چور…علی اکمل تصور

ابھی رات کے گیارہ بجے تھے جب وہ اس گلی میں داخل ہوا تھا۔ چار سو سناٹا تھا، کوئی راہ گیر بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ یہ ایک پوش علاقہ تھا۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جو انسان مالی طور پر مستحکم ہوتا ہے، وہ انسان اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنے گھر میں جلدی بند ہو جاتا ہے۔ خوف کی ایک کیفیت اُ س پر ہمیشہ طاری رہتی ہے اور یہ کیفیت اُسے مجبور کرتی ہے کہ اُسے رات کے اندھیرے میں گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ امیر علاقوں میں سناٹا اور ویرانہ ہوتا ہے اور غریب علاقوں میں زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں اور توانائیوں کے ساتھ موجود رہتی ہے۔
گلی میں داخل ہونے والے اس نوجوان کا نام آصف تھا۔ وہ ایک پیشہ ور چور تھا اور اُس نے آج شام ہی اس گلی میں موجود ایک کوٹھی کو تاک لیا تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ واردات کرنے سے پہلے وہ خود کو بہت پرسکون محسوس کر رہا تھا اور اس بات کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ پہلے اس کوٹھی میں آ چکا تھا۔ وہ تاڑ چکا تھا کہ داخل کہاں سے ہونا ہے، فرار کہاں سے ہونا ہے اور اس گھر میں قیمتی سامان کہاں موجود ہے۔ آج کی واردات اُسے بائیں ہاتھ کا کھیل لگ رہی تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتا کوٹھی کے سامنے آ کر رک گیا۔ کوٹھی کا بیرونی گیٹ بند تھا۔ یہ کارنر والا مکان تھا۔ ایک نسبتاً تنگ گلی بائیں طرف مڑتی تھی۔ اس گلی میں ہی اُس کے لیے گھر کے اندر جانے کا راستہ موجود تھا۔ یہاں گھر کی دیوار کم بلند تھی۔ دیوار پر سرسبز آرائشی بیلیں لٹک رہی تھیں۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا، کوئی آ جا نہیں رہا تھا۔ موقع مناسب تھا۔ اُس نے آرائشی بیلوں کے درمیان اپنے لیے جگہ بنائی اور پھر ایک چھلانگ میں دیوار کود گیا۔ گھر کے اندر بھی سناٹا تھا۔ اب وہ احتیاط سے بیرونی گیٹ کی طرف قدم اُٹھا رہا تھا۔ وہ گیٹ کا کنڈا جو اندر سے بند تھا، کھولنا چاہتا تھا تا کہ چوری کے بعد فرار ہونے میں آسانی ہو۔ گیٹ کے سامنے ایک سفید رنگ کی کار کھڑی تھی۔ کار دیکھ کر اُس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ دوڑ گئی۔ وہ جانتا تھا کہ یہ کار خراب ہے۔ پھر وہ گیٹ کے بالکل سامنے پہنچ گیا۔ اُس نے کنڈا کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور پھر اُس کی آنکھوں میں الجھن کے تاثرات دوڑ گئے۔ کنڈا تو پہلے ہی کھلا ہوا تھا۔
”یہ کیا ماجرا ہے؟“ وہ سوچنے لگا۔ ”اگر میں پہلے ہی گیٹ کے پٹ پر دباؤ ڈال کر دیکھ لیتا تو دیوار کودنے کی زحمت سے بچ جاتا۔ لیکن یہ تو بہت غفلت والی بات ہے کہ گھر کا بیرونی دروازہ کھول کر سویا جائے۔“
اب وہ گیٹ کے سامنے سے ہٹ گیا تھا۔ اب اُس کی منزل گھر کے اندرونی کمرے تھے۔ وہ تمام راستے جانتا تھا۔ وہ دبے پاؤں صحن عبور کر کے گھر کے اندرونی حصہ کے سامنے پہنچ گیا اور پھر جیسے ہی اُس نے دروازہ کھولا، وہ لرز کر رہ گیا۔ سامنے کرسی پر ایک ادھیڑ عمر خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔ اُس خاتون کو رسی کی مدد سے کرسی کے ساتھ باندھا گیا تھا۔ ہاتھ کرسی کے بازوؤں کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ اُس خاتون کے منہ کو ٹیپ لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔ آصف کو دیکھ کر اُس خاتون کی آنکھوں میں شناسائی کی چمک عود کر آئی تھی۔ چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اب آصف نے اطراف کا جائزہ لیا۔ سامان بکھرا پڑا تھا۔ وہ خود چور تھا۔ اس لیے ایک نظر میں ہی ساری کیفیت سمجھ گیا تھا۔ اس سے پہلے ہی کسی ڈاکو نے اُس گھر میں ڈاکا مار لیا تھا۔ بس ایک بات الجھن والی تھی، سیڑھیوں کے پاس ایک نوعمر لڑکا بے ہوش پڑا تھا۔ اُس کے سر سے بہنے والا خون ایک گول دائرے کی صورت میں فرش پر جم چکا تھا۔ آصف پہلے اُس لڑکے کی طرف بڑھا۔ خوشی والی بات یہ تھی کہ اُس لڑکے کی سانسیں چل رہی تھیں۔ پھر وہ اُس خاتون کی طرف لپکا۔ اُس نے ایک جھٹکے سے اُس خاتون کے منہ سے چسپاں ٹیپ اُکھاڑ دی تھی۔ وہ خاتون کراہ کر رہ گئی تھی۔ آواز نکلنے نہ پائے، اس لیے اُس خاتون کے منہ میں ایک رومال بھی ٹھونسا گیا تھا۔ رومال نکلنے کی دیر تھی کہ وہ خاتون ہانپتے ہوئے بولی:
”آصف بیٹا! تم نے بہت دیر کر دی۔“
”ہوا کیا تھا ماں جی؟“ آصف نے اُس خاتون کا سوال نظر انداز کر دیا تھا۔”اور نواز کو چوٹ کیسے لگی؟“ اُس نے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔
”بیٹا! جب مصیبت آتی ہے تو چاروں طرف سے آتی ہے۔ تم تو جانتے ہو میری کار خراب ہے۔ نواز کو جلدی اسپتال لے کر جانا ہو گا۔ تمھارا رکشا کہاں ہے؟“ خاتون نے سوال کیا تھا۔ آصف گڑبڑا کر رہ گیا۔ وہ اُس سوال کا کیا جواب دیتا،پھر اُس نے بات بنائی۔
”وہ رکشا ایک دوست مانگ کرلے گیا ہے۔“
”اور تم نے میرا فون بھی ریسیو نہیں کیا۔“ خاتون نے ایک اور سوال کیا۔ اس سوال کا جواب آصف کے پاس نہیں تھا۔ فون اُس کے پاس ہوتا تو وہ کال ریسیو کرتا۔ جب وہ واردات کرنے نکلتا تھا تو موبائل فون ہمراہ نہیں رکھتا تھا۔
”میرا خیال ہے کہ تم میرا نمبر دیکھ کر ہی چلے آئے ہو۔“ آصف کو خاموش دیکھ کر اُس خاتون نے اپنے سوال کا جواب خود دینے کی کوشش کی۔
”جی……جی! جی ہاں، ایسا ہی ہے۔“ آصف نے بات بنائی۔ حالاں کہ اُس کے فرشتے بھی نہیں جانتے تھے کہ اُس کے نمبر پر کوئی کال آئی تھی۔
”بہت دیر ہو چکی ہے، جلدی سے کوئی انتظام کرو۔ ہمیں نواز کو لے کر اسپتال پہنچنا ہے۔“ اُس خاتون کو نواز کا خیال آ گیا تھا۔
”ہاں ……ہاں! لیکن پہلے آپ کی بندشیں تو کھول دوں۔“ آصف نے جلدی سے خاتون کو کرسی کی قید سے آزاد کیا۔ پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا گھر سے باہر روانہ ہو گیا۔ مقصد میں ناکامی کے بعد وہ چاہتا تو فرار بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن ایک عجیب سا احساس اُسے روک رہا تھا۔ اُس خاتون نے اپنی مصیبت میں اُسے مدد کے لے بلایا تھا اور اب انھیں بے یار و مددگار چھوڑ کر بھاگ جانا یہ ہرگز مناسب نہ ہوتا۔ جلد ہی وہ مین روڈ سے ایک رکشا لے آیا اور پھر کوٹھی کو تالا لگا کر وہ سب اسپتال کی طرف روانہ ہو گئے۔
ایمرجنسی میں نواز کو فوراً ہی طبی امداد دی گئی۔ اُسے ڈرپ لگ چکی تھی اور ڈرپ میں ملٹی وٹامن اور دردکش انجیکشن ڈال دیے گئے تھے۔ اب نواز کو خون کی ضرورت تھی۔ اسپتال کے بلڈ بینک میں نواز کے گروپ کا خون موجود نہیں تھا اور اُس خاتون کا پرس بھی کالی تھا۔ سب کچھ تو ڈاکو لے گئے تھے۔ آصف جانتا تھا کہ اُس کی رگوں میں نواز کے گروپ کا خون دوڑ رہا ہے۔ وہ اُس گھر کو لوٹنے آیا تھا،جانے کیوں اب وہ خود لیٹنے کے تیار ہو چکا تھا۔ اُس نے خود کو خون کا عطیہ دینے کے لیے پیش کر دیا۔ وہ خاتون اُسے احسان مند نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ جسے وہ اپنا محسن سمجھ رہی ہے، وہ تو بس ایک لٹیرا ہے۔
یہ آج شام کی ہی تو بات تھی۔ آصف ایک رکشے کو طوفانی رفتار میں بھگاتا ہوا چلا آ رہا تھا۔ یہ چوری کا رکشا تھا۔ اُس نے چوری کی تھی اور سینہ زوری کی بنیاد پر کی تھی۔ رکشے کے مالک نے تھوڑی سی غفلت کا مظاہرہ کیا تھا اور آصف اس کی غفلت کے انتظار میں تھا۔ وہ سواری بن کر رکشے میں بیٹھا تھا اور رکشا ڈرائیور ایک جنرل سٹور کے سامنے دو گھڑی کے لیے سامان لینے رُکا تھا۔ رکشا اسٹارٹ تھا۔ آصف نے بس سیٹ بدلی تھی اور رکشا لے کر ہوا ہو گیا تھا۔ جب تک رکشا ڈرائیور بات سمجھ پاتا، اُس کی پہنچ سے بہت دُور نکل گیا تھا۔ اب اُس کا رُخ چور بازار کی طرف تھا۔ چور بازار میں ایسی گاڑیوں کو فاضل پرزہ جات کے طور پر بیچا جاتا تھا۔ مالک اپنی چوری کی گاڑی ڈھونڈتا رہتا ہے اور اُس کی گاڑی کے پرزے دوسری گاڑیوں میں فٹ ہو کر سڑکوں پر موجود رہتے ہیں لیکن کبھی پکڑ میں نہیں آتے۔
ایسے میں اُس نے سڑک کے درمیان میں ایک کار کو کھڑے دیکھا۔ ایک خاتون پریشانی کے عالم میں کار کے پاس کھڑی تھی۔ ایک نو عمر لڑکا کار کی کھڑکی میں سے جھانک رہا تھا۔ آصف قریب پہنچا تو اُس خاتون نے آصف کو رکنے کا اشارہ کیا۔ یہ وقت رکنے کا نہیں تھا۔ اُس کے پاس چوری کا رکشا موجود تھا۔ لیکن سڑک پر ایک بے یار و مددگار خاتون اور لڑکے کو دیکھ کر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی رک گیا تھا۔
”اے بیٹا! کار بیچ سڑک پر خراب ہو گئی ہے۔ یہاں قریب ہی میرا گھر ہے۔ ہمیں ذرا گھر تک چھوڑ دو۔“ اُس خاتون کے لہجے میں التجا تھی۔
”جی ماں جی……“ اُس نے رسی کی مدد سے کار کو رکشے کے پیچھے باندھ لیا تھا۔ اب وہ خاتون ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ وہ لڑکا بہت خوش نظر آ رہا تھا۔ اُس کے لیے یہ منظر بڑا دل چسپ تھا کہ ایک رکشا کار کھینچ کر لے جائے۔ وہ خاتون کو اُس کے گھر لے آیا تھا۔ اب آصف واپس لوٹنا چاہتا تھا۔
”بیٹا! تم نے ہماری مدد کی ہے، اندر آ جاؤ!“ وہ خاتون آصف کو گھر میں لے آئی تھی۔ اب آصف اُس گھر کا جائزہ لے رہا تھا۔ گھر میں کوئی نہیں تھا۔ باتوں باتوں میں اُس لڑکے کی آصف سے دوستی ہو گئی تھی۔ وہ خاتون گھر کے اندرونی حصے میں چلی گئی تھی۔ جب وہ واپس لوٹی تو اُس کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے چائے دیکھ کر آصف بول اُٹھا۔
”آپ نے بلا وجہ تکلف کیا۔“
وہ خاتون مسکرائی:
”کوئی بات نہیں بیٹا! گھر آئے مہمان کی عزت کرنی چاہیے۔
”گھر میں کوئی اور فرد نظر نہیں آ رہا۔“ آصف نے پوچھا۔ اس کی بات سن کر وہ خاتون اداس ہو گئی۔
”میرا اکلوتا بیٹا دوسرے ملک کام کرتا ہے۔ میری بہو اللہ کو پیاری ہو چکی ہے۔ یہ میرا پوتا ہے نواز…… اس بڑے سے گھر میں ہم اکیلے رہتے ہیں۔ اب میں اپنے پوتے کی پرورش کر رہی ہوں۔“
”سن کر افسوس ہوا۔“ آصف نے ہمدردی کا اظہار کیا لیکن اُس کے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے۔ یہاں بہت آسانی سے چوری کی جا سکتی تھی۔ اُس نے دیکھ لیا تھا، جس گھر میں دوسرے ملک کی کمائی آتی ہو، وہاں لوٹنے کے لیے مال زیادہ ہوتا ہے۔ پھر اُس خاتون نے آصف کو پانچ سو روپے دیے۔ یہ کار کو گھر تک لانے کا کرایہ تھا۔ چائے پینے کے بعد آصف کرایہ نہیں لینا چاہتا تھا۔ لیکن اُس خاتون کی ضد کے سامنے مجبور ہو گیا۔
رکشا چور بازار میں بیچنے کے بعد وہ اُس خاتون کے گھر میں چوری کرنے کا منصوبہ بنانے لگا۔ وہ انتظار نہیں کر سکتا تھا۔ اُسے آج رات ہی یہ واردات کرنا تھی لیکن پھر کہانی نے رُخ ہی بدل لیا اور اب وہ اسپتال میں موجود تھا۔ نواز اب خطرے سے باہر تھا۔ آصف کا خون نواز کو لگا دیا گیا تھا۔ اب وہ خاتون اور آصف انتظارگاہ میں موجود تھے۔
”دیکھ لو بیٹا! یہ قدرت کے کام ہوتے ہیں۔ میں نے تم سے تمھارا فون نمبر اس لیے مانگا تھا کہ کبھی بھی رکشے کی ضرورت ہو سکتی ہے تو میں کال کر کے تمھیں بلا لوں گی۔ لیکن تمھاری ضرورت رات ہی میں پڑ گئی۔ کھیل کھیل میں نواز سیڑھیوں سے گر پڑا۔ اُس کا سر پھٹ گیا اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ کار تو پہلے ہی خراب تھی اور ایسے وقت میں کوئی مدد بھی نہیں کرتا، تب میں نے تمھارا نمبر ملایا لیکن تم نے کال ریسیو نہیں کی۔ تب ہی ہمارے گھر میں تین ڈاکو گھس آئے۔ جانے وہ کدھر سے آئے تھے۔ انھوں نے مجھے کرسی کے ساتھ باندھ دیا تا کہ میں شور نہ مچا سکوں۔ انھوں نے میرا منہ بھی بند کر دیا، پھر وہ لوٹ مار کر کے گھر سے باہر نکل گئے۔ انھیں تو نواز کی حالت پر بھی ترس نہیں آیا، پھر پاک اللہ کی طرف سے تمھاری صورت میں مدد آ پہنچی۔ میں تمھاری شکر گزار ہوں کہ تم نے ہمارے لیے اتنا کچھ کیا۔“ اُس خاتون نے خود ہی آصف کے تمام سوالوں کا جواب دے دیا تھا، پھر اُس نے ایک اور سوال کیا۔
”یہ تو مجھے معلوم ہے کہ تم رکشا چلاتے ہو، لیکن تم رہتے کہاں ہو؟‘ آصف کے لیے یہ ایک سلگتا ہوا سوال تھا۔ اُس کی آنکھوں کے کنارے نم ہونے لگے تھے۔
”ایک ماں ہے، وہ گاؤں میں رہتی ہے۔ میں شہر میں کام کے لیے آیا تھا۔ جب کام نہیں ملا تو رکشا چلانے لگا۔“ یہاں آصف نے جھوٹ بولا تھا۔ جب کام نہیں ملا تو وہ چوریاں کرنے لگا تھا۔ وہ خاتون کچھ سوچنے لگی پھر سنجیدگی سے بولی۔
”میں تنہا رہتی ہوں، اس لیے ڈاکوؤں نے ہمیں لوٹ لیا۔ مجھے ڈرائیور کی بھی ضرورت ہے اور بھی گھر میں سو طرح کے کام ہوتے ہیں۔ اگر تمھیں ملازمت کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔ اگر چاہو تو اپنی والدہ کو بھی لے آنا، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔“ یہ بات سن کر آصف کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ ایک اجنبی خاتون لاعلمی میں ایک چور کو چوکیدار بنانے کی بات کر رہی تھی اور جب ایک چور چوکیدار بنا دیا جاتا ہے تو وہ چوری کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
آصف کا ضمیر ابھی زندہ تھا۔ اُس نے فوراً یہ ملازمت قبول کر لی۔ اُس کی زندگی میں انقلاب آ چکا تھا۔ اب وہ اس گھر اور اس گھر کے افراد کی خدمت میں لگ گیا تھا۔ پھر ایک مہینہ گزر گیا۔ اس خاتون نے آصف کو تنخواہ دے دی تھی۔ آصف کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ یہ اُس کی محنت کی پہلی جائز کمائی تھی۔
”ماں جی! اگر حکم دیں تو میں اپنی ماں کو گاؤں سے لے آؤں؟“
”ہاں بیٹا! میں نے تو بہت پہلے ہی تم سے کہہ دیا تھا۔“
اُس خاتون سے اجازت لے کر آصف اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوا۔ آج ڈیڑھ سال کے بعد وہ اپنے گاؤں لوٹ رہا تھا۔ دنیا میں اُس کا ماں کے سوا کوئی نہیں تھا اور ماؤں کو اپنی اولاد کے ہر عمل کی خبر ہوتی ہے۔ ماں کو علم ہو گیا تھا کہ اُس کے بیٹے کی حرام کمائی ہے۔ اس لیے ماں نے اُسے گھر سے نکال دیا تھا، لیکن آج آصف اپنی ماں کا سامنا کرنے کے قابل تھا۔ آصف گاؤں میں داخل ہوا تو ماں کو اپنے بیٹے کی آمد کی خبر ہو گئی۔ لیکن وہ اپنے بیٹے کے استقبال کے لیے گھر سے باہر نہیں نکلی تھی۔ آصف مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوا تھا اور اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھ گیا تھا۔ پھر اُس نے جیب میں سے اپنی حلال کی کمائی نکال کر ماں کے قدموں میں رکھ دی۔
”چل ہٹ چل……میں حرام مال کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گی۔“
”ماں! آج میں اپنی محنت کی کمائی لے کر آیا ہوں۔“ آصف سسک پڑا۔ ماں نے اُس کے ہاتھ تھام لیے۔ مہینے بھر کی محنت مشقت اور کام کاج کی وجہ سے اُس کے ہاتھوں پر آبلے بن گئے تھے۔ کچھ پھٹ چکے تھے، کچھ پھوٹنے والے تھے۔
”میرا بچہ!“ ماں نے اُسے اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔
”چل ماں! میں تجھے لینے آیا ہوں۔“
”کام کیا ملا ہے میرے بچے؟“ ماں نے پیارسے پوچھا۔
”بس تو یہ سمجھ لے کہ تیرا چور بیٹا اب چوکیدار بن چکا ہے۔“
”یا اللہ تیرا شکر ہے۔“ ماں نے سجدہ شکر میں اپنا سر گرا دیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اللہ کی پاک ذات چاہے تو چور کو قطب بنا دے اور آج وہ اللہ پاک ذات کی قدرت کا مظاہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ آج ایک چور کی بجائے ایک بیٹا گھر واپس لوٹا تھا۔
٭٭٭

Leave a Comment