھوں مجروح بالکونیاں نظر آتی ہیں۔ زمانہ وسطیٰ کی عمارت سازی کا یہ نادر نمونہ عرف عام میں ”لاہور کا شاہی قلعہ“ کہلاتا ہے۔“
فیچر کے دوسرے حصے میں جس موضوع پر فیچر لکھا جارہا ہے، اس کا تعارف، پس منظر، پیش منظر وغیرہ ذکر کرنے کے بعد اپنی تحقیق، اعدادو شمار اور حقائق کو ہلکے پھلے انداز میں بیان کرنا ہوتا ہے۔ اس دوسرے حصے میں ہی فیچر کے پورے مسئلے کو بیان کرنا ہوتا ہے۔ اس کو بیان کرنے کے لیے مکالمہ، حکایتی، واقعاتی، کہانی، خاکہ، ڈرامہ…. کوئی بھی طریقہ اور اسلوب اختیار کرسکتے ہیں، اس پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ فیچر کے تیسرے حصے میں فیچر کے موضوع پر دلائل دے کر اپنا مدعا ثابت کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے، جبکہ فیچر کے آخری حصے میں فیچر کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے فیچر کوا ختتام اور ”وائنڈ اپ“ (Wind up) کی طرف اس طرح لے جایا جاتا ہے کہ پڑھنے والا اس سے کوئی سبق حاصل کرے۔ قاری کے ذہن پر غیرمحسوس طریقے سے ایک اچھا تاثر چھوڑا جاتا ہے۔

اپنا اسلوب:


کامیاب فیچر نگار وہ ہے جس کا اپنا اسلوب ہو۔ دنیا کے نام ور فیچر نگار اپنے اسلوب اور اسٹائل سے پہچانے جاتے ہیں۔ بہترین تحریریں بھی اپنا تشخص رکھتی ہیں۔ ہر فیچر نگار کو چاہیے کہ وہ اپنے قلم کو منفرد انداز میں رواں کرے۔ اخبارات اور رسائل میں چھپنے والی بے شمار تحریریں ایسی ہیں جو اپنے انداز اور سٹائل کی وجہ سے پڑھی جاتی ہیں۔

ادب کا رنگ:


نذیر احمد خان نے فیچر نگار کے لیے بعض اہم خواص تجویز کیے ہیں، ان کا کہنا ہے:
فیچر میں جب تک ادب کا رنگ نہ جھلکے، اس وقت تک اس میں کشش پیدا نہیں ہوتی۔ ادبی چاشنی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اچھے اسالیب والے ادبا اور شعرا کا مطالعہ کیا جائے۔“

Leave a Comment