الیکشن کمیشن کی جانب سے انتہائی کم اعزازیئے پر اعتراض کرتے ہوئے محکمہ تعلیم کے بیشتر عملے نے مستقبل میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے تعاون کرنے سے انکار کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے محکمہ تعلیم بلدیات کے تدریسی اور غیر تدریسی عملے سے 55 روز تک ووٹر لسٹوں کا تصدیقی عمل اس وقت شروع کروایا جب اسکولوں میں امتحانات کا آغاز ہوچکا تھا۔ اساتذہ نے ابتداءمیں اپنے اپنے اسکول میں امتحانات بھی لیے اور رات گئے تک گھر گھر تصدیقی عمل کا حصہ بھی بنے رہے۔ امتحانات ختم ہونے کے بعد باقاعدہ صبح سے شام گھر گھر جاکر اپنا کام مکمل کیا۔ اس کام کیلئے اساتذہ نے در در جاکر لوگوں کی جھڑکیاں بھی سنیں، اپنا پٹرول اور بازار سے کھانے پینے پر اخراجات بھی برداشت کیے۔ اب جبکہ تصدیقی عمل مکمل ہوئے تین ماہ سے زیادہ ہوچکے ہیں تو ایڈیشنل ڈائریکٹر بجٹ تفاخر علی اسدی نے 12 مئی کو لیٹر جاری کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ دیگر اداروں کے جو ملازمین اس کام کا حصہ بنے انہیں مئی 2022ءکے پے رول کے مطابق اعزازیہ ادا کیا جائے گا۔ بعد ازاں یہی لیٹر 16 مئی کو ڈپٹی ڈائریکٹر بجٹ نے ضروری عملدرآمد کیلئے صوبہ سندھ کے تمام ریجنل الیکشن کمشنر اور ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو ارسال کیا ۔ اس لیٹر کے ذریعے تمام اے آر او، سپروائزرز اور ویریفائنگ آفیشلز کا تخمینہ مانگا گیا ہے۔ اس کے ساتھ منسلک چارٹ میں اے آر او کیلئے 20 ہزار، سپروائزر کیلئے 18 ہزار اور ویریفائنگ آفیشلز کیلئے 15 ہزار کا بجٹ رکھا گیا ہے یعنی اس عمل کو ہونے کے 3 ماہ بعد ابھی بجٹ کا تخمینہ مانگا جارہا ہے۔ محکمہ تعلیم بلدیات کے تدریسی اور غیر تدریسی عملے نے ویریفائنگ آفیشلز کے طور پر 55 روز تک صبح سے شام گھر گھر جاکر اپنا کام مکمل کیا۔ اس کام کیلئے اساتذہ نے در در جاکر لوگوں کی جھڑکیاں بھی سنیں اور جب انہیں اعزازیہ دینے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تو وہ بھی صرف 15 ہزار، اس رقم کو 55 دنوں سے تقسیم کیا جائے تو یومیہ 272 روپے ادا کیے جارہے ہیں جو اساتذہ کی سراسر توہین ہے۔ اساتذہ کو مزدور تو کیا شاید فقیر ہی سمجھ لیا گیا ہے۔ اس سے کئی گناہ زیادہ اخراجات ٹی اے ڈی اے کی مد میں اساتذہ نے اپنی جیب سے خرچ کیے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گریڈ ایک تا 17 کے اپنے تمام ملازمین کو عیدالفطر پر فی کس 50 ہزار اعزازیہ ادا کردیا مگر اساتذہ کے اعزازیہ میں بہت ناانصافی سے کام لیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے تو مزدور کی کم از کم ماہوار تنخواہ 25 ہزار مقرر کی ہے اس لحاظ سے ہی اساتذہ کو اعزازیہ ادا کردیا جائے۔اس صورتحال سے مایوس ہوکر اساتذہ نے مستقبل میں الیکشن کمیشن کے اس تصدیقی عمل کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان، چیف الیکشن کمشنر اور دیگر متعلقہ افسران اتنے کم اعزازیہ ادا کرنے کا نوٹس لیں۔