مصنف:حسنین جمال
تبصرہ:محسن حیات شارف
کتاب اٹھائیں، پڑھنا شروع کریں اور پھر اچانک محسوس ہو کہ آپ لفظ پڑھ نہیں رہے بلکہ الفاظ سن رہے ہیں اور بیان کیے گئے منظر نامے دیکھ رہے ہیں۔ یہ احساس ہی کیسا خوشگوار اور سحر انگیز ہے۔
کہانی یا ناول پڑھتے ہوئے یہ کیفیت طاری ہونا تو معمول کی بات ہے لیکن کالم پڑھتے ہوئے کہی گئی باتوں کے سحر میں اس قدر گرفتار ہوجانے کا یہ پہلا تجربہ ہے۔ یہ بھی پہلی دفعہ ہوا کہ تخیل کی سپر سکرین پر بیک وقت دو منظر چل رہے تھے۔ حسنین جمال صاحب کو دو تین دفعہ سنا ہے تو ان کی کتاب پڑھتے ہوئے پہلا منظر تو یہی ابھر کر سامنے آتا ہے کہ حسنین بھائی یہ ساری باتیں سنا رہے ہیں۔ ان کے بولنے کا سٹائل ، ہاتھوں سے کی جانے والی گفتگو ، کسی بات کی طرف توجہ دلانے کے لیے آنکھوں اور ابروؤں کی جبنش اور پھر جیسے کسی خاص نکتے پر پہنچ کر مسکرانا…سچ تو یہ کہ اس کتاب کو میں نے پڑھا نہیں بلکہ سنا ہے اور دوسرا منظر میں وہ سب بھی ساتھ چلتا رہا کہ جو کچھ بتانا یا دکھانا مقصود تھا۔
یہ کہنے کو تو کالم ہیں لیکن یہ اصل میں کیا ہیں، کہانی یا داستان…ویسی ہی داستان کہ ہمارے بزرگ جب کسی خوشی یا غمی کے موقع پر اپنی یادوں کی پوٹلی سے کوئی واقعہ سناتے ہیں تو اچانک ہم خود کو بھی اسی جگہ اور اسی وقت میں موجود پاتے ہیں۔ اس کتاب میں بھی ایسی داستانیں بکھری ہوئی ہیں جو ہمیں اس زمانے میں پہنچا دیتی ہیں کہ جب سردیوں کی راتوں میں ٹرین کی سیٹی سنائی دیتی تھی، جہاں چائے گھونٹ گھونٹ پینے کے لیے وقت تھا ، محبت کا گھنا برگد تھا اور دادیوں، انہوں کی کہانیاں تھیں، بلیک اینڈ وائٹ تصویروں کا جادو تھا۔
اگر بات کی جائے کتاب کے انتساب کی، بیٹی آئلہ کے نام لکھے گئے خط کی، اپنی شریک حیات اوما کی سالگرہ پر لکھے گئے خط کی ، خوش نصیبی کی کہ زندگی کی پہلی تحریر اپنے ابا کے بارے میں لکھی، ایک بیٹے کے جذبات کی کہ وہ آخر ماں کے بارے میں کیوں نہ لکھ سکا ، ایک بھائی کی محبت کی کہ جو شکرگزار ہے کہ اس کا بھائی اس کے ساتھ ہے۔ یہ سب تحریریں سراسر محبت ہیں ، جذبات ہیں، احساسات ہیں۔ اس کتاب میں موجود میری سب سے زیادہ پسندیدہ ترین تحریریں یہ ہیں۔ خاص طور پر ”میری یہی عید کہ میرا بھائی میرے ساتھ ہے“ نے دل کے تار ہلا دیے۔ کتنا مشکل ہوگا یہ لکھنا اور کتنے آسان الفاظ میں لکھ دیا۔ مسکراتی آنکھوں والے شاہد حمید صاحب کا تذکرہ ہو یا گلزار صاحب کے بارے میں اپنی محبت کا اظہار…کمال ہے۔ خاص طور پر جب دوسرے کالم میں فین مومنٹ کا ذکر ہے…سانس روک دینے والا لمحہ ہے اور انداز بیاں کا کمال ہے کہ وہ لمحہ پڑھتے ہوئے ایسے محسوس ہوا جیسے خود پر بیتا ہو۔
اس کتاب میں جینے کی بات کی گئی ہے، خوشیاں خریدنے کا راستہ دکھایا گیا ہے، محبت کے رنگ ہیں اور رنگوں کی محبت ہے، آؤٹ آف دا وے بات کی گئی ہے اور آؤٹ آف دا باکس سوچنے کی راہ سجھائی ہے۔
یہاں محبت میں مر جانے والی بے وقوف لڑکیوں کا ذکر ہے، بریک اپ کے وقت وہی پرانے بہانے بنانے والوں کی بات ہے، درختوں، پھولوں کا تذکرہ ہے، کتابوں اور غزلوں کا بیان ہے، شاعری اور مصوری کی خوبصورتی ہے۔ اس کتاب کی ہر ہر تحریر پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، ہر واقعہ، ہر بات، ہر شخص نرالا ہے، ہر کہانی دل کے قریب ہے لیکن مختصر بس یہی کہ اس کتاب میں زندگی ہے، یہ کتاب پڑھتے ہوئے آپ کو اس کے صفحات پر زندگی اپنے تمام تر بانکپن کے ساتھ کھیلتی کودتی نظر آئے گی ، کہیں زندگی کی آنکھیں نم بھی نظر آئیں گی تو وہیں اس کے ہونٹوں پر ایک مسکان بھی دکھائی دے گی۔
حسنین جمال صاحب کی اس کتاب کے بارے میں اور کیا لکھوں کہ جسے میں نے تھوڑا تھوڑا پڑھا کہ کہیں جلدی ختم نہ ہو جائے، بہت سی تحریریں دو بلکہ تین دفعہ بھی پڑھی ہیں اور ابھی بھی وہ ایسی تر و تازہ ہیں کہ انہیں بار بار پڑھا جا سکتا ہے۔