تحریر: ڈاکٹر جمیل جالبی (سچ بیتی)
وہ سردیوں کی ایک تاریک اور بھیانک رات تھی ۔ ہوا سائیں سائیں چل رہی تھی ۔ گھر کے صحن کا نیم اتنے زور سے ہل رہا تھا کہ جانو اب گرا، اب گرا۔ آٹھ بجے تھے مگر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے آدھی رات گزر چکی ہے ۔ میں اس زمانے میں سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھا۔ ”زینت“ فلم تین دن پہلے شہر کے مشہورسینما ”جگت ٹاکیز“ میں لگی تھی۔ اس پر اتنا رش تھا کہ ٹکٹ ملنا مشکل تھا۔ ہمارے چچا جو سینما کے بے حد رسیا تھے، نہ معلوم ٹکٹ کہاں سے اور کیسے لے آئے؟ دفتر سے آتے ہی انہوں نے اعلان کیا کہ آج ہی سیکنڈ شو میں چلنا ہے۔ اس زمانے میں دوسرا شو رات کے دس ساڑھے دس بجے شروع ہوتا تھا اور ایک ڈیڑھ بجے کے قریب ختم ہوتا تھا۔ گھٹا اور تیز ہوا کو دیکھ کر ہم سب کے دل بیٹھے جا رہے تھے کہ کہیں بارش نہ ہو جائے، اور سینما کا پروگرام دھرا کا دھرا رہ جائے۔ ہوا یہ کہ نو بجے کے قریب ہوا رُک گئی، بادل چھٹ گئے اور موسم بہتر ہو گیا۔ گھر سے سینما زیادہ سے زیادہ میل بھر کے فاصلے پر ہو گا۔ کھانا کھا کر ہم سب لوگ پیدل روانہ ہو گئے۔ ابھی تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ چچا نے کہا:
”جمیل میاں! بھیا سے بید تولے آؤ۔“
میں بید لینے بھیا کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا کہ ”تمہارے چچا بہت بھلکڑ ہیں ۔ یہ بید جو میرے باپ کی نشانی ہے میں ان کو نہیں دوں گا۔“
میں نے جا کر چچا سے کہا تو وہ بید لینے خود ہی آ گئے اور کہا:
”بھیا آپ فکر نہ کریں ۔ بید واپس آ جائے گی۔“
میں نے بھی ہاں میں ہاں ملائی اور وعدہ کیا کہ میں بھی چلتے وقت چچا کو یاد دلا دوں گا۔ آپ اطمینان رکھیے بید واپس آ جائے گی۔“
مجبوراً بھیا نے بید چچا کے ہاتھ میں تھما دی اور ہم تیزی سے چلتے ہوئے خاندان کے دوسرے افراد سے آ ملے، جو ابھی مسجد تک ہی پہنچے تھے۔ یہ مسجد ہمارے گھر سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر ہو گی۔ اس سے دو سو گز کے فاصلے پر ایک اندھا کنواں تھا جو ”بابو کا کنواں“ کہلاتا تھا، مشہور تھا کہ اس میں ایک ”سر کٹا“ رہتا ہے جو اندھیری رات میں ایک آدھ مرتبہ کنویں سے نکلتا ہے اور رات گئے محلے کے دروازوں پر دستک دیتا ہے۔ کنویں کے پیچھے گوروں کا قبرستان تھا اور اس کے بعد گرجا تھا جس کا بڑا دروازہ ٹھنڈی سڑک پر کھلتا تھا۔ جگت سینما جانے کے لیے بابو کے کنویں کو پار کر کے گرجا کی دیوار کے برابر ایک پتلی سی سڑک پر سے گزرنا پڑتا تھا۔ پھر ایک پلیا آتی تھی جو اس تنگ سڑک کو ٹھنڈی سڑک سے ملا دیتی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف اونچے اونچے پرانے گھنے درخت لگے تھے۔
جب ہم راستہ طے کر کے ٹھنڈی سڑک پر آئے تو محسوس ہوا کہ رات بہت ہو گئی ہے۔ گھنے درختوں نے تاریکی کو اور تاریک کر دیا تھا۔ ہم سب کی رفتار تیز ہو گئی۔ آگے سو گز کے فاصلے پر سیدھے ہاتھ کی طرف، ایک اسکول تھا اور بائیں طرف ایک میدان، جو سٹرک کی سطح سے تقریباً آٹھ نوفٹ نیچائی میں تھا۔ یہ نیچا علاقہ یا نشیبی میدان ”ڈگی“ کے نام سے مشہور تھا۔ برسات ہوتی تو یہ تالاب بن جاتا۔ گرمیاں آتیں تو گھاس کا قطعہ یا ٹکڑا بن جاتا۔ اس کے جنوب میں کچھ کچے مکانات تھے، جن میں گھوسی اور گوجر رہتے تھے ۔ ان مکانوں میں کہیں کہیں روشنی دکھائی دے رہی تھی ۔ گرجا سے بیگم پل تک سڑک بالکل سیدھی تھی، اسکول کے بعد سے دو دو فرلانگ کے فاصلے پر بجلی کے کھمبے لگے ہوئے تھے۔ بیگم پل پر روشنی زیادہ تھی ۔ ایک تو یہاں کئی دکانیں تھیں جن پر گیس کی لالٹینیں جل رہی تھیں اور دوسرے اس پر دو سینما واقع تھے جن میں سے ایک جگت ٹاکیز تھا۔ جب ہم سینما کی چار دیواری میں داخل ہوئے تو بہت بھیڑ تھی ۔ پہلا شو ختم ہو چکا تھا اور دوسرا شو شروع ہونے والا تھا۔ ہم جلدی سے ٹکٹ دے کر اندر داخل ہوئے اور اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ سب سے آخری
صف میں ہماری سیٹیں تھیں اور آخری سیٹ بالکل دیوار سے ملی ہوئی تھی۔ چچا اسی سیٹ پر بیٹھ گئے۔
سینما ختم ہوا تو رات کا سوا بج چکا تھا۔ جماہیاں لیتے، سوں سوں کرتے اور تیز تیز چلتے ہم گھر پہنچے اور یہاں پہنچ کر چچا کو یاد آیا کہ وہ بید سینما میں بھول آئے ہیں۔ غضب ہو گیا۔ ان کے پیروں تلے کی زمین نکل گئی۔ انہوں نے التجا بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ”جمیل میاں جلدی سے سائیکل پر چلے جاؤ اور بید لے آؤ ۔ شاباش!“
ایک تو چچا کا رعب، پھر ان کا یہ احسان کہ انھوں نے ہمیں سینما دکھایا اور دوسرے یہ کہ بید واپس لانے کی ذمے داری میری بھی تھی۔ میں نے اچھا کہا اور جلدی سے زینے کے نیچے کھڑی سائیکل کی طرف بڑھا۔ میں نے اپنے بھائیوں میں سے ایک سے کہا بھی کہ وہ میرے ساتھ چلے مگر وہ نہایت بے مروتی سے انکار کر کے اپنے کمرے میں چلا گیا اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ میں نے سائیکل اٹھائی مگر جیسے ہی اس پر سوار ہوا، مجھے محسوس ہوا کہ اس کا پہیہ زمین سے لگ رہا ہے۔ دیکھا تو پہئے میں ہوا نہیں تھی۔ میں نے غصے میں آ کر سائیکل کو وہیں پٹخا اور پیدل روانہ ہو گیا۔
مسجد…. بابو کا کنواں…. گرجا…. گرجا کی دیوار…. ٹھنڈی سڑک…. بیگم کا پل اور سینما…. منیجر صاحب ابھی موجود تھے۔ ان سے کہا۔ وہ چچا کو جانتے تھے ۔ ایک آدمی انھوں نے میرے ساتھ کر دیا ۔ میں اندر گیا اور سیٹ کی طرف بڑھا جہاں چچا بیٹھے تھے۔ بید دیوار سے لگی تنہا کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر دم میں دم آیا۔ بید اٹھا کر سینما سے باہر آیا اور واپسی کے لیے قدم بڑھانے لگا۔
ہوا تیز ہو گئی تھی۔ چاروں طرف ہو کا عالم تھا۔ نہ آدم نہ آدم زاد ۔ ڈگی کے قریب آیا تو کچے مکانوں میں سے ڈھولک اور گانے ناچنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں آگے چلا اور اسکول کے قریب آیا، یہاں بجلی کے کھمبے ختم ہو جاتے تھے اور تاریکی بڑھنے لگتی تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے میں کسی سرنگ میں سے گزر رہا ہوں۔ میرے قدموں کی رفتار تیز ہو گئی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ یہ فاصلہ جس قدر جلد طے ہو جائے اچھا ہے۔ رات کی اس گہری تاریکی میں سے گزرتے ہوئے مجھے ہر وہ آواز خوف زدہ کر رہی تھی جو اس لمبی چوڑی دنیا میں ہوا کے ظلم کے خلاف اٹھ رہی تھی۔
ابھی میں تھوڑی دور ہی چلا ہوں گا کہ میں نے محسوس کیا کہ گھونگھرؤں کی سی آواز میرے پیچھے سے آ رہی ہے۔ چُھن چُھن چُھن چُھن چُھن چُھن چُھن۔ یہ آواز ایسی تھی جیسے گھنگھرو کسی پالتو جانور کے پیروں میں بندھے ہوں اور اس کے چلنے سے چُھن چُھن کی آواز پیدا ہورہی ہو۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک بکری جیسا جانور مجھ سے چند گز کے فاصلے پر تھا۔ وہ میرے پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ اُسے دیکھ کر میری رفتار خود بخود تیز ہو گئی۔ میری رفتار کے ساتھ اس بکری نما جانور نے بھی اپنی رفتار تیز کر دی۔ میں یہ سمجھا کہ شاید ڈگی میں رہنے والے گھوسیوں کی بکری ہے جو کھل گئی ہے اور چلتے چلتے یہاں سڑک پر آ گئی ہے۔ اب میں نے محسوس کیا کہ چُھن چُھن چُھن چُھن کی یہ آواز میرے قریب آ گئی ہے، اس وقت میرا برا حال تھا۔ ایک ایک قدم سو سو من کا ہو گیا تھا۔ میں اپنے خیال میں بہت تیز چل رہا تھا ۔ ڈگی سے پلیا کا فاصلہ، جو پلک جھپکتے ہی طے ہو جاتا تھا، اب میلوں کا فاصلہ معلوم ہورہا تھا۔ میں نے اپنی رفتار کو اور تیز کر دیا۔ بکری نما جانور نے بھی اسی حساب سے اپنی رفتار کو تیز کردیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ آواز اب مجھ سے بہت قریب ہوگئی ہے۔ میں جلدی سے سڑک سے ہٹ کر کچے میں ہو گیا۔ آیتہ الکرسی جو مجھے یاد تھی اس وقت پوری کوشش کے باوجود یاد نہ آئی ۔ درود پڑھنے کی کوشش کی، وہ بھی یاد نہ رہا۔ بدحواسی کا عالم تھا ۔ چاروں طرف سناٹا، تاریک رات، سائیں سائیں کرتی تیز ہوا، پیپل کے پتوں کا بھیانک شور۔
ابھی میں کچے میں دو چار قدم چلا ہوں گا کہ کیا دیکھتا ہوں وہ بکری نما جانور ژوں ژوں کی آواز کے ساتھ ہوا میں اُڑا اور میرے سر پر سے گزرتا ژوں ژوں کرتا چُھن سے سڑک پر اترا۔ اب وہ میرے سامنے تھا۔ میں کچے میں چل رہا تھا اور وہ سڑک پر چلتا ہوا میری طرف بڑھ رہا تھا۔ چُھن چُھن چُھن چُھن چُھن چُھن چُھن چُھن۔ اب میں نے دیکھا کہ اس کا رنگ رات کی طرح سیاہ ہے، لمبے لمبے سینگ ہیں اور وہ بچھڑے کے برابر ایک بکری جیسا جانور ہے۔ اس کی آنکھیں بلی کی آنکھوں کی طرح اندھیرے میں چمک رہی تھیں۔ وہ برابر میری طرف بڑھ رہا تھا ۔ چھن چھن چھن چھن۔ میں ٹھہر گیا، وہ چلتا رہا اور جب وہ مجھ سے چند گز کے فاصلے پر رہ گیا تو پھر ژوں کی آواز کے ساتھ ہوا میں اٹھا اور میرے سر پر سے گزرتا چھن سے سڑک پر اترا اور پھر چُھن چُھن چُھن چُھن کرتا میرے پیچھے آنے لگا۔ اب میں نے محسوس کیا کہ وہ بھی کچے میں چل رہا ہے۔ میں پکی سڑک پر آ گیا۔ کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ بھی سڑک پر آ گیا ہے۔ میں پھر کچے میں آ گیا ۔ یہ ذرا سا فاصلہ میرے لیے قیامت کا فاصلہ بن گیا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں چل رہا تھا۔ رینگ رہا تھا یا کھڑا تھا۔
اسی اثناء میں وہ پھر ژوں کی آواز سے ہوا میں اٹھا اور میرے قریب ہی چُھن سے زمین پر اترا۔ اب اس کا یہ عمل تیز ہو گیا۔ وہ ژوں سے اُڑتا اور چُھن سے اترتا، پھر ژوں ژوں کرتا اُڑتا اور چُھن سے اترتا۔ کبھی پیچھے کبھی آگے۔ میں ایک قدم چلتا تو وہ میرے سامنے ہوتا۔ میں دو قدم پیچھے ہٹتا تو وہ میرے نیچے ہوتا۔ پلیا ابھی چالیس پچاس گز کے فاصلے پر تھی۔ فاصلے کا یہ اندازہ میں آج لگا سکتا ہوں۔ اس دن تو وہ مجھے چالیس پچاس میل سے بھی زیادہ معلوم ہو رہا تھا۔
اس بار جب وہ ژوں کی آواز سے ہوا میں اُٹھا اور چُھن سے زمین پر اترا تو میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھ سے کچھ دور اترا ہے۔ میں نے سوچا بہتر یہ ہے کہ اپنی ساری قوتوں کو جمع کر کے تیزی سے بھاگنے کی کوشش کی جائے۔ چُھن چُھن چُھن چُھن چُھن چُھن کی آواز میرے پیچھے سے میری طرف بڑھ رہی تھی۔ میں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔ کلمہ پڑھتا جاتا تھا اور بھاگتا جاتا تھا۔ اسی اثناء میں پھر ژوں کی آواز آئی اور وہ میرے سر پر سے ہوتا ہوا پھر ایک بار مجھ سے چند گز کے فاصلے پر چُھن سے زمین پر اترا اور میری طرف بڑھنے لگا۔ میں بھاگتا رہا۔ بھاگتا رہا۔ اتنے میں پلیا آ گئی۔ میں جلدی سے اس پر آیا اور گرجا کی دیوار سے لگا بھاگتا ہوا ”بابو کے کنویں“ کے پاس آیا۔ وہ میرے پیچھے پیچھے آ رہا تھا اتنے میں پھر ژوں کی آواز آئی اور وہ میرے سر پر سے اڑتا ہوا مجھ سے پہلے اس کنویں کے چبوترے پر آکر کھڑا ہو گیا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور وہ بت کی طرح بے حس و حرکت کھڑا تھا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ و غائب ہو گیا اور پھر اسی جگہ سے کفن کے سے لباس میں لپٹا، بغیر سر کا ایک آدمی، میری طرف آ رہا ہے۔ بابو کا کنواں میرے بائیں طرف تھا۔ میں دائیں طرف کو ہوکر پھر تیزی سے بھاگا۔ میری چیخ نکل گئی۔ میں چیختا جاتا تھا اور بھاگتا جاتا تھا۔ اتنے میں مسجد کے قریب پہنچ گیا۔ مسجد سے میدان اور پھر گھر۔ میں نے جلدی سے دروازہ کھولا ۔ اندر سے کنڈی لگائی اور جلدی سے لحاف میں دبک گیا۔ جیسا کہ پہلے زمانے کے مکانوں میں ہوتا تھا میرے کمرے کا دروازہ گھر سے باہر کی طرف بھی کھلتا تھا۔ ہرے رنگ کا چھوٹا سا بلب کمرے میں روشن تھا۔ سامنے میز پر میری کتابیں اور کالج نوٹ بک رکھی تھی۔ میرا سانس پھول رہا تھا، جسم کا سارا خون خشک ہو گیا تھا۔ میں نے لحاف کو سر تک تان لیا۔ کچھ دیر طرح طرح کے ڈراؤنے خیالات مجھے پریشان کرتے رہے اور پھر نہ معلوم میں کب سو گیا۔
ابھی سوئے ہوئے مجھے کچھ دیر ہی ہوئی ہوگی کہ اچانک میز پر سے کتاب کے گرنے اور کرسی کے کھینچے جانے کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے لحاف منھ پر سے اتارا اور دیکھا کہ ایک لمبے قد کی خاتون، گہرے سرخ رنگ کی ساڑھی پہنے، میری طرف پیٹھ کیے میز پر جھکی ہوئی، میری کالج نوٹ بک کے ورق الٹ پلٹ رہی ہے۔
”یا اللہ ۔ یہ کون ہے؟ اس قد اور جسم کی تو کوئی عورت ہمارے خاندان میں نہیں ہے، اور پھر رات گئے میرے کمرے میں آنے کے کیا معنی ہیں؟“
کچھ دیر وہ اسی طرح جھکی کھڑی رہی ۔ پھر اس نے پینسل سے کاغذ پر کچھ لکھا ۔ لکھ کر کاغذ کو پھاڑا اور تہ کر کے اپنے سینے میں رکھ لیا۔ یہ کر کے وہ میری طرف مڑی۔ اسے دیکھ کر میرا دم ہی تو نکل گیا۔ بیل کی سی آنکھیں، ضرورت سے زیادہ چوڑی پیشانی اور بہت ہی لمبی ناک جو طوطے کی چونچ کی طرح، آگے کو مڑی ہوئی تھی۔ دہانہ سور کی طرح گول اور تنگ۔ اس نے شاید محسوس کیا کہ میں لحاف میں سے اسے دیکھ رہا ہوں۔ وہ میرے پلنگ کے قریب آئی اور بت کی طرح بے حس و حرکت کھڑی ہوگئی۔ بہت دیر تک وہ اسی طرح کھڑی رہی۔ میں دم سادھے لحاف میں چپ چاپ لیٹا تھا۔ نہ آواز نکال سکتا تھا اور نہ کسی کو مدد کے لیے بلا سکتا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ میری پَٹّی سے ہٹی اور میز کی طرف گئی اور کھونٹی پر ٹنگی ہوئی بید کو اٹھا کر گھمانے لگی۔ گھماتے گھماتے وہ پھر میرے پلنگ کی طرف آئی۔ اس کے چلنے سے چُھن چُھن چُھن کی وہی آواز میرے کانوں میں آنے لگی۔ وہ اسی طرح بہت دیر تک بت بنی میرے پلنگ سے لگی کھڑی رہی، پھر اس نے بید کی نوک سے میرے لحاف کو اتارنے کی کوشش کی۔ مجھے یوں معلوم ہو رہا تھا کہ اب دم نکلا اب دم نکلا۔ میں نے لحاف کو اور زور سے دبا لیا۔ کچھ دیر تک وہ یہی کرتی رہی۔ جیسے ہی وہ لحاف اتارنے کی کوشش کرتی میں پوری قوت سے لحاف کو دبا لیتا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یا اللہ آج صبح کب ہو گی! یہ بھیانک تاریکی کب ختم ہوگی!
باہر تیز ہوا چل رہی تھی صحن میں کھڑا نیم اور ہوا کی سائیں سائیں خوف کو اور بڑھا ہے تھے۔ چھت پر دو بلیاں لڑرہی تھیں، جن کی ڈراؤنی آواز مجھے مارے ڈال رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ شاید آج میری زندگی کی یہ آخری رات ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں تھا جو میری مدد کو آ سکے اور اس بلا سے مجھے نجات دلائے۔
میں نے دل ہی دل میں حساب لگایا کہ سوا بجے سینما ختم ہوا، پونے دو بجے ہم گھر پہنچے، پھر میں بید لینے سینما گیا اور پھر اس کے بعد چُھن چُھن چُھن والا واقعہ پیش آیا، تو گو یا تین بجے میں گھر آ گیا ہوں گا، اور کم از کم ایک ڈیڑھ گھنٹے میں سویا بھی، تو پھر اس وقت ساڑھے چار تو ضرور بجنے چاہئیں۔ ابھی تک کوئی مرغا بولا اور نہ زبیر (مؤذن) نے اذان دی ۔ وہ گھوسی جو صبح تڑکے ہی اپنی گائیں ہماری گلی میں سے لے جاتا تھا آج وہ بھی نہیں آیا۔ یا اللہ یہ رات کیسے گزرے گی؟ اب کیا بجا ہو گا ؟ کیا ابھی صبح نہیں ہوئی؟ کیا آج صبح نہیں ہوگی؟ چھت پر بلیاں پھر لڑنے لگیں۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ وہ میرے پلنگ سے ہٹ کر پھر میری میز کی طرف جارہی ہے۔ میز پر پہنچی اور جھک کر میری کالج کی نوٹ بک کے ورق الٹنے پلٹنے لگی۔ کچھ دیر اسی طرح کرتی رہی پھر میز پر رکھی ہوئی انگلش اردو لغت کو اٹھایا اور اسے آتش دان پر رکھ دیا۔ کرسی کو کھینچا اور اس پر بیٹھ گئی۔ پھر کچھ لکھنے لگی۔ بہت دیر تک وہ لکھتی رہی اور پھر پہلے کی طرح ورق پھاڑا، تہ کیا اور اسے اپنے سینے میں اُڑس لیا ۔اس کام سے فارغ ہو کر اس بار وہ میرے سرہانے کی طرف آئی اور پوری قوت سے میرے منہ پر سے لحاف اتارنے لگی۔ ادھروہ زور لگاتی، ادھر میں پوری طاقت سے لحاف کو دباتا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کی انگلیوں کی پکڑ سخت ہو گئی ۔ لمبے لمبے ناخن لحاف میں گڑ گئے۔ اس بار اس نے پوری کوشش سے لحاف کو میرے منہ پر سے اتار دیا اور اسی کوشش میں جَھر سے لحاف کے پھٹنے کی آواز میرے کانوں میں آئی۔ اب میرا منہ کھلا تھا اور میں اس کے رحم و کرم پر پلنگ پر پڑا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد وہ میرے سرہانے بیٹھ گئی اور میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔ جب وہ انگلیاں پھیرتی تو میرے سر میں مرچیں سی لگنے لگتیں۔ ایک بار تو اس نے اتنی زور سے ناخن گڑائے کہ میں نے محسوس کیا کہ میرے سر کی ساری کھال اتر گئی ہے۔ کبھی وہ زمین پر پیر مارتی تو وہی چُھن چُھن کی آواز میرے کانوں میں آنے لگتی۔ میں دم سادھے یوں ہی لیٹا رہا۔ وہ میرے سر کو اسی طرح سہلاتی رہی ۔ رہ رہ کر مجھے خیال آتا کہ آج شاید صبح نہیں ہوگی۔ زبیر آج سوتے ہی رہیں گے۔ روشن دان کی طرف دیکھا تو رات کی سیاہی روشنی میں تبدیل ہو رہی تھی۔ وہ اسی طرح انگلیاں چلاتی رہی اور میں چپ چاپ اس کی انگلیوں سے پیدا ہونے والی تکلیف کو برداشت کرتا رہا کہ اتنے میں اذان کی آواز میرے کانوں میں آئی۔ اذان کی آواز سنتے ہی وہ اٹھی۔ بید اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے دروازے کا رخ کیا، کنڈی کھولی، دروازہ دھڑ سے بند کیا اور باہر نکل گئی۔ میں اسی طرح پلنگ پر پڑارہا۔ میری ہمت جواب دے چکی تھی۔ پلنگ سے اٹھ کر کنڈی لگانے کی بھی مجھ میں ہمت نہیں تھی۔
کچھ دیر بعد دودھ والے نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں ڈرتے ڈرتے دروازے کی طرف گیا۔ جلدی سے کنڈی لگا دی اور آواز دی:
”کون ہے؟“
جواب آیا:
”بھیا ! شبراتی۔“
میں نے برتن دیا، دودھ لیا اور واپس آ کر پلنگ پر بیٹھ گیا ۔ میں نے دیکھا کہ کوئی چیز میرے گالوں پر جم گئی ہے۔ ہاتھ پھیرا تو وہ خون تھا جو میرے سر سے بہہ کر گالوں تک آ گیا تھا ۔ لحاف دیکھا توہ پھٹ گیا تھا ۔ آئینہ اٹھایا تو سر میں ایک زخم تھا اور بید۔۔۔۔۔۔ وہ بھی غائب تھی۔ کالج نوٹ بک کے دو کاغذ پھٹے ہوئے تھے اور کئی صفحات پر کِرم کانٹے سے بنے ہوئے تھے۔
اور پھر یہ ہوا کہ میرے سرکے بال تیزی سے گرنے لگے اور زخم کا وہ نشان آج تک میرے سر میں موجود ہے۔
پہلے میں بھوتوں، پریتوں، چڑیلوں، سرکٹوں، بدروحوں اور پچھل پیریوں پر یقین نہیں رکھتا تھا لیکن اس دن سے یہ حال ہے کہ مجھے چاروں طرف یہی مخلوق نظرآتی ہے ۔ معلوم نہیں آپ کیا سوچتے ہیں؟