سہ پہر کا وقت تھا،میں خواب خرگوش کے مزے لُوٹ رہا تھا۔ بڑا ہی حسین خواب تھا۔ میرے اردگرد پانی ہی پانی تھاجسے میں اپنے ہاتھوں سے تھپتھپا رہا تھا۔ میرے ہاتھوں کی تھپتھپاہٹ سے جامد پانی حرکت میں آجاتااوراس کی لہریں بل کھاتی ہوئی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتیں۔ یکایک رنگ برنگی مچھلیوں کا ایک غول میرے قریب آکر منڈلانے لگا۔اتنی خوبصورت مچھلیاں میں زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔میں انھیں دیکھنے میں محو تھا کہ بھورے رنگ کی ایک مچھلی میرے قریب آئی اور اپنے نتھنے پھلا کر منہ ہلانے لگی،گویا کچھ کہنا چاہ رہی ہو۔پھر جیسے اسے قوتِ گویائی عطا ہو گئی۔اس کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی مگر یہ کیا…! اس آواز نے تو میرا نروس سسٹم ہی ہلا کر رکھ دیا تھا۔وہ کسی میمنے کی مانند،مَیں…مَیں…کر رہی تھی۔خواب کا تسلسل ٹوٹ گیاکیونکہ میری آنکھ کھل چکی تھی۔میں حقیقی دنیا میں لوٹ آیا تھا مگر وہ آواز میری سماعتوں سے مسلسل ٹکرا رہی تھی۔میں الجھن کی کیفیت میں چارپائی سے اٹھا اور باہر صحن میں آگیا۔یہاں کا منظر مجھ پر سکتہ طاری کرنے کے لیے کافی تھا۔ میں آنکھیں ملنے پر مجبور ہو گیا۔میرے سامنے بھورے رنگ کاایک میمنا کھڑاتھا۔اس کے بل دار سینگ یوں لگ رہے تھے جیسے یہ ڈرل مشین کا کام کرتے ہوں۔ ’مَیں…مَیں…‘نے سکوت توڑا تو میں اس کی آمد کی وجہ ڈھونڈنے لگا۔
یہ میمنا ابو لائے تھے جس نے ابھی اپنانیا نیا لڑکپن دیکھا تھا۔ویسے تو بقرعید میں ابھی چھے ماہ باقی تھے مگر ابو کی خواہش تھی کہ عید تک بکرے کی صحیح خاطرداری کر کے قربانی کا اصل مزا لیا جائے۔ اس مزے کے لیے پہلی قربانی مجھے دیناتھی کیونکہ اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مجھے سونپ دی گئی۔ہشتم جماعت میں اوّل آنے پر مجھے انعام میں یہ مہمان ملا تھا۔اس انعام کو پاتے ہی میرے چہرے پر کئی پھیکے رنگ آکر گزر گئے۔میرے لیے یہ سرا سر وبالِ جان تھا،مگر چاروناچار مجھے یہ وبال سر لینا پڑا۔اس کی وجہ والد صاحب کی ’شفقت‘ تھی جو میرے سر پرمنڈلارہی تھی اورمیں اپنے والد صاحب کی ’شفقت‘ سے بہت ڈرتا تھا۔
سب سے پہلے میں مارکیٹ سے گاڑی کا ایک پرانا ٹائر لے آیا،اسے اچھی طرح دھویا اور پھرٹیبل کے طور پر میمنے کے آگے رکھ دیا۔ٹائر کے بیچ ایک صاف چادر بچھا دی۔اب دسترخوان تیار ہو چکا تھا۔ چارا،ابو پہلے ہی لے آئے تھے۔یوں مہمان کی پہلی مہمان نوازی کی گئی۔پھرمعمول بن گیا۔ میں روز تڑکے اٹھتا اور اسکول جانے سے قبل میمنے کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرتااس کے بعداپنا پیٹ بھرنے کا حق دار ٹھہرتا۔ والد صاحب کی نظر میں سرخرو ہونے کے لیے،میں نے اپنی جانب سے کڑی دیکھ بھال شروع کر دی تھی۔اس کے لیے مجھے اپنے کھیل تماشے بھی بھلانے پڑے کیوں کہ میرا کھیل تماشااب یہی تھا۔آغاز میں مجھے اس مہمان کا وجود بہت ناگوار گزرتا تھا،پھر رفتہ رفتہ میں اس سے گھل مل گیا۔میرے دوستوں میں اب ایک نئے دوست کا اضافہ ہو چکا تھا۔اس دوستی مِیں مَیں نے وہ سب بھی شروع کر دیاجو کبھی سوچا تک نہ تھا۔گاؤں میں رہنے کے باوجود مجھے درانتی پکڑنے تک کا علم نہ تھا مگر اس دوست کی محبت اور ابو کی ’شفقت‘ نے مجھے اس آلے کے فن سے روشناس کرادیا۔یہ الگ بات ہے کہ میرے بائیں ہاتھ کی چھنگلی پر اس فن کے آثار آج تک قائم ہیں….!
موسم گرما کے شروع ہوتے ہی بدن کو جُھلسا دینے والی تپتی لَو کابھی آغاز ہوگیا۔دوسری جانب سکولوں میں چھٹیوں کا اعلان ہوگیا۔میں بہت خوش تھا کہ اب دن کو لمبی تان کر سویا کروں گا مگر یہ میری خام خیالی رہی۔ابوجان نے ازراہِ ’شفقت‘ میری ڈیوٹی میں اضافہ کر دیاتھا۔صبح کے وقت بکرے کو باہر لے جانااور پچھلے پہر چارے کا بندوبست کرنا اب میری ڈیوٹی میں شامل تھا۔ صبح ہوتے ہی میں بکرے کواپنے ساتھ باہر گھمانے لے جاتا۔ اس سیر کا دورانیہ دن گیارہ بجے تک ہوتا۔اسی سیر کے دوران بکرے کی پیٹ پوجا گھاس پھوس سے کرا نی ہوتی تھی۔گاؤں سے نکلتے ہی میں کھیتوں کی جانب چل پڑتا،وہاں پہنچ کر آس پاس کی فصلوں کی حفاظت پر مامور ہوجاتا۔ بکرے کے گلے سے بندھی ہوئی لمبی رسّی میرے ہاتھ میں ہوتی اور میں اسے خوب پیٹ بھرنے کا موقع دیتا۔شروع شروع میں میری ٹانگیں اکڑ جاتیں اور میں گرمی اور تھکن سے بے حال ہوجاتا۔پھر ایک ترکیب نے میرا کام آسان کر دیا۔اب میں لمبی رسّی کو کسی مضبوط جڑ سے باندھ دیتااور خود سکون سے کمر سیدھی کرلیتا۔کمر سیدھی کرنے سے پہلے میں جڑ کو ہاتھوں سے پکڑ کراوپر کی طرف زور لگا تااور تسلّی کر لیتا کہ جڑ اکھڑ کر دھوکا نہ دے جائے۔ دو تین بارمیں اس کی جگہ بدل دیتا،یوں مجھے تھکاوٹ بھی نہ ہوتی اور بکرا بھی اپنا پیٹ بھر لیتا۔
پھر ایک دن ایسا طوفان آیا جس نے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی سرکا دی۔معمول کی طرح میں نے رسّی ایک مضبوط جڑ سے باندھی اور کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹ گیا۔اتنے میں خوشگوار ہوا کاایک جھونکا آیا اور نیند نے مجھ پر غلبہ پا لیا۔ ایک حسین نظارہ خواب بن کر میرے ارد گرد گھومنے لگا۔میں جھیل کے کنارے بیٹھا تھا۔جھیل کے اندر سیاہ و سفید رنگ کی بطخیں کشتیوں کی مانندتیر رہی تھیں۔ یکایک ایک بطخ میرے قریب آئی اورپانی میں غوطہ لگا کر غائب ہوگئی۔میں ٹکٹکی باندھے اس کی راہ دیکھتا ہی رہ گیامگر وہ پانی کی سطح پرنمودار نہ ہوئی۔اسی پریشانی میں میری آنکھ کھل گئی۔کیا دیکھتا ہوں کہ دور دور تک بکرے کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔میرا تو سر ہی چکرا کر رہ گیا۔ہاتھوں کے طوطے پُھرررر کر کے اُڑ گئے۔بطخ کی طرح بکرا بھی غائب ہو چکا تھا۔میں اس کی تلاش میں دیوانہ وار دوڑ پڑا۔جگہ جگہ کی خاک چھان ماری مگربکراایسے غائب ہو گیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ….بلکہ یہاں تو سینگ سمیت بکرا ہی غائب ہو چکا تھا۔میری سٹی یوں گم ہو چکی تھی کہ دن میں تارے نظر آ رہے تھے مگر جس چیز کی تلاش میں تھا،وہ کسی طور نظر میں نہیں آرہی تھی…..!
میں بوجھل قدموں کے ساتھ گھر کی جانب چل پڑا۔دل میں ہول اٹھ رہے تھے کہ گھر کس منہ سے جاؤں گا۔گھر توچلو جس منہ سے بھی چلا گیا،ابو کو کیا منہ دکھاؤں گا….! بالآخر میں شرمندگی والے منہ کے ساتھ گھر پہنچ گیا۔پھرکسی غیبی امداد کے انتظار میں آدھا گھنٹا دروازے سے باہر ہی کھڑا رہا۔اتنے میں مجھے ابو کے کھنکارنے کی آواز سنائی دی،ساتھ ہی محسوس ہوا جیسے وہ دروازے کی طرف آرہے ہیں۔میں فوراً نظریں جھکائے گھر کے اندر داخل ہوگیا۔میرے ابو دور اندیش واقع ہوئے تھے۔مجھے دیکھتے ہی بولے،
”بیٹا! بکرا کہاں ہے؟“
بے ترتیب سانسوں نے مجھ سے بولنے کی طاقت ہی چھین لی تھی،اس لیے میں منہ کھول کر بھی خاموش رہا۔ابو نے جب دوبارہ ترش لہجے میں پوچھا تو میرے منہ سے بس اتنا ہی نکلا، ”وہ….گ..گگ…گم..!“ بس اتنا کہنے کی دیر تھی کہ جنگی جہاز کی مانند اڑتا ہوا ابو کا ہاتھ میرے منہ پر پڑا اور چٹاخ کی ایک بلند آواز نے فضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔پھرابو نے میرا کان اور میں نے اپناگال پکڑ لیا اور ہم بکرے کو ڈھونڈنے چل نکلے۔
ابھی دروازے سے چند قدم ہی دور گئے ہوں گے کہ جھوم جھوم کر آتی ہوئی ایک چیز نظر آئی۔ذرا غور کیا تو یہ ہمارا بکرا ہی تھا۔ ابونے فرطِ جذبات میں میرا کان چھوڑ کر بکرے کا کان پکڑ لیا اور اسے پیار سے سہلانے لگے،کاش! ابو دیکھ پاتے کہ میں بھی اپنا گال سہلا رہا تھا…! پھر ہم بکرے کو لیے گھر آ گئے۔ اس کے بعد مجھے اس بکرے سے نفرت ہونے لگی۔ میرا جی کرتا کہ میں کسی طریقے سے اس کا گلا دبا دوں،مگر بلی کو چھیچھڑوں کے خواب کی طرح یہ ایک خواب ہی رہا….!
چھٹیاں ختم ہوچکی تھیں اور میری ڈیوٹی میں معمولی سی تبدیلی ہو گئی۔ اب میں پہلے کی طرح نہار منہ چارا لینے کے لیے کھیتوں کی جانب چلا جاتا۔ رفتار کی بات کروں تو جتنی دیر میں مَیں ایک بکرے کا چارا اکٹھا کرتا،اتنی دیر میں زمیندار لوگ درجنوں مویشیوں کا چارا بنا چکے ہوتے تھے۔ ایک دن مَیں چارا لے کر گھر پہنچا اور بکرے کے آگے رکھا ہی تھا کہ اس نے نخرہ دکھاتے ہوئے منہ کی مدد سے سارا چارا تتر بتر کر دیا۔یہ دیکھ کر میرا پارہ چڑھ گیا اور پوری قوّت سے طمانچہ اس کے منہ پر دے مارا۔ ایسا مَیں نے اپنی دانست میں کیا تھا مگر جب دیکھا تو میرا ہاتھ لہو لہان ہو چکا تھا۔بکرے نے اپنے دفاع میں سر گھما کربل دار سینگ آگے کر دیے تھے اورایک سینگ کسی ڈرل مشین کی طرح میری ہتھیلی میں دھنس گیا تھا۔ بکرے پر مزید کیا غصّہ کرتا، بے عقلی تو میں نے ہی کی تھی۔ اب مَیں درد سے کراہ رہا تھا۔ابو نے دیکھا تو ساری صورت حال سمجھ گئے اور ان کا پریشانی سے برا حال ہو گیا۔ وہ فوراً ڈاکٹر کو بلا لائے جس نے مرہم پٹی کر کے چند دوائیاں تھما دیں۔ ڈاکٹر کو رخصت کرتے ہی ابو مجھ سے لپٹ گئے۔ ان کی سختی والی ’شفقت‘ جس سے میں ڈرتا تھا،اس میں کتنا پیار چھپا تھا… یہ اس دن مَیں نے جانا۔ ان کے لاکھ منع کرنے کے باوجوداب مَیں بکرے کی ہر ممکن دیکھ بھال کرتا۔ اسے روز نہلا کر سنوارتا۔وہ بھی اچھل اچھل کر خوب مسخریاں کرتااوراپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر اپنی جوانی ظاہر کرتا۔ وہ اب پورے سال کا ہو چکا تھا۔
جیسے جیسے بقر عید قریب آرہی تھی،دل میں عجیب سی بے چینی ہونے لگی تھی۔ پھر عید کا دن آن پہنچا۔ عید کی نماز پڑھنے کے فوراً بعد چھن چھن کی آوازکے ساتھ چھریاں تیز ہونے لگیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان آوازوں سے میرے اندر کتنا شور پیدا ہو رہا تھا۔ میں پتھرائی ہوئی آنکھوں سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ سب گھر والوں نے بکرے پر اپنے اپنے ہاتھ پھیرے اور پھر ہم بکرے کو قربان گاہ لے گئے۔ اُس کی گردن پر چھری چلنے کی دیر تھی کہ میری آنکھوں سے رم جھم برسات شروع ہو گئی۔ میرا جسم لرز رہا تھا…..یہ دیکھ کر ابو میرے پاس آئے اور بولے،
”بیٹا! میں نے کہا تھا نا،قربانی کا اصل مزا خدمت کرنے کے بعد ملتا ہے۔ایسی ہی قربانی مقبول ہوتی ہے بشرطیکہ اس پر صبر کیا جائے۔“ ابو کی بات سن کر میں صبر کر گیا۔میرا دوست مجھ سے بچھڑ گیامگر اپنی ایک نشانی میرے پاس چھوڑ گیا۔ اس کے سینگ نے جو زخم دیا تھا،وہ ایک یاد کا حصّہ بن چکا تھا۔