شاعرہ:شہلا خان
دھوپ ڈھل جائے گی تصویر کو پھیکا کرکے
لوگ پچھتائیں گے رنگوں پہ بھروسا کرکے
اسنے پھر خواب دکھایا ہے کئی اندھوں کو
اب مکر جائے گا تعبیر کا وعدہ کر کے
گو ملاقات نہیں ہوتی مہینوں اس سے
میں علیحدہ بھی نہیں ہوتی ہوں جھگڑا کرکے
اسی اترن کے بہت لوگ طلب گار ملے
سر سے مشکل کو اتارا جسے صدقہ کرکے
کل تلک بات بھی کرنے کے روادار نہ تھے
آج ملتے ہیں وہی یاری کا دعویٰ کرکے
راس آتا نہیں پہناوا ہمیں خوشیوں کا
ہم اداسی کو اوڑھیں گے لبادہ کر کے
اور آنکھوں سے تکلم بھی کیا کرتا ہے
بات کر لیتا ہے وہ لہجے کو دھیما کرکے