شام کا وقت تھا، بوندا باندی کی وجہ سے ماحول خاصا خوش گوار تھا۔ ایسے موسم میں اکثر گھروں کے اندر پکوڑوں والے پروگرام چلتے ہیں۔ رئیس کے گھر میں بھی چکن پکوڑے تلے جا رہے تھے اور وہ باورچی خانے میں ہی اپنی امی کے پاس بیٹھا تھا۔ گولڈی کو باورچی خانے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے وہ دروازے سے باہر بیٹھا پکوڑوں کے تلے جانے کا انتظار کر رہا تھا اور وقفے وقفے سے دُم ہلا کر اس بات کا اظہار کر رہا تھا کہ پکوڑوں میں اس کا بھی حصہ شامل ہے۔
اتنے میں دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ رئیس اور اُس کی امی حیران ہوئے کہ اس وقت کون آ سکتا ہے۔ رئیس کے ابو تو دروازے پر پہنچ کر فون کیا کرتے تھے، یہ اُن کی عادت تھی اور ابھی تو انھیں لوٹنے میں آدھا گھنٹا باقی تھا۔
”امی!میں دیکھوں جا کر؟“ رئیس نے اجازت طلب کی۔
”رکو بیٹا!یہ پکوڑے اتار کر میں خود دیکھتی ہوں۔“ امی نے دل میں اٹھتے کسی خدشے کے تحت کہا۔
”امی!آپ ڈر کیوں رہی ہیں۔ ابو ہی ہوں گے، باہر بارش جو ہو رہی ہے تو اس وجہ سے انھوں نے موبائل نہیں نکالا ہو گا۔“
رئیس کی اس بات پر امی نے اسے ستائش بھری نظروں سے دیکھا۔
”بڑے سیانے ہو گئے ہو تم تو…ٹھیک ہے جاؤ دروازہ کھولو۔“
اس سے پہلے کہ رئیس اٹھتا، دروازے پر ایک بار پھر دستک ہوئی۔ اس بار دستک قدرے تیز تھی جیسے کوئی جلدی میں ہو۔
رئیس اٹھا اور دروازے کی جانب چل دیا، گولڈی بھی اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ گولڈی کو رئیس کے ساتھ جاتا دیکھ کر امی کو ذرا تسلی ہوئی اور وہ پکوڑوں کی جانب متوجہ ہو گئیں۔
رئیس نے دروازہ کھولا اور اگلے ہی لمحے اس کی چیخوں نے گھر کے درودیوار ہلا کر رکھ دیے۔ دروازے میں ایک بڑا سا بھوت کھڑا تھا۔ اس کے سر کے بال عجیب انداز میں الجھے ہوئے تھے، دو نوکیلے دانت منہ سے باہر لٹک رہے تھے اور آنکھوں میں جیسے خون اُترا تھا۔ وہ حلق سے دل دہلا دینے والی آوازیں نکال رہا تھا۔
بھوت کو دیکھ کر گولڈی نے بھی بھونکنا شروع کر دیا۔ رئیس کی امی دل تھام کے رہ گئیں۔ انھوں نے تیزی سے چولھا بجھایا اور بھاگتے ہوئے دروازے تک پہنچیں اور چیخوں کے ذریعے رئیس اور گولڈی کی مدد کرنے لگیں۔
اچانک بھوت زور زور سے ہنسنے لگا۔ ہنستے ہنستے وہ تینوں کے بالکل قریب پہنچا اور بولا:
”ہائے پکوڑے ے!کیا خوش بو ہے…کیا بھوت کو پکوڑے نہیں کھلاؤ گے؟“
”امی…امی جی…!سارے دے دیں،سارے دے دیں…“ رئیس تھر تھر کانپنے لگا۔
”ہاں،ہاں! سارے دے دو، مجھے سارے دے دو پکوڑے ے،ہاہاہا!“
”میں…میں لاتی ہوں۔ لاتی ہوں میں سارے پکوڑے…“
رئیس کی امی پلٹنے ہی والی تھیں کہ گولڈی دُم ہلاتا ہوا بھوت کی ٹانگوں کے پاس گیا اور اس سے لاڈ پیار کرنے لگا۔
”بھئی مان گئے گولڈی کو، اس نے مجھے پہچان لیا….مگر آپ دونوں تو بڑے ڈرپوک نکلے۔“
شہباز حسن نے اپنی آواز درست کرتے ہوئے چہرے پر سے ماسک اُتار دیا۔ رئیس اپنا منہ کھولے انھیں دیکھے جا رہا تھا، اس کے دل سے ابھی تک خوف نہیں نکلا تھا جب کہ اس کی امی مسکراتے ہوئے بولیں:
”رئیس!تمھارے ابو کو بھوتوں کے دیس میں بھیجنا چاہیے۔“
شہباز حسن نے بھوت والے انداز میں قہقہہ لگایا اور پھر چاروں نے پکوڑوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے باورچی خانے کا رخ کیا۔
پکوڑے مزے دار تھے، اتنے مزے دار کہ کچھ دیر کے لیے سب بھوت والی بات کو بھول گئے۔
پکوڑے کھانے کے بعد رئیس چپکے سے اُٹھا اور کمرے میں چلا گیا۔ وہ بھوت والے ماسک کو ڈھونڈنے لگا۔ ذرا سی کوشش سے اسے الماری کے نچلے خانے میں ماسک مل گیا۔ وہ کچھ دیر اُسے سہمے ہوئے انداز میں دیکھتا رہا۔ اُس کے دل کی دھڑکنیں بے قابو ہو رہی تھیں مگر دوسری جانب تجسس بھی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ پھر اُس سے رہا نہ گیا، اُس نے ڈرتے ڈرتے ماسک اُٹھایا اور اُس کے خدو خال کا مشاہدہ کرنے لگا۔ پلاسٹک ربڑ سے بنا یہ ماسک اُس کے ہاتھوں میں جھول رہا تھا۔ یہ ماسک ظاہری طور پر کتنا ہی خوف ناک سہی مگر بے ضرر تھا۔ نہ جانے کیوں رئیس دل کی دھڑکنوں پر قابو نہیں پا رہا تھا۔ اچانک اُسے یوں محسوس ہوا جیسے ماسک کی خونی آنکھیں ایک پل کے لیے بند ہوئی ہوں، پھر کھلی ہوں اور ان آنکھوں سے خون کے قطرے ٹپکے ہوں۔ اُسے باچھیں بھی مزید پھیلتی ہوئی محسوس ہونے لگیں اور نوکیلے دانتوں کی لمبائی بھی جیسے بڑھنے لگی۔ اس سے زیادہ وہ برداشت نہ کر سکا اور دہشت کے غلبے سے ماسک کو واپس الماری میں پھینک کر پلٹا۔ اگلا لمحہ اور بھی ہول ناک تھا، وہ بہت بری طرح ایک بھاری وجود سے ٹکرایا تھا جو اُس کے پیچھے نہ جانے کب سے کھڑا تھا اور پھر اُس کے حواس جواب دیتے گئے، وہ بے ہوش ہو گیا۔
٭
”آپ بچے کی جان نکال کر رہیں گے کیا؟ پہلے ماسک والا ڈرامہ…اور پھر آپ اُس کے پیچھے جا کھڑے ہوئے، آپ اتنا تو دیکھ لیتے کہ وہ پہلے ہی کتنا خوف زدہ ہے۔“
نجمہ نے خفگی سے کہا، وہ رئیس کی ماں تھی اور ماں تو اپنے بچے کی ذرا سی تکلیف بھی نہیں برداشت کر سکتی۔ نجمہ نے اپنے رئیس کا سر گود میں رکھا تھا اور وہ سپاٹ نظروں سے چھت کی جانب دیکھ رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے خوف اُس کی رگ رگ میں سما چکا ہے۔ شہباز حسن کچھ نہ بولے، وہ سخت الجھن کا شکار تھے۔ اُن کا بیٹا دل کا اتنا کمزور ہو گا، انھوں نے سوچا بھی نہ تھا۔ وہ تو بچپن میں اکیلے ہی ویرانوں اور قبرستانوں میں بے دھڑک چلے جایا کرتے تھے۔ پھر انھوں نے اپنا سر نفی میں ہلایا، انھیں کچھ یاد آیا تھا۔ شروع شروع میں وہ بھی بہت ڈرتے تھے، راہ چلتے ہوئے انھیں محسوس ہوتا جیسے کوئی اُن کے پیچھے آ رہا ہے۔ کبھی کبھی انھیں پراسرار سی سرگوشیاں بھی سنائی دیتیں، وہ گھبراہٹ کے عالم میں پلٹ کر دیکھتے مگر کچھ بھی تو نہ ہوتا، پھر وہ دوڑتے ہوئے گھر پہنچا کرتے تھے۔ وہ گھر میں ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانے سے بھی گھبرانے لگے تھے۔ گھر والے انھیں جتنی ہمت دلا سکتے تھے، دلایا کرتے مگر ڈر تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
ان ہی دنوں وہ اپنے ننھیالی خاندان سے ملنے گاؤں گئے۔ ان کے ماموں نے بکریوں کا پورا ریوڑ سنبھال رکھا تھا۔ وہ معمول سے بکریاں چرانے کے لیے ویرانوں میں جایا کرتے تھے۔ آس پاس سوائے ایک ڈیرے کے کوئی گھر نہیں تھا، وہ ڈیرا بھی کھنڈر بن چکا تھا۔ ایک دن شہباز حسن کے ماموں انھیں اپنے ساتھ ویرانے میں لے گئے۔ بکریاں مزے سے نرم نرم گھاس سے پیٹ بھر رہی تھیں اور ماموں بھانجا باتوں میں مگن تھے۔ دو بکریاں اپنے ریوڑ سے ذرا فاصلے پر موجود ایک جھاڑی پر منہ مار رہی تھیں۔ اچانک ماموں کو کچھ سوجھا، وہ بولے:
”شہباز! یہ چھڑی لے جاؤ اور ان دونوں بکریوں کو موڑ کر ریوڑ کے پاس لے آؤ۔“
شہباز ایک پل کے لیے سہم سا گیا، پھر وہ اٹھا اور ہولے ہولے چلتا ہوا ان بکریوں کے پاس جا پہنچا۔ جب وہ انھیں موڑ کر واپس آ رہا تھا تو اُس نے دیکھا، ماموں غائب تھے۔ اُس نے لٹو کی مانند گھوم گھوم کر ہر جانب دیکھا مگر اُسے کہیں بھی ماموں دکھائی نہ دیے۔ ہر طرف بس ویرانہ ہی ویرانہ تھا۔ اُس کا پورا جسم کپکپا رہا تھا، آواز تھی کہ گلے میں گھٹ کر رہ گئی تھی۔ چیخیں حلق سے نکلنے سے انکاری تھیں، اگر وہ چیخ نکالنے میں کامیاب ہو بھی جاتا تو بے کار تھا کیوں کہ ویرانے میں اُس کی کون سنتا۔ اُس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں اور حلق میں جیسے کانٹے چبھنے لگے۔ ایک عجیب سا خوف سوار ہوتا جا رہا تھا۔ اُس نے بکریوں کو دیکھا، وہ اُس کے حال سے بے خبر چرنے میں مگن تھیں۔ بعض شرارتیں کر رہی تھیں اور ننھے بکرے اچانک سے یوں اُچھلتے گویا انھیں کرنٹ لگتا ہو، وہ پھدکتے ہوئے یہاں سے وہاں بھاگتے۔ شہباز نے محسوس کیا کہ اُس کا خوف دھیرے دھیرے کم ہوتا جا رہا ہے لیکن اُس پر سوار ضرور ہے۔ اچانک اُسے ڈیرے کے کھنڈرات میں ایک سایہ سا دکھائی دیا۔ خوف کی سرد لہروں نے جیسے پھر سے حملہ کر دیا، مگر یہ خوف فوراً دُور ہو گیا جب اُس نے کسی سایے کی بجائے ماموں کو دیکھا۔ وہ سمجھ گیا کہ ماموں نے اُس کے ساتھ شرارت کی ہے۔ وہ اُسے بکریوں کی جانب بھیج کر کھنڈرات میں چھپ گئے تھے۔ شہباز اور اُس کے ماموں یک دوجے کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ پھر اگلے چند دنوں میں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا رہا۔ ماموں اُسے ویرانے میں تنہا چھوڑ کر کھنڈرات یا درختوں میں کہیں چھپ جاتے۔ وہ ڈرنے کی بجائے ماموں کو ڈھونڈ نکالتا اور خوب محظوظ ہوتا۔ اُس کے بعد وہ ایک دن اکیلے بکریاں چرانے بھی چلا گیا۔ اُس کے ماموں کو تیز بخار تھا اور وہ نڈر ہو کر بکریاں نکال کر لے گیا۔ اس طرح شہباز کے دل و دماغ سے ہمیشہ کے لیے خوف نکل گیا۔
”اب آپ کو سچ مچ کا بھوت تو نہیں چمٹ گیا؟“
نجمہ نے شہباز حسن کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ شہباز حسن ہڑبڑایا اور پھر مسکرایا۔ وہ خیالات میں کہیں دُور ہی بہہ گیا تھا۔
”نجمہ!ہمیں اپنے بچے کے لیے کچھ کرنا ہو گا؟“
”کیا کرنا ہو گا؟میں بتا رہی ہوں، کسی عامل شامل کے پاس نہیں جانا میرے بچے کو لے کر…بس آپ آئندہ اسے مت ڈرائیے گا۔ میرا پھول سا، نازک سا بچہ!“
شہباز حسن نے زیر لب مسکرائے، پھر بولے:
”میں عامل یا شامل کے پاس کیوں لے کر جاؤں گا تمھارے پھول سے، نازک سے بچے کو…ہاں میں اسے بھوت بنگلے کی سیر کرانے ضرور لے جاؤں گا۔“
”بھ…بھوت بنگلے…نن…نہیں!کہاں ہے بھوتوں کا بنگلہ؟اسے کیوں لے جائیں گے وہاں… نہیں جائے گا یہ کسی بھی بنگلے!“
نجمہ کی اس کیفیت پر شہباز حسن نے بھوت کے انداز میں زوردار قہقہہ لگایا۔ قہقہے کی آواز کانوں میں پڑتے ہی رئیس ماں کی گود میں سمٹ سا گیا اور اس کا جسم لرزنے لگا۔ یہ دیکھ کر نجمہ کا دل ڈوبنے لگا اور شہباز حسن کا ارادہ پختہ ہوتا گیا۔
٭
اتوار کی صبح تھی اور ناشتے کا اہتمام عین رئیس کی فرمائش کے مطابق تھا، یعنی آلو اور املی کے مزے دار پراٹھے تیار کیے گئے تھے۔ ایک پراٹھا گولڈی کو بھی دیا گیا جسے وہ چپ چپ کرتا ہوا کھا گیا اور دُم ہلا کر شکریہ ادا کرنے لگا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر شہباز حسن نے خوش گوار لہجے میں بتایا:
”آج ہم سیر کے لیے جا رہے ہیں۔“
یہ سنتے ہی رئیس کی آنکھیں مارے خوشی کے چمکنے لگیں۔ اس واقعے کے بعد پہلی بار رئیس کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی تھی، نجمہ کی خوشی دیدنی تھی۔ سب جلدی جلدی تیار ہوئے اور رکشا پہ سوار ہو کر پارک میں پہنچ گئے۔ گولڈی بھی ان کے ساتھ تھا۔
رئیس پارک میں لگے مختلف جھولوں پر باری باری جھولے لے رہا تھا جب کہ اس کے امی، ابو گھاس پہ بیٹھ کر اردگرد کے مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ پارک کے عین مرکز میں ایک بڑا سا فوارہ نصب تھا، جس نے پورے پارک کو رونق بخشی ہوئی تھی۔ جابجا خوب صورت پودے موجود تھے، کہیں کہیں نقلی جانور بھی رنگینی میں اضافے کا باعث بنے ہوئے تھے۔گولڈی گھوم پھر سبھی نقلی جانوروں کا مشاہدہ کر رہا تھا۔
پارک میں کچھ دیرتفریح کرنے کے بعد شہباز حسن نے رئیس کو پکارا اور پھر وہ بھوت بنگلے کے پاس پہنچ گئے۔
بھوت بنگلے کا عجیب کریہہ صورت دروازہ تھا۔ آنکھوں میں غضب کی دہشت تھی اور خون آلود نوکیلے دانت منظر کو اور بھی ڈراؤنا بنا رہے تھے۔ رئیس سہم کر امی کی جانب دیکھنے لگا۔ نجمہ خاموش رہی، کیوں کہ اب دونوں میاں بیوی اس منصوبے میں برابر کے شریک تھے۔
پھر شہباز حسن ٹکٹ لینے پہنچ گئے۔ بھوت بنگلے میں صرف بچوں کو جانے کی اجازت تھی۔ انھوں نے ایک ٹکٹ خریدا اور رئیس کو بھوت بنگلے میں داخل ہونے کے لیے کہا۔ رئیس رونی صورت بنا کر بولا:
”مجھے ڈر لگتا ہے، میں نہیں جاؤں گا۔“
نجمہ کو ترس تو بہت آیا مگر دل پہ قابو رکھنا بہت ضروری تھا۔ وہ پیار سے بولی:
”رئیس بیٹا!دیکھو، تم سے عمر میں چھوٹے بچے کیسے ہنستے مسکراتے بھوت بنگلے کے اندر جا رہے ہیں۔ ہمت کرو!میرا بہادر بچہ…“ پھر وہ رئیس کے کان میں سرگوشی کے انداز میں کہنے لگیں:
”اندر کوئی بھوت شوت نہیں ہے، سب ڈرامہ ہے…تمھیں بس یہ ڈرامہ دیکھ کر آنا ہے۔ نقلی بھوتوں کو بتا کر آنا ہے کہ میں تم سے نہیں ڈرتا۔“
رئیس کچھ سوچتے ہوئے بچوں کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے محسوس ہوا کہ ان بچوں کی نظروں میں اس کے لیے تمسخر ہے، وہ اسے نظروں ہی نظروں میں چڑا رہے ہیں۔ رئیس نے لمبا سا سانس لیا اور پھر بھوت بنگلے میں داخل ہونے کے لیے تیار ہو گیا۔ اُس نے اپنا ٹکٹ چوکی دار کو تھمایا اور اندر داخل ہو گیا۔
بھوت بنگلے میں الگ ہی طوفان مچا تھا۔ یہاں جس قدر تاریکی تھی،ماحول میں اتنی ہی چیخیں گونج رہی تھیں۔ قدم قدم پہ بھوت کاٹ کھانے کو لپک رہے تھے، غراہٹیں اور قہقہے سنائی دے رہے تھے۔ چند بتیاں بھی لہرا لہرا کر بھوت بنگلے کی ہیبت ناکی میں اضافہ کر رہی تھیں۔رئیس پر خوف طاری ہو گیا، وہ لرزتے ہوئے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے لگا مگر اُسے ہر جانب ڈراؤنی آوازیں ہی سنائی دیتی رہیں۔ وہ مایوس ہو کر ایک جگہ بیٹھ گیا اور رونے لگا۔ اچانک اُسے کسی کتے کی بھونک سنائی دی۔یہ بھونک کچھ جانی پہچانی سی تھی۔ وہ رونا بھول کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ جلد ہی اُسے اپنی ٹانگوں کے ساتھ کسی کا لمس محسوس ہوا۔ یہ گولڈی تھا، جو نظریں بچا کر بھوت بنگلے میں آ گیا تھا۔ رئیس کو کچھ حوصلہ ہوا، وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور ایک سمت چل دیا۔ گولڈی بھی اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ بھوت بدستور چیخ رہے تھے، غرا رہے تھے اور گولڈی اُن پر بھونک رہا تھا۔ چلتے چلتے دونوں بھوت بنگلے کے دوسرے دروازے کے پاس پہنچ گئے۔ یہاں سے وہ باہر نکلے تو سامنے انھیں شہباز اور نجمہ کھڑے دکھائی دیے۔
”آ گیا میرا بہادر بچہ! بھوت بنگلہ پسند آیا؟“
نجمہ اپنے بیٹے کے گال چھوتے ہوئے بولی۔رئیس کچھ اِس ادا سے مسکرایا کہ خوف کی ہلکی سی تصویر بھی اُس کے چہرے پر اُبھر آئی۔ ابو نے اُسے تھپکی دی اور پھر وہ گھر کی جانب چل دیے۔
٭
بھوت بنگلے کی سیر کے بعد رئیس اپنے اندر عجیب سی تبدیلی محسوس کر رہا تھا۔ ڈر اور اُس کے مابین جنگ ہونے لگی تھی۔ کبھی ڈر اُس پہ غالب آ جاتا اور کبھی وہ ڈر کو پچھاڑ دیتا۔ سوتے وقت اُسے یوں محسوس ہوتا جیسے وہ بھوت بنگلے میں موجود کسی بستر پر لیٹا ہے اور ہر طرف سے بھوت اُس پہ لپک رہے ہیں۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ کانوں پہ رکھ کر چلا اُٹھتا۔ چیخ پکار سنتے ہی گولڈی اُس کے پاس پہنچ جاتا اور بھونکتے ہوئے اُسے دلاسا دینے کی کوشش کرتا۔ رئیس چاہتا تھا کہ وہ بھوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے، انھیں بتا دے کہ وہ اُن سے نہیں ڈرتا اور یہ اُس نے کر دکھایا بھی…وہ اطمینان بھرے انداز میں دیکھتا تو اُسے بھوت کہیں بھی دکھائی نہ دیتے۔رفتہ رفتہ اُس کا دل مضبوط ہوتا گیا۔ اب وہ رات کو اُٹھ کر للکارتی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھتا مگر کمرے کی صاف ستھری دیواروں کے سوا کچھ بھی دکھائی نہ دیتا۔ بھوتوں نے ہار مان لی تھی یا شاید رئیس کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ سب اُس کا وہم تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے آنکھیں بند کرتا اور گہری نیند میں چلا جاتا۔
اتوار کی ایک صبح حسب معمول آلو، املی کے پراٹھے تیار کیے جا رہے تھے جب رئیس ابو کے گلے میں بانہوں کا ہار بناتے ہوئے بولا:
”ابو!بھوت بنگلے کی سیر کو چلیں؟“
یہ سنتے ہی نجمہ اور شہباز کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے۔ نجمہ جواب طلب نظروں سے شہباز کو دیکھنے لگی مگر وہ کوئی جواب دیے بنا اُٹھے اور کمرے کی جانب چلے گئے۔ کچھ دیر بعد وہ لوٹے تو اُن کے چہرے پہ بھوت والا بھیانک ماسک تھا اور وہ حلق سے خوف ناک آوازیں نکال رہے تھے۔ رئیس بتیسی نکال کر کچھ دیر تک انھیں دیکھتا رہا اور پھر وہ بھی حلق سے ڈراؤنی آوازیں نکالنے لگا۔ گولڈی بھی بھونکتے ہوئے اُچھل رہا تھا جیسے وہ بھی بھوت بن گیا ہو۔ تینوں بھوتوں کا تماشا دیکھ کر نجمہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔