دیوان خانہ

افسانہ نگار: ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری

بیگم نادر نے اطمینان سے دیوان خانہ کا جائزہ لیا اور پھر گھڑی کی طرف دیکھا۔ کوئی آن میں مہمانوں کی آمد شروع ہو جائے گی۔ ایرانی قالین اور ریشمی پردوں کے سوئے ہوئے رنگ روشنی کی کرنوں میں جگا رہے تھے اور قد آور گلدانوں میں پھور حیرت زدہ بچوں کی طرح آنکھیں مچمچا رہے تھے۔ بیگم نے آبنوس کے نعمت خانہ سے ایک مردہ پروانہ کو انگلی کے ٹہوکے سے نیچے گرا دیا جو ایک اوندھے جام شراب پر ٹپک پڑا تھا۔ نعمت خانہ پر قرینے سے شراب کی بوتلیں اور گلاس چنے ہوئے تھے اور اس کے دائیں بائیں حوا کی بیٹیوں کے دو ننگے مجسمے پستان تانے کھڑے تھے۔
بیگم نادر نے دل ہی دل میں سوچنا شروع کیا کہ مہمانوں کو کس ترتیب سے بٹھلایا جائے گا۔ کس کی بیوی کس کے شوہر کے ساتھ بیٹھے گی اور کون سی دوشیزہ کس کنوارے کے ساتھ۔ کیونکہ ان کے خیال کے مطابق میاں بیوی کا مستقل اتصال دونوں کے لیے وبال جان ہوتا ہے اور ضروری ہے کہ وقتاً فوقتاً ایک دوسرے سے جدا کر دیے جائیں۔ یوں بھی ان دنوں جب مردہ گوشت زندہ گوشت سے زیادہ مہنگا اور شراب خون سے زیادہ گراں تھی اتنی بڑی دعوت کا انتظام آسان امر نہ تھا۔
تاہم یہ تقریب ملتوی بھی نہ کی جاسکتی تھی۔ اگر بیگم نادر کی بڑی لڑکی فاخرہ نے والدین کی خوشی کی خاطر پہلے شوہر کو طلاق دے کر دوسرا بیاہ رچایا تھا تو سوسائٹی میں اس کا اہم امر کا اعلان ضروری تھا۔ علاوہ بریں ڈاکٹر نادر نے یہ جان لیا تھا کہ ان کی بن بیاہی بیٹیاں نئی دہلی کی سڑکوں پر دن دہاڑے جوبن چھڑکا کرتی ہیں اور ان کی ہر ادا کہتی ہے کہ اب ہماری نگہبانی کسی غیر مرد کے سپرد ہونا چاہیے۔ چنانچہ ڈاکٹر نادر نے اپنی بیوی کو ان شریف زادوں کے نام بتا دیے تھے جن کی نظر عنایت صاحب زادیوں پر ہے اور جن کے گھر اور آغوش ہنوز خالی تھے۔
ایک ایک کر کے مہمان آنے لگے اور ذرا ہی دیر میں دیوان خانہ کی یہ حالت ہوئی گویا چمن زار میں بھنوروں اور تتلیوں کا ہجوم ہو۔ میزبانوں نے باتوں باتوں میں اس ہوشیاری سے مردوں اور عورتوں کی تقسیم کر دی جو ان کی نکتہ رسی کی دلیل تھی اور ہر جسم نے ایک نئے جسم کی مہک اور ایک نئی آرزو کی کھنک محسوس کی۔
اسی وقت گیلری کا دروازہ کھلا اور اپنے نئے شوہر کپتان سلیم کے ہاتھ میں ہاتھ لیے دلہن دیوان خانہ میں داخل ہوئی۔ ان کی تعظیم میں سب اٹھ کھڑے ہوئے اور جب تک ہر طرف سے مبارک سلامت کی آوازیں آئیں بیگم نادر قدرے تاسف کے ساتھ فاخرہ کے اترے ہوئے چہرے کو دیکھتی رہیں اور اس کا مقابلہ سلمہ و نجمہ سے کرتی رہیں۔ جوانی ان دونوں کے جسم سے پھٹی پڑ رہی تھی لیکن فاخرہ کی مثال اس ہری بھری ٹہنی کی تھی جسے پالا مار گیا ہو۔ اس وقت بھی جب اس نے اپنی زندگی کے دوسرے باب کا ایک نیا عنوان قائم کیا تھا، وہ اپنے پہلے چاہنے والے کو بھول نہ سکی تھی جس نے زمانہ طالب علمی میں اسے محبت سے آشنا کیا تھا۔ والدین کے لاکھ منع کرنے پر بھی فاخرہ اس گرداب میں پھنس گئی اور اس نے بے سوچے سمجھے جمیل سے شادی کرلی۔ لیکن جمیل سیاسی کارکن تھا اور یہ شادی خاندان کی روایتوں اور مصلحتوں کے خلاف تھی۔ اس گھرانے جس کا شجرہ دراصل ایک جولاہے سے شروع ہوتا تھا، دو پشتوں میں تین خان صاحبوں اور نصف درجن سرکاری منصب داروں کو جنم دیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ان نودولتوں کی روایت میں تبدیلی ہوئی ہو۔ چناچہ انہوں نے اس بغاوت کو ہرگز معاف نہیں کیا۔ تاہم پہلے رومان میں اتنی کشش ہوتی ہے کہ فاخرہ خاندان اور سماج کی مخالفت کو سہہ گئی۔ اسے شکست تب ہوئی جب جنگ شروع ہوتے ہی ملک معظم کی حکومت نے جمیل کو حراست میں لے لیا۔ بیگم نادرہ کو گھر لے آئیں۔ تین سال بیت گئے، جمیل کو جیل میں تپ دق ہوگیا لیکن وہ امن عامہ کے لیے ایسا خطرہ عظیم تھا کہ اب بھی رہا نہ ہوا۔ رفتہ رفتہ رومان کی گرمی سردی پڑنے لگی اور خاندان نے ہر قسم کا دباؤ ڈال کر فاخرہ کو مجبور کر دیا کہ وہ جمیل کو طلاق دے کر اپنے چچا زاد بھائی سلیم سے شادی کرلے۔
وہ صوفے پر نڈہال پڑی ہوئی پھیکی مسکراہٹ اور جھوٹے دل سے مہمانوں کی مبارک بادی کا شکریہ ادا کر رہی تھی۔ نوکر کنٹروں سے شراب انڈیل انڈیل کر مہمانوں کو کھلا رہے تھے۔ ایک عجیب قسم کی بھنبھناہٹ فضا میں بکھر رہی تھی جس میں مردوں کے شہوانی قہقہوں کے ساتھ عورتوں کی دبی ہوئی چیخیں گھلی ملی تھیں اور ان کے لباس ہوں میں بسی ہوئی مریضانہ خوشبو ہوا کو کفنائے ہوئے تھی۔
مے نوشی کا پہلا دور اپنا کام کر چکا تھا۔ سب کی زبانوں اور ٹانگوں کے بندھن کھل گئے تھے۔ بڑی عمر کی عورتیں ایک طرف سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور ان کی تتلیاں چلاتے ہوئے اپنی بیتی ہوئی جوانی کی سوگوار یاد میں محو ہو گئیں۔ جوان عورتوں کو گھیر کر مرد کھڑے ہو گئے ان عورتوں کے لالہ گوں رخساروں اور بھیگے ہوئے ہونٹوں پر ان کی آنکھیں گڑی ہوئی تھیں اور عورتیں لومڑیوں کی طرح کھلکھلا رہی تھیں۔
گو گفتگو کے موضوع مختلف تھے لیکن گھوم پھر سب کی تان موٹاپے پر ٹوٹتی تھی۔ محسوس ہوتا تھا کہ موٹاپا کوئی وبا ہے جو سوسائٹی میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں۔
بیگم نادر نے کف افسوس مل کر کہا:
” میں تو ورزش بھی کرتی ہوں۔ کھانے میں ہر طرح کی احتیاط برتتی ہوں لیکن موا جسم ہے کہ ہرسال پھیلتا ہی جاتا ہے۔“ مسز نوٹ والہ نے، جو قامت میں کسی پنجابی دنبی سے کم نہ تھیں، رشک آمیز لہجے میں کہا۔ ” بہن آپ کی شکایت بے جا ہے، ہمارے مقابلہ میں تو آپ کا جسم پھول ہے۔“
بیگم نادر نے یوں ہی بنتے ہوئے کہا:
” آپ تو بنا رہی ہیں۔ نیچے سے دیکھیے چوڑی پڑ گئی ہوں یا نہیں۔“
دراصل ان کے کولہے چکی کے دو پاٹوں کی طرح گردش کر رہے تھے۔ بیگم نادر نے یہ بات اپنائیت میں کہی تھی اور یہ مقصود نہ تھا کہ کوئی مرد اسے سنے لیکن اتفاق سے اس کی بھنک داور بخش کے کانوں تک پہنچی اور انہوں نے اپنے گنجے سر کو جھکا کر بانکپن سے کہا:
”بیگم صاحبہ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ میں نے آپ کا جسم اب تک نہیں دیکھا۔“
داور بخش کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہو گی۔ان کا ڈیل ڈول اس قدر بھاری بھرکم تھا کہ اگر وہ چاروں ہاتھ پاؤں سے چلنے لگتے تو یقیناً اس سانڈ کا گمان ہوتا جس پر تصویروں میں مہا دیو جی بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ چہرے اور سر پر ایک بال نہ تھا اور ان پر گھنی گھنی کالی بھوؤں نے عجیب کیفیت پیدا کر دی تھی گویا لق و دق میدان میں کسی کوے نے پر پھیلا دیے ہوں۔
بیگم نادر کو فوراً اخباروں کی یہ قیاس آرائی یاد آئی کہ داور بخش وائسرائے کی کونسل کے ممبر ہو سکتے ہیں۔ اب بھی اگر وہ چاہیں تو نئی بستی کی زمین کا بہت بڑا خطہ کوڑیوں کے دام دلوا سکتے ہیں۔ ان سب باتوں کا حساب لگا کر بیگم نادر کے جسم کی چالیس پت جھڑوں نے انگڑائی لی اور ان کی آنکھوں میں ایک ایسی مستیاں گی جو واقعی قابل غور تھی۔ بیگم نے اپنے مہمان کا بازو تھام کر کہا:
” کیوں نہ ہو آپ کی دربار داری تو مشہور ہے۔“
داور بخش کی موٹی کھال پر سرسری سی ہونے لگی اور گلابی جاڑے کے باوجود ان کی کنپٹی گرما گئی۔
بیگم نے ان کی کہنی کا مس اپنے سینے کے ساحل پر محسوس کیا اور انہیں لیے ہوئے کھانے کے کمرے میں چلی گئی۔ جہاں سب لوگ میز کے آس پاس بیٹھ چکے تھے۔ کھانے کے دوران میں داور بخش کا گھٹنا جو کسی جاٹ کے لٹھ سے کم توانا نہ تھا بیگم نادر کی ران سے باز پرس کرتا رہا۔ مردوں کی رازدارانہ سرگوشی کے جواب میں عورتیں اوئی نوج کہتی رہیں اور نوالوں کے ساتھ چبنے سے ایک قسم کی چپڑقناتی آواز آتی گئی۔ مرغ، مچھلی، انڈے اور کریم کے مختلف پکوانوں کو ان سب نے سیر ہو کر کھایا جو ابھی ابھی موٹاپے کا رونا رو رہے تھے اور ان کے اجسام کے اندر آن کی آن میں چربی کی نئی تہیں چڑھ گئیں۔
اس دوران میں کسی کم اندیش نے بنگال کے قحط کا قصہ چھیڑ دیا اور پس منظر میں بھوک سے تڑپتے ہوئے انسانوں کی نیم جان لاشوں کو گدھ اور کوے نوچ رہے تھے۔ لیکن یہ گفتگو کہہ کے حالات سے تعلق نہ رکھتی تھی بلکہ گاندھی بینک کے ڈائریکٹر سیٹھ بالک رام بیان کر رہے تھے کہ کس طرح انہوں نے ایک لاکھ من چاول خرید کر گودام میں بند کر دیا اور بعد میں اسے چوگنی قیمت پر فروخت کیا۔
”کچھ مدت اور انتظار کرتا تو زیادہ دام ملتے مگر بھوکوں کی پکار سنی نہ گئی۔“ نجمہ نے منہ بنا کر کہا۔ ”کلکتہ میں یہ کرسمس اتنا برا گزرا۔ جدھر دیکھو بھکاری، بھوکے اور بیمار! مجھے تو ہر قدم پر اُبکائی آتی تھی۔“
وہسکی کے چار پیگ بھی کر دولہا کا سر چکرا گیا اور اس نے دانستہ یا نادانستہ (کسی کی نیت کا حال کیا معلوم) فاخرہ کے بجائے اس کی چھوٹی بہن نجمہ کی کمر میں ہاتھ ڈال دیا تھا۔ نجمہ دل ہی دل میں لذت حاصل کرتے ہوئے کن انکھیوں سے مسٹر سید آئی سی ایس کے ردعمل کا مطالعہ کر رہی تھی جو اسے دیر سے چاہتے تھے لیکن شادی کے نام سے کتراتے تھے۔ ان کا مقولہ تھا کہ جب دودھ بازار میں مل سکتا ہے تو گھر میں گائے کیوں باندھی جائے۔ اپنی والدہ کے مشورے پر آج نجمہ نے ان پر سارے حربے استعمال کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ اور اس مہم میں اس نے ایسی بلاؤز زیب تن کی تھی جو سینہ کے شمالی حصوں کے علاوہ پیٹ اور پیٹھ کی بھی نمائش کر رہی تھی۔ اور یوں گمان ہوتا تھا کہ اس کی جوانی نربدا ندی ہے جو سنگ مرمر کی چٹانوں میں اچھل کود رہی ہے۔
نجمہ کی چھوٹی بہن سلمہ کا کونہ اودھ کے نوجوان تعلقات دار امجد شاہ سنبھالے ہوئے تھے۔ کانٹے چھری کا استعمال ان کے لیے برچھی بھالے سے کم دشوار نہ تھا۔ اور ابھی ان کے ایک وار نے مرغ کی ٹانگ کو اچھال کر مسٹر نوٹ والہ کی لمبی ناک تک پہنچا دیا تھا۔ استاد میں ان کی موجودگی کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ بلا شرکت غیرے دس لاکھ روپیہ سالانہ آمدنی کی جائیداد کے مالک تھے۔ بیگم نادر نے یہ سوچ کر انہیں سلمہ کے پہلو میں جگہ دی تھی کہ دس لاکھ روپیہ کا وزن جہالت سے کہیں زیادہ ہے۔ اور اگر چول بیٹھ گئی تو وہ خاندان کے منیم کے فرائض بحسن و خوبی انجام دے سکیں گے۔ امجد شاہ نے مسٹر نوٹ والہ کی غضب آلود نگاہ سے آنکھیں چرا کر اپنی حسین ہمسایہ کو اردو کے کسی پرانے شاعر کا ایک شعر سنایا۔ جس کا مفہوم یہ تھا کہ اگر کلیم طور نہ جا کر تیرے قبہ نور کی سیر کرتا تو ارفی کے بجائے مر گیا، کا نعرہ لگاتا۔ امجد شاہ کو ایسے سینکڑوں شعر یاد تھے اور وہ موقع بہ موقع حسینوں کے سامنے ان کا ورد کر دیا کرتے تھے۔ ان کی مقبولیت کا دوسرا سبب یہ تھا کہ وہ جاننے والیوں کو باقاعدگی سے شکر کی بوریاں اور گھی کے ٹینوں کے پارسل بھیجا کرتے تھے اور عورتیں اتنی حقیقت پسند ہوتی ہیں کہ ان کو ایسے تحفے عاشقوں کے خون جگر سے زیادہ بھاتے ہیں۔
فاخرہ اداس آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھتی رہی اور اسے کوئی حیرت نہ ہوئی۔ وہ جانتی تھی کہ ان سب کی روح سونے کی سلاخوں سے دغی ہوئی ہے لیکن اسے اپنی روح کو خودکشی پر رونا آیا جو ایک دفعہ جاگ کر پھر خاندان کے مفدن میں سو گئی تھی۔ اس نے اپنے نئے شوہر کو یہ کہتے سنا:
”مجھے ڈورتھی لامور کا جسم بے انتہا پسند ہے…“
اور وہ سمجھ گئی کہ اگر پرانے زمانہ کی بیوی کی حیثیت لونڈی کی تھی تو اس زمانہ کی بیوی کی حیثیت ایک رکھیل کی سی ہے۔ جس کے شوہر کی محبت کا مرکز اس کے کولہوں کی تھرکن اور پنڈلیوں کی گولائی ہے۔
نجمہ کہہ رہی تھی:
”ڈورتھی لامور تو میری ہیروئن ہے۔“
اور فاخرہ بھانپ گئی کہ سلیم اور نجمہ کے درمیان ڈورتھی لامور کا تصور کٹنی کا کام کر رہا ہے۔ پھر اس نے اپنی ماں کو دیکھا جو باسی ہار کی طرح داور بخش کے گلے سے چمٹی جا رہی تھی۔ اس کی ڈھیلی رگوں میں تناؤ پیدا ہو گیا تھا اور وہ یوں ہانپ رہی تھی جیسے موسم بہار میں کتے کی قربت میں کتیا۔
گھن کے مارے فاخرہ کا جی متلانے لگا۔ جمیل کے تپ دق میں بھی کتنی شرافت تھی۔ کتنا خلوص تھا۔ اس کی روح اتنی بات تھی کہ آپ اپنے جعلی سے جھلس گئی اور اچانک جمیل کا یہ جملہ اس کے کانوں میں گونجا:
”فاخرہ دنیا اتنی مدت تاریکی میں رہی ہے کہ اب اس میں چمگادڑ کی خاصیت پیدا ہوگئی ہے۔ سورج سے اسے ڈر لگتا ہے اور اجالا پھیلانے والوں سے نفرت ہوتی ہے لیکن جس دل میں قندیل جل رہی ہو وہ کیا کرے۔“
میاں جمیل تم سچ کہتے تھے لیکن تم اپنی روشنی سے آپ جل گئے اور مجھ کوربین میں اتنی ہمت نہیں کہ تاریکی میں تنہا مشعل جلا سکوں۔
دفعتاً یہ سوال اس کے دماغ میں بجلی کی طرح دوڑ گیا کہ جمیل کو تپ دق کیسے ہوا۔ بلکہ وہ خود پر جھنجھلانے لگی کہ یہ سوال پہلے کیوں نہیں پوچھا۔ بہت ایک جرم بن کر کسی تندرست کہتے پڑھنے میں بیٹھ جاتی ہے اور کسی بھی گرفت میں نہیں آتا۔ قید خانوں کو تپ دق سے براہ راست تعلق نہیں۔ کوئی ضروری نہیں کہ ہر قیدی تپ دق کا مریض ہو جائے مگر ہر قیدی جمیل بھی نہیں ہوتا۔ ہر سینہ میں قندیل نہیں جلا کرتی۔
کھانا ختم ہو چکا تھا۔ شراب و کباب کا وزن اٹھائے ہوئے کچھ لوگ دیوان خانہ میںش کچھ سیر چمن کو اور کچھ اس کمرہ کی طرف چلے گئے جو ناچ گھر میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
گراموفون نے ٹینگو ناچ کی گت چھیڑی اور یک بیک امجد شاہ نے شراب کا گلاس ہوا میں ہلا کر اسی دھن پر یہ ترانہ چھیڑا۔
سینہ سے سینہ ملا…دل سے جگر…تن سے بدن، کمرہ قہقہوں اور تالیوں سے گونج اٹھا اور ناچنے والوں کے بدن ہولے ہولے مٹکنے لگے۔
دیوان خانہ کے ایک گوشہ میں چند مرد کھڑے ہو کر داور بخش کی زبانی وہ قصے سن رہے تھے جو ایسی محفلوں میں بعد از طعام چورن کا کام دیتے ہیں۔

Leave a Comment